طاهر القادری
محمد طاهر القادری | |
---|---|
پورا نام | محمد طاهر القادری |
ذاتی معلومات | |
پیدائش کی جگہ | پاکستان، جھنگ |
اساتذہ | ضیاء الدین احمد القادری المدنی، عباس المالکی المکی، محمد المکی الکتانی، سردار احمد قادری، سید ابو البرکات و احمد محدث الوری |
مذہب | اسلام بریلوی، سنی |
مناصب |
|
محمد طاہر القادری پاکستان کے شہر جھنگ میں 19 فروری، 1951 میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر ہرازوں لیکچرز دئیے جو اسلام کے مذہبی، روحانی، تاریخی، قانونی اور شرعی جیسے موضوعات پر محیط ہیں۔ آپ کی تین سو سے زائد کتب عربی، انگریزی اور اردو میں منظر عام پر آچکی ہیں جب کہ ایک ہزار سے زائد مسوادت طباعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ طاہر القادری کے لیچکر عالم عرب اور مغربی دنیا کے مختلف ٹی وی چینلز سے بھی نشر کئے جاتے ہیں۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے بانی رہنما ہیں۔ آپ عالم اسلام کی بین الاقوامی پہچان کی حامل شخصیت ہیں جنہیں اتحاد، امن اور بہبود انسانی کے سفیر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ آپ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، عوامی تعلیمی منصوبہ اور منہاج یونیورسٹی کے بانی ہیں اور پاکستان عوامی تحریک نامی سیاسی جماعت کے بھی بانی چیئرمین ہیں۔ آپ تکفیر کے سخت مخالف اور داعی اتحاد بین مسلمین ہیں۔ طاہر القادری اہل بیت علہیم السلام محبت کرتے ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں کئی کتابیں لکھی ہے۔
سوانح عمری
محمد طاہر القادری 19فروری 1951شہر جھنگ میں پیدا ہوۓ۔ آپ اسی علاقہ کے ایک معروف عالم دین ڈاکٹر فرید الدین قادری کے بیٹے ہیں۔ ان کے آباؤاجداد سیال خاندان سے تھے، جو تحصیل و ضلع جھنگ کے چنیوٹ روڈ پر واقع گاؤں کھیوا کے نواب تھے [1]
تعلیم
محمد طاہرالقادری اوائل عمر ہی سے انقلابی رجحانات کے حامل تھے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ انکا یہ ہونہار بیٹا نہ صرف روایتی مذہبی علوم میں ماہر ہو بلکہ جدید علوم و فنون میں بھی طاق ہو۔ لہذا انہوں نے بیٹے طاہر کے لیے بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا اہتمام کیا۔ یہ معمول از اول تا آخر جاری رہا۔ طاہرالقادری امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے حالات پر شدید دکھی رہتے تھے۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی ان کو ہردم پریشان کیے رکھتی تھی۔ اسی اثنا میں اکتوبر 1971ء میں انہیں عظیم مفکر ڈاکٹر ب رہان احمد فارقی کی صحبت ملی، جس نے ان کی فکر کو پروان چڑھانے میں بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا۔ 1971ء سے 1973ء کے زمانے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے مختلف مسلم و غیر مسلم مفکرین کے انقلابی افکار کا تاریخی مطالعہ کیا۔ مسلم مفکرین میں امام غزالی، شاہ ولی اللہ دہلوی، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، مولانا عبید اللہ سندھی وغیرہم اور غیر مسلم مفکرین میں کارل مارکس، فریڈرک اینجلس، لینن، سٹالن اور ماؤزے تنگ وغیرہم شامل ہیں۔ اس مطالعے سے ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انقلابی فکر کے حوالے سے کامیابی کا جو دوٹوک یقین غیر مسلم مفکرین کے ہاں نظر آتا ہے، وہ اکثر مسلم مفکرین کے ہاں مفقود ہے۔ اس پر انہوں نے انقلابی زاویہ نگاہ سے قرآن و حدیث کا ازسرنو گہرا مطالعہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں قرآن مجید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو انقلاب کی کامیابی کی حتمی اور دوٹوک ضمانت مہیا کردی، جس سے انقلاب پر انکا ایقان پختہ تر ہو گیا۔ [2]۔
اساتذہ
آپ کے اساتذہ میں عرب و عجم کی معروف شخصیات شامل ہیں، جن میں ضیاء الدین احمد القادری المدنی، علوی بن عباس المالکی المکی، سید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی، سردار احمد قادری، سید ابو البرکات احمد محدث الوری، سید احمد سعید کاظمی امروہی، عبد الرشید الرضوی اور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی جیسے عظیم المرتبت علماء شامل ہیں۔ آپ کو امام یوسف بن اسماعیل النبہانی رحمۃ اللہ علیہ سے الشیخ حسین بن احمد عسیران اللبنانی کے صرف ایک واسطے سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ اِسی طرح آپ کو حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی سے ان کے خلیفہ الشیخ السید عبد المعبود الجیلانی المدنی کے ایک واسطے سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ امام الہند حضرت الشاہ احمد رضا خان کے ساتھ صرف ایک واسطہ سے تین الگ طُرق کے ذریعے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے بے شمار شیوخِ حرمین، بغداد، شام، لبنان، طرابلس، مغرب، شنقیط (موریطانیہ)، یمن (حضر موت) اور پاک و ہند سے اِجازات حاصل کی ہیں۔ اِس طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذاتِ گرامی میں دنیا بھر کے شہرہ آفاق مراکزِ علمی کے لامحدود فیوضات ہیں [3]
تعلیمی خدمات
آپ کا قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کا نیٹ ورک آج دنیا کے 70 سے زائد ممالک میں قائم ہوچکا ہے۔ آپ نے پاکستان میں عوامی تعلیمی منصوبہ کی بنیاد رکھی جو غیر سرکاری سطح پر دنیا بھر کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ ہے۔ جسے غیر سرکاری سطح پر دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت پاکستان کے طول و عرض میں 572 تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ لاہور میں قائم کردہ منہاج یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے چارٹر کر دی گئی [4]
سیاسی خدمات
- 25 مئی 1989ء پاکستان عوامی تحریک کا یوم تاسیس، اس روز موچی دروازہ لاہور میں منعقدہ تاریخی کانفرنس کے دوران محمد طاہرالقادری نے پاکستان عوامی تحریک کے نام سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔ محمد طاہرالقادری کی قائم کردہ سیاسی جماعت، جس نے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے 1990ء اور 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا [5]۔
- 1990 میں پاکستان عوامی تحریک نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔
- 1991 میں ملک میں جاری فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے خاتمے کے لیے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مابین اعلامیہ وحدت جاری کیا گیا۔
- 1989ء تا 1993ء انہوں نے اسمبلی سے باہر اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور ملکی تعلیمی، سیاسی اور معاشی صورت حال پر حکومت وقت کو تجاویز ارسال کیں۔
- 1992 میں آپ نے قومی اور بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کا احاطہ کرنے والا بلاسود بینکاری نظام پیش کیا، جسے صنعتی و بینکاری حلقوں میں سراہا گیا۔
- 1998میں وہ سیاسی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد کے صدر بنے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کل 19 جماعتیں شامل تھیں۔
- 2003محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے ادارہ کی تاحیات رفاقت اختیار کی۔
- 2003میں آپ نے فرد واحد کی آمریت کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دے دیا جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی رکن اسمبلی کی طرف سے پہلا استعفی تھا۔
- 2006میں جب ڈنمارک سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے تو آپ نے اقوام متحدہ کو ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا، جس کے ساتھ 15 کلومیٹر طویل کپڑے کا بینر بھی تھا[13] جس پر 10 لاکھ سے زائد لوگوں کے دستخط ثبت تھے۔
- توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے آپ نے امریکا، برطانیہ، ڈنمارک، ناروے اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں کو دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچایا جائے کے نام سے ایک مراسلہ بھی جاری کیا۔
- 2009میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی غزہ کی تباہی کے بعد فلسطینی مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے غزہ کانفرنس کا انعقاد ہوا، بعد ازاں متاثرین غزہ کے لیے امداد سامان روانہ کیا گیا [6]۔
تصانیف
- کشف الغطا عن معرفۃ الاقسام للمصطفیٰ.
- شانِ مصطفی میں قرآنی قَسمیں.
- زیارت روضہ رسول کی فضیلت.
- الفوز الجلی فی التوسل بالنبی.
- بشریٰ للمومنین فی شفاعۃ سید المرسلین.
- فضیلت زیارت قبور
- صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مذکور سیدنا علی المرتضیٰ، سیدہ کائنات اور حسنین کریمین علیہم السلام کے فضائل و مناقب۔
- سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ذکر جمیل۔
- محبت حسنین کریمین علیھما السلام۔
- صحابہ کرام و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب۔
- اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کے فضائل و مناقب۔
- سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب۔
- باب مدینۂ علم علیہ السلام۔
- سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ سے وہی نسبت ہے جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔
- فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہے (اِس حدیث مبارک کے 63 طُرُق کا بیان)۔
- فاطمہ میری جان کا حصہ ہے (اِس حدیث مبارک کے طُرُق اور روایت کرنے والے محدثین کا بیان)۔
- حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں (اِس حدیث مبارک کے 101 طُرُق کا بیان)۔
- حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں (اِس حدیث مبارک کے 101 طُرُق کا بیان)۔
- حدیث ولایت علی علیہ السلام کا تحقیقی جائزہ۔
- اعلان غدیر۔
- سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب [7]
- حسنین کریمین علیہما السلام کے فضائل و مناقب۔
- ذکر شہادت امام حسین علیہ السلام (احادیثِ نبوی کی روشنی میں)۔
- امام مہدی علیہ السلام۔.[8]
نظریات
- طاہرالقادری ایک سنی سکالر ہیں مگر وہ مسلک اہل سنت کو کسی شخصیت یا علاقے سے منسوب کرنے کو مذموم سمجھتے ہیں، اس لیے وہ خود کو بریلوی اور دیوبندی عنوانات سے آزاد فقط اہل سنت مسلمان قرار دیتے ہیں۔
- ان کے مطابق اہل سنت کوئی فرقہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی اکثریتی جماعت یعنی سواد اعظم کا نام ہے، جو سنت رسول اور طریق صحابہ کرام کی اتباع کرنے والی ہو، جبکہ فرقے وہ ہیں جو مختلف ادوار میں اس اکثریتی جماعت سے اختلاف کرکے الگ ہوتے گئے۔
- ان کے مطابق اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت کی پالیسی اتحاد امت کے لیے ناگزیر ہے۔
- ان کے مطابق اسلام قیام امن کا سب سے بڑا داعی ہے اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ مسلمان تو کجا انسان بھی کہلانے کے مستحق نہیں۔ آپ کے مطابق دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ آپ نے متعدد بار واضح طور پر اسامہ بن لادن کی کارروائیوں کی مذمت بھی کی۔
- ان کے مطابق اسلام حقوق نسواں کا واحد علمبردار مذہب ہے، جو آزادی نسواں کے نام پر عورت کی تذلیل کرنے کی بجائے صحیح معنوں میں اسے مرد کے برابر معاشرتی حقوق دیتا ہے۔
- ان کے مطابق اسلام کا اصول مشاورت اسلامی نظام حیات کی روح ہے۔ اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے فرد واحد کے فیصلوں کی بجائے تمام فیصلوں میں اجتماعی مشاورت ناگزیر ہے۔
- ان کے مطابق انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے بین المذاہب رواداری نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے خود عملی طور پر مسلم کرسچئن ڈائیلاگ فورم بنا رکھا ہے اور وہ عیسائیوں کے مسجدوں میں آ کر عبادت کرنے کو حدیث نبوی کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں۔
- ان کے مطابق اسلامی نظام معیشت آج کے دور میں بھی قابل عمل ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے بلاسود بینکاری نظام بھی پیش کیا۔
- ان کے مطابق اسلام کو آج کے دور میں قابل عمل دین ثابت کرنے کے لیے اسلام کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیادوں پر اسلام کی تعبیر کی ضرورت ہے۔
- ان کے مطابق سیاست اسلام کا حصہ ہے، جسے دین سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ان کے مطابق اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت کی پالیسی اتحاد امت کے لیے ناگزیر ہے [9]۔
- ان کے مطابق اسلامی تصوف کی روح نفس کی پاکیزگی سے عبارت ہے، جو شریعت کی پاسداری کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی بنا پر وہ تصوف کو کاروبار بنانے والوں کو جاہل اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔
- ان کے مطابق اسلام قیام امن کا سب سے بڑا داعی ہے اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ مسلمان تو کجا انسان بھی کہلانے کے مستحق نہیں۔ آپ کے مطابق دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔آپ نے متعدد بار واضح طور پر اسامہ بن لادن کی کارروائیوں کی مذمت بھی کی [10]۔
- آپ تکفیری اور مذہبی اختلاف کے سخت مخالف ہیں اور تمام مسلمانوں کے آپس میں اتحاد اور اتفاق کا داعی ہیں۔
- آپ اہل بیت علیہم السلام سے کافی محبت کرتے ہیں اسی لیے کئی کتابیں اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں لکھی ہیں [11]
حوالہ جات
- ↑ طاہر القادری، قرآنی فلسفہ انقلاب،2002م،ص23۔
- ↑ ڈاکٹر طاہر القادری کا یوم پیدائش، mualla.pk
- ↑ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری (بانی و سرپرستِ اَعلیٰ، منہاج القرآن انٹرنیشنل) minhaj.org/urdu
- ↑ طاہر القادری، قرآنی فلسفہ انقلاب، 2002م، ص24۔
- ↑ یوم تاسیس پاکستان عوامی تحریک، minhaj.org
- ↑ پاکستان عوامی تحریک کے متعلق، pat.com.pk
- ↑ طاہر القادری، تحریک منہاج القرآن، 1996م، ص 290۔
- ↑ minhajbooks.com ۔
- ↑ شیخ الاسلام کے فکری امتیازات اور اثرات و نتائج،minhaj.org/urdu
- ↑ منشور تحریک عوامی تحریک پاکستان، pat.com.pk
- ↑ مہدی سرور، سیمای حضرت زہراء در آثار دکتر طاہر القادری، 1399ش، ص18۔