محمد امین شہیدی
محمد امین شہیدی امت واحدہ کا سربراہ، مجلس وحدت المسلمین پاکستان کا سابقہ نائب صدر، اتحاد بین المسلمین کا داعی، مشہور مناظر اور سیاسی و اجتماعی مسائل کا تجزیہ کار ہیں۔
محمد امین شہیدی | |
---|---|
دوسرے نام | شیخ محمد امین شہیدی کاشغری |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1966 ء، 1344 ش، 1385 ق |
پیدائش کی جگہ | پاکستان |
اساتذہ |
|
مذہب | اسلام، شیعہ |
اثرات |
|
مناصب |
|
سوانح عمری
شیخ محمد امین شہدی کاشغری 1966ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام محمد یوسف ہے۔ آپ کے دادا احمد خان کشمیر سے یارقند، کاشغر گئے کچھ عرصے کے بعد ان کے صاحب زادے محمد یوسف گلگت تشریف لے آئے۔
تعلیم
انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت شہر میں حاصل کی، کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے بعد، اعلٰی دینی تعلیم حاصل کرنے لیے 1986ء کے اوائل میں حوزہ علمیہ قم ایران چلے گئے اور اس حوزہ کے مشہور علماء اور اساتذہ سے دینی علوم حاصل کی۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف کی ترویج کے لئے تشکیل دیا تھا۔
ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیے [1]۔
اساتذہ
- شیخ سعید رہائی
- شیخ علی وجدانی
- شیخ اعتمادی
- شیخ فتوحی
علمی آثار
آپ نے مندرجہ ذیل کتابوں کا ترجمہ کئے ہیں:
- تفسیر پیام قرآن(فارسی) از آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
- مفاخر اسلام(فارسی) از آقای دوانی
مندرجہ ذیل عنوانات پر مقالات لکھے:
- حوزہ علمیہ میں طالب علموں کی ذمہ داریاں
- تاریخ تدوین حدیث و اجتہاد
[2]۔
اتحاد امت مسلمہ کے بارے میں ان کا موقف
اسلامی معاشرے میں وحدت کی ضرورت
جب ان سے سوال کیا گیا کہ وحدت کے بارے میں گفتگو کیوں اور صرف اسلامی معاشرے میں ہی وحدت پر بات کیوں ضروری ہے؟ آپ نے اس کے جواب میں کہا: اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہےاور خاتم الانبیاء پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ان تمام سابقہ انبیاء(ع) کی تعلیمات کی کامل ترین شکل لے کر تشریف لائے. آپ کا کلمہ پڑھنے والوں کو آپ کی امت کہا گیا ہے، امت کے درمیان اتحاد، وحدت اور یکجہتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش، قرآن کی دعوت اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اللہ تعالیٰ قرآن میں کلمۂ اللہ کی بنیاد پر تمام انسانوں کو ایک پرچم تلے جمع ہونے اور اللہ کے مقابلے میں کھڑی غیر الہی قوتوں کے مقابلے میں طاقت کے اظہار کی دعوت دیتا ہے، ایسی صورتحال میں امت کے درمیان افتراق قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف ہے۔
امت کے درمیان اتحاد کا قیام قرآن اور نبی کریم کی دعوت پر لبیک کہنا ہے اسی لئے اسلامی معاشروں کے اندر وہ علماء اور اہل دانش جو حکمت دین اور فلسفہ نزول قرآن کو سمجھتے ہیں وہ افتراق امت کو لعنت اور اتحاد امت کو رحمت سمجھتے ہیں، اگر توحید اور رسالت کی بنیاد پر انسان کو یکجا کیا جائے اور اس میں جہاں دین خدا کی سربلندی وقوع پذیر ہوتی ہے وہی پر دین خدا کو ماننے والوں کی عزت، شرف، سربلندی اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔
امت کی سربلندی اور کامیابی کی بنیاد، امت کے تمام فرقوں اور گروپوں کے درمیان فکری اور عملی اتحاد ہے لیکن اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے روح کی بلندی اور فکر کی وسعت کے ساتھ قرآن اور سنت کا وسیع مطالعہ بھی درکار ہے۔ اسی امت کے درمیان جو ان نعمتوں سے محروم ہیں وہ اپنی دکانوں کو آباد کرنے کے لئے امت کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں اور لڑانے کے ذریعے گویا وہ جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ امت کو لڑا کر اپنی دکانیں آباد کرکے اپنی دنیا بنانا چاہتے ہیں، لیکن امت اسلام کے مفادات کی حفاظت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور دشمنان دین کو بھی اس چیز کا خوف ہے۔
اتحاد امت کے لیے اہل سنت کی کوشش
طول تاریخ میں وہ علماء اور اہل دانش جن کا دین کے حوالے سے جامع مطالعہ ہے ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مشترکات امت کی بنیاد پر کفر اور شرک کی بغاوت کے مقابلے میں موحدین اور نبی کا کلمہ پڑھنے والوں کو یکجا کیا جائے اس میں شیعہ اور سنی کا کوئی فرق نہیں ہے، شیعوں میں ایسے بڑے بڑے عالم گزرے ہیں جنہوں نے عملی طور پر اس راستے میں قدم اٹھایا اور تقریب بین المذاہب کے لئے جدوجہد کی اور اس عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ فکری اور نظریاتی جدوجہد بھی کی ہے، چاہئے وہ علماء نجف کے ہوں یا لبنان و قم کی سرزمین پر اور ان کے راستے کو اپنانے والے ایسے علماء برصغیر میں بھی گزرے ہیں جنہوں نے اس نظریات کو اپناتے ہوئے امت کو آپس میں متحد کرنے کے لئے اپنی زندگیاں صرف کیں، اس میں اہل سنت اور شیعہ دونوں ہیں۔
اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے یہ معرفت دین اور گہرے فہم و شعور کا ہے، جن حضرات کا فہم سطحی ہے چاہئے تشیع میں ہو یا تسنن میں ان کی سطحی فکر کی وجہ سے وہ مسلکی اختلافات کو ہوا دیتے رہے ہیں اور جن کی نگاہ عميق ہے اور دین کی روح سے واقف ہیں ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ مشترکات کی بنیاد پر امت کو متحد کرکے معاشرے میں موجود ظالمانہ نطام کے مقابلے میں امت کو کھڑا کرکے معاشرے کے اندر عدالت کی حکومت کے لئے جدوجہد کریں۔
لہذا اس سلسلے میں مصر کے علماء، کاشف الغطاء، شہید موسی صدر، آیت اللہ بروجردی، امام خمینی رح یا رہبر معظم انقلاب ہوں یا علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح، علامہ شہید عارف الحسینی جیسی شخصیات ہوں انہوں نے ہمیشہ اتحاد امت کے لئے جدو جہد کی اور مختلف تحریکوں میں علماء اور مفکرین نے ان کا ساتھ دیا.اتحاد کے حوالے سے قاضی حسین احمد مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی اور ابو اعلی مودودی کا اتحاد امت کے حوالے سے اہم کردار رہا ہے۔ اس لئے کشتی امت کی نجات کے لئے شیعہ اور سنی دونوں مکاتب کے بافہم علماء اور اکابرین کا رول اور کردار نطر آتا ہے۔
پاکستان میں اتحاد امت کے لیے اقدامات
اب تک پاکستان میں مذہبی اختلافات کو دور کرنے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں امین شہیدی نے کہا کہ : وحدتِ امت کے حوالے سے جن میدانوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے، ان میں سے سب سے اہم ترین میدان مسجد، ممبر اور قلم ہے، اگر وہ مراکز جہاں سے لوگ دین لیتے ہیں اتحادِ امت کی فضا قائم ہو تو معاشرے میں اتحادِ امت کی فضا قائم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی لیکن وہاں پر افتراق کی بنیادیں مضبوط ہوجائیں تو پھر معاشرے کے اندر بھی تفرقہ عام ہوجاتا ہے۔
اس بنیاد پر انقلاب اسلامی ایران کے بعد جو جدوجہد ہوئی ہے وہ کم نظیر اور انتہائی مؤثر بھی رہی ہے، پاکستان میں سیمیناروں اور مذہبی پلیٹ فارمز پر تمام مسالک کے اہل دانش کو جمع کرکے، لبرل اور ضدِ دین کے مقابلے میں دیندار طاقتوں کو طاقتور کرکے مرزائیت اور قادیانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد ہوکر علماء نے بڑی جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد نے کامیابی بھی حاصل کی ہے، قادیانیت کے مقابلے میں تشیع اور اہل سنت کا اتحاد اور اس کے نتیجے میں عظیم کامیابی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ جب بھی شیعہ اور سنی نے مل کر جدوجہد کی ہے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ہفتۃ وحدت کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنے اور دنیائے اسلام پر اس کے اثرات
جب ہم ہفتۂ وحدت مناتے ہیں تو گویا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں اٹھاتے ہیں، نبی کریم (ص) کا پرچم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے اندر ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کو ایک پرچم کے نیچے جمع کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دین کے دشمنوں کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے، لہذا پوری دنیا کے اندر جب ان ایام میں کروڑوں لوگ میدان میں نکل کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں لیکر آپ سے عشق اور محبت کا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سب سے پہلے پوری دنیا کو بالخصوص استعمار، اسرائیل سمیت مغربی دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں امت متحد ہے۔
یہی اتحاد فلسطین،شام، عراق، یمن، ایران، افغانستان اور کشمیر میں شیعہ سنی کو اکٹھا کرکے بت پرستوں اور سرمایہ دارانہ نظام اور بےدینی کے مقابلے میں ایک بہت بڑی قوت کے طور پر پیش کر سکتا ہے اور یہ اتحاد و وحدت پوری دنیا کے لوگوں کے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
وحدت اسلامی کے پیش نظر فلسطین کی آزادی میں کردار
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم قدس شریف اور فلسطین کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے عرب، عجم اور شیعہ سنی کی تفریق کو مٹانا ہوگا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ افتراق بھی باقی رہے اور قدس بھی آزاد ہو کیونکہ اسرائیل کی بھی یہی کوشش رہی ہے کہ امت کو فرقہ وارانہ معاملات میں ایک دوسرے کے سامنے پیش کرکے ایک ایک کرکے گردن کاٹے لہذا فلسطین اور قدس کی آزادی سے امت کے اتحاد و وحدت کا گہرا تعلق ہے۔ آزادی تب ممکن ہو گی جب ہم قوموں، جغرافیائی اور مسالک و فرق کی قید سے نکل کر امت محمدی کی حیثیت سے مل کر جدوجہد کریں گے۔
اہل بیت علیہم السلام وحدت اسلامی کا محور
امام جعفر صادق علیہ السلام عالم اسلام کی وہ متفقہ اور مستند ہستی ہیں جن کو امام اہلبیت کہا جاتا ہے اور سب سے دلچسپ اور خوبصورت بات یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام عالم اسلام میں ایک محور اور مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں اور جتنے بھی فقہی اور کلامی مکاتب ہیں ان کے جتنے بھی پیشوا، آئمہ اور فقہاء ہیں، سب کے سب یا بالواسطہ یا بلاواسطہ صادق آل محمد علیہم السلام کے شاگرد ہیں اور ان تمام شخصیات کے بارے میں امام علیہ السلام کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ ٹیکنے کا تذکرہ شیعہ سنی کی تمام کتابوں میں موجود ہے۔
امام علیہ السلام کا مقام اتنا بلند ہے کہ کسی تاریخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ امام علیہ السلام نے کسی سے کچھ سیکھا ہو، اس کی وجہ یہی ہے کہ صادق آل محمد علیہم السلام، علوم آل محمد علیہم السلام کے وارث ہیں اور یہ علوم ان کے لئے کسبی نہیں بلکہ وہنی اور لدنی ہیں اور نبی کریم (ص) کی ذات اقدس سے ان تک منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم احادیث میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کو بابِ علم نبی(ص) سمجھتے ہیں تو یہی علوم اس باب سے آگے آئمہ(ع)کے توسط سے امام صادق علیہ السلام تک منتقل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ "حضرت ثابت ابن نعمان” یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو دو سال کے عرصے کو میں نے صادق آل محمد(ع) کی بارگاہ میں نہیں گزارا ہوتا تو میں ہلاک ہوتا، یہی وجہ ہے کہ محدثین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اپنے آپ کو امام علیہ السلام سے فیض پانے کی مرہونِ منت سمجھتی ہے۔
پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے دینِ اسلام کو انسان کی تسکین کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اہم ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ وہاں کے لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس نظام کا حاصل یہ ہے کہ انسان پیسہ کمانے کی مشین اور یہی پیسہ سرمایہ داروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے نزدیک انسان ایک آلہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی نظر میں انسان ہدف ہے، اسی لئے اس کی تربیت کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا گیا۔ مطالعہ اور تحقیق کے بعد حیرت انگیز حقائق کا انکشاف ہوتا ہے کہ تمام دنیا اسلام کے خلاف مصروفِ عمل ہے لیکن اس دین کی آئیڈیالوجی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چند یورپی مالک کے تھنک ٹینکس نے اپنی حکومتوں کو خبردار کیا ہے کہ اگلے چالیس سالوں میں اسلام ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ سال کے تقریبا ہر روز ایک کلیسا کو گرا کر پارک، ہسپتال یا مسجد کو تعمیر کیا جا رہا ہے۔
کلیسا جو دنیا کے سب سے بڑے مذہب مسیحیت کا مرکز ہے، اب مسیحوں کی قلبی و روحانی تسکین کا باعث نہیں رہا۔ تیزی سےبڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت کلیساؤں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ صرف دینِ اسلام ہی انسان کی روح کو مخاطب کر کے اسے آخری وقت تک مایوس ہونے نہیں دیتا۔ پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے امین شہیدی نے کہا: کہ ہمارے تعلیمی نظام، نصاب اور اس کے ڈھانچہ کو بھی مغرب نے تشکیل دیا ہے اور اسی نصاب کے ذریعہ دیسی لبرلز تیار کیے جاتے ہیں۔ دیسی لبرلز کی مثال "کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا" جیسی ہے جن کو نہ سرمایہ ملتا ہے اور نہ خدا و رسولؐ ہمارے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑا چیلنج دین بیزاری کا ہے۔
شہیدی نے ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کو سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں مہسا امینی کو حجاب مخالف تحریک کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر مہسا امینی نہ ہوتی تو اس چال کے لئے کوئی اور ذریعہ تلاش کر لیا جاتا۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپ کے سرمایہ دار ممالک مہسا امینی کے نام کو استعمال کر کے حجاب مخالف تحریک کی اقتصادی اورثقافتی پشت پناہی رہے ہیں۔ ایران پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے جب کہ اس کے مقابلہ میں ان کے اپنے معاشرہ میں سنگین جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن وہ ان کے لئے چیلنج نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ ان کے لئے چیلنج ہے اور وہ اس بات کو بہانہ بنا کر ہماری دینی اقدار اور کلچر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں [3]۔
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے شہیدِ قدس جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یمن میں ہونے والی استعماری مداخلت ہو، شام کی حکومت کے خاتمہ کے لیے مغرب، اسرائیل اور عرب ریاستوں کی مشترکہ جدوجہد ہو، عراق میں مغربی حکومت کے قیام کے لیے یورپ، امریکہ اور عرب ریاستوں کی سرمایہ کاری اور دہشت گردی ہو، افغانستان کی گھمبیر صورتحال ہو، داعش کی تشکیل کے ذریعہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنا ہو یا پھر اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کر کے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش ہو، شہید حاج قاسم وہاں ایک جنگی ماہر، درد مند اسلامی رہنما، کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور نجات دہندہ کے طور پر نظر آتے ہیں۔
فلسطین، مشرقِ وسطی کا سب سے اہم ایشو ہے۔ فلسطینی مقاومت و مجاہدت کی حمایت اور پیش رفت کے حوالہ سے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے میں جو کردار شہید حاج قاسم نے ادا کیا، اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ سنہ 2006ء کی جنگ میں لبنان فرنٹ لائن تھا جہاں حزب اللہ اور دیگر مقاومتی قوتوں کے ذریعہ لبنان کی سرزمین کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے لبنان کی عوام کو اس بربریت سے نجات دلائی اور اتنا طاقتور بنا دیا کہ اسرائیلی، لبنان کی حکومت کی بجائے حزب اللہ سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ تاریخ نے لکھا کہ ایک ملک میں منتخب حکومت ہونے کے باوجود وہاں کے منظم گروہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعہ قومی حمیت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل جیسی خوفناک قوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
آپ جیسی ہمہ جہت شخصیت تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اگرچہ دشمنوں نے آپ کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا لیکن آپ کی شہادت نے ایرانی، عراقی، شامی، لبنانی، یمنی، فلسطینی، بحرینی، حجازی، پاکستانی اور افغان عوام کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا۔ ان کی شخصیت تمام مظلوم انسانوں کو تاریکی سے نکالنے اور معاشرتی ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، اپنی ذات میں جامع شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر غور و فکر، مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو پتہ چلنا چاہیے کہ آلِ محمؐد کی تعلیمات پر عمل کے نتیجہ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی جیسے مجاہدین جنم لیتے ہیں جو دنیا کی تمام ظالم اور سرکش حکومتوں اور طاقتوں کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد عوام کو ان کے سامنے کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہید حاج قاسم اس حوالہ سے انسانی معاشرہ کے عظیم ہیرو ہیں [4]۔
مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں،بلکہ نظریاتی ہے
امت واحدہ پاکستان کے سربراہ نے یومِ نکبہ کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، بلکہ نظریاتی ہے۔ یہ قیام اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے، جس کی بنیاد غیر منصفانہ پالیسیز پر رکھی گئی ہے۔
محمد امین شہیدی نے یومِ نکبہ کے حوالہ سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی نے بالعموم اقوامِ عالم اور بالخصوص نوجوان نسل میں فکری و نظریاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر مغربی اقدار اور حکمرانوں کے طرزِ عمل میں واضح ٹکراؤ نے وہاں کے عوام کو حق کی شناخت کا شعور بخشا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کی نصابی کتب میں پڑھائی جانے والی اخلاقی اقدار کے برخلاف مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ غزہ میں گزشتہ سات ماہ سے ہونے والی حیوانیت اور انسان سوزی شرمناک ہے۔ اسی لئے آج کے میڈیا سے استفادہ کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک کے مظالم دیکھنے کے بعد مغربی نوجوانوں کے اذہان میں سوال اٹھنا شروع ہوا کہ ان کے حکمرانوں کا طرزِ عمل، نصاب میں شامل اخلاقی اقدار سے مختلف کیوں ہے؟ نتیجتًا یہ لوگ اس درندگی اور بربریت کے خلاف میدانِ عمل میں اترے ہیں۔
شہیدی نے مزید کہا : کہ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، نظریاتی ہے۔ یہ قیام اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے جس کی بنیاد غیر منصفانہ پالیسیز پر رکھی گئی ہے۔ اہلِ مغرب کی بیداری اِس چیز کی علامت ہے کہ جب انسان کا شعور بلند ہوتا ہے تو پھر اسے کسی ہادی کے بغیر بھی سچائی کا راستہ نظر آتا ہے۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام نے نہج البلاغہ میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو مقروض کیا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ انسان کی ہدایت کے لئے ایک نبی باہر اور دوسرا نبی اُس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ باہر والے نبی کو خداوند متعال مبعوث فرماتا ہے تاکہ وہ انسان کے اندر موجود باطنی نبی کو بیدار کرے۔ باطنی نبی سے مراد فطرتِ سلیم ہے جسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔ اگر ضمیر جاگا ہوا ہو اور انسان خدا کو قبول نہ بھی کرے، تب بھی وہ ضمیر کی آواز کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ غزہ کی جنگ نے اسی شعور میں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا: کہ کہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ابتدا میں ایک جملہ کہا تھا کہ غزہ کی جنگ حق اور باطل کے درمیان وہ لکیر ہے جو اس بات کی وضاحت اور تصدیق کرے گی کہ امام مہدی آخر الزماں عجل اللہ فرج کی سپاہ اور ان کے مقابلہ میں کون لوگ ہوں گے۔ ہم شیعہ سنی دونوں روایات میں پڑھتے ہیں کہ امام زماں علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے[5]۔
امام خمینیؒ کاہدف معاشرہ کو قرآن و اہل بیتؑ کے دیے ہوئےمعارف کی روشنی میں چلانا تھا
امام خمینیؒ کاہدف معاشرہ کو قرآن و اہل بیتؑ کے دیے ہوئےمعارف کی روشنی میں چلانا تھا۔ امت واحدہ پاکستان کے سربراہ امام خمینیؒ کے انقلاب کو پہچاننے کے لئے ان اہداف اور نعروں کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کے ساتھ وہ میدان میں اترے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے بانی انقلاب اسلامی ایران، سید روح اللہ خمینی رحمة اللہ علیہ کی برسی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ امام خمینیؒ کے انقلاب کو پہچاننے کے لئے ان اہداف اور نعروں کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کے ساتھ وہ میدان میں اترے۔ ان میں سے ایک لا شرقیہ و لا غربیہ، جمہوریہ اسلامیہ، دوسرا مستضعفین کا دفاع، تیسرا مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا اور ظالم کی مخالفت میں اپنی قوت کا اظہار، چوتھا اپنے معاشرہ کو ظلم اور استبدادی نظام سے آزادی دلا کر اس معاشرہ کو اسلام، قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کے دیے ہوئے معارف کی روشنی میں چلانا اور ایک ایسا نظام متعارف کرانا جو دنیا پر حاکم سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل کھڑا ہو سکے۔
ان اہداف اور نعروں کے پس منظر میں وہ حالات تھے جس میں ایک تاریخی اور نظریاتی قوم، شہنشاہ ایران جیسے ایک مغربی غلام کے جوتوں تلے پس کر رہ گئی تھی۔ ایسی قوم جسے اپنی حیثیت، آبرو اور روشن ماضی ختم ہوتا ہوا نظر آئے تو یقینا اس کے لوگ صف آرا ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف امام خمینیؒ خود ایک اسلامی محقق تھے، لہذا وہ اپنی قوم کو بھی اپنی آئیڈیالوجی اور فکر کے مطابق منزل مراد تک پہنچانا چاہتے تھے جو کہ اسلام کا منشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینیؒ نے یہ نعرے دیے لیکن ان کی حدود کا تعین نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا کہ جب تک آخری ظالم موجود ہے، ہماری جنگ جاری ہے۔
انقلاب اسلامی کے اوائل میں اس بات کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ انقلاب برآمد کیا جائے گا۔ اس سے یہ مراد لی گئی کہ ایران دنیا پر حملہ کرے گا۔ لیکن آج ہم سب ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ ”لا شرقیہ و لا غربیہ“ کی فکر پوری دنیا میں اپنی حقانیت ثابت کر کے برآمد ہو چکی ہے۔ یعنی یہ کہ ایسی بیداری جس سے انسانوں کے اندر انسانیت پیدا کرنا، ہر کمزور قوم کو یقین دلانا کہ تم کمزور نہیں ہو بلکہ تمہیں کمزور ہونے کی غلط فہمی کا شکار کر دیا گیا ہے۔
انسان میں جب یہ شعور بیدار ہو جائے تو اسے اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے اور وہ بڑے بڑوں سے بھڑ جاتا ہے۔ لیکن جب اسے اپنی طاقت کا احساس نہ ہو تو پھر وہ کمزور سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔ یہ وہی شعور ہے جو اولا امام حسین علیہ السلام سے تمام انسانیت کو برآمد ہوا۔ آج غزہ کی حمایت میں حتی مسیحی، ایتھسٹ اور یہودی بھی سڑکوں پہ نکلے ہیں، تو کیا یہ وہی احساس اور شعور نہیں ہے کہ سب مل کر ظالم نظام کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔
ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کی بڑی بڑی جامعات کے اندر وہ بچیاں جو حجاب کی رعایت نہیں کرتیں لیکن ظلم کے نظام کے مقابلہ میں کھڑی ہو گئی ہیں۔ پولیس کے بوٹ کی ضربیں کھانے کے باوجود کہتی ہیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں۔ کیا یہ وہی شعور نہیں ہے جو اس وقت یمن جیسی کمزور قوم جس کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، جب وہ امریکہ و اسرائیل کو للکارتی ہے اور باب المندب اور خلیج کے مختلف علاقوں میں اسرائیل کی مدد کے لیے آنے والے جہازوں کو غرق کرتی ہے۔
کیا یہ وہی امام خمینیؒ کا دیا ہوا شعور نہیں ہے کہ اب صرف ایرانی قوم نہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود انسانوں کے اندر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ ہم کمزور نہیں ہیں، ہم دشمن کو اپنی سرزمین سے پاک کر سکتے ہیں۔ حزب اللہ جیسی چھوٹی سی جماعت اسرائیل، امریکہ اور یورپ کے مقابلہ میں ڈٹی ہوئی ہے اور اسرائیل کو نکیل ڈال رکھی ہے۔ کیا یہ وہی شعور نہیں ہے کہ لبنان کی چھوٹی سی آبادی کے اندر ایک چھوٹا سا گروہ اسرائیل کی ناک میں دم کر دے جبکہ یہی اسرائیل جس نے سن 60 کی دہائی کی جنگ میں مصر، اردن اور شام کے ممالک کو چھ دن میں ناکوں چنے چبوائے تھے۔
اس وقت اہل غزہ اور حماس جس فکر و شعور کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس نے فلسطین کے بچہ بچہ کو شعلہ ور کر دیا ہے۔ اب یہ بچے بھوکے رہتے ہیں لیکن ان کی زبان پر الموت امریکہ، الموت اسرائیل جیسے الفاظ ورد کرتے ہیں۔ ان دنوں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خط کا بڑا چرچا ہے جو انہوں نے یورپ اور امریکہ کے نوجوانوں کے نام لکھا ہے۔ رہبر معظم نے اس خط کے ذریعہ لوگوں میں ایک نیا شعور پیدا کیا ہے۔ انقلاب اسلامی نے ثابت کیا ہے کہ فکر کی سرحد نہیں ہوتی۔ آج بھی امام خمینیؒ کا نعرہ زندہ ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہو رہا ہے [6]۔
حضرت ابراہیم (ع) کی تاسی کرنا ہے تو خدا کے دشمنوں سے اظہار برائت کریں
رہبر انقلاب نے اس حج کو برائت از مشرکین کی مناسبت سے ایک خاص اہتمام کے ساتھ دیکھا ہے۔ اور اس کے لئے اللہ تبارک و تعالی کی کتاب اور خصوصا سورہ ممتحنہ میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت اور ان کے عمل کو جس طرح سے اللہ نے اسوہ بناکر پیش کیا ہے، اس سے استدلال بھی کیا ہے اور اس سے پیغام بھی لیا ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب نے اس حج کو برائت از مشرکین کی مناسبت سے ایک خاص اہتمام کے ساتھ دیکھا ہے۔ اور اس کے لئے اللہ تبارک و تعالی کی کتاب اور خصوصا سورہ ممتحنہ میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت اور ان کے عمل کو جس طرح سے اللہ نے اسوہ بناکر پیش کیا ہے، اس سے استدلال بھی کیا ہے اور اس سے پیغام بھی لیا ہے۔
حج برائت' قرار کیوں دیا
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سال استثنائی سال ہے اور گزشتہ ستر سالوں کے مابین اگر اس سال کو دیکھا جائے تو غزہ کی صورتحال اور فلسطینی مظلوم عوام کے وحشیانہ قتل عام اور بچوں کے قتل عام، خواتین کے قتل عام، بوڑھوں کے قتل عام، رہائشی علاقوں کی تباہی، اسپتالوں کی تباہی، بازاروں کی تباہی، اسکولوں کی تباہی کی صورت میں جس طرح کی فضا فلسطین کے اندر بنائی گئی ہے۔
اس کو سامنے رکھتے ہوئے حج کے فلسفے کی بنیاد پر یقینی طور پر اس سال کو حقیقی معنوں میں برائت از مشرکین، برائت از اعداء اللہ اور برائت از دشمنان خدا اور دشمنان اسلام قرار دینا عین ضرورت ہے اور اس حوالے سے رہبر معظم انقلاب کی بصیرت کو سلام کرنا چاہیئے۔ اس وقت غزہ کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم مسلمانوں کے فرائض دیکھیں تو حج کے اس عظیم اجتماع میں جب پوری دنیا سے اربوں انسانیوں کی نمایندگی میں لاکھوں انسان حاضر ہوتے ہیں۔
"لبیّک اللّھمّ لبّیک" کہتے ہیں اور شیاطین کو منا میں جاکر پتھر مارتے ہیں، تو وہ پتھر مارنا توایک علامتی اظہار برائت ہے حقیقی اظہار برائت تو یہ ہے کہ ہر گلی ہر کوچے، ہر اجتماع، ہر شہر، ہر ملک ہر قصبے، ہر مقام پر مظلوم کی حمایت کا پرچم بلند کیا جائے اور اللہ کی وحدانیت کے پرچم کے سائے تلے، اللہ کے دشمنوں سے اپنی بیزاری کا اور اللہ کے دشمنوں سے اپنی برائت کا اظہار کیا جائے اور اللہ کے مظلوم بندوں کی حمایت میں اور ان کے حق میں آواز اٹھائی جائے۔
اس حوالے سے حاجیوں کا سب سے بڑا فریضہ یہی بنتا ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں حاجیوں کے فرائض کو بیان کرتے ہوئے سورہ توبہ کے آغاز ہی میں یہ فرمایا ہے کہ" وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ"[7]۔ تو حج اکبر کے موقع پر اللہ کی طرف سے بھی اعلان ہونا چاہیے اور ہوتا ہے، رسول اللہ کی طرف سے بھی اعلان ہونا چاہیے اور ہوتا ہے، تو عوام کی طرف سے حاجیوں کی طرف سے اور مؤمنین کی طرف سے بھی یہ اعلان ہونا چاہیے کہ ہم مشرکین سے بیزار ہیں، ہم کفار سے بیزار ہیں، ہم یہودیوں سے بیزار ہیں، ہم صیہونیوں سے بیزار ہیں،
ہم قاتلوں سے بیزار ہیں، ہم معصوم بچوں کے بربریت کے انداز میں، وحشیانہ انداز میں قتل عام کے مجرموں سے بیزار ہیں اور ان کے خلاف ہم اپنے اتحاد، اپنی وحدت، اپنی یکجہتی کا اظہار حج کے اس عظیم عالمی اجتماع میں کریں، یہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے آج کے دور میں۔ حج کے اجتماع سے بڑھ کر کوئی اجتماع دنیا میں اس وقت متصوّر نہیں ہے کہ جہاں پر تمام مسلمان یکساں طور پر "لبّیک اللّھمّ لبّیک" کے نعرے کے ساتھ آتے ہوں۔
کربلا کا اجتماع تعداد کے لحاظ سے اگرچہ بہت بڑا ہے لیکن وہ ایک مسلک اور ایک خاص نظریہ رکھنے والوں کا اجتماع ہے جبکہ میدان عرفات میں، میدان منا میں، خود مسجد الحرام میں وہ لوگ جمع ہیں جو ہر طبقے سے ہیں، ہر مسلک سے ہیں اور جن کی بنیاد توحید ہے، جن کی بنیاد لا الہ اللہ ہے جو قرآن پر مشترکہ طور پر سب کے سب عقیدہ رکھتے ہیں، جو رسول اللہ کی رسالت کو مانتے ہیں، جو قرآن کی تعلیمات کو قرآن کے پیغام کو اپنے لئے واجب العمل سمجھتے ہیں، فرقوں کے اختلاف، آپس کے اختلاف کے باوجود، اس میدان میں سب کے سب اکٹھے ہیں۔
لہذا اس سے بڑا اجتماع اور کوئي نہیں ہو سکتا کہ جہاں پر توحید کے نعرے تلے شرک سے مشرکین سے ظالموں سے وحشتناک ظلم کرنے والے درندہ صفت صیہونیوں سے اپنی برائت کا اظہار کیا جا سکے۔ اس حوالے سے رہبر معظّم نے جو برائت از مشرکین کا سال قرار دیا ہے اور اس کو حج برائت قرار دیا ہے یہ عین ضرورت وقت ہے اور اس پر ہر صورت میں حاجیوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ توجہ صرف میدان عرفات اور منا میں نہیں بلکہ جب یہی حاجی اپنے گھروں کو واپس جائیں تو پوری دنیا سے آئے ہوئے حاجیوں کے اس اعلان برائت کا پیغام وہ اپنے علاقوں میں لے کر جائیں تاکہ انسانوں کے اندر شعور پیدا ہو اور وقت کے ظالم اور سفاک دشمنان خدا کے مقابلے میں سب مل کر اپنی آواز بلند کر سکیں۔
وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ العَداوَۃُ وَ البَغضاء کو بنیاد کیوں قرار دیا؟
رہبر انقلاب نے اس حج کو برائت از مشرکین کی مناسبت سے ایک خاص اہتمام کے ساتھ دیکھا ہے۔ اور اس کے لئے اللہ تبارک و تعالی کی کتاب اور خصوصا سورہ ممتحنہ میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت اور ان کے عمل کو جس طرح سے اللہ نے اسوہ بناکر پیش کیا ہے، اس سے استدلال بھی کیا ہے اور اس سے پیغام بھی لیا ہے۔
آج کے دور میں جس طرح سے اسرائیل اس وقت بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے ذریعے سے اللہ کے پیغام سے، کتب آسمانی سے اپنی شدیدترین دشمنی کا اظہار کر رہا ہے، ایسی صورت میں سیرت ابراہیمی کے اظہار کی ضرورت ہے، حاجی صرف منا کے میدان میں چند بھیڑ بکریوں کی قربانی کے ذریعے سے ہی حضرت ابراہیم کی تاسی نہیں کر پائيں گے جب تک حضرت ابراہیم ہی کی طرح سے آج کے اللہ کے دشمنوں سے اظہار برائت نہ کریں اور ان سے ہر طرح کے تعلق کو منقطع کرنے کا اعلان نہ کریں۔
یہ جو سورہ ممتحنہ کی آيت نمبر 4 ہے اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام نے ابدی طور پر ان دشمنان خدا سے اور مشرکین سے قاطعیت کے ساتھ بغیر کسی طرح کی پردہ پوشی کے اپنی بیزاری کا صریحا اعلان فرمایا اور ان کے اس اعلان میں یہ رمز، یہ راز پوشیدہ تھا کہ ہم کسی بھی صورت میں اب تم سے نہیں ملیں گے، کسی بھی صورت میں ہم تم سے رابطہ نہیں رکھیں گے، کسی بھی صورت میں تم سے ہمارا کوئی تعلق قائم نہیں رہے گا۔
مگر یہ کہ تم اپنے اس رویّے سے باز آؤ اور اللہ کی طرف پلٹو اور یہ جو تم نے ایک لائن کھینچی ہے مظلوم اور ظالم کے درمیان اس لائن کو ختم کرکے مظلوم پر ظلم کرنے کا سلسلہ ختم کرو اور کفر سے ایمان کی طرف آؤ۔ یہ حضرت ابراھیم کی سیرت ہے تو اب آج حضرت ابراھیم کی سیرت یہ تقاضا کرتی ہے امت سے کہ امت بھی من حیث امت چاہے وہ لوگ جو حج کے میدان میں ہیں چاہے وہ لوگ جو گھروں میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت کر رہے ہیں، چاہے وہ حکمراں جو معاشرے کو لے کر چلتے ہیں، چاہے وہ علماء جو معاشروں کی ہدایت کے علمبردار ہیں۔
حضرت ابراھیم کی اس عملی سیرت کا اور اسوہ حسنہ کا اتباع کرتے ہوئے اس کے پیچھے چلتے ہوئے وہی روش اختیار کریں اور صیہونی اسرائیلیوں سے اپنے قطع تعلق کا ایسا اعلان کریں جس میں برگشت بالکل بھی نہ ہو اور یہ قرآن کی آیت بھی ہے اور قرآن کا پیغام بھی ہے اور قرآن نے حضرت ابراہیم کے عمل کو جس انداز میں قبول کرکے امت کے سامنے رکھا ہے اس کا ایک عملی نمونہ بھی ہے لہذا آج کے دور میں اگر ہم حضرت ابراہیم کی سنت پر عمل کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہی ہے۔
برائت کا محور امریکا و اسرائیل سے اعلان بیزاری قرار دینا
اگر ہم حقیقی معنوں میں اللہ کے دشمنوں سے اظہار برائت کرنا چاہیں تو اس برائت کا محور امریکہ، اسرائیل اور اسرائیل کا ساتھ دینے والے وہ تمام سسٹم اور تمام نظامات ہیں، صرف امریکا اور اسرائیل نہیں، اس میں برطانیہ شامل ہے، اس میں یورپی ممالک شامل ہیں، وہ تمام ممالک اور وہ تمام حکمراں جنھوں نے در پردہ اسرائیل کی بھرپور مدد کی ہے وہ بھی شامل ہیں، ہاں اگر ہم مصلحتا خاموش رہیں
تو یہ اور بات ہے لیکن جن ممالک نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی، کھل کر اس انسان کشی اور بچوں کے قتل عام اور شہری عام بے گناہ شہریوں کے قتل عام کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اس میں اسرائیل کی بھرپور مدد بھی کی، اسلحے کے لحاظ سے، سیاسی حوالے سے، اخلاقی حوالے سے، سفارتی حوالے سے بھرپور مدد کی، ان تمام ممالک سے اظہار برائت آج کے مسلمانوں کا سب سے بڑا کام ہونا چاہیئے اور اگر ایسا ہو جائے تو یقین جانیئے کہ فلسطینویں کو ایک نئی روح ملے گی۔
فلسطینیوں کو یہ احساس ہوگا کہ ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا کے آزادی پسند بیدار ضمیر انسان ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ اس کام کے لئے ضمیر کی بیداری بھی چاہیئے، شجاعت بھی چاہیئے، شعور بھی چاہیئے اور انسانی اقدارار ویلیوز کا زندہ ہونا بھی ضروری جو یہ کام کرنا چاہیں ان کے اندر، لہذا آج فلسطینیوں کو اقوام عالم کی طرف سے حمایت کی امید بھی ہے اور انتظار بھی ہے، فلسطین کے بچے اب بھی ہمت نہیں ہارے جب وہ ہمت نہیں ہارے تو پھر ہمارے مسلمان حکمرانوں کو بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیئے اور ان تمام ممالک کو بھی جو خاموش تماشائي ہیں۔ اگر برائت از مشرکین کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل دونوں سے اظہار برائت کا سلسلہ مسلم ممالک میں کم از کم پیدا ہو جائے تو بہت جلدی ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور غزہ کے اس ایشو کو ہر صورت میں کامیابی تک پہونچانے میں مدد مل سکتی ہے اور یہ چالیس ہزار سے زیادہ شہداء کا خون ہے اس شہداء کے خون سے اس طرح سے وفا کیا جا سکتا ہے۔
اعلان برائت کی حدود اور اس کا دائرہ کیا ہے؟
اعلان برائت کے حدود اور اسکا دائرہ معاشی بھی ہے، سیاسی بھی ہے، سفارتی بھی ہے اور ہر طرح کا وہ تعلق جو ان جابر اور ظالم حکمرانوں کی کمزوری کا سبب بنے، انکی محدودیت کا سبب بنے، انکو مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم سے روکنے کا سبب بنے، انسانی ضمیروں کی زندگی اور حیات کا سبب بنے، خود اسرائیل کے اندر رہنے والے انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا سبب بنے۔
امریکہ کے اندر رہنے والے کروڑوں انسانوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے اور ان کو اپنے ملک کے اس ظالمانہ نظام کے خلاف کھڑا کرنے کا سبب بنے، انسانی معاشروں کے اندر ظلم سے نفرت کے اظہار کا سبب بنے، ظالموں سے نفرت کے اظہار کے لئے میدان میں اترنے کا سبب بنے تو تمام کے تمام امور اس میں شامل ہیں، ہر وہ عمل جس سے یہ اھداف حاصل ہوں، اس اعلان برائت میں شامل ہے، صرف یہ زبانی نہیں ہے، جو ممالک سفارتی تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔
وہ اگر پیچھے ہٹیں تو یہ اعلان برائت ہے، جو لوگ مالی مدد اسرائیل کو دے رہے ہیں، وہ اگر پیچھے ہٹیں اور اگر اعلان برائت کریں تو یہ اعلان برائت بھی ہے اور مدد بھی ہے فلسطینیوں کی۔ جن ممالک نے اپنی زمین اسرائیل تک اجناس خورد و نوش اور اسلحہ اور بارود پہنچانے کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے اور انہیں روڈ اور کوریڈور بناکر دیا ہے ان ممالک کو اگر روکا جا سکے تو یہ اعلان برائت کی ایک شکل ہے تو گویا ہر وہ عمل جس سے ظالم کا ہاتھ روکا جا سکے اور مظلوم کی حوصلہ افزائی ہو سکے اس اعلان برائت کے حدود و اور اس کے دائرے میں شامل ہیں۔
برائت از مشرکین کو روزمرہ کی زندگی، اجتماعات، تقاریر، تحریروں اور سوشل میڈیا کی سطح پر عملی بنانا
ظلم سے نفرت، ظالم کے اس قبیج عمل سے نفرت، انسانی فطرت کا حصہ ہے، اگر لوگوں کی آنکھوں پر پڑے ہوئے جہالت کے پردے ہٹا دیئے جائیں، تو لوگ فطری طورپر خود اسرائیلی صیہونیوں اور امریکی اور برطانوی مظالم سے اپنی برائت کا اظہار کریں گے اور میدان میں اتریں گے۔ اس کے لئے شعور اور آگہی کا پیدا کرنا، لوگوں تک درست خبروں کا پہونچانا، ہر روز کے حالات سے لوگوں کو آشنا کرنا، ریڈیو کے ذریعے، ٹی وی کے ذریعے، اخبارات کے ذریعے سے، سوشل میڈیا کے ذریعے سے، تصویری شکل میں، صوتی شکل میں، ویڈیوز کی شکل میں، پیغام کی شکل میں، فلسطین کے اندر ہونے والے مظالم کو ہائی لائٹ کرنا
اور اس کے ذریعے سے لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنا، اس طرح کے واقعات کو قلمبند کرکے لوگوں تک پہونچانا، تصویری شکل میں لوگوں تک پہونچانا، یہ سارے کا سارا وہ عمل ہے جس کے ذریعے سے لوگوں کے اندر شعود پیدا کیا جا سکتا ہے اگر سوشل میڈیا کا درست استعمال کیا جائے تو اس وقت چین سے لے کر روس تک اور روس سے لے کر یورپ تک تمام ان سرزمینوں میں موجود حتی ملحد، حتی بت پرست، حتی خدا سے بے خبر لوگ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں میدان میں نکل سکتے ہیں اس کی ایک مثال ہم نے یوروپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اٹھنے والی بیداری کی تحریکوں میں ملاحظہ کیا ہے۔
ان یوروپی اور امریکی طالب علموں کا جو رشتہ ہے فلسطینیوں سے نہ وہ خون کا ہے اور نہ وہ عقیدے کا ہے لیکن انسانیت کا ہے اور انسانیت کا جو یہ رشتہ 7 اکتوبر سے پہلے کہیں پر نظر نہیں آیا لیکن 7 اکتوبرکے بعد ہونے والے مظالم اور وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں جس طرح سے یہ تصویر کسی حد تک یوروپ اور امریکہ میں پیش کی جاسکی، اس کے اثرات آپ دیکھتے ہیں، لہذا عملی طور پر تمام تر اس طرح کے نیٹ ورک کا استعمال اور جو دینی مراکز ہیں۔
ان مراکز میں بیٹھے ہوئے علماء، دانشوروں اور تعلیمی اداروں میں موجود معلمین اور اساتذہ کو متوجہ کرنا کہ اس ایشو کو ہر صورت میں ہر جگہ، ہر مقام پر اور ہر وقت اٹھاتے رہیں تاکہ ظلم کا رستہ روکا جا سکے۔ یہ ایک بہترین حکمت عملی ہو سکتی ہے برائت از مشرکین کو لوگوں کی زندگی میں عملی طور پر داخل کرنے کے لئے اور اسی طرح سے اسرائیلی مصنوعات اور اسرائیل کی مدد کرنے والی کمپنیوں کی مصنوعات ان پر پابندی کے حوالے سے جتنا شعور اجاگر ہوگا اتنا لوگ زیادہ سے زیادہ ان پر پابندی لگائیں گے۔
اور ان کا استعمال چھوڑ دیں گے۔ ابھی اگر صرف پچاس ممالک میں موجود مسلمان عوام اسرائیلی مصنوعات اور اسرائیل کے ہمنوا کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں تو معیشت کے حوالے سے یہ اسی برائت از اسرائیل اور برائت از مشرکین کی عملی شکل بنے گی اور اس کے نتیجے میں آپ دیکھیں گے کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹے گی لہذا اسرائیلی اجناس کے بائیکاٹ کی مہم، کیمپین اور اقوام عالم کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لئے فکری کیمپین ان تمام ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے یہ ایک انتہائی اہم عمل ہے اور اس کے نتائج بھی ان شاء اللہ تعالی بڑے اہم سامنے آئیں گے [8]۔
حوالہ جات
- ↑ بی کے الیکشن میں حصہ لینے کا مقصد روایتی سیاست کے بت کو گرانا اور عوامی حقوق کی بازیابی ہے، علامہ امین شہیدی -mwmpak.org-شائع شدہ از:15مئی 20015ء-اخذ بہ تاریخ:6مئی 2024ء۔
- ↑ سید عارف نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان(شمالی علاقہ جات)، 2994ء، امامیہ دارالتبلیغ، اسلام آباد جی سکس ٹو، ص131
- ↑ وقت پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ جاری ہے, علامہ محمد امین شہیدی -shianews.com.pk-شائع شدہ از:22اکتوبر 2022ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی2024۔
- ↑ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:3جنوری 2023ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی 2024ء۔
- ↑ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں،بلکہ نظریاتی ہے: علامہ امین شہیدی-ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از: 16 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 مئی 2024ء۔
- ↑ امام خمینیؒ کاہدف معاشرہ کو قرآن و اہل بیتؑ کے دیے ہوئےمعارف کی روشنی میں چلانا تھا،علامہ امین شہیدی-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 5 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 جون 2024ء۔
- ↑ توبہ/3
- ↑ اس سال کے حج کو حج برائت قرار دینے کے رہبر انقلاب کے اقدام پر پاکستان کے معروف عالم دین علامہ امین شہیدی کے خیالات:حضرت ابراہیم (ع) کی تاسی کرنا ہے تو خدا کے دشمنوں سے اظہار برائت کریں-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 17 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 18 جون 2024ء۔