سید حسن نصر اللہ

ویکی‌وحدت سے
سید حسن نصر اللہ
سید حسن نصر الله.jpg
پورا نامسید حسن نصر اللہ
دوسرے نامسید مقاومت
ذاتی معلومات
پیدائش1960 ء، 1338 ش، 1379 ق
پیدائش کی جگہلبنان
اساتذہسید عباس موسوی
مذہباسلام، شیعہ
مناصبحزب اللہ کے سیکرٹری جنرل

سید حسن نصر اللہ حزب اللہ لبنان کے بانی اور اس تنظیم کے موجودہ سربراہ ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم صور شہر میں حاصل کی اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ وہاں ان کی سید عباس موسوی اور سید محمد باقر الصدر سے ملاقات ہوئی۔ سید حسن نصر اللہ 1989ء میں حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے۔ آپ کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کے خلاف مقاومت ایک منظم ترین تنظیم کے طور پر ابھری۔ انہوں نے سیاسی، سماجی، ثقافتی، دینی تربیت، تعلقات عامہ اور ذرائع ابلاغ میں حزب اللہ کی صلاحیتوں اور فعالیت میں اضافہ کیا۔ 1992ء میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد آپ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ حزب اللہ سید حسن نصر اللہ کے دور قیادت میں بہت زیادہ کامبیاں حاصل کی ہیں اور حزب اللہ علاقائی طاقت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس وقت آپ نے پوری دنیا بالخصوص عرب ممالک میں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی ہیں۔

سوانح عمری

سید حسن نصر اللہ 1960ء میں جنوبی لبنان میں بیروت کے قریب ایک کیمپ میں ایک غریب خاندان کے گھر میں پیدا ہوا۔ آپ کے والد سید عبد الکریم پھیری لگا کر سبزی اور پھل فروخت کیا کرتے تھے۔ مالی حالت بہتر ہونے پر انہوں نے اپنے گھر کے قریب پھل اور سبزیوں کی ایک دکان کھول لی۔ ان کے والد نے دکان میں امام موسی صدر کی ایک تصویر آویزاں کر رکھی تھی۔ نصر اللہ فارغ وقت میں اپنے والد کا کاروبار میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپ دکان پر بیٹھنے کے دوران امام موسی صدر کی تصویر کو بڑے غور سے دیکھا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا دھیان اس تصویر پر رہا کرتا تھا۔ سید نصر اللہ کے بقول تصویر کو دیکھنے کے دوران وہ خوابوں کی وادی میں اتر جایا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ امام صدر کے نقش قدم پر چلیں۔

سید حسن بچپن سے ہی اپنے ہم عمر بچوں سے مختلف تھے۔ وہ عام بچوں کی طرح فٹ بال کھیلنے یا تیراکی میں کو‏ئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے بچپن کے زمانے میں قارطینہ میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت نواحی علاقوں سن الفیل، باروج، حمود اور نابع کے علاقے میں موجود مساجد میں گزارتے تھے۔ اپنے خاندان کے باقی ارکان کے برعکس وہ انتہائی مذہبی نوجوان تھے۔ جب حسن کی عمر نو سال ہوئی تو بیروت کے شہر کے شہداء چوک میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر ایرانی کتابوں کی دکانوں سے کتابیں خریدا کرتے تھے۔ ہر وہ کتاب پڑھنے کے شوقین تھے جو اسلام کے بارے میں ہو جب وہ ایک کتاب پڑھتے ہو‎‎ئے تھک جاتے تو اسے دوسری طرف رکھ کر نئی کتاب پڑھنا شروع کر دیتے۔ کتابیں پڑھتے پڑھتے یہ بچہ ایک خصوبصورت نوجوان میں تبدیل ہو گیا [1]۔

تعلیم

انہوں نے نجف سکول سے میڑک کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران 1975ء میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ان کا خاندان قاراطینہ سے ہجرت کرکے اپنے آبائی گاؤں منتقل ہو گیا۔ حسن نصر اللہ نے صور پبلک سکول سے بارہویں کا امتحان پاس کیا۔

تنظیمی زندگی

قاراطینہ سے ہجرت سے قبل ان کا خاندان ایک غیر سیاسی خاندان تھا۔ حالانکہ اس زمانے میں اس علاقے میں بہت ہی فلسطینیوں اور لبنانی سیاسی پارٹیاں سرگرم تھیں۔ بصوریہ میں قیام کے دوران انہوں نے الامل میں شرکت کرلی۔ الامل میں شرکت کا فیصلہ ایک فطری عمل تھا کیونکا وہ امام موسی صدر کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے۔ 15 سالہ لڑکا جلد ہی الامل میں اہم مقام حاصل کر گیا۔ انہیں تنظیم نے ان کے گاؤں کا نمائندہ منتخب کرلیا۔

حوزہ علمیہ نجف میں

صور شہر کی مسجد میں ان کی سید محمد الغاراوی سے ملاقات ہوئی جو اس زمانے میں مسجد سے ملحقہ مدرسے کے سربراہ تھے۔ انہوں نے الغاراوی سے عراق کے شہر نجف میں واقع ممتاز مذہبی تعلیم کے ادارے اہواز میں قرآنی تعلیمات کے حصول کے لیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اہواز کے مدرسے کی خوبی یہ ہے کہ وہاں ہر طالب علم کو اپنی مرضی کے مطابق استاد کے انتخاب کا حق حاصل ہوتا ہے۔ الغاراوی ممتاز عراقی مذہبی راہنما سید محمد باقر الصدر کے دوست تھے۔ انہوں نے نو عمر طالب علم کو ان کے نام کا ایک سفارش خط دیا۔ وہ بذریعہ ہوائی جہاز بغداد اور وہاں سے بس میں بیٹھ کر نجف پہنچے جب وہ نجف پنہچے تو ان کے پاس روٹی کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔

اس اجنبی شہر میں اللہ کے سوا کسی کی مدد حاصل نہ تھی۔ حسن نصر اللہ کے بقول اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے جو انکساری اور پاکپازی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ پانی کےساتھ روٹی کھاتے اور مسجد کی چھت پر رات کو سوتے۔ اہواز پہنچنے پر لبنانی شہریوں سے ملاقات کی اور سید محمد باقر الصدر تک خط پہنچانے کے طریقے کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا۔ ان کے ہم وطنوں نے مشورہ دیا کہ سید عباس موسوی واحد شخصیت ہیں جو سفارشی خط سید صدر تک پہنچا سکتے ہیں۔ انہون نے موسوی سے ملاقات کا فیصلہ کرلیا۔ پہلی نظر میں گہری رنگت کے حامل موسوی انہیں عراقی لگے۔ انہوں نے نہایت کلاسیک عربی زبان میں ان سے گفتگو شروع کی۔ موسوی کو جلد اندازہ ہو گیا کہ نوارد شاگرد انہیں عراقی تصور کر رہا ہے۔ انہوں نے سید حسن کو کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ لبنانی ہیں۔ نصر اللہ کی خواہش پر سید باقر الصدر نے موسوی کو ان کا استاد مقرر کیا۔ سید محمد الغاراوی کے سفارشی خط دیکھنے کے بعد شہید صدر نے ان سے پوچھا کہ ان کے پاس ضروریات زندگی کے لیے پیسے ہیں؟ حسن نصر اللہ نے جواب دیا کہ ان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ نصر اللہ کا جواب سن کر شہید صدر نے موسوی کو ہدایت کی انہیں رہنے کے لیے کمرہ مہیا کیا جائے اور ان کا خیال رکھا جائے۔ پھر سید باقر الصدر نے کپڑے اور کتابیں خریدنے کے لیے انہیں پیسے دئیے اور ان کی ضروریات زںدگی کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا۔

جید علماء سے ملاقاتیں

حسن نصر اللہ نے جید علماء اور سیاسی شخصیت سے ملاقاتیں کیں، ان میں روح اللہ خمینی جیسی عہد ساز شخصیت بھی شامل ہے۔ نجف میں قیام کے دوران مقتدی الصدر کے والد سید صادق الصدر سے بھی ملاقات ہوئی جو ان کے استاد تھے۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات آیت اللہ سید علی سیستانی سے بھی ہوئی۔

شادی

انہوں نے 1979ء میں شادی کی، ان کی بیوی کی ننھیالی عزیزہ ہیں، ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے ہادی نے 1997ء میں جنوب لبنان میں یہودیوں سے ایک جھڑپ میں جام شہادت نوش کیا۔

عراق سے ملک بدر

1978ء میں عراقی حکومت نے عراق میں تعلیم حاصل سینکڑوں لبنانی طلباء اور اساتذہ کو ملک بدر کردیا، ان میں نصر اللہ اور عباس موسوی بھی شام تھے۔ موسوی نے لبنان میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔ نصر اللہ نے اس مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور یہاں استاد بھی رہے۔ حوزہ علمیہ نجف میں 2 سالہ قیام نے نصر اللہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

اسرائیل کے مسلح جد و جہد کا آغاز

1982ء میں اسرائیل کے لبنان پر حملے کے خلاف مسلح جد و جہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے منتشر جہادی گروپوں کو متحد کیا اور حزب اللہ کا جہادی ونگ ترتیب دیا اور اسرائیل مخالف جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔

حوزہ علمیہ قم ایران میں

1987ء لبنان میں ایک بار پھر تشدد کی لہر پھیل گئی۔ انہوں نے حالات سے مایوس ہوکر اپنی مذہبی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایران چلے گئے جہاں انہوں نے قم کے عالمی شہرت کے حامل ادارے سے اسلامی قانون اور فقہ کی ڈگری حاصل کی۔ 1989ء میں لبنان واپس آگئے اور اپنی جہادی سرگرمیوں میں دوبارہ مصروف ہوگئے۔ انہیں ممتاز لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھنے کا انتہائی شوق ہے جن میں اسرائیلی رہنما ایریل شیرون اور ناتن یاہو بھی شامل ہیں۔ وہ اسرائیلی رہنماؤں کی سوانح عمریاں اس لیے پڑھتے تھے تاکہ وہ اپنے دشمن کے مقاصد اور ان کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ سکیں۔ لبنان واپسی پر شام کے لبنان میں کردار کے حوالے سے ان کے اپنے استاد اور حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کے ساتھ اختلافات شروع ہوگئے۔ موسوی لبنان میں شام کے کردار کے حامی جبکہ نصر اللہ اس کے مخالف تھے۔ نصر اللہ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ حزب اللہ نے پارٹی کے دو گروپوں میں تقسیم ہونے کے اندیشے کے پیش نظر، نصر اللہ کو حزب اللہ کا تہران میں نمائندہ مقرر کرکے ایران بھیج دیا۔ 1991ء میں عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اسی سال نصر اللہ بھی واپس آگئے لیکن اب شام کے بارے میں ان کے خیالات میں اعتدال آچکا تھا۔ 1992ء میں حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری موسوی اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں شہید ہوگئے اور ان کی جگہ حسن نصر اللہ کو حزب اللہ کا نیا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا [2]۔

طوفان الاقصی اور سید حسن نصر اللہ

لبنان کی عوامی تحریک حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے یوم شہداء کے موقع پر اپنے خطاب میں قدس کی غاصب اور جابر صیہونی حکومت کی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ استقامتی محاذ کو ہر میدان میں کامیابی مل رہی ہے اور اگر آج لبنان اور فلسطین میں استقامتی محاذ کی طاقت ہے تو وہ یقینی طور پر ایران کے دلیر اور بہادر حکمرانوں کے منطقی موقف اور شہید قاسم سلیمانی کی عظیم قربانی کی وجہ سے ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن جاری ہے اور استقامتی محاذ نے دشمن کے مختلف ٹھکانوں پر حملہ کیا اور دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا اور استقامتی محاذ کی کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ آج آپ کے بھائی اور بیٹے بلا خوف و خطر فرنٹ لائن پر جاکر دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں اور وہ شہادت پسندانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے مجاہدین کتنے بہادر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کے محاذ پر استقامتی محاذ کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور استقامتی محاذ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حملہ آور ڈرون کا استعمال کیا گیا اور وہ 200 سے 500 کلو تک دھماکہ خیز مواد صیہونیوں پر گراتے ہیں اور اسرائیل نہیں بتا رہا کہ اسے اب تک کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ان جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، یہ بڑے جرائم اسرائیل کی وحشیانہ انتقامی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں [3]۔

سید نصر اللہ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے!

صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل بہت ذہین شخص ہیں اور انہوں نے اسرائیلیوں کے حیران ہونے کی بابت خبردار کیا ہے۔ صیہونی حلقے لبنان اور فلسطین کی موجودہ صورتحال کے بارے میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے ذہین اور مبہم موقف سے پریشان ہیں۔ صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک کا کہنا ہے کہ سید حسن نصر اللہ بہت ہوشیار اور سمجھدار انسان ہیں اور وہ کوئی بھی اقدام کر کے اسرائیل کو حیران کر سکتے ہیں۔ ایہود باراک کا کہنا ہے کہ سید نصراللہ ایک ذہین شخص ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ ہمیں پرسکون کرکے کوئی حیران کن اقدام کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ اور غزہ کے ساتھ بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ غاصب حکومت کے سابق فوجی کمانڈر موشی شلونسکی کا کہنا تھا کہ اسرائیل، نصراللہ کی تقریر کے دباؤ میں تھا اور ان کی تقریر سے قبل ہیجانی کیفیت ہر جگہ محسوس کی گئی عبرانی میڈیا حیران، [4]۔

صیہونی حکومت مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے

حزب اللہ کے سربراہ نے جمعے کی شام بیروت میں مظلوم فلسطینی عوام کے حامیوں کے اجتماع عظیم سے خطاب میں کہا کہ زبان، غزہ اور غرب اردن کے عوام کی عظمت، استقامت اور پائیداری کی تعریف سے قاصر ہے۔ انہوں نے استقامتی فلسطینی محاذ کے طوفان الاقصی آپریشن کے بارے میں کہا کہ یہ آپریشن سوفیصد فلسطینی آپریشن ہے جس کی منصوبہ بندی اور تیاری کرنے والوں نے حتی استقامتی محور سے بھی اس کو خفیہ رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن اتنا عظیم، اتنا دلیرانہ اور اتنا کامیاب تھا کہ اس سے ایسا سیکورٹی، فوجی، سیاسی اور نفسیاتی زلزلہ آیا ہے کہ جس کے آثار صیہونی حکومت پر ہمیشہ باقی رہیں گے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کچھ بھی کرلے اس عظیم آپریشن کے اثرات اور نتائج کو کم نہیں کرسکتی۔ انھوں نے کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن نے ثابت کردیا کہ صیہونی حکومت مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ کہاں گئی وہ ناقابل شکست فوج؟ وہ اپنے اسلحے اور جنگی وسائل پر فخر کہاں گیا؟ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے پہلے ہی دن مقبوضہ فلسطین بھیجنے کے لئے اپنے اسلحے کے گودام کھول دیئے اور ان کی سپلائي کا اجازت نامہ صادرکردیا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی حکومت لبنان اور فلسطین کے استقامتی گروہوں سے مقابلے کے تجربات سے عبرت حاصل نہیں کررہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ایسے بڑے اہداف کا اعلان کرتی ہے جس کی انجام دہی ناممکن ہے۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ اس بار بھی صیہونی حکام نے اعلان کیا ہے کہ حماس کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ کوئی عاقل انسان یہ بات کرسکتا ہے؟ جب اس وہم سے باہر نکلے تو کہا کہ وہ صیہونی قیدیوں کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ آج غزہ اور فلسطین میں جو ہو رہا ہے وہ صیہونی حکام کی حماقت اور نادانی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس فوج کے پاس بھی چند جنگی طیارے اور چند میزائل ہوں وہ یہ کام کرسکتی ہے لیکن میدان جنگ میں اس سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کی تصاویر دیکھی جا رہی ہیں، یہ تصاویر صیہونیوں سے کہ رہی ہیں کہ غزہ میں کامیابی فلسطینی قوم کےلئے اور شکست دشمن کا مقدر ہے۔ انہوں نے کہا غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صیہونی حکومت کی وحشیانہ ماہیت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی عورتوں اور بچوں نے عرب اور بین الاقوامی میڈیا کے چہرے سے نقاب اتار پھینکی اور صیہونیوں سے روابط کو معمول پر لانے کی ان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا [5]۔

امریکہ کو حسن نصر اللہ کا انتباہ

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دے کر کہا کہ پہلے دن سے ہم امریکیوں کی دھمکیوں کو سنتے آ رہے ہیں کہ ہمیں بمباری اور گولہ باری کا نشانہ بنائیں گے لیکن ہم خوفزدہ نہیں ہیں۔ ہمارے اقدامات غزہ میں صیہونی دشمن کے اقدامات کے برابر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی دشمن جان لے کہ ہمارے سامنے تمام آپشنز موجود ہیں۔ ہمیں ہر صورتحال کےلئے تیار رہنا ہوگا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکیوں سے کہوں گا کہ تمہاری دھونس دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ تمہارے بحری بیڑے سے ہم نہ ڈرے ہیں نہ ڈریں گے۔ تمہارے بحری بیڑے کو ڈبونے کے لئے مناسب ہتھیار تیار کر رکھے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ جان لے کہ اگر جنگ پھیل گئی تو نہ تو تمہاری بحریہ تمہارے کام آئے گی نہ ہی تمہاری فضائیہ لہذا جنگ کو بند کرو جو تمہارے ہی کنٹرول میں ہے ورنہ اس کا نقصان براہ راست تمہارا ہوگا امریکہ کو [6]۔

فلسطین کی فتح یقینی ہے

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنان کی تحریک حزب اللہ کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ فلسطین کی فتح یقینی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات کی، اس ملاقات میں خطے بالخصوص غزہ کے حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ملاقات میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ نے کہا کہ فلسطینی مزاحمت کو آخرکار فتح حاصل ہوگی۔ انہوں نے رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی ٰسید علی خامنہ ای کی طرف سے غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کو سراہا، حسن نصر اللہ نے کہا کہ ناجائز صیہونی حکومت غزہ کے بحران میں انتہائی سنگین اسٹریٹجک بحران میں پھنسی ہوئی ہے، وہ جنگ میں اپنا ایک مقصد بھی حاصل نہیں کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین ضرور فتح یاب ہو گا [7]۔

موبائل فون اور سی سی ٹی وی کیمرے اسرائیلی جاسوس ہیں

سید حسن نصراللہ: موبائل فون اور سی سی ٹی وی کیمرے اسرائیلی جاسوس ہیں/ میں لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ انکا انٹرنیٹ بند کردیں۔

لبنان ، حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری سید حسن نصر اللہ نے یوم جانبازان کے موقع پر ایک تقریر میں فرمایا : کہ آپ کے اور آپ کے خاندان والوں کے ہاتھ میں موجود موبائل فون اصل جاسوس ہے اور آپ کے ہاتھ میں یہ موبائل فون ایک قاتل جاسوس ہے جو دشمن کو دقیق معلومات دیتا ہے اور ہمارے کمانڈروں کی لوکیشن دکھاتا ہے۔

سید مقاومت نے مزید فرمایا کہ براہ کرم اپنے آپ کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کے لیے دقت اور احتیاط کریں ؛ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادہ تر واقعات موبائل فون کی وجہ سے رونما ہوئے و اسرائیلی ان موبائل فونز کے ذریعے سب کچھ سمجھتے ہیں۔

سید مقاومت نے مزید کہا کہ اسرائیل کو جاسوسوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے جو کہ انٹرنیٹ کے ساتھ متصل ہے تمام شہروں، گلیوں اور مجاھدین کو دیکھ رہے ہیں۔

میں آخر میں تمام لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ گلی، محلے، سڑک اور فارمیسی وغیرہ کہ جس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں انکا انٹرنیٹ بند کردیں یہ واجب شرعی ہے۔ سید حسن نصر اللہ حزب اللہ لبنان کے بانی اور اس تنظیم کے موجودہ سربراہ ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم صور شہر میں حاصل کی اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ وہاں ان کی سید عباس موسوی اور سید محمد باقر الصدر سے ملاقات ہوئی۔ سید حسن نصر اللہ 1989ء میں حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے۔ آپ کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کے خلاف مقاومت ایک منظم ترین تنظیم کے طور پر ابھری۔ انہوں نے سیاسی، سماجی، ثقافتی، دینی تربیت، تعلقات عامہ اور ذرائع ابلاغ میں حزب اللہ کی صلاحیتوں اور فعالیت میں اضافہ کیا۔ 1992ء میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد آپ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ حزب اللہ سید حسن نصر اللہ کے دور قیادت میں بہت زیادہ کامبیاں حاصل کی ہیں اور حزب اللہ علاقائی طاقت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس وقت آپ نے پوری دنیا بالخصوص عرب ممالک میں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی ہیں۔ سوانح عمری

سید حسن نصر اللہ 1960ء میں جنوبی لبنان میں بیروت کے قریب ایک کیمپ میں ایک غریب خاندان کے گھر میں پیدا ہوا۔ آپ کے والد سید عبد الکریم پھیری لگا کر سبزی اور پھل فروخت کیا کرتے تھے۔ مالی حالت بہتر ہونے پر انہوں نے اپنے گھر کے قریب پھل اور سبزیوں کی ایک دکان کھول لی۔ ان کے والد نے دکان میں امام موسی صدر کی ایک تصویر آویزاں کر رکھی تھی۔ نصر اللہ فارغ وقت میں اپنے والد کا کاروبار میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپ دکان پر بیٹھنے کے دوران امام موسی صدر کی تصویر کو بڑے غور سے دیکھا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا دھیان اس تصویر پر رہا کرتا تھا۔ سید نصر اللہ کے بقول تصویر کو دیکھنے کے دوران وہ خوابوں کی وادی میں اتر جایا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ امام صدر کے نقش قدم پر چلیں۔

سید حسن بچپن سے ہی اپنے ہم عمر بچوں سے مختلف تھے۔ وہ عام بچوں کی طرح فٹ بال کھیلنے یا تیراکی میں کو‏ئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے بچپن کے زمانے میں قارطینہ میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت نواحی علاقوں سن الفیل، باروج، حمود اور نابع کے علاقے میں موجود مساجد میں گزارتے تھے۔ اپنے خاندان کے باقی ارکان کے برعکس وہ انتہائی مذہبی نوجوان تھے۔ جب حسن کی عمر نو سال ہوئی تو بیروت کے شہر کے شہداء چوک میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر ایرانی کتابوں کی دکانوں سے کتابیں خریدا کرتے تھے۔ ہر وہ کتاب پڑھنے کے شوقین تھے جو اسلام کے بارے میں ہو جب وہ ایک کتاب پڑھتے ہو‎‎ئے تھک جاتے تو اسے دوسری طرف رکھ کر نئی کتاب پڑھنا شروع کر دیتے۔ کتابیں پڑھتے پڑھتے یہ بچہ ایک خصوبصورت نوجوان میں تبدیل ہو گیا [1]۔ تعلیم

انہوں نے نجف سکول سے میڑک کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران 1975ء میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ان کا خاندان قاراطینہ سے ہجرت کرکے اپنے آبائی گاؤں منتقل ہو گیا۔ حسن نصر اللہ نے صور پبلک سکول سے بارہویں کا امتحان پاس کیا۔ تنظیمی زندگی

قاراطینہ سے ہجرت سے قبل ان کا خاندان ایک غیر سیاسی خاندان تھا۔ حالانکہ اس زمانے میں اس علاقے میں بہت ہی فلسطینیوں اور لبنانی سیاسی پارٹیاں سرگرم تھیں۔ بصوریہ میں قیام کے دوران انہوں نے الامل میں شرکت کرلی۔ الامل میں شرکت کا فیصلہ ایک فطری عمل تھا کیونکا وہ امام موسی صدر کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے۔ 15 سالہ لڑکا جلد ہی الامل میں اہم مقام حاصل کر گیا۔ انہیں تنظیم نے ان کے گاؤں کا نمائندہ منتخب کرلیا۔ حوزہ علمیہ نجف میں

صور شہر کی مسجد میں ان کی سید محمد الغاراوی سے ملاقات ہوئی جو اس زمانے میں مسجد سے ملحقہ مدرسے کے سربراہ تھے۔ انہوں نے الغاراوی سے عراق کے شہر نجف میں واقع ممتاز مذہبی تعلیم کے ادارے اہواز میں قرآنی تعلیمات کے حصول کے لیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اہواز کے مدرسے کی خوبی یہ ہے کہ وہاں ہر طالب علم کو اپنی مرضی کے مطابق استاد کے انتخاب کا حق حاصل ہوتا ہے۔ الغاراوی ممتاز عراقی مذہبی راہنما سید محمد باقر الصدر کے دوست تھے۔ انہوں نے نو عمر طالب علم کو ان کے نام کا ایک سفارش خط دیا۔ وہ بذریعہ ہوائی جہاز بغداد اور وہاں سے بس میں بیٹھ کر نجف پہنچے جب وہ نجف پنہچے تو ان کے پاس روٹی کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔

اس اجنبی شہر میں اللہ کے سوا کسی کی مدد حاصل نہ تھی۔ حسن نصر اللہ کے بقول اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے جو انکساری اور پاکپازی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ پانی کےساتھ روٹی کھاتے اور مسجد کی چھت پر رات کو سوتے۔ اہواز پہنچنے پر لبنانی شہریوں سے ملاقات کی اور سید محمد باقر الصدر تک خط پہنچانے کے طریقے کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا۔ ان کے ہم وطنوں نے مشورہ دیا کہ سید عباس موسوی واحد شخصیت ہیں جو سفارشی خط سید صدر تک پہنچا سکتے ہیں۔ انہون نے موسوی سے ملاقات کا فیصلہ کرلیا۔ پہلی نظر میں گہری رنگت کے حامل موسوی انہیں عراقی لگے۔ انہوں نے نہایت کلاسیک عربی زبان میں ان سے گفتگو شروع کی۔ موسوی کو جلد اندازہ ہو گیا کہ نوارد شاگرد انہیں عراقی تصور کر رہا ہے۔ انہوں نے سید حسن کو کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ لبنانی ہیں۔ نصر اللہ کی خواہش پر سید باقر الصدر نے موسوی کو ان کا استاد مقرر کیا۔ سید محمد الغاراوی کے سفارشی خط دیکھنے کے بعد شہید صدر نے ان سے پوچھا کہ ان کے پاس ضروریات زندگی کے لیے پیسے ہیں؟ حسن نصر اللہ نے جواب دیا کہ ان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ نصر اللہ کا جواب سن کر شہید صدر نے موسوی کو ہدایت کی انہیں رہنے کے لیے کمرہ مہیا کیا جائے اور ان کا خیال رکھا جائے۔ پھر سید باقر الصدر نے کپڑے اور کتابیں خریدنے کے لیے انہیں پیسے دئیے اور ان کی ضروریات زںدگی کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا۔ جید علماء سے ملاقاتیں

حسن نصر اللہ نے جید علماء اور سیاسی شخصیت سے ملاقاتیں کیں، ان میں روح اللہ خمینی جیسی عہد ساز شخصیت بھی شامل ہے۔ نجف میں قیام کے دوران مقتدی الصدر کے والد سید صادق الصدر سے بھی ملاقات ہوئی جو ان کے استاد تھے۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات آیت اللہ سید علی سیستانی سے بھی ہوئی۔ شادی

انہوں نے 1979ء میں شادی کی، ان کی بیوی کی ننھیالی عزیزہ ہیں، ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے ہادی نے 1997ء میں جنوب لبنان میں یہودیوں سے ایک جھڑپ میں جام شہادت نوش کیا۔ عراق سے ملک بدر

1978ء میں عراقی حکومت نے عراق میں تعلیم حاصل سینکڑوں لبنانی طلباء اور اساتذہ کو ملک بدر کردیا، ان میں نصر اللہ اور عباس موسوی بھی شام تھے۔ موسوی نے لبنان میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔ نصر اللہ نے اس مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور یہاں استاد بھی رہے۔ حوزہ علمیہ نجف میں 2 سالہ قیام نے نصر اللہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اسرائیل کے مسلح جد و جہد کا آغاز

1982ء میں اسرائیل کے لبنان پر حملے کے خلاف مسلح جد و جہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے منتشر جہادی گروپوں کو متحد کیا اور حزب اللہ کا جہادی ونگ ترتیب دیا اور اسرائیل مخالف جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ حوزہ علمیہ قم ایران میں

1987ء لبنان میں ایک بار پھر تشدد کی لہر پھیل گئی۔ انہوں نے حالات سے مایوس ہوکر اپنی مذہبی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایران چلے گئے جہاں انہوں نے قم کے عالمی شہرت کے حامل ادارے سے اسلامی قانون اور فقہ کی ڈگری حاصل کی۔ 1989ء میں لبنان واپس آگئے اور اپنی جہادی سرگرمیوں میں دوبارہ مصروف ہوگئے۔ انہیں ممتاز لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھنے کا انتہائی شوق ہے جن میں اسرائیلی رہنما ایریل شیرون اور ناتن یاہو بھی شامل ہیں۔ وہ اسرائیلی رہنماؤں کی سوانح عمریاں اس لیے پڑھتے تھے تاکہ وہ اپنے دشمن کے مقاصد اور ان کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ سکیں۔ لبنان واپسی پر شام کے لبنان میں کردار کے حوالے سے ان کے اپنے استاد اور حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کے ساتھ اختلافات شروع ہوگئے۔ موسوی لبنان میں شام کے کردار کے حامی جبکہ نصر اللہ اس کے مخالف تھے۔ نصر اللہ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ حزب اللہ نے پارٹی کے دو گروپوں میں تقسیم ہونے کے اندیشے کے پیش نظر، نصر اللہ کو حزب اللہ کا تہران میں نمائندہ مقرر کرکے ایران بھیج دیا۔ 1991ء میں عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اسی سال نصر اللہ بھی واپس آگئے لیکن اب شام کے بارے میں ان کے خیالات میں اعتدال آچکا تھا۔ 1992ء میں حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری موسوی اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں شہید ہوگئے اور ان کی جگہ حسن نصر اللہ کو حزب اللہ کا نیا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا [2]۔ طوفان الاقصی اور سید حسن نصر اللہ

لبنان کی عوامی تحریک حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے یوم شہداء کے موقع پر اپنے خطاب میں قدس کی غاصب اور جابر صیہونی حکومت کی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ استقامتی محاذ کو ہر میدان میں کامیابی مل رہی ہے اور اگر آج لبنان اور فلسطین میں استقامتی محاذ کی طاقت ہے تو وہ یقینی طور پر ایران کے دلیر اور بہادر حکمرانوں کے منطقی موقف اور شہید قاسم سلیمانی کی عظیم قربانی کی وجہ سے ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن جاری ہے اور استقامتی محاذ نے دشمن کے مختلف ٹھکانوں پر حملہ کیا اور دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا اور استقامتی محاذ کی کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ آج آپ کے بھائی اور بیٹے بلا خوف و خطر فرنٹ لائن پر جاکر دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں اور وہ شہادت پسندانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے مجاہدین کتنے بہادر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کے محاذ پر استقامتی محاذ کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور استقامتی محاذ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حملہ آور ڈرون کا استعمال کیا گیا اور وہ 200 سے 500 کلو تک دھماکہ خیز مواد صیہونیوں پر گراتے ہیں اور اسرائیل نہیں بتا رہا کہ اسے اب تک کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ان جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، یہ بڑے جرائم اسرائیل کی وحشیانہ انتقامی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں [3]۔ سید نصر اللہ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے!

صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل بہت ذہین شخص ہیں اور انہوں نے اسرائیلیوں کے حیران ہونے کی بابت خبردار کیا ہے۔ صیہونی حلقے لبنان اور فلسطین کی موجودہ صورتحال کے بارے میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے ذہین اور مبہم موقف سے پریشان ہیں۔ صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک کا کہنا ہے کہ سید حسن نصر اللہ بہت ہوشیار اور سمجھدار انسان ہیں اور وہ کوئی بھی اقدام کر کے اسرائیل کو حیران کر سکتے ہیں۔ ایہود باراک کا کہنا ہے کہ سید نصراللہ ایک ذہین شخص ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ ہمیں پرسکون کرکے کوئی حیران کن اقدام کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ اور غزہ کے ساتھ بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ غاصب حکومت کے سابق فوجی کمانڈر موشی شلونسکی کا کہنا تھا کہ اسرائیل، نصراللہ کی تقریر کے دباؤ میں تھا اور ان کی تقریر سے قبل ہیجانی کیفیت ہر جگہ محسوس کی گئی عبرانی میڈیا حیران، [4]۔ صیہونی حکومت مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے

حزب اللہ کے سربراہ نے جمعے کی شام بیروت میں مظلوم فلسطینی عوام کے حامیوں کے اجتماع عظیم سے خطاب میں کہا کہ زبان، غزہ اور غرب اردن کے عوام کی عظمت، استقامت اور پائیداری کی تعریف سے قاصر ہے۔ انہوں نے استقامتی فلسطینی محاذ کے طوفان الاقصی آپریشن کے بارے میں کہا کہ یہ آپریشن سوفیصد فلسطینی آپریشن ہے جس کی منصوبہ بندی اور تیاری کرنے والوں نے حتی استقامتی محور سے بھی اس کو خفیہ رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن اتنا عظیم، اتنا دلیرانہ اور اتنا کامیاب تھا کہ اس سے ایسا سیکورٹی، فوجی، سیاسی اور نفسیاتی زلزلہ آیا ہے کہ جس کے آثار صیہونی حکومت پر ہمیشہ باقی رہیں گے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کچھ بھی کرلے اس عظیم آپریشن کے اثرات اور نتائج کو کم نہیں کرسکتی۔ انھوں نے کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن نے ثابت کردیا کہ صیہونی حکومت مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ کہاں گئی وہ ناقابل شکست فوج؟ وہ اپنے اسلحے اور جنگی وسائل پر فخر کہاں گیا؟ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے پہلے ہی دن مقبوضہ فلسطین بھیجنے کے لئے اپنے اسلحے کے گودام کھول دیئے اور ان کی سپلائي کا اجازت نامہ صادرکردیا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی حکومت لبنان اور فلسطین کے استقامتی گروہوں سے مقابلے کے تجربات سے عبرت حاصل نہیں کررہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ایسے بڑے اہداف کا اعلان کرتی ہے جس کی انجام دہی ناممکن ہے۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ اس بار بھی صیہونی حکام نے اعلان کیا ہے کہ حماس کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ کوئی عاقل انسان یہ بات کرسکتا ہے؟ جب اس وہم سے باہر نکلے تو کہا کہ وہ صیہونی قیدیوں کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ آج غزہ اور فلسطین میں جو ہو رہا ہے وہ صیہونی حکام کی حماقت اور نادانی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس فوج کے پاس بھی چند جنگی طیارے اور چند میزائل ہوں وہ یہ کام کرسکتی ہے لیکن میدان جنگ میں اس سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کی تصاویر دیکھی جا رہی ہیں، یہ تصاویر صیہونیوں سے کہ رہی ہیں کہ غزہ میں کامیابی فلسطینی قوم کےلئے اور شکست دشمن کا مقدر ہے۔ انہوں نے کہا غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صیہونی حکومت کی وحشیانہ ماہیت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی عورتوں اور بچوں نے عرب اور بین الاقوامی میڈیا کے چہرے سے نقاب اتار پھینکی اور صیہونیوں سے روابط کو معمول پر لانے کی ان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا [5]۔ امریکہ کو حسن نصر اللہ کا انتباہ

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دے کر کہا کہ پہلے دن سے ہم امریکیوں کی دھمکیوں کو سنتے آ رہے ہیں کہ ہمیں بمباری اور گولہ باری کا نشانہ بنائیں گے لیکن ہم خوفزدہ نہیں ہیں۔ ہمارے اقدامات غزہ میں صیہونی دشمن کے اقدامات کے برابر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی دشمن جان لے کہ ہمارے سامنے تمام آپشنز موجود ہیں۔ ہمیں ہر صورتحال کےلئے تیار رہنا ہوگا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکیوں سے کہوں گا کہ تمہاری دھونس دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ تمہارے بحری بیڑے سے ہم نہ ڈرے ہیں نہ ڈریں گے۔ تمہارے بحری بیڑے کو ڈبونے کے لئے مناسب ہتھیار تیار کر رکھے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ جان لے کہ اگر جنگ پھیل گئی تو نہ تو تمہاری بحریہ تمہارے کام آئے گی نہ ہی تمہاری فضائیہ لہذا جنگ کو بند کرو جو تمہارے ہی کنٹرول میں ہے ورنہ اس کا نقصان براہ راست تمہارا ہوگا امریکہ کو [6]۔ فلسطین کی فتح یقینی ہے

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنان کی تحریک حزب اللہ کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ فلسطین کی فتح یقینی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات کی، اس ملاقات میں خطے بالخصوص غزہ کے حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ملاقات میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ نے کہا کہ فلسطینی مزاحمت کو آخرکار فتح حاصل ہوگی۔ انہوں نے رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی ٰسید علی خامنہ ای کی طرف سے غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کو سراہا، حسن نصر اللہ نے کہا کہ ناجائز صیہونی حکومت غزہ کے بحران میں انتہائی سنگین اسٹریٹجک بحران میں پھنسی ہوئی ہے، وہ جنگ میں اپنا ایک مقصد بھی حاصل نہیں کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین ضرور فتح یاب ہو گا [7]۔ موبائل فون اور سی سی ٹی وی کیمرے اسرائیلی جاسوس ہیں

سید حسن نصراللہ: موبائل فون اور سی سی ٹی وی کیمرے اسرائیلی جاسوس ہیں/ میں لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ انکا انٹرنیٹ بند کردیں۔

لبنان ، حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری سید حسن نصر اللہ نے یوم جانبازان کے موقع پر ایک تقریر میں فرمایا : کہ آپ کے اور آپ کے خاندان والوں کے ہاتھ میں موجود موبائل فون اصل جاسوس ہے اور آپ کے ہاتھ میں یہ موبائل فون ایک قاتل جاسوس ہے جو دشمن کو دقیق معلومات دیتا ہے اور ہمارے کمانڈروں کی لوکیشن دکھاتا ہے۔

سید مقاومت نے مزید فرمایا کہ براہ کرم اپنے آپ کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کے لیے دقت اور احتیاط کریں ؛ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادہ تر واقعات موبائل فون کی وجہ سے رونما ہوئے و اسرائیلی ان موبائل فونز کے ذریعے سب کچھ سمجھتے ہیں۔

سید مقاومت نے مزید کہا کہ اسرائیل کو جاسوسوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے جو کہ انٹرنیٹ کے ساتھ متصل ہے تمام شہروں، گلیوں اور مجاھدین کو دیکھ رہے ہیں۔

میں آخر میں تمام لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ گلی، محلے، سڑک اور فارمیسی وغیرہ کہ جس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں انکا انٹرنیٹ بند کردیں یہ واجب شرعی ہے۔

دشمن کے سینئر ماہرین سٹریٹجک نقصانات کا اعتراف کرتے ہیں

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے آج رمضان المبارک کے لیے قرآنی شاموں کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ پر جارحیت، اور لبنان، یمن اور عراق میں حمایتی محاذوں پر [جارحیت] کا مقابلہ کرنے کے چھٹے مہینے میں داخل ہو چکے ہیں۔


غزہ، جو ایک معجزے کے قریب ایک منظر میں مزاحمت کرتا ہے، لڑتا ہے اور برداشت کرتا ہے، اور دنیا کو حیران کر دیتا ہے، قرآن کی ثقافت ہے، اور یہ پوری دنیا کے لیے ایک آسمانی دلیل ہے۔ دشمن کے سینئر ماہرین سٹریٹجک نقصانات کا اعتراف کرتے ہیں اور آج چھٹے مہینے میں نیتن یاہو یہ کہنے کے لیے کھڑا ہے کہ اگر ہم رفح میں داخل نہ ہوئے تو ہم جنگ ہار چکے ہیں۔


ہم نیتن یاہو سے کہتے ہیں کہ اگر آپ رفح میں داخل ہو جائیں تو بھی آپ جنگ ہار چکے ہیں، اور آپ تمام قتل عام کے باوجود حماس یا غزہ میں مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتے۔ عرب چینلز کے تمام کرداروں کے باوجود غزہ کے لوگ اب بھی مزاحمت کو گلے لگا رہے ہیں، جو بدقسمتی سے غزہ کی پٹی کی صورتحال پر کوئی مربوط اور ٹھوس موقف برقرار نہیں رکھ سکے۔


تمام فلسطینی دھڑے متحد ہیں اور حماس ان سب کی طرف سے مذاکرات کر رہی ہے اور غزہ کی جارحیت کے خاتمے کی بھی خواہش ہے۔ غزہ میں مزاحمت کی پوزیشن جب وہ جارحیت کے حتمی خاتمے پر اصرار کرتی ہے تو وہ مکمل طور پر درست انسانی، جہادی، قانونی اور سیاسی پوزیشن ہے۔ قلم کی ضرب سے امریکی صدر جو بائیڈن غزہ اور لبنان پر جارحیت روک سکتے ہیں۔ نہ امریکی، نہ انگریز اور نہ ہی ان کے پیچھے آنے والے یورپی، یمنی بھائیوں کو مقبوضہ فلسطین کی طرف جانے والے بحری جہازوں پر حملہ کرنے سے روک سکے۔ عراق میں اسلامی مزاحمت اور اس کی طرف سے ڈرون اور راکٹ بھیجنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔


اسرائیلی فوج کے پاس 5 ماہ کے بعد تعداد کی کمی ہے اور وہ 14,500 افسران اور سپاہیوں کو بھرتی کرنا چاہتی ہے اور حتیٰ کہ حریم کو بھی بھرتی کرنا چاہتی ہے۔ "اسرائیلی" فوج آج تمام محاذوں پر تھک چکی ہے، اور اس کی ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو اعلان کیا گیا تھا اس سے کہیں زیادہ ہے [8] ۔

طوفان الاقصی کی برکت سے اس سال عالمی یوم القدس منفرد ہوگا

حزب اللہ کے سربراہ نے "منبر القدس" اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین اور خطے میں حریت پسندوں نے طوفان برپا کردیا ہے جو وقت کے ساتھ مزید طاقتور ہوگا۔ لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے "منبر القدس" اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حریت پسندوں نے فلسطین اور مشرق وسطی سمیت پوری دنیا میں طوفان برپا کردیا ہے جو وقت کے ساتھ مزید وسیع اور طاقتور ہوگا۔ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کی بنیادوں کو ہلادیا ہے۔ اس زلزلے میں دنیا میں صہیونی حکومت کی جعلی شان و شوکت تباہ ہوگئی ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ: غزہ میں مقاومت کی کامیابیاں قابل قدر ہیں جبکہ غرب اردن میں بھی غاصب صہیونیوں کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوری ایران نے فلسطینی عوام اور مقاومت کی حمایت میں استقامت کا مظاہرہ کیا۔ شام نے بھی خطرات میں گھرے مجاہدین کے ساتھ تعاون کیا جو قابل قدر ہے۔

صہیونی حکومت جنگ بندی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی ہے۔ صہیونی مظالم کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ مقاومت ہے۔ ہم نے اسی ہدف کے تحت طوفان الاقصی برپا کردیا ہے جوکہ ہمارا وظیفہ ہے۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا: یوم القدس کے دن امریکہ اور اسرائیل کو ہونے والے نقصانات کے بارے میں آگاہ کرنا چاہئے کیونکہ ذرائع ابلاغ میں دشمن کی جانب سے حقائق کو برعکس دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خطے کے بعض منافقین غزہ میں ہونے والے جانی نقصانات کو زیادہ نمایاں کرکے مقاومت کو ملنے والی کامیابیاں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں[9]۔

ایران کا ردعمل یقینی ہے

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ دشمن ایرانی قونصل خانے پر حملے کے بارے میں اپنے اندازوں میں غلطی اور حماقت کا شکار ہوگیا ہے اور یہ مسئلہ ایران کے موقف اور اس ملک کی جانب سے متوقع ردعمل سے ظاہر ہوا ہے۔

لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والے جنرل زاہدی اور ان کے ساتھیوں کی یاد میں بیروت میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر شہید زاہدی کی پیشہ ورانہ فعالیت کو بیان کر دیا جائے تو ہمیں دیگر اہم کمانڈروں کی شناخت ظاہر ہونے کا خوف دامن گیر ہے اور اگر ہم ان کی فعالیتوں کو کھول کر بیان نہ کریں تو شاید یہ شہید کے ساتھ انصاف کے زمرے میں آئے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا: شام اور لبنان میں سپاہ پاسداران کی موجودگی 1982 میں لبنان میں اسرائیل کی چڑھائی سے متعلق ہے۔ امام خمینی اس وقت حیات تھے اور ایران پر مسلط کردہ جنگ جاری تھی۔ اس وقت پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر محاذوں پر تھے لیکن اس کے باوجود وہ صیہونی جارحیت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لئے لبنان اور شام آگئے تھے۔

انہوں نے کہا: کہ ایرانی فوجیں شام میں الزبادانی پہنچیں لیکن حالات کے جائزے کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کا ایک گروپ عوامی مزاحمت کی حوصلہ افزائی، تجربے کی منتقلی، فوجی مشاورت، ٹریننگ اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرے۔ لہذا اہم افسران اور جوانوں پر مشتمل گروپ لبنان کے جنتا علاقے میں آئے اور اس علاقے میں پہلا تربیتی کیمپ قائم کیا گیا۔

شام پر صیہونی رجیم کا سب سے بڑا حملہ

حسن نصر اللہ مزید کہا: کہ قابض رجیم نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کو نشانہ بنایا اور ایرانی فوجی مشیر شہید ہوگئے۔ یہ حملہ ایک سفارتی مقام پر کیا گیا جس پر حتی امریکہ اور بعض یورپی ممالک کو بھی تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ شام کے خلاف اسرائیل کی سب سے بڑی جارحیت ہے۔ یہ حملہ شام کے ساتھ جنگ میں شکست کی وجہ سے کیا گیا ہے جس میں اسرائیل نے بھی کردار ادا کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شام میں ایرانی فوجی مشیروں پر حملہ سب سے واضح اور بنیادی ​​کا حصہ ہے۔ ایرانی مشیروں پر اسرائیل کے حملے کے دو اہم پہلو ہیں۔ پہلی جہت ایران کی سرزمین پر حملہ ہے جس کا مطلب ایران پر حملہ ہے۔ دوسری جہت دہشت گردی کی ہے۔ کیونکہ شہید زاہدی لبنان اور شام میں ایرانی فوجی مشیروں کے سربراہ تھے۔

امریکہ، اسرائیل اور پوری دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ ایران کا ردعمل حتمی ہے اور یہ اس ملک کا حق ہے۔

حسن نصر اللہ نے کہا کہ دشمن نے کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے اور ایرانی افواج پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایرانی مشیروں کو نشانہ بنا رہا ہے جنہوں نے خطے میں مزاحمت کے لئے عظیم خدمات انجام دی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے مزاحمت کی سطح پر خطے میں موجود فوجی مشیروں کے کردار کو سمجھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ دشمن نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں کا مقصد ایرانی مشیروں کو شام سے نکال باہر کرنا ہے لیکن اس مقصد کے لیے جو خون بہایا گیا اس کے باوجود وہ اسے حاصل نہ کرسکا اور وہ فلسطین اور لبنان میں مزاحمت اور شام کی حمایت میں مزید ڈٹے رہے[10]۔

اسرائیلی ریاست خوف کے مارے غزہ سے انخلاء سے گریز کر رہی ہے

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل اور سید المقاومہ سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کے کمانڈر سید مصطفیٰ بدرالدین کی شہادت کی برسی کے موقع پر خطاب کیا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

  • محاذ جنگ میں صابر اور بہادر مجاہدوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو بہادری، شجاعت، قوت، عزم، حوصلے، جذبے اور یقین کے حیرت انگیز مناظر کی تخلیق میں مصروف ہیں۔
  • اگر صہیونی ریاست رفح میں داخل ہو بھی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مقاومت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ملت فلسطین غاصبوں کے خلاف مزاحمت سے دستبردار ہو چکی ہے۔
  • کسی کو بھی ان دنوں کی صہیونی ـ امریکی نمائشوں کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے، امریکہ بدستور "اسرائیل" کے ساتھ ہے۔
  • طوفان الاقصیٰ نے مغرب کے جھوٹ اور فریب کو عیاں اور مغربی تہذیب کا کریہ چہرہ بے نقاب کر دیا۔
  • جو کچھ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرنے اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں صہیونیوں کے خلاف عدالتی اقدامات کے خلاف امریکی اقدامات اور دھونس دھمکیوں کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کی حمایت امریکہ کی اٹل پالیسی ہے۔
  • صرف دو راستے دشمن کے سامنے ہیں: یا تو حماس کی تسلیم کردہ تجاویز پر عمل کرے یا پھر جنگ جاری رکھنے کی صورت میں، طویل اور فرسودہ کر دینے والی جنگ کا سامنا کرے، جو کہ جعلی ریاست کو نگل لے گی۔
  • شہید الحاج قاسم سلیمانی، شہید محمد رضا زاہدی، شہید سید حجازی، شہید سید رضی موسوی اور سپاہ پاسداران کے دوسرے شہید کمانڈر، "اسرائیل" کے خلاف اقدامات میں ہمیشہ ہمارے ساتھ تھے اور ہماری مدد کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگیاں اسی راستے میں بسر کی ہیں۔
  • جو مقاومت و مزاحمت آج دشمن کے خلاف بر سر پیکار ہے، سابقہ، موجودہ اور مستقبل کے کمانڈروں اور مجاہدوں کی جانفشانیوں کا ثمرہ ہے۔
  • طوفان الاقصیٰ کا اصل مقصد مسئلۂ فلسطین کو زندہ کرنا اور زندہ رکھنا تھا۔
  • شہید سید مصطفیٰ بدرالدین نے اعزاز و افتخار کے کئی عظیم تمغے جیتے ہیں: وہ مجاہد تھے، اسیری کاٹ چکے تھے، کمانڈر تھے اور آخرکار سب سے عظیم تمغہ بھی اپنے سینے پر سجایا جو تمغۂ شہادت ہے، شہید سلیمانی، شہید زاہدی، شہید حجازی اور سید بدرالدین جیسے شہداء نے اپنے فرائض کو بطور احسن نبھایا ہے۔
  • سید بدرالدین شام میں شہید ہوئے، امریکہ شام پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اور اسے خانہ جنگی کے ذریعے اپنے قابو میں لانا چاہتا تھا لیکن شام نے اپنے اوپر مسلط کردہ عالمی جنگ کو ناکام بنا دیا، اور آج شام ایک مستقل، خودمختار ملک کے طور پر اپنی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔
  • شام اپنے لئے درپیش مسائل کے باوجود فلسطین کی حمایت کے حوالے سے اپنے تزویراتی موقف پر قائم ہے۔ شام غاصب ریاست کے خلاف مزاحمت اور محور مقاومت کے مختلف محاذوں کی حمایت کے اصلی مراکز میں سے ایک ہے۔ شام، لبنان، ایران، لبنان، عراق اور یمن کے حامی محآذ غزہ میں جاری مقاومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ چنانچہ سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کرکے فلسطینی مقاومت نے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر زندہ اور فعال کر دیا۔
  • فلسطین اور فلسطینیوں کا نام اور غزہ کا نام آج پوری دنیا کے باسیوں کی زبان پر ہے اور پوری دنیا والے فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے بارے میں اظہار خیال کر رہے ہیں۔
  • آج فلسطین دنیا کا پہلا مسئلہ ہے اور یہ ایک حقیقی فتح ہے۔ فلسطین نے سیاسی میدان میں ناقابل انکار فتح حاصل کی ہے، اور اگر مقاومت، استقامت اور جانفشانی نہ ہوتی تو یہ سیاسی فتح حال نہ ہو پاتی۔
  • فلسطین اور غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے بارے میں "اسرائیلیوں" اور امریکیوں کی جھوٹی تشہیری مہم کے باوجود، 140 سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ میں جنگ کے خاتمے اور اس عالمی ادارے میں فلسطین کی مکمل رکنیت کا مطالبہ کیا۔ صہیونیوں کے مستقل مندوب کے لئے یہ واقعہ اعصاب شکن تھا۔
  • جعلی ریاست کے نمائندے نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی مستقل رکنیت کے 140 سے زائد ممالک کے مطالبے کے بعد، اپنی ریاست کی انتہائی بے بسی اور کمزوری اور شکست کا عینی ترین اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے منشور کو پھاڑ دیا، اور ابو ابراہیم "یحیی السنوار" کی تصویر اٹھا کر کہا کہ یہ فلسطین کے اگلے سربراہ ہونگے!! اس کا یہ اقدام اخلاقی طور پر تباہ شدہ ریاست کے سیاسی زوال کا اعلان تھا۔
  • شرم کی بات ہے کہ اسی وقت، جبکہ غزہ پر صہیونی جارحیت جاری ہے، غزہ کا 70 فیصد حصہ تباہ ہو چکا ہے، 35000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور صہیونیوں نے رفح پر جارحیت کا آغاز کیا ہے، بعض عرب ممالک کے سیٹلائٹ چینل صہیونی دشمن کو ہمارے علاقے کی جمہوری ترین ریاست قرار دے رہے ہیں اور صہیونیوں کی چاپلوسی میں مصروف ہیں۔
  • عرب حکمران صہیونی دشمن کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے عمل کے دوران مسئلۂ فلسطین کی دستاویزات پر دستخط کرنا چاہتے تھے۔
  • فلسطینی مقاومت نے دنیا کو فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں بات کرنے پر مجبور کیا جیسا منافق امریکہ کو بھی فلسطینی ریاست کے بارے میں بولنے پر مجبور کیا۔
  • مقاومت کے مجاہدین کے کارناموں کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں "اسرائیل" کا چہرہ ایک ایسی ریاست کا چہرہ بنا ہؤا ہے جو بچوں اور خواتین کو قتل کرتی ہے، بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتی ہے اور اخلاقی اور انسانی اقدار کو پاؤں تلے روند رہی ہے۔
  • امریکی اور زیادہ تر یورپی ممالک میں طلبہ کے مظاہروں اور احتجاجی اقدامات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہ فلسطین کا پرچم لہراتے ہیں اور فلسطین کی مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور یہ در حقیقت طوفان الاقصیٰ کے نتائج اور اثرات میں سے ایک ہے، اسی وجہ سے طلبہ کے احتجاج نے نیتن یاہو اور امریکی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔
  • اگر ہم جاری جنگ کے نتائج کا جائزہ لینا چاہیں تو دشمن کے ذرائع ابلاغ پر ایک نظر ڈالنا چاہئے جو نیتن یاہو اور صہیونی فوج کی بدترین شکست کے بارے میں لکھ رہے ہیں، اور بول رہے ہیں۔
  • غزہ کی جنگ آٹھ مہینوں سے جاری ہے، اور اس جنگ نے صہیونی ریاست کو عظیم تزویراتی نقصانات اور ناکامیوں سے دوچار کیا ہے۔
  • دشمن آٹھ مہینے گذرنے کے باوجود اپنے اعلان کردہ مقاصد میں سے کسی ایک کو بھی حاصل نہیں کر سکا ہے۔
  • اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ غاصب ریاست اعتراف کر رہی ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور 70 فیصد "اسرائیلی" صہیونی فوج کے سربراہوں کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
  • صہیونی ریاست نے ثابت کرکے دکھایا ہے کہ یہ ریاست ایک بے بس، شکست خوردہ اور ناقابل اعتماد ریاست ہے اور سروے رپورٹوں کے مطابق، جنگ کا کوئی پیش منظر نہ ہونے کی وجہ سے، نوآبادکار یہودی نیتن یاہو اور اس کے رفقائے کار کی برطرفی پر اصرار کر رہے ہیں۔
  • اسرائیل رقح میں داخل ہونے سے پہلی ہی بھاگنے کا منصوبہ بنا رہا ہے!
  • -اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے سفارت خانے پر "اسرائیلی" حملے کے بعد دنیا کو للکار کر آپریشن "وعدہ صادق" سر انجام دیا، اور صہیونیوں کی تسدیدی صلاحیت (Deterrence capability) ہمیشہ کے لئے ختم ہوئی۔ اور اب صہیونی فوج کے جرنیل کہتے ہیں کہ نیتن یاہو جنگ پر اصرار کرکے اسرائیل کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ "اسرائیلیوں" کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ وہ غزہ سے نکلنے سے بھی عاجز ہیں، اور یہ بجائے خود ایک بڑی شکست ہے جبکہ غزہ سے انخلاء اس ریاست کے وجود کے لئے المیہ ہے۔
  • دشمن نے غزہ کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد، چارہ کار کے طور پر رفح کی طرف یلغار کی ہے، وہ رفح پر حملے جاری رکھ کر نوآبادکار یہودیوں اور اپنے علاقائی اور بین الاقوامی حامیوں کو جتانا چاہتا ہے کہ گویا وہ اس جنگ میں کامیابی کی طرف گامزن ہے! لیکن ان کے اقدامات سیاسی اور فوجی ناکامی کی نشاندہی کر رہے ہیںاور اب وہ اس شکست سے بھاگنے کی سعی کر رہے ہیں۔
  • امریکہ کی طرف سے ہتھیاروں کی ترسیل پر قدغن، ایک بڑا جھوٹ اور فریب ہے۔
  • مصر اور قطر نے ایک ورق حماس کے سپرد کیا جس پر لکھے ہوئے مسودے سے امریکہ اور اسرائیل نے پہلے ہی اتفاق کر دیا تھا، وہ سمجھ رہے تھے کہ حماس سمجھوتے کے اس مسودے کو مسترد کرے گی لیکن حماس کے راہنماؤں نے اسی مسودے سے اتفاق کرکے دشمن کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، نیتن یاہو کو دھچکا لگا کیونکہ یہی مسودے کے ساتھ حماس کا اتفاق "اسرائیل" کے لئے عظیم ناکامی کا ثبوت تھا؛ چنانچہ "اسرائیل" نے عہد شکنی کی اور امریکہ بھی "اسرائیلیوں" کی عہدشکنی پر اظہار خیال کرنے سے پرہیز کر رہا ہے!
  • مسئلہ یہ ہے کہ "اسرائیل" کو یا تو یہ مسودہ قبول کرنا پڑے گا یا پھر وہ ایک نہ ختم ہونے والی اور فرسودہ کر دینے والی جنگ کو جاری رکھے کا؛ "اسرائیل" کے ساتھ جنگ محور مقاومت کی آرزو ہے اور مقاومت کے لئے یہ جنگ تقدیر سازہے۔
  • لبنان کا حامی محاذ غزہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اسی بنا پر امریکیوں نے نیتن یاہو سے کہا کہ جب تک کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوگی شمالی محاذ بھی اسی طرح گرم رہے گا

[11]۔

حوالہ جات

  1. محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء،ص47
  2. سید شفقت شیرازی، حزب اللہ لبنان تاسیس سے فتوحات تک،الباقر پبلی کیشنز، اسلام آباد، 2021ء، ص310
  3. استقامتی محاذ کے مجاہدین بلا خوف و خطر فرنٹ لائن پر دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں: سید حسن نصر اللہ، sahartv.ir
  4. سید نصر اللہ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے!urdu.sahartv.ir
  5. سیدحسن نصراللہ: غزہ کے عوام کی استقامت کی قدردانی، صیہونی حکومت کچھ بھی کرے طوفان الاقصی آپریشن کے نتائج کو کم نہیں کرسکتی، urdu.sahartv.ir
  6. سیدحسن نصراللہ کا انتباہ، جنگ بند کرو ورنہ اس کا نقصان براہ راست تمہارا ہوگا، urdu.sahartv.ir
  7. جیت صرف فلسطینیوں کی ہوگی:حسن نصراللہ، ur.hawzahnews.co
  8. بعثت خبر 14 مارچ 2024
  9. طوفان الاقصی کی برکت سے اس سال عالمی یوم القدس منفرد ہوگا، حسن نصراللہmehrnews.com-شائع شدہ:2اپریل 2024ء- اخذ شدہ:5اپریل 2024ء
  10. ایران کا ردعمل یقینی ہے، سید حسن نصراللہ mehrnews.com-شائع شدہ:8اپریل 2024ء-اخذ شدہ:9اپریل 2024ء۔
  11. اسرائیلی ریاست خوف کے مارے غزہ سے پسپا نہیں ہو رہی ہے۔ سید حسن نصر اللہ (ترجمہ فرحت حسین مہدوی)- ur.abna24.com-شائع شدہ از: 14 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 مئی 2024ء۔