مندرجات کا رخ کریں

سید عباس الموسوی

ویکی‌وحدت سے
سید عباس الموسوی
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہنجف عراق
مذہباسلام، شیعہ
مناصب

سید عباس الموسوی ایک عراقی شیعہ عالم دین تحریک نجباء عراق کے سیکریٹری جنرل اور ایران میں اس تحریک کا نمائندہ ہے۔

صہیونی حکومت ناکامیوں پر سیخ پا، نتن یاہو کی دھمکیوں کو امریکی آشیرباد حاصل ہے

تحریک نجباء عراق کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ صہیونی حکومت کو کئی میدانوں میں مقاومت کے ہاتھوں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد امریکہ کے سہارے دھمکیوں پر اتر آئی ہے۔

مشرق وسطی میں اسرائیل اور امریکہ کی مداخلت اور جارحانہ پالیسیوں نے خطے کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے۔ فلسطین، لبنان، یمن اور عراق میں مزاحمتی تحریکیں ان سامراجی عزائم کے خلاف صف آرا ہیں۔ اقوام متحدہ کی 80ویں جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیر اعظم نتانیاہو نے عراق کی مزاحمتی قوتوں کو براہ راست دھمکی دی، جسے عراق کی خودمختاری پر حملہ تصور کیا گیا۔ عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین نے اس دھمکی کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی عراقی شہری پر حملہ پورے عراق پر حملے کے مترادف ہوگا۔

یہ دھمکی ایسے وقت میں دی گئی جب مزاحمتی بلاک کے شہید رہنما سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی قریب تھی، جس نے مزاحمت کے حوصلے کو مزید بلند کیا۔ عراق کی مزاحمتی تحریکیں اعلان کرچکی ہیں کہ وہ فتح یا شہادت کے راستے پر ثابت قدمی سے آگے بڑھتی رہیں گی، اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست تصادم انہیں مزید تجربہ کار، منظم اور طاقتور بنائے گا۔ اسی تناظر میں، مہر نیوز نے تحریک نجباء عراق کے سیکریٹری جنرل سید عباس موسوی سے خصوصی گفتگو کی، جس کی تفصیلات پیش کی جاتی ہیں۔

نتانیاہو نے اقوام متحدہ کی 80ویں جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کا آغاز ایران اور مزاحمتی گروہوں جیسے حماس، حزب اللہ، انصار اللہ اور خاص طور پر عراق کی مزاحمت کو دھمکیاں دے کر کیوں کیا؟

سید عباس موسوی: عراق کی عوام اور مزاحمتی گروہ نتانیاہو کی دھمکی کو باعث فخر سمجھتے ہیں، کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عراقی مزاحمت نے فلسطین کی حمایت میں گزشتہ دو سالوں میں اسرائیل کے فوجی، سیکیورٹی اور حساس مراکز پر بحر مردار، حیفا اور اسرائیل کے قلب میں جو حملے کیے، وہ حملے دشمن کے لیے نہایت تکلیف دہ اور مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ یہ حملے تاریخ میں درج ہوچکے ہیں اور صہیونی دشمن ان سے بخوبی واقف ہے۔ قابض صہیونی حکومت جانتی ہے کہ عراقی اسلامی مزاحمتی جماعتیں مسلسل ترقی کر رہی ہیں، ان کی طاقت اور تنظیمی ہم آہنگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی گروہ اس جعلی حکومت کے اسٹریٹجک خواب "نیل سے فرات تک" کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

عراق کی عوام اور مزاحمتی گروہوں کا نتن یاہو کی دھمکی پر کیا مؤقف ہے؟

سید عباس موسوی: عراق کی عوام اور مزاحمتی گروہوں کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ نتانیاہو کی جانب سے عراق کی مزاحمت کو دی گئی دھمکی عراق کی قومی خودمختاری اور اس کے باعزت عوام پر کھلی جارحیت ہے۔ دوسری بات عراقی عوام اور مزاحمتی گروہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ دھمکی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ کی اجازت کے تحت دی گئی ہے۔ چاہے یہ دھمکی عملی شکل اختیار کرے یا نہ کرے، یہ دھمکی عراق کی اسلامی مزاحمت، اس کے حامیوں، اور خود عراق کی حاکمیت و عوام پر حملہ تصور کی جائے گی، جس کا جواب مناسب وقت پر دیا جائے گا۔ یہ معمولی سی دھمکی کبھی بھی عراق کی مزاحمت کو تنہا نہیں کرے گی، بلکہ اس کے برعکس، مزاحمت مزید جوش و خروش، طاقت اور استقلال کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن رہے گی۔

یہ دھمکی کس موقع پر دی گئی اور اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟

سید عباس موسوی: یہ دھمکی ایسے وقت میں دی گئی جب اسلامی مزاحمت کے شہید رہنما سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی قریب ہے۔ انہوں نے اصولوں اور اعلی آرمانوں کی راہ میں جان دی، اور یہی ان کے پیروکاروں کے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہے۔ مزاحمتی گروہ شہید نصراللہ کے راستے پر چلتے رہیں گے اور ان کے مقاصد کے لیے اپنی جانیں قربان کریں گے، تاکہ دو میں سے ایک منزل حاصل ہو: فتح یا شہادت۔

نتانیاہو کی دھمکی کے بعد عراق کی مزاحمت کا مستقبل آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

سید عباس موسوی: ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ براہ راست تصادم عراق کی مزاحمتی جماعتوں کو مزید تجربہ کار اور ماہر بنائے گا، اور ان کا مستقبل ہر سطح پر روشن اور امید افزا ہوگا۔ ہم جانی نقصانات اور بعض رہنماؤں و ذمہ داران کی شہادت قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، جو کہ ہر معرکے میں ایک فطری امر ہے، خاص طور پر ان قوتوں کے خلاف جو ظلم و شر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ لیکن آخرکار، اللہ کے حکم سے فتح ہماری ہوگی۔ ہماری ثقافت اور عقیدے میں یہ بات راسخ ہے کہ شہداء کا خون ہمارے راستے کو روشن کرتا ہے، ہمیں برکت عطا کرتا ہے، اور روح میں روشنی پیدا کرتا ہے۔ اصل کامیابی جس سے حقیقی فتح حاصل ہوتی ہے، وہ مزاحمتی گروہوں کی بقا، ثابت قدمی اور استقامت ہے[1]۔

حشد الشعبی کی تحلیل کا امریکی خواب کبھی پورا نہیں ہوگا

ایران میں عراقی کی النجباء تحریک کے نمائندے نے حشد الشعبی کی تحلیل سے متعلق سوشل میڈیا میں زیر گردش افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکیوں کے فریب خوردہ اذہان کی پیداوار ہیں۔ 2016 میں حشد الشعبی کو قانونی حیثیت دینے کا پہلا بل عراقی پارلیمنٹ نے منظور کرلیا۔ تاہم بعد کے سالوں میں، امریکی سفارت خانے اور کچھ غیر ملکی اداروں کی طرف سے اس عوامی فورس کو ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا۔

لیکن عراقی سیاسی گروہوں، اور عوام کے شدید مطالبے کے باعث 2019 میں اس فورس کی رسمی حیثیت کے لئے ایک جامع قانون کا مسودہ تیار کرنے کا عمل شروع ہوا۔ گزشتہ برسوں میں متعدد مسودے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے۔ تازہ ترین اور سب سے زیادہ جامع بل 2024 میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، توقع ہے کہ اسے جلد ہی منظور کر لیا جائے گا۔

مذکورہ بل کی شقوں کے مطابق، حشد الشعبی عراق کی وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے متوازی ایک آزاد ادارے کے طور پر کام کرے گی، اس طرح کہ کوئی بیرونی ملک عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت یا اس کی تحلیل کا مطالبہ نہیں کر سکے گا۔

اس قانون کے مطابق حشد الشعبی کے سربراہ کو وزیر کے مساوی یا اس سے ملتی جلتی سطح کا عہدہ حاصل ہوگا اور وہ عراق کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے تمام اجلاسوں میں شرکت کرسکے گا۔ نیز، اس فورس کے اعلیٰ درجے کے کمانڈروں کی تعریف "لیفٹیننٹ جنرل" کے ملٹری رینک میں کی جائے گی۔ 11 اپریل کو حشد الشعبی کے سربراہ، فالح الفیاض نے اس عوامی فورس کو عراق کے فوجی ڈھانچے میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔

یہ تجویز داعش کے خلاف جنگ میں عوامی قوتوں کو متحرک کرنے اور عراق کی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ نئے قانون کے مطابق اس فورس کی سربراہی اب بھی عراقی وزیر اعظم کے پاس ہے۔ یہ تنظیم فوج کے ساتھ مل کر اپنا عسکری کردار ادا کرتی ہے، لیکن اسے نسبتاً آزادی حاصل ہے۔ اگرچہ حشد الشعبی کی تحلیل کے بارے میں افواہیں سوشل اور مین اسٹریم میڈیا میں تیزی سے پھیل گئیں، تاہم یہ ایک امریکی خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہوگا۔

اس سلسلے میں ایران میں عراق کی النجباء تحریک کے نمائندے سید عباس موسوی نے مہر نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "حشد الشعبی عراقی مسلح افواج کا ایک لازم و ملزوم حصہ رہی ہے اور رہے گی، یہ عوامی فورس مزاحمتی محور کی بنیادی حامی تنظیم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حشد الشعبی اپنے قیام سے لے کر آج تک ملک کے وزیر اعظم اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی نگرانی میں ایک سرکاری اور خودمختار ادارہ ہے اور نئے قانون کی منظوری کے بعد، یہ نسبتاً آزاد لیکن عراقی وزیر اعظم کی نگرانی میں فعال رہے گی۔

سید عباس موسوی نے حشد الشعبی کی تحلیل سے متعلق افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حشد الشعبی فورسز کی تحلیل کی خبر جھوٹی اور بے بنیاد ہے، درحقیقت اس تنظیم نے اپنے تجربے اور میدان میں بھرپور موجودگی کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ سب سے مضبوط سیکورٹی فورس ہے جو امریکہ اور اس کے سفاک تکفیری جتھے داعش کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حشد الشعبی نے 2017 میں عراق میں امریکی منصوبے کو ناکام بنا دیا اور عراق کی سرزمین کو امریکی دہشت گرد ٹولے داعش کے نجس وجود سے پاک کر دیا۔ عراقی رہنما نے کہا کہ حشد الشعبی متحرک عراقی نوجوانوں کے ذریعے تشکیل دی گئی ہے جو عراقی عوام کے لئے ایک مضبوط دفاعی فورس کا کردار ادا کر رہی ہے اور اسی وجہ سے، امریکہ اس تنظیم کو ختم کرنے کے لیے عراقی حکومت پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے حشد الشعبی کے خاتمے کی افواہیں پھیلا رہا ہے۔ سید عباس موسوی کہا: ہم نے اپنی قانونی ذمہ داری کی بنیاد پر بارہا کہا ہے کہ جو ادارہ عراقی مرجعیت کے جہاد کفائی کے فتوے سے قائم ہوا ہو وہ کبھی تحلیل نہیں ہو گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حشد الشعبی کی تحلیل امریکی استکبار اور اس کے شیطانی پیروکاروں کا خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہوگا[2]۔

یوم القدس فلسطینی کاز سے تجدید عہد کا دن ہے

عراق کی اسلامی مزاحمتی تحریک النجباء کے رہنما نے کہا کہ یوم القدس کے موقع پر مجاہدین فلسطینی مزاحمت کے دفاع اور وہاں کے عوام کے شانہ بشانہ لڑنے کے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔ [3]۔ عالمی استکبار نے 1948 میں مسلمانوں کے قبلہ اول قدس شریف کو اس کے باشندوں کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ غاصب صیہونی حکومت کے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف ابتدائی سالوں سے ہی فلسطین کے مسلمان عوام نے مزاحمت کی جو پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رح) نے بیت المقدس کو غاصب صہیونیوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے ایک مزاحمتی تحریک کے طور رمضان کے آخری جمعہ کو "یوم القدس" منانے کی سفارش کی۔

امام خمینی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام اپنے پیغام میں فرمایا کہ میں نے کئی سالوں سے مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے خبردار کیا ہے جس نے ان دنوں فلسطینی بھائیوں اور بہنوں پر اپنے وحشیانہ حملے تیز کر دیے ہیں، خاص طور پر ان کے گھروں اور جنوبی علاقوں میں بمباری کر رہے ہیں۔ میں دنیا کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کریں۔

بانی انقلاب اسلامی کے پیغام نے مظلوم فلسطینیوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی۔ امام خمینی (رح) کے نزدیک یوم القدس عالمی دن ہے اور یہ مظلوموں اور مستکبروں کے درمیان تصادم کا دن ہے۔ یہ ان اقوام کی مزاحمت کا دن ہے جو سپر پاور کے خلاف امریکی اور مغربی جبر کا شکار تھیں۔

یوم القدس کی عالمی اہمیت کے بارے میں مہر نیوز نے عراق کی مزاحمتی تحریک کے نمائندے سید عباس موسوی سے گفتگو کی ہے جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں: مہر نیوز: امام خمینی کے حکم سے عالمی یوم القدس، ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو منایا جاتا ہے، اس سال یہ دن ایسی حالت میں منایا جائے گا جب ٹرمپ نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا منصوبہ پیش کیا ہے۔

ایسی صورت حال میں مزاحمتی محاذ کے لئے یوم قدس کے انعقاد کی کیا اہمیت ہے؟

یوم القدس "بیت المقدس" کی آزادی کے لئے ایک بین الاقوامی دن ہے اور اس کا تعلق عالم اسلام سے ہے۔ عالمی یوم القدس امام خمینی (رح) کے حکم سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم دن ہے جس میں غاصب صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی جاتی ہے۔

یوم قدس مزاحمتی محور کے لیے بہت اہم دن ہے، کیونکہ یہ فلسطینی مزاحمت کی حمایت کے عزم کو تقویت دیتا ہے، اس دن مجاہدین فلسطین کے دفاع کے لیے اپنے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔ ٹرمپ کا فلسطینی عوام کی جبری ہجرت کا احمقانہ منصوبہ مکمل طور پر بے سود ہے اور اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ ایسے حالات میں یوم القدس منا کر فلسطینی عوام کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ پراعتماد رہیں اور یہ جان لیں کہ دنیا کے تمام آزاد لوگ ان کے ساتھ ہیں اور مختلد میدانوں میں پوری طاقت کے ساتھ ان کا دفاع کرتے ہیں۔ یوم القدس در قصل غاصب صیہونی حکومت اور امریکہ کے لیے بھی پیغام ہے، کہ وہ دہشت گردی اور نسل کشی کا وحشیانہ کھیل کھیل کر فلسطینیوں کی مزاحمت کو نہیں روک سکتے۔

امام خمینی (رح) کا مزاحمت کی جغرافیائی تشکیل میں کیا کردار تھا؟

امام خمینی (رح) نے ظالموں کے خلاف لڑنے کا عزم بخشا، مزاحمت کے جغرافئے کی تشکیل میں امام راحل کی تحریک وقتی نہیں تھی۔ بلکہ انہوں نے مزاحمتی جغرافیہ کو مکمل طور پر منطقی اور فکری انداز میں قرآن اور سنت کی بنیاد پر تشکیل دیا۔ اس وجہ سے اس مزاحمتی جغرافیہ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بہت اچھے نتائج حاصل کیے ہیں۔

ٹرمپ حکومت میں مزاحمت کا مستقبل کیا ہوگا؟

جب تک حق و باطل کا محاذ موجود ہے جنگ نہ رکی اور نہ رکے گی۔ جو شخص قرآن کی آیات کے ذریعے حق و باطل کے میدان جنگ کی پیروی کرتا ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معرکہ اپنے بعض مراحل میں بہت شدید ہوگا۔

حال ہی میں طوفان الاقصیٰ کے بعد فلسطین میں جو کچھ ہوا اور اب شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ جب مغرور استعمار کسی قوم پر قابض ہو جاتے ہیں تو وہ مظلوم لوگوں کو خوفناک اذیتوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی عورتوں کو قید کر لیتے ہیں۔ لہٰذا بہادر اور دیانتدار نوجوانوں کو ہر میدان میں بیداری اور آگہی سے مسلح ہونا چاہیے، خصوصاً دین اور انسانیت کے دشمنوں کے خلاف جہاد اور مزاحمت کا راستہ اپنانا ہوگا۔

مزاحمتی دھڑے مکمل تیار پر ہیں۔ ہم احمق ٹرمپ اور امریکی حکومت سے ہر چیز کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم کسی پر حملہ نہیں کرتے، لیکن مقدسات اور مظلوم لوگوں کا بھرپور دفاع کرتے ہیں، اور ہم ظالم استعمار کے دشمن ہیں۔ یہ ہمارا نقطہ نظر ہے اور اسی وجہ سے عراق میں حشد الشعبی قائم کی گئی ہے جو موجودہ حالات اور بالخصوص ٹرمپ کی حالیہ دھمکیوں سے قطع نظر، اپنے نظریاتی راستے پر گامزن رہے گی۔

ہم نے شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس سے عہد کیا ہے کہ حشد الشعبی حالات اور چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے ثابت قدم رہے گی۔ ہم اپنے وعدے پر قائم رہیں گے اور مزاحمتی قائدین کے حکم کے مطابق عمل کریں گے، ہم جنگ کے نتائج کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہم اپنا دینی فریضہ ادا کر رہے ہیں اور نتیجہ یا تو فتح یا پھر شہادت ہے[4]۔

حوالہ جات

  1. صہیونی حکومت ناکامیوں پر سیخ پا، نتن یاہو کی دھمکیوں کو امریکی آشیرباد حاصل ہے- شائع شدہ از: 28 ستمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 ستمبر 2025ء
  2. حشد الشعبی کی تحلیل کا امریکی خواب کبھی پورا نہیں ہوگا-شائع شدہ از: 13 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 ستمبر 2025ء
  3. مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، الناز رحمت نژاد:
  4. یوم القدس فلسطینی کاز سے تجدید عہد کا دن ہے- شائع شدہ از: 27 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 ستمبر 2025ء