مندرجات کا رخ کریں

تقریب

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 16:18، 25 مئی 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (اسلامی ممالک کی یونین کی تشکیل)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

تقریب مصر میں ۱۹۴۶ء میں مرحوم علامہ محمد تقی قمی نے بعض اساتید اور اس زمانے کے الازہر یونیور سٹی کے صدر شیخ مصطفی عبد الرزاق کے تعاون سے دار التقریب کی بنیاد ڈالی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان، اتحاد اور اتفاق کا فضا قائم کرنا تھا۔ تقریب کے ذریعے مسلمان عالمی سطح طاقتور بن سکتا ہے اور دشمن کے تمام سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

تقریب کا معنی

حالیہ صدیوں کے تقریب کے عظیم معمار مرحوم علامہ محمد تقی قمی کہتے ہیں : ہمارا مقصد فقہی مذاہب کو ایک دوسرے میں مدغم کرنا نہیں ہے ، کیوں کہ اختلاف ایک فطری امر ہے ۔ اور اس قسم کے اختلافات میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہے بلکہ وسعت فکری اور رحمت الٰہی فراہم ہونے کا سبب بن جاتے ہیں [1]۔

بیشک مذاہب کی تقریب ، تمام مذاہب کو ایک کرنے یا کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب میں مدغم کرنے کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ لغت میں لفظ تقریب باب تفعیل سے ہے اور اس کا معنی ایک دوسرے سے دور ہوئی دو چیزوں کو آپس میں نزدیک لانا ہے۔ اس لئے ابتداء میں تبعید کے مفہوم کا تصور پیدا ہوتا ہے اور پھر تقریب تشکیل پاتی ہے ۔

تقریب کا لفظ سابقہ نفرت و دوری کی طرف ایک اشارہ کرتا ہے جو فکری اختلاف اور رائے و نظر کا فرق نہیں ہے ، بلکہ اس کا سبب عقائد میں دو گانگی اور قلبی نیز مقابل کی طرف سے عداوت و دشمنی کا احساس ہے ۔ اگر دو شخص کسی مقرر کی تقریر کو کیسٹ سے سنیں اور اس مقرر تک ان کی رسائی نہ ہو تاکہ اشکالات و ابہامات کو دور کر سکیں۔

اگر یہ دونوں شخص مقرر کی تقریر کی گہرائیوں اور علمی بحث کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں بھی بدظنی نہ رکھتے ہوں اور دونوں شخص مقرر کی تقریر کے مقصد کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے نظر یات کی پیروی کرنا چاہیں ، لیکن بعض جزئیات میں اس کے بیان کے بارے میں جدا جدا تصور رکھتے ہوں تو یہ اختلاف نظر کسی قسم کی دشمنی اور عداوت پیدا نہیں کر سکتا ہے۔

بلکہ پورے اخلاص کے ساتھ ہر ایک دوسرے کے نزدیک اپنا اپنا عقیدہ اور نظریہ رکھ سکتا ہے اور یہ فرق ایک فطری امر ہے اور ضروری نہیں ہے کہ ان دونوں کو ان جزئیات کے بارے میں متحد کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو کچھ مفید بلکہ ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ نظریاتی اختلافات ، دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں عداوت و کینہ میں تبدیل نہ ہوں اور انھیں فکری و اعتقادی اختلافات کا رنگ نہ دیا جائے ۔ دو افراد کی آپسی ہماہنگی ، مفاہمت، احترام کو ٹکراؤ اور لڑائی میں تبدیل نہ کیا جائے اور اس طرح اصل پیغام تحریف و تبدیلی کا شکار نہ ہو جائے ۔

دوریاں کیسے ختم ہوجائے

حق کی تلاش میں قدم رکھنے والے ان دو افراد کے درمیان کشمکش اور ٹکراؤ پیدا ہونے کی صورت میں ، تقریب کے عنوان سے درج ذیل اقدامات کئے جا سکتے ہیں :

  • ان دونوں کے درمیان مشترک اعتقادات کا بیان کرنا اور ان کا اہمیت کے مطابق اختلافی موارد سے تطبیق کرنا ۔
  • اصل پیغام کی حفاظت کے سلسلہ میں اختلافات اور لڑائی کے نتائج پر غور کرنا ۔
  • مقابل کے نظریہ کی قابل قبول توجیہ کرنے کی کوشش کرنا ۔
  • ان اختلافات کو ایک لڑائی اور کشمکش میں تبدیل کرنے والے پس پردہ عناصر کے چہروں سے نقاب الٹنا اور ان کے مقاصد کو ظاہر کرنا۔
  • پیغام دینے والے کے مقاصد کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے سلسلہ میں خاموشی اور صبر و تحمل کے اچھے نتائج کو مد نظر رکھنا ۔

مذکورہ مطالب اور اسی قسم کے دسیوں مطالب جن کے بارے میں تقریب کے عملی اقدام کے باب میں اشارہ کیا جائے گا ، تقریب کی وہ کاروائیاں ہیں جو طرفین کے درمیان پیدا ہوئے فاصلہ اور دوری کو کم کرتی ہیں اور بدظنی و دشمنی کے موضوع کو ختم کر دیتی ہیں ۔ لیکن وہ تدابیر جو اس قسم کی کشمکش اور ٹکراؤ کو روک سکیں ، یا ٹکراؤ کے وجود میں آنے کی صورت میں تقریب کو وجود میں لانے اور ٹکراؤ کو دور کرنے کے اقدامات انجام دیں۔

اور اختلافات اور ٹکراؤ کو وجود میں نہ آنے دینے کے لئے قبل از وقت اقدامات انجام دینے نیز رکاوٹوں اور بدظنیوں کو دور کرنے کے لئے اپنائی جانے والی حکمت عملی کو تقریب کی اسٹریٹجی کہا جا تا ہے ۔

قطر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد الدسوقی کہتے ہیں : "اسلامی مذاہب کو باہم نزدیک لانا ، یعنی تعصبات کو دور کرنے کی کوشش کرنے اور امت مسلمہ کو مشترک اعتقادات ، عقائد اور دین کی بنیاد وں اور ایک کلمہ پر متحد ہونے کی دعوت دینا تقریب کی اسٹریٹجی ہے" [2]۔

مذکورہ پروفیسر کے ساتھی ڈاکٹر احمد عبد الرحیم السائح کہتے ہیں :"اسلامی مذاہب کے در میان تقریب،یعنی ان اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ملت اسلامیہ کا اتحاد ،جن کے قبول کئے بغیر ایک انسان مسلمان نہیں ہو سکتا ہے اور ان بنیادی اصولوں کے علاوہ دوسری چیزوں پرہمارا نظریہ ٹکراؤ پر مبنی نہیں ہو نا چاہئے بلکہ تحقیقی اور معرفت کی تلاش پر مبنی ہو نا چاہئے۔

اس کے وہ تمام مسلمانوں کے مشترک نکات ،یعنی خدائے واحد ،پیغمبرواحد،قبلہ واحد ،قانون اور کتاب واحد اور ان سب کے درمیان پانچ معروف اصول اور مسلمانوں کے تمام فرقوں کے قیامت پر اعتقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ان مشترکات پر پابندی ہمیں ایک متحدہ امت قرار دیتی ہے کہ ہمارا مقصد ایک ہے اور ہم یکساں رہبری اور اعتقادی روش کے حامل ہیں ۔ کیوں کہ ہم سب اعتقاد رکھتے ہیں کہ زندگی میں ہمارا مقصد اس آیہ شریفہ کی بنیاد پر ہے [3]۔

خدا کی مکمل اطاعت اور بندگی ہے اور اس آیہ شریفہ [4]۔ سے الہام لیتے ہوئے خدا وند متعال کے حکم کے مطابق ہماری روش اتحاد و یکجہتی ہے اور خدا کے حکم سے ہماری رہبری خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سونپی گئی ہے اور اصول عقاید میں بھی ہم ہم فکر و متحد ہیں ۔ اس لئے جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر خطا اور بدعتی ہونے کی تہمت نہ لگائیں۔

مرحوم آیت اللہ محمد حسین آل کاشف الغطا بھی اسلامی مذاہب کی تقریب کے بارے میں یوں فرماتے ہیں : "اتحاد سیرت و کردار کا مقولہ ہے اور فطری خوبیوں اور صفات کے معنی میں ،رفتار و کردار اور برجستہ اخلاقی اصولوں کی پائداری و پابندی ہے ۔ اتحاد یہ ہے کہ مسلمان اپنی دولت اور سرمایہ سے مشترکہ طور پر قسط و عدل کی بنیادوں پر استفادہ کریں۔

اتحاد کا معنی ایک فرقہ کو دوسرے فرقہ میں مدغم کرنا نہیں ہے اور یہ خلاف عدل و انصاف ہے کہ ہم زوال اور تہمتوں سے دو چار فرقہ کو جو اپنا دفاع کر رہا ہے ، اپنا دفاع کرنے کے سبب اس پر تفرقہ اور کینہ پھیلانے کی تہمت لگائیں ۔ بلکہ ہمیں اس کی بات پر تحقیق کرنی چاہئے اور اگر وہ حق پر ہو تو اس کی مدد کریں ورنہ استدلال کے ذریعہ اسے مطمئن کریں" [5]۔

مسلمانوں کے خلاف دشمن کی سازشیں

جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبیین کے عنوان سے بیداری کا پیغام پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے ، اسی دن سے اس نئے دین کے خلاف مختلف صورتوں میں دشمنیاں اور کینہ توزیاں نمودار ہوئیں ۔ کینہ و ر ملحد اور مشرکین کبھی اس بات کو نہیں چھپاتے تھے کہ وہ اپنے پرانے دین اور خرافات کی حقارت سے دو چار ہونے پر ناراض اور فکر مند ہیں۔

لیکن ہر دشمن کے لئے ، نفسیاتی جنگ یا داخلی جنگ مقصد تک پہنچنے کا سب سے بے خطر اور فوری طریقہ کار ہوتا ہے ، لیکن اسلامی نظام کے ہوشیار اور آگاہ معمار ، یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظالم قریش کے چنگل سے آزاد ہونے کے پہلے ہی دن مسلمانوں کے درمیان برادری قائم کرکے ، مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پیدا کرنے ، مہاجر و انصار ، سیاہ و سفید اور غلام و آزاد کے نام سے جنگ و اختلاف برپا کرنے کے دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

اور وہ ان سے نا جائز فائدہ اٹھاکر شک و شبہ ایجاد کرنا چاہتے تھے تاکہ داخلی اختلافات کو ہوا دے کر اپنا الو سیدھا کر سکیں ۔ جن لوگوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شدید جذباتی اور ایمانی لگاؤ کا فتح مکہ میں مظاہرہ کرکے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیرینہ دشمن ابو سفیان کو حیرت میں ڈال دیا تھا ، کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصی سے آپ کے رابطہ اور آپ کے ذاتی فیصلوں کے استحکام یعنی وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [6]۔

لیکن کیا یہ مناسب ہے کہ ہم یہ تصور کریں کہ توحید کے منادی کی رحلت کے بعد دشمنوں کی تمام تلاش و کوششیں اور دھمکیاں ختم ہو گئیں اور تمام دشمن اپنی دشمنی سے پشیمان ہو گئے اور اب اسلام اور قرآن مجید آنحضرت کے نام مبارک کو نشانہ قرار دینے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت اور مثبت سوچ اور ترقی یافتہ طریقہ کار اپنانے اور انھیں مدد کرنے پر اتر آئے ہیں ؟یا ہمیں باور کرنا چاہئے کہ ان دشمنوں کے ذہنوں میں اسلام کے چراغ کو خاموش کرنے کے عزائم اب بھی موجود ہے۔

اتحاد امت میں امام علی علیہ السلام

تنہا شخص ، جس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور دین اسلام کو نابود کرنے کی دشمن کی سازشوں کو اپنی ہوشیاری اور دور اندیشی سے ناکام بنا دیا وہ تقریب کے حامیوں کے امام حضرت علی علیہ السلام تھے۔ جیساکہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:" میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ دین سے منحرف ہو کر دوسروں کو دین خدا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت اور دین حضرت ابراہیم کو نابود کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔

پس میں ڈر گیا کہ اگر میں اس وقت اسلام کی نصرت نہ کروں ، تو اسلام میں رخنہ اندازی ہوگی اور اس کی بنیادیں خراب ہو جائیں گی ۔ جو میرے لئے ایک مصیبت ہوگی ، اس لئے میں ابو بکر کے پاس گیا اور اسلام کو درپیش خطرات کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ باطل نے بوریا بستر گول کیا اور نابود ہو گیا اور اللہ کا نام مبارک دشمنوں کے نا پاک عزائم کے با وجود عظمت پا گیا جب کہ امور کو حل و فصل کرنے کی ذمہ داری ابوبکر سنبھالے ہوئے تھے ۔ پس میں نے خیر خواہی کی بنیاد پر ان کا ساتھ دیا اور جس چیز میں خدا کی مرضی تھی ، اس میں پوری طاقت کے ساتھ ان کی پیروی کی “ [7]۔

الازہر یونیور سٹی کے پروفیسر علامہ ڈاکٹر عبد المتعال صعیدی کہتے ہیں ، ” علی بن ابی طالب علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنھوں نے اسلامی مذاہب کے درمیان تقریب کی بنیاد ڈالی ہے وہ جانتے تھے کہ خلافت کے لئے دوسروں کی نسبت زیادہ سزاوار ہیں ، لیکن اس کے باوجود آپ نے ابو بکر ، عمر اور عثمان کے ساتھ متواضعانہ برتاؤ کیا اور ان کی مدد کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی “ [8]۔

دور حاضر کے مسلمانوں کے لیے خطرہ

آج کل کے عالمی ظالموں اور سامراجی طاقتوں کے منافع کے لئے اسلام کا خطرہ عہد رسالت کی نسبت زیادہ ہے کیوں کہ آج مسلمان ممالک کے قدرتی ذخائر ، دولت ، آبادی اور ٹیکنالوجی پر دشمنوں کی للچائی نگاہیں پڑی ہیں اور ظلم کے خلاف اسلام کی پالیسی کی وجہ سے ان میں روز بروز حساسیت اور دشمنی بڑھتی جا رہی ہے ۔ ان کی نظر میں ان کے لئے کامیابی کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے عالم اسلام میں تفرقہ پھیلا کر اس کو اندر سے ہی کھوکھلا کر دیں اور زوال اور نابودی سے دو چار کریں۔

تقریب ، اسلام کے دشمنوں کی ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے کچھ پروگرام

مسلمانوں کی عظمت کا تحفظ

دنیا کی موجودہ آبادی چھ ارب افراد پر مشتمل ہے ۔ اس آبادی کا ایک چوتھائی حصہ مسلمان ہیں ۔ لیکن مسلمانوں کی یہ ڈیڑھ ارب آبادی گزشتہ پچاس سال کے دوران اسرائیل کی صرف تیس لاکھ آبادی کے مقابلے میں عالم اسلام کے جسم کے ایک حصہ یعنی مظلوم فلسطین کا دفاع نہیں کر سکی ہے ۔ کیا اس کا سبب اس کے علاوہ اور کچھ ہے

کہ مسلمان اپنے اندر بے بنیاد اختلافات اور مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہونے کے نتیجہ میں اپنی عظمت و عزت کو مخدوش کرکے اپنے آپ کو ناتواں اور کمزور کر چکے ہیں ؟ قرآن مجید فرماتا ہے:" وَأَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَمِن رِباطِ الخَيلِ تُرهِبونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُم" [9]۔ کیا آج تک مسلمانوں کے مفکروں کا کوئی اجتماع تشکیل پایا ہے جو ان طعنہ زنیوں ، نفرتوں ، ایک دوسرے کو رد کرنے کے نتائج کے بارے میں غور کرے ؟۔

کیا اس قضیہ سے واضح تر مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ ایک مجموعہ کے آپس میں جدا اور پارہ پارہ ہونا دشمن کو طاقتور بنا کر فرصت اور موقع فراہم کرنے کا سبب بنتاہے تاکہ وہ عظمت اسلام کو نابود کر دیں ؟! کیا وجہ ہے کہ اس متمدن مجموعہ یعنی عالم اسلام میں خطرے کی گھنٹی دیر سے بج رہی ہے اور کئی بار ضرب کھانے کے باوجود مسلمان اس خطرہ سے بیدار نہیں ہوتے ؟ آج مسلمانوں کے ضرب کھانے کے نقاط کو پہچاننا ایک ضروری امر ہے اور اس کے لئے ہوشیاری کی ضرورت ہے ۔

یہودی چاہتے ہیں کہ اپنے افراد کو تمام دنیا سے جمع کر کے ، حتی مسیحیت اور صہونیت کو بھی اپنے ساتھ ملا کر ، اور عیسائیوں کے ساتھ اپنی دیرینہ اور بنیادی دشمنی کو فراموش کرکے اپنے اصلی دشمن ، یعنی اسلام کے خلاف صف آرا ہو جائیں ۔

اسرائیل کے جوہری گودام میں تین سو ایٹم بمب کس لئے ذخیرہ کئے گئے ہیں ؟شارون نے مدتوں تک مخفی رکھنے کے بعد ۲۰۰۴ ءء کے اوائل میں جوہری سرگرمیوں کے بارے میں راز فاش کرتے ہوئے کہا : ” امریکہ ، ایران کی طرف سے پیش آنے والے خطرات اور اسرائیل کی موجودیت کی مخالفت کرنے والے دوسرے ممالک سے مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیل کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے اس کی حمایت کرتا ہے۔

کیا یہ سزاوار ہے کہ مسلمان بھی دشمن کے ہم نوا بن کر ، اسلامی معاشرہ کی شوکت و عظمت کو دھچکہ پہنچائیں اور اس زخم دیدہ پیکر کے متحد اعضاء کو ایک دوسرے سے جدا کریں ؟ درخشاں برتری و عظمت صرف خود پرستی کو فراموش کرنے سے حاصل ہوتی ہے ۔ تقریب کے عظیم استاد الازہر یونیور سٹی کے رئیس علامہ شیخ محمود شلتوت

کہتے ہیں : ” مذاہب کو شیعہ و سنی میں تقسیم کرنا ، صرف نام کی ایک اصطلاح ہے ، ورنہ تمام مسلمان اہل سنت ہیں ۔ کیوں کہ سب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت اور آپ کے دستورات پر عمل کرنا واجب جانتے ہیں “ [10]۔

دشمنان اسلام کی طمع کو ختم کرنا

اگر ہم اسلام کی حادثوں سے بھری تاریخ کی کتاب کی ورق گردانی کریں ، تو ہر جگہ پر درندہ صفت بھیڑیوں کے قدموں کے نشان پاتے ہیں جنھوں نے دین محمدی کے پیرؤں پر خوں خوار حملے کئے ہیں ۔ مرحوم علامہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطا کہتے ہیں :

” آج مسلمانوں میں ہر بہرا اور گونگا شخص بھی آسانی کے ساتھ سمجھتا ہے کہ عالم اسلام کے ہر نقطہ پر ، مغربی مگر مچھوں میں سے ایک مگر مچھ اور سامراجی اژدھاؤں میں سے ایک اژدھا منھ کھولے بیٹھا ہے تاکہ مسلمانوں کی سر زمین کے ایک ٹکڑے کو نگل لے ۔ کیا یہ خطرہ مسلمانوں کے متحد ہونے کے لئے کافی نہیں ہے تاکہ ان کے عزم و ارادہ اور غیرت کو شعلہ ور کرے ؟ کیا یہ درد اور مصائب و آلام انھیں اتحاد و اتفاق بر قرار کرنے اور آپسی رنجشوں اور کینہ کو فراموش کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے ؟ جب کہ کہا جاتا ہے کہ مصیبتوں میں کینے فراموش ہو جاتے ہیں “ [11]۔

مسلمانوں کی سر زمین قدرتی ذخائر اور ثروت سے سر شار ہونے کی وجہ سے ہمیشہ استعماری ظالموں کی طمع و لالچ کا نشانہ بنی رہی ہے ۔ دنیا کے تقریبا ستر فیصد تیل کے قدرتی ذخائر مشرق وسطیٰ میں پائے جاتے ہیں ۔ بر اعظم افریقہ کا ایک عظیم اور اہم علاقہ تمام ثروت و ذخائر کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور یورپ اور امریکہ میں بھی مسلمانوں کی آبادی قابل توجہ ہے ۔

صرف ایک چیز اسلامی ممالک پر قبضہ کئے ہوئے اور امن کے نام پر نا امنی پھیلانے والے مسلح ڈاکوؤں کی للچائی آنکھوں کو اندھا بنا سکتی ہے ، اور وہ مسلمان قوموں کی یکجہتی ہے ۔ مسلمانوں کا آپسی اتحاد وہ اہم ترین ہتھیار ہے جو مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتا ہے ۔

  • مسلمانوں میں ظلم کا مقابلہ کرنے اور استعمار کی مخالفت کرنے کا کھرا عقیدہ ۔
  • اسلامی ممالک کی مشرق و مغرب تک رسائی اور قدرتی منابع سے مالا مال ہونے کی وجہ سے حساس حیثیت ۔
  • دنیا کی آبادی کی قابل توجہ انسانی طاقت ۔
  • مسلمان دانشوروں اور محققین کی سائینس اور ایجادات میں روز افزوں ترقی اور مسلمانوں کا متمدن ہونا ۔

پیغمبر اتحاد سے قلبی لگاؤ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام مسلمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت رکھتے ہیں اور آپ کو اپنی اولاد اور ناموس سے بھی زیادہ دوست رکھتے ہیں ۔ آپ امت کے باپ ، نبی رحمت اور سر تا پا رؤوف و مہربان تھے ۔ اگر ایک خاندان میں ، فرزندوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے اور لڑائی جھگڑا کریں۔

تو بے شک خاندان کے سر پرست کے دل میں غم و ملال پیدا ہوگا اور وہ دل آزردہ ہوں گے ۔ کیا وہ وقت نہیں آیا ہے کہ مسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق کرکے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوشحال کر دیں جو ” حریص علیکم “ [12] تھے اور اسلامی معاشرہ کی سر بلندی کے لئے اتنی کوشش کرتے تھے کہ خدا وند متعال نے فرمایا : ” طہ ، ما انزلنا علیک القرآن لتشقیٰ “( طہ / ۱ و ۲ ) ؟ یقینا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اختلاف و افتراق سے راضی نہیں ہے۔

مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں خدا وند متعال فرماتا ہے : ” واعتموابحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا “ ( آل عمران / ۱۰۳ ) ” و اطیعوا اللہ و رسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم “ [13]۔ ” ولا تکونوا کالذین تفرقوا و اختلفوا من بعد ماجاء ھم البینات و اولئک لھم عذاب عظیم “ [14]۔

اسلامی ممالک کی یونین کی تشکیل

شہید ڈاکٹرعبد العزیز رنتیسی ایک مقالہ میں ، عالم اسلام کے درد اور مشکلات کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں : ” اسلام کے احیاء کے لئے ہمیں اسلامی ممالک کی یونین تشکیل دینی چاہئے “ وہ کہتے ہیں : ” اسلامی ممالک کے امور میں اجنبیوں خاص کر امریکہ کی مداخلت اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ یہ جارح ملک عربی اور اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنسوں کے بیانیہ کے بارے میں اپنے نظریات پیش کرنے کو اپنا حق جانتا ہے ۔

امت اسلامیہ کے دشمن کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کئے جائیں ۔ افغانستان اور عراق میں رو نما ہونے والے حوادث اس امر کے شاہد ہیں ۔ حتی فلسطین کی خود مختار تشکیلات کو فلسطین کی مقاومت خاص کر اسلامی مقاومت کی تحریک ”حماس “ کے خلاف اکسایا جاتا ہے ۔

وہ راہ جس کی روشنی میں ہم مسلمانوں کی پراکندگی کو متحد کر سکیں ، اسلامی ممالک کی یونین کی تشکیل ہے ۔ اگر اس سلسلہ میں ایک رائے شماری انجام دی جائے ، تو معلوم ہو گا کہ مسلمان اس سلسلہ میں متحد و موافق ہیں “[15]۔

حوالہ جات

  1. محمد تقی قمی قمی ، منادیان تقریب ،ص ۶۶
  2. علی دروب التقریب ، ص ۵۴
  3. سورہ الذاریات، آیہ 56
  4. آل عمران ، آیہ 103
  5. حول الواحدة الاسلامیہ ، ص ۳۶
  6. سورہ نجم آیہ 3 و 4
  7. ابن ابی الحدید ، عبد الحمید بن ہبة اللہ ، شرح نہج البلاغہ ، بہ تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم ، ج،ص ۶
  8. مجلہ رسالہ الاسلام ، سال سوم ، شمارہ ۴
  9. سورہ انفال، آیہ 60
  10. بی آزار شیرازی ، عبد الکریم ، ہمبستگی مذاہب اسلامی، ص 352
  11. حول الوحدہ الاسلامیہ ، ص ۳۷
  12. سورہ توبہ، آیہ ۱۲۸
  13. سورہ، انفال آیہ۴۶
  14. سورہ آل عمران،آیہ ۱۰۵
  15. ڈاکٹر محمد رضا رضوان طلب، تقریب مذاھب اسلامی کی اسٹریٹجی- شائع شدہ از:30 اگست 2011ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 مئی 2025ء