حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی معاہدے
حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی معاہدے صہیونی میڈیا کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت صہیونی یرغمالیوں کے بدلے میں 1000 فلسطینی آزاد ہوں گے جبکہ روزانہ 600 ٹرک امدادی سامان غزہ بھیجا جائے گا۔
غزہ میں مسلسل پندرہ ماہ کی نسل کشی کے بعد جنگ بندی معاہدےکا باضابطہ اعلان
مرکز اطلاعات فلسطین، غزہ کی پٹی پر مسلسل پندرہ ماہ سے جاری نسل کشی اور اسرائیلی ننگی جارحیت کے بعد بالآخر فلسطینیوں اور قابض ریاست کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا ہے۔ قطری وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے بدھ کی شام اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمتی دھڑوں اور "قابض اسرائیل” کے درمیان 15 ماہ کی جنگ کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
ان پندرہ ماہ میں قابض صہیونی فوج نے نہتے فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی کارروائیوں کا ارتکاب کیا اور ہزاروں افراد اور زخمی کردیا گیا۔ قطری وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات میں شامل فریقین نے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں، اس معاہدے کے حصول میں اہم کردار ادا کرنے پر قطر کے شراکت داروں مصر اور امریکہ کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ معاہدے کے ایگزیکٹو پہلوؤں کو مکمل کرنے کے لیے آج رات کام جاری رہے گا۔ اگلے اتوار سے اس پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔ فریقین کے درمیان جنگ بندی کی ثالثی کرنے والے تینوں ممالک معاہدے کی شرائط اور اس کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کریں گے۔ جنگ بندی کے اعلان کے فوراً بعد غزہ کی پٹی خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ہر طرف "اللہ اکبر" کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ عوام نے مزاحمت اور اس کے افسانوی ثابت قدمی کی تعریف کی جس نے قابض دشمن کو معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔
غزہ کے لوگ اپنی زبردست خوشی کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، جس سے جنگ کے خاتمے، قبضے کو واپس لینے، غزہ کی پٹی کی تعمیر نو شروع کرنے، امداد کے داخلے کے لیے گزرگاہوں کو کھولنے، اور زخمیوں کو بیرون جانے کی اجازت دینے کی راہ ہموار ہوگی۔
غزہ کی گلیوں میں جشن منانے والوں نے فلسطینی عوام کے شہداء کے خون پر اور ان مزاحمتی قائدین پر فخر کا اظہار کیا جنہوں نے طوفان الاقصیٰ کے معرکے کے دوران اپنی جانیں قربان کیں۔ عوام نے شہید رہنما یحییٰ السنوار، شہید رہنما اسماعیل ہنیہ، شہید رہنما صالح العاروری اور قائدین کے قافلے، جو سفاک قابض دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی، قربانی اور جنگ کی قیادت کی علامت تھے۔
معاہدے تک پہنچنے کی تفصیلات
اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ قابض اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی تکمیل سے آگاہ کیا گیا جب کہ کئی فریقوں نے امید ظاہر کی کہ یہ جلد مکمل ہو جائے گا۔ چینل 12 اسرائیل نے ایک اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ مذاکرات میں ایک پیش رفت ہوئی ہے اور اسرائیل جلد ہی ڈیل کے معاہدے کو مکمل کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جبکہ چینل 13 اسرائیل نے اطلاع دی ہے کہ نیتن یاہو آج شام موجود اسرائیلی مذاکراتی وفد کے ارکان سے مشاورت کریں گے۔ معاریو اخبار نے ایک ذریعہ کے حوالے سے کہا کہ معاہدہ پر دستخط ہونے جا رہے ہیں۔
ایکسیس نے ایک اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ غزہ کی پٹی میں زیر حراست افراد کے حوالے سے ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے دوحہ مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے، اور یہ کہ تازہ ترین وقت میں ان کے حوالے سے کل کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں پر امید ہیں۔ مذاکرات قطری دارالحکومت دوحہ میں جاری ہیں جہاں وال سٹریٹ جرنل نے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مذاکرات کاروں نے غزہ پر کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش میں دوحہ میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دیں۔
این بی سی نے باخبر حکام کے حوالے سے بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ تکمیل کے قریب ہے۔ اسی تناظر میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے قریبی دو فلسطینی ذرائع نے بتایا کہ حماس اور اسلامی جہاد نے جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔
ایک ذریعے نے اے ایف پی کو تصدیق کی ہے کہ "حماس اور اسلامی جہاد نے ثالثوں کو جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے حتمی مسودے کی منظوری سے آگاہ کیا ہے،” جب کہ ایک اور ذریعے نے بتایا کہ "حماس نے اسرائیل کو مثبت جواب دیا۔ اسرائیلی نشریاتی ادارے نے کہا کہ آج رات سیکورٹی اور سیاسی امور کی کابینہ کا اجلاس ہو سکتا ہے اور وزراء نے اپنے پروگراموں میں ردوبدل کر دیا ہے۔
چینل 12 کے مطابق معاہدے میں پہلے دن 3، ساتویں دن 4 اور 14 ویں دن 3 قیدیوں کی رہائی کی شرط رکھی گئی ہے۔ معاہدے میں 28 ویں دن 3 اور 35 ویں دن 3 قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے جبکہ باقی کو آخری ہفتے میں رہا کیا جائے گا۔
اسرائیلی تقسیم
اسرائیلی ویب سائٹ "واللا” نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ اس معاہدے میں حماس کو ملنے والی رعایتوں کے حوالے سے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں اختلاف ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے کہا کہ خبروں کے برعکس حماس نے ابھی تک اس معاہدے کے حوالے سے اپنا ردعمل نہیں دیا ہے تاہم اسرائیلی نشریاتی ادارے نے ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے نیتن یاہو کے دفتر کی تردید کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ حماس نے معاہدے کے اختتام پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ .
وال سٹریٹ جرنل نے باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے انتہائی دائیں بازو کے ووٹوں کے بغیر اپنی حکومت کے اندر معاہدے کے لیے حمایت کو مضبوط کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ اسی تناظر میں اخبار "اسرائیل ہیوم” نے کہا ہے کہ تبادلے کے معاہدے کے مذاکرات کے حوالے سے نیتن یاہو اور وزیر خزانہ بیزیل سموٹریچ اور وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کے درمیان سہ فریقی ملاقات ہوئی۔
اسرائیلی چینل 12 نے کہا کہ اسرائیلی حکومت میں رہنے کے لیے سموٹریچ کی شرط تبادلے کے معاہدے کے 42ویں دن کے بعد لڑائی میں واپس آنے کا عزم ہے۔ چینل نے مزید کہا کہ سموٹریچ نے انسانی امداد کو کم کرنے اور غزہ میں مستقل طور پر زمین پر قبضہ کرنے کی بھی شرط رکھی۔ سموٹریچ نے متوقع معاہدے پر اپنے موقف کے حوالے سے کہا کہ اب وہ جس چیز پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں وہ جنگ کے تمام اہداف کا حصول ہے۔
چینل 12 نے اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر کے قریبی لوگوں کے حوالے سے بھی کہا کہ وہ ممکنہ طور پر حکومت سے دستبرداری کے بغیر تبادلے کے معاہدے پر اعتراض کریں گے۔ بن گویر نے "نیشنل گارڈ” کے نام سے ایک یونٹ قائم کرنے کی تقریب کے دوران کہا کہ حکومت میں ان کی پارٹی کی طاقت غیر ذمہ دارانہ سودوں کو روکنے کا نتیجہ تھی۔
متوازی تناظر میں امریکی نیٹ ورک "سی این این” نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیو وٹ کوف اور امریکی قومی سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے امور کے کوآرڈینیٹر بریٹ مک گرک نے ملاقات کی۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، غزہ میں جنگ بندی کے لئے حماس اور غاصب صہیونی حکومت کے درمیان جاری مذاکرات کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں[1]۔
صہیونی چینل 12 نے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے ممکنہ معاہدے کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ معاہدے کی رو سے مختلف مراحل میں صہیونی یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔ پہلے دن 3 یرغمالی، ساتویں دن 4، چودھویں دن 3، اکیسویں دن مزید 3، اٹھائیسویں اور پینتیسویں دن بھی 3، 3 یرغمالی رہا کیے جائیں گے جبکہ آخری ہفتے میں باقی یرغمالی آزاد کیے جائیں گے۔
معاہدے کے پہلے مرحلے میں تقریباً 1000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا تاہم اس مرحلے میں حماس کے اعلی درجے کے قیدی شامل نہیں ہوں گے۔ اسی مرحلے میں غزہ کو روزانہ 600 امدادی ٹرک فراہم کیے جائیں گے اور صہیونی فوج نتساریم کے علاقے سے پیچھے ہٹ جائے گی۔ صہیونی چینل نے مزید کہا کہ 22 ویں روز سے غزہ کے رہائشی شمالی علاقے میں واپس جاسکیں گے۔ صہیونی فوج زیادہ تر فیلادلفیا سے پیچھے ہٹ جائے گی البتہ کچھ فوجی وہاں موجود رہیں گے۔
قطری اور مصری افواج پر مشتمل ایک ٹیم غزہ کے شمالی گزرگاہ پر گاڑیوں کی تلاشی لے گی۔ چینل12 کے مطابق معاہدے کا دوسرا مرحلہ 43 ویں روز شروع ہوگا اور 42 دن تک جاری رہے گا۔ عبرانی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ قطر کے وزیر اعظم جلد ہی ایک پریس کانفرنس میں غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کا باضابطہ اعلان کریں گے[2]۔
نیتن یاہو نے حماس کے سامنے شکست کے معاہدے پر دستخط کر دیئے

اسرائیلی انتہا پسند رہنماؤں اور کارکنوں نے صیہونی حکومت اور فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ " نیتن یاہو" نے حماس کے سامنے شکست کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر ہتھیار ڈالنے اور حماس تحریک کو تباہ کرنے کے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کا الزام لگایا۔
اسرائیل ہیوم اخبار کے رپورٹر ایریل کہانا نے کہا ہے کہ نیتن یاہو ایک سال اور تقریباً چار ماہ کی جنگ کے بعد حماس کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے برے وقت میں معاہدہ قبول کیا اور حماس کے خلاف مکمل فتح اور اس کی تباہی کے اپنے دعوؤں کے باوجود انہوں نے یہ کام کیا۔
اس صیہونی صحافی نے لکھا : "نتن یاہو نے پلک جھپکتے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور پیچھے ہٹ گئے۔ " ایک صیہونی شدت سیاسی کارکن "ایڈم گولڈ" نے بھی کہا ہے کہ "صرف احمق اور حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کرنے والے ہی اس طرح کے واقعات کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔"[3]۔
جنگ بندی معاہدہ فلسطینی عوام اور غزہ کے بہادر جانبازوں کی مزاحمت کا نتیجہ ہے
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ گزشتہ 15 مہینوں کے دوران فلسطینی عوام اور غزہ کے بہادر جانبازوں کی شاندار مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ حماس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ اور لڑائی کا خاتمہ فلسطینی عوام، مزاحمتی قوتوں، امت اسلامیہ اور دنیا بھر کے آزاد منش انسانوں کی کامیابی ہے۔
بیان میں جنگ بندی کو آزادی اور وطن واپسی کے لیے جاری جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل قرار دیا گيا ہے۔ بیان میں آیا ہے کہ یہ معاہدہ غزہ کے صبر اور استقامت کے حامل لوگوں کے دفاع، اس قوم کے خلاف صیہونی دشمن کی جارحیت اور جنگ بند کرانے اور ان کے خلاف جاری خونریزی، قتل و غارت اور نسل کشی کے سیلاب کو روکنے کے حوالے سے حماس کے احساس ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔
اس بیان میں حماس نے غزہ کے ساتھ یکجہتی، فلسطینی عوام کی حمایت اور صیہونی غاصب دشمن کے جرائم کو بے نقاب کرنے اور جنگ بندی کے حصول میں اپنا کردار ادا کرنے والے تمام عرب اور اسلامی ملکوں کی حکومتوں اور عوام کا شکریہ ادا کیا گيا ہے[4]۔
- ↑ غزہ میں مسلسل پندرہ ماہ کی نسل کشی کے بعد جنگ بندی معاہدےکا باضابطہ اعلان-شائع شدہ از: 16 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 جنوری 2025ء-
- ↑ حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات-شائع شدہ از: 15 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 جنوری 2025ء۔
- ↑ صیہونی: نیتن یاہو نے حماس کے سامنے شکست کے معاہدے پر دستخط کر دیئے- شائع شدہ از: 16 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 جنوری 2025ء۔
- ↑ جنگ بندی معاہدہ فلسطینی عوام اور غزہ کے بہادر جانبازوں کی مزاحمت کا نتیجہ ہے: حماس- شائع شدہ از: 16 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 جنوری 2025ء۔