سید عقیل الغروری
| سید عقیل الغروری | |
|---|---|
| دوسرے نام | آیت اللہ سید عقیل الغروری |
| ذاتی معلومات | |
| یوم پیدائش | 2 فروری |
| پیدائش کی جگہ | بنارس ہندوستان |
| مذہب | اسلام، شیعہ |
سید عقیل الغروی آیت اللہ سید عقیل الغروی مشہور و نامور بین الاقوامی شہرت یافتہ ہندوستانی شيعہ عالم دين، ممتاز فلسفی، مفکر، شاعر، ادیب، ماہرِتعلیم، نقاد، فعالیت پسند اور مجتہد ہیں۔ وہ دورِ حاضر میں منبر اور مجالسِ عزا کی پہچان بن کر سامنے آئے ہیں۔ اردو دان طبقہ چاہے برِ صغیر و مشرقِ وسطٰی میں رہتا ہو یا امریکا، یورپ اور آسٹریلیا میں جہاں بھی اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں سید عقیل کے قدر دان ملیں گے۔ انہوں نے حوزہ علمیہ جامعہ الثقلین دہلی میں بحیثیت پرنسپل خدمات انجام دیں اور اس وقت سفینہ ہدایہ ٹرسٹ کے موجودہ چیئرمین (Chairman) ہیں۔ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن[7] ہونے کے علاوہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر بھی ہیں۔ آپ آیت اللہ شیخ محسن اراکی کی جانب سے مجمعِ تقریب کے بر صغیر میں نمائندہ ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں موجود فلسفے میں پی ایچ ڈی (Ph.D) کرنے والے طلبہ کے نگران (Supervisor) بھی رہ چکے ہیں۔ ان سب کے علاوہ غروی امامیہ اسلامک یونیورسٹی، دہلی کے سرپرست (Patron) اور فورم آف فلاسفرز، انڈیا کے معتمد (Secretary) کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سید عقیل الغروی ماہانہ شائع ہونے والے رسالے ادبی کائنات کے سرپرست ہیں۔ ادبی کائنات کی بنیاد 1981 میں رکھی گئی تھی اور تب سے ہی عوام کو بنارس میں معیاری طور پر اعلی درجے کا مواد فراہم کر رہا ہے.
سوانح عمری
عقیل الغروی 2 فروری 1964ء میں ہندوستان کے شہر بنارس میں پیدا ہوئے اور بہت چھوٹی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے عراق کے شہر نجف اشرف تشریف لے گئے۔
تعلیم
ابتدائی دینی اور دنیاوی تعلیم نجف سے ہی حاصل کی۔ نجف میں کچھ سال رہنے کے بعد واپس بنارس آگئے اور بنارس کے ایک کالج سے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ پھر دہلی کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے گریجویشن مکمل کی۔ اس کے بعد مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ایران کے شہر قم چلے گئے۔ کافی سال قم اور ایران کے دیگر شہروں جیسا کہ مشہد میں دینی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ 1994 میں آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی سے اجازہ حاصل کرنے والے کم عمر مجتہد بنے۔ اسی دوران میں ان کے دیگر اساتذہ نے بھی انھیں اجازہِ اجتہاد سے نوازا۔
اساتذہ
پ کے کچھ اساتذہ کی فہرست یہ ہے:
- آيت الله سيد محمد جواد طهرانی
- آيت الله شيخ محسن اراکی
- آيت الله شيخ محمد علی موحد ابطحی
- آيت الله محمد حسين حسينى طهرانى
- آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی
- آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی
- آیت اللہ العظمی مظاھری اصفہانی
- آیت اللہ العظمی عزالدین زنجانی
- آیت اللہ العظمی علی نقی نقوی عرف بہ نقن
- آیت اللہ علامہ حسن زادہ آملی
- آیت اللہ تقی فلسفی مشہدی۔
خطابت
سید عقیل پچھلی تين دہائیوں سے دنیا کے بیشتر ممالک میں مجالس سے خطاب فرما رہے ہیں خصوصیت کے ساتھ پاکستان میں ان کی مجالس کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ انھوں نے اپنی مجالسِ عزا کے ذریعے قدیم لکھنوی اندازِ خطابت کا دوبارہ احیا کیا۔ منفرد انداز میں خطابت کرتے ہیں۔ قرآنی آیات کو سر نامہِ کلام قرار دے کر پورا عشرہ ان کی تفسیر پڑھنا اور ان میں سے شانِ خاندانِ رسالت بیان کرنا، ان تقاریر میں آیاتِ قرآنی اور احادیثِ معصومین کا تفصیلی جائزہ جن میں مذہبی و فقہی رنگ کے ساتھ تاریخ، فلسفہ و منطق اور علم الکلام و علم الرجال کی روشنی میں ان پر تفصیلی گفتگو شامل ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے مکتبہ کائنات، انجمن اعتدال پسند مصنفین، دارالتقریب بین المذاہب الاسلامی ،نوبل انٹلکچول برادرہڈ اور سہ ماہی مجلہ تقریب کی کاوشیں آپ کی یاد گار ہیں۔
طرزِ خطابت
سید عقیل کا طرزِ خطابت خاص لکھنوی تہذیب کی ترجمانی کرتا ہے جو اب دھیرے دھیرے ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ آپ کے خطابات سننے کے لیے نا صرف عوام الناس بلکہ معاشرے کے ہر طبقے کے افراد کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف جج حضرات بیٹھے عدلِ الٰہی پر گفتگو سے فیض یاب ہو رہے ہوتے ہیں وہیں ادبا و شعرا خوبصورت زبان سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
جہاں مرثیہ نگار حضرات کے سامنے قدما و اساتذہ کے زبان زدِ عام اشعار میں باریکیوں سے پردے اٹھ رہے ہوتے ہیں، وہیں سیاست دان، جرنیل اور دیگر اعلٰی عہدوں پر موجود عہدے دار اندازِ جہاں بانی علی کے خطبوں کی روشنی میں سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح صاحبانِ عبا و قبا کی ایک قطار ہوتی ہے جو علومِ تفسیر، حدیث، کلام، فلسفہ و منطق سے بہرہ مند ہونے تشریف لاتی ہے۔ غرض علم کا ایک سیل رواں ہوتا ہے جو جاری ہوتا ہے۔
اور سامعین اپنی حیثیت کے مطابق اس میں سے حصہ پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مختلف موضوعات پر سیمینار سے بیشتر ممالک میں خطاب کیا ہے اور ان سیمینار کے سننے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ مشہور شاعر باقرؔ زیدی اپنے ایک مرثیے میں آیت اللہ عقیل الغروی کے منفرد اندازِ خطابت اور دوسرے خطیبوں پر برتری کا ذکر کرتے ہوئے کچھ یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں
وطن واپسی
اجازہِ اجتہاد حاصل کرنے کے بعد ہندوستان واپس آئے اور ایک عرصے تک ہندوستان میں مجلہ ادبی کائنات،جامعتہ الثقلین اورعالمی ادارہ سفینتہ الہدایہ ٹرسٹ کی تعلیمی، تصنیفی اور فلاحی کاموں کی سرپرستی فرمائی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے استاد سید العلماء مولانا سید علی نقی النقوی مجتہدِ ہند کے انداز میں مجالس ہائے عزا سے خطابت بھی شروع کی اور بہت جلد قبولیتِ عام حاصل کی۔
موجودہ رہائش گاہ
اس وقت سید عقیل لندن میں مقیم ہیں اور وہاں مسجد و امام بارگاہ باب المراد میں عبادات اور مجالس و دروس سے خطاب کرتے ہیں۔ آپ لندن میں آیت اللہ العظمی حافظ بشیر نجفی صاحب کے نمائندہ بھی ہیں۔
چہاردہ معصومین (ع) کے بعد علما کے درمیان امام خمینیؒ ممتاز شخصیت کے حامل
امام خمینی رح کی برسی کی مناسبت سے زوم کے ذریعے ایس این این چینل پر انٹرنیشنل کانفرنس مولانا عقیل الغروی نے کہا: امام خمینی چہاردہ معصومین کے بعد علما و فقہا کے درمیان ممتاز شخصیت کے حامل تھے ۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ امام خمینی رح کی برسی کی مناسبت سے زوم کے ذریعے ایس این این چینل پر انٹرنیشنل کانفرنس مولانا عقیل الغروی کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔
مولانا عقیل الغروی نے سب سے پہلے ایس این این چینل اور مولانا اسلم رضوی کا اس عظیم الشان انٹرنیشنل کانفرنس میں دعوت دینے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے بیسویں صدی کی سب سے بلند مرتبہ شخصیت کی بارگاہ ملکوتی میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی چہاردہ معصومین کے بعد علما و فقہا کے درمیان ممتاز شخصیت کے حامل تھے ۔ آپ عرفان عملی و عرفان نظری میں ید طولی رکھتے تھے ۔
نجف اشرف میں میں نے دس برس تک متواتر امام علی علیہ السلام کی ضریح مبارک پر آپ کو حاضری دیتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ آپ پر چشم کرم تھی مولیٰ علی علیہ السلام کی ۔ امام خمینی علوم قرآنی میں کمال تک پہنچے ہوئے تھے ۔ امام خمینی جن کا نام روح اللہ ہے آپ نے پیکر امت اسلامیہ میں روح پھونکی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران سے پہلے مسجدیں خالی نظر آتی تھیں محلے کے چند بزرگ افراد ہی مسجد میں نظر آتے تھے لیکن انقلاب کے بعد آج مسجدیں جوانوں سے آباد ہیں ان جوانوں کو مساجد میں لانے والی محرک شخصیت کو امام خمینی کہتے ہیں[1]۔
موت کے جمال و جلال سے واقفیت لازمی ہے
مجلسِ ایصالِ ثواب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موت کے جمال و جلال کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہم مختصر زندگی میں علم اور تجربے کے ذریعے جلال و جمال کا لطف اٹھاتے ہیں، لیکن حقیقت میں زندگی کی دائمی حقیقت کے جمال و جلال کا مشاہدہ موت کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے عام طور پر لوگ اس حقیقت سے ناآشنا رہتے ہیں۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،علی گڑھ/ عالمی شہرت خطیب و عالم دین دین حجۃ الاسلام و المسلمین سید عقیل الغروی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس بیت الصلوٰۃ میں منعقدہ مجلسِ ایصالِ ثواب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موت کے جمال و جلال کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہم مختصر زندگی میں علم اور تجربے کے ذریعے جلال و جمال کا لطف اٹھاتے ہیں، لیکن حقیقت میں زندگی کی دائمی حقیقت کے جمال و جلال کا مشاہدہ موت کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے عام طور پر لوگ اس حقیقت سے ناآشنا رہتے ہیں۔ کنیز سیدہ بنت سید محمد ہاشم رضوی مرحومہ کے ایصالِ ثواب کے لئے منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا موصوف نے کہا کہ مجلس ایک ایسا ادارہ، عبادت اور وسیلہ ہے، جو دنیا میں رہتے ہوئے بھی آخرت سے مسلسل مربوط رکھتا ہے۔ یہ ایک فکر انگیز اور حیات بخش ذریعہ ہے، جو دارِ فانی سے دارِ آخرت کے لیے حیاتِ جاوداں عطا کرتا ہے۔ سن 61 ہجری سے آج تک لاکھوں، کروڑوں مجالس برپا ہو چکی ہیں، اور نہ جانے مزید کتنی منعقد ہوں گی، لیکن نہ عزا کا حق ادا ہوگا اور نہ ہی سید الشہداء علیہ السلام کا۔ افسوس کہ لوگ مجلس کی برکات اور اس کی اہمیت کا مکمل اندازہ نہیں کر پاتے۔
حجۃ الاسلام سید عقیل الغروی نے مزید کہا کہ موت کے جمالیات ایک نہایت جمیل، پُر جلال اور پُر وقار حقیقت ہے، جس کا جلال و جمال، زندگی کے جمال و جلال سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان اپنی پوری زندگی امام علیہ السلام کی زیارت کی تمنا کرتا ہے اور عبادات، مالی و جسمانی قربانیوں میں مشغول رہتا ہے، لیکن آخری لمحہ، یعنی موت کے وقت، اسے امام امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ یہ امام (ع) کا وعدہ ہے، اور یہی موت کے جمال کا وہ پہلو ہے، جس کی معرفت ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔
مجلس میں معروف مرثیہ خواں استاد حسن علی مظفر نگری نے اپنے منفرد انداز میں مرثیہ پیش کیا۔ مجلس کا آغاز معروف قاری مولانا محمد مجلسی کی تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا۔ منعقدہ مجلس میں صدر شعبہ شیعہ دینیات اے ایم یو پروفیسر سید محمد اصغر، مولانا سید زاہد حسین رضوی، پروفیسر اصغر اعجاز قانمی، شبیہ حیدر، کاظم عابدی، ایڈوکیٹ جواد نقوی، حیدر نقوی، منصف عابدی، مبارک زیدی، فردوس زیدی، دانش زیدی، ڈاکٹر شجاعت حسین اور دیگر معززین سمیت یونیورسٹی کے پروفیسرز، ڈاکٹرز اور اہم شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی[2]۔
آثار
ان بائیس (22) سے زیادہ کتب منظر عام پر آچکی ہیں جو اردو زبان میں ہیں۔ انھوں نے فارسی، انگریزی اور عربی زبانوں میں بھی چند کتابیں لکھیں ہیں۔ انھوں نے اپنا پہلا ادبی رسالہ جس کا نام ادبی کائنات تھا اس وقت نکالا، جب ان کی عمر سولہ (16) برس سے زیادہ نہ تھی۔ ان کی چند کتابیں یہ ہیں:
اردو اور انگریزی
- حُسنِ اختیار
- مجالسِ غروی
- مقامِ ختمِ نبوت اور انسان
- ولایتِ حق اور امام حسینؑ
- سلامِ شوق
- تُوحید اور حسینؑ
- دُعا
- ولایتِ عظمیٰ
- ادبی کائنات (ادبی رسالہ - بنیاد سن 1981 میں رکھی گئی)
- آنگبین
- نیا تعلیمی تجربہ
- چراغِ راہ
- تجلیات
- فلسفئہ معراج
- قضاو قدر
- علم و ارادہ
- عیدِحشر اور جشنِ محشر
- جہانِ تعلیم
- Thematic Study of Holy Quran (انگریزی میں)
عربی
- فقہ الصلاۃ علی النبیﷺ
- الحدیث بین الاسناد و الفقہ
- بحث تفسیری و فقہی
- الباب الثانی عشر
- الحقائق الايمانيه
- ↑ چہاردہ معصومین (ع) کے بعد علما کے درمیان امام خمینیؒ ممتاز شخصیت کے حامل؛ مولانا عقیل الغروی- شائع شدہ از: 6 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 فروری 2025ء۔
- ↑ موت کے جمال و جلال سے واقفیت لازمی ہے، حجۃ الاسلام سید عقیل الغروی- شائع شدہ از: 2 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 فروری 2025ء۔