آیین عزاداری.jpg


شیعہ حضرات ہر سال محرم میں حسین بن علی کی عزاداری برپا کرتے ہیں جس میں دنیا بھر میں ماتمی جلوسوں، مجلسوں، وعظ و نصیحت ، سوگواری، خیرات اور سینہ زنی کے ذریعے واقعہ کربلا میں شہید ہونے والے افراد کو یاد کر کے ان کا غم منایا جاتا ہے۔ دنیا کے کافی علاقوں میں اہل سنت حضرات نیز عیسائی بلکہ ہندو لوگ بھی شہدائے کربلا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے عزائے مظلومین میں حصہ لیتے ہیں۔ رسول اللہ کے اہل بیت سب سے پہلے حسین بن علی علیہ السلام کا ماتم کرنے والے تھے اور وہ دوسروں کو بھی سوگ کی دعوت دیتے تھے۔ محمد بن علی، جعفر بن محمد اور علی بن موسی علیہ السلام کے زمانے کے شاعر کمیت اسدی اور دعبل خزاعی نے سید الشہداء کے سوگ میں نظمیں لکھیں۔

قرآن کی روشنی میں عزاداری کا جواز

اظہار غم ایک فطری عمل ہے اسی طرح اظہار مسرت بھی عین فطرت ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے قرآن کریم میں متعدد جگہ گریہ کا ذکر ہے اور اس کا درجہ بلند بتایا گیا ہے۔اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انسان کامل تھے ۔ان کی سیرت ہمارے لیے شمع ہدایت ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی گریہ فرمایا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے انبیا علیہم السلام نے بھی گریہ فرمایا ہے۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام ہابیل کی شہادت پر بہت روتے تھے اور اپنی اولاد کو وصیت فرما گئے تھے کہ یہی معمول جاری رکھیں۔حضرت نوح علیہ السلام اس لیے روتے تھے کہ آپ نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئی تھی۔زیادہ نوحہ کرنے کے سبب آپکا لقب نوح ہو گیا یعنی زیادہ نوحہ کرنے والا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وہ بہت حلیم اور آہ کرنے والے تھے [1].

احادیث کی روشنی میں عزاداری کا جواز

اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں جن میں عزاداری اور خاص طور پر حسین ابن علی کی عزاداری کا حکم دیا گیا ہے۔ اہل تشیع کے نزدیک بارہ اماموں کا حکم نبی کے فرمان کا درجہ رکھتاہے۔ اس لیے اہل تشیع کے نزدیک عزاداری کے متعلق سب سے مضبوط حدیث ریان ابن شبیب کی ہے۔ اس حدیث کو شیعہ منابع حدیث میں حدیث یابن الشبیب بھی کہا جاتا ہے جس میں ماہ محرم میں پیش آنے والے واقعات اور کربلا کی جنگ کا ذکر ہے۔ یہ روایت امالی شیخ صدوق اور عیون اخبار الرضا میں آئی ہے جسے ریان ابن شبیب نامی شخص نے علی ابن موسی الرضا سے نقل کیا ہے۔ اس روایت کے مندرجات میں دعاؤں کے ایام ، ماہ محرم کی خصوصیت اور اس کے آغاز کا ذکر ، واقعہ کربلا اور سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی المناک شہادت اور ان کے مظلوم اصحاب پر ڈھائے گئے مظالم کا ذکر شامل ہے۔

مضمون حدیث

ریان ا بن شبیب کہتے ہیں: میں پہلی محرم کو امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (ع)نے مجھ سے فرمایا: اے ابن شبیب کیا روزے سے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: آج وہ دن ہے، جس دن حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور کہا کہ مجھے ایک پاک نسل عطا فرما، کیونکہ تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا تو ملائکہ نے زکریا سے جب وہ محراب عبادت میں مشغول عبادت تھے کہا: "خداوند متعال تجھے یحیی کی بشارت دیتا ہے۔"

جو شخص آج کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعا کرے، خداوند متعال اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جیسے حضرت زکریا کی دعا قبول کی۔

اس کے بعد فرمایا: اے ابن شبیب! بے شک محرم وہ مہینہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینہ کے احترام میں قتل و غارت کو حرام جانتے تھے، لیکن اس امت نے نہ اس مہینہ کا احترام کیا اور نہ اپنے نبی (ص) کی حرمت کا خیال رکھا۔ انہوں نے اس مہینے میں پیغمبر اکرم(ص) کی اولاد کو قتل کیا اور ان کی خواتین کو اسیر بنایا اور ان کے مال کو لوٹا۔ خدا کبھی بھی ان کے اس گناہ کو نہیں بخشے گا۔

اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ کرنا چاہو، تو حسین ابن علی ابن ابی طالب(ع)کے لئے گریہ کرو کہ انہیں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے بھیڑ کوذبح کیا جاتا ہے اور ان کے اہل بیت میں سے اٹھارہ افراد کو شہید کیا گیا، جن کی روئے زمیں پر کوئی مثال نہیں تھی۔ ان کے قتل پر ساتوں زمین و آسمان نے گریہ کیا. امام(ع) کی نصرت کے لئے چار ہزار فرشتے زمین پر اترے انہوں نے امام کو مقتول پایا۔ اس وقت سے یہ فرشتے آپ (ع) کی قبر پر پریشان اور خاک آلود ہیں اور قائم آل محمد (عج) کے ظہور تک اسی حالت میں ہوں گے ظہور کے وقت یہ ان کے انصار میں سے ہوں گے اور ان کا نعرہ ہوگا یالثارات الحسین

اے ابن شبیب ! میرے بابا (موسی کاظم) نے اپنے باباسے اور انہوں نے اپنے جد امجد(محمد باقر) سے سنا ہے کہ: میرے جد امام حسین(ع) کے قتل پر آسمان سے خون اور سرخ مٹی کی بارش ہوئی۔

اے ابن شبیب! اگر تم حسین(ع) پر اتنا گریہ و زاری کرو کہ تمہارے اشک رخسار تک پہنچ جائیں تو خداوند متعال تمہارے تمام گناہوں کو بخش دے گا چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، کم ہوں یا زیادہ۔

اے ابن شبیب ! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس عالم میں ملاقات کرو کہ تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ رہے تو حسین(ع) کی زیارت کرو۔

اے ابن شبیب ! اگر چاہتے ہو کہ جنت میں بنے ہوئے حجروں میں پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ رہو، تو حسین (ع) کے قاتلوں پر لعنت بھیجو۔

اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو کہ تمہیں امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہونے والے اصحاب کا ثواب ملے تو جب بھی حسین(ع) کی یاد آئے، کہو ’’يا ليتني كنت معهم فافوز فوزا عظيما‘‘ (کاش! میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم درجہ شہادت پر فائز ہوتا۔)

اے ابن شبیب! اگر ہمارے ساتھ جنت کے بلند درجوں میں رہنا چاہتے ہو، تو ہمارے غم میں مغموم ہونا اور ہماری خوشی میں شاد و خوشحال۔ اور تم پر ہماری ولایت واجب ہے کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت اختیار کرے گا ، اللہ اسے اسی پتھر کے ساتھ روز قیامت محشور کرے گا.[2]

اهل سنت احادیث میں اہل بیت کی عزاداری

  • احمد بن حنبل

حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ اِسْرَائِیلَ، قَالَ: رَاَیْتُ فِی کِتَابِ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ بِخَطِّ یَدِهِ، نا اَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ اَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قثنا الرَّبِیعُ بْنُ مُنْذِرٍ، عَنْ اَبِیهِ، قَالَ: کَانَ حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ، یَقُولُ: مَنْ دَمَعَتَ عَیْنَاهُ فِینَا دَمْعَةً، اَوْ قَطَرَتْ عَیْنَاهُ فِینَا قَطْرَةً، اَثْوَاهُ اللَّهُ (عزّوجلّ) الْجَنَّةَ احمد بن اسرائیل کہتے ہیں: میں نے احمد بن محمد بن حنبل کی کتاب میں ان کی اپنی تحریر میں لکھا دیکھا ہے کہ اسود بن عامر (ابو عبدالرحمٰن) نے ربیع بن منذر سے روایت کی ہے کہ ان کے والد نے کہا: حسین بن علی ہمیشہ کہا کرتے تھے: جس کی آنکھیں ہمارے لئے اشکبار ہوں یا جس نے ہمارے لیے ایک آنسو بہایا، اللہ اسے جنت میں جگہ دے گا [3]

  • محب‌الدین طبری

عن الربیع بن منذر عن ابیه قال کان حسین بن علی رضی الله عنهما یقول من دمعت عیناه فینا دمعة او قطرت عیناه فینا قطرة آتاه الله (عزّوجلّ) الجنة. اخرجه احمد فی المناقب [4].

  • ملاعلی قاری

اخرج احمد فی المناقب عن الربیع بن منذر عن ابیه قال: کان حسین بن علی یقول: من دمعت عیناه فینا دمعة او قطرت عیناه فینا قطرة آتاه الله (عزّوجلّ) الجنة [5]

  • قندوزی حنفی

وعن الحسین بن علی (رضی الله عنهما) قال: من دمعت عیناه فینا دمعة او قطرت عیناه فینا قطرة بواه الله (عزّوجلّ) الجنة [6]

مختلف ممالک میں حسین ابن علی (امام حسین) کی عزاداری

آج سے چودہ سو سال قبل کربلا کا بے آب و گیاہ میدان ایک غیر معروف علاقہ تھا ۔شہادت حسین وہ عظیم سانحہ ہے جس نے کربلا کے میدان کو وقار بخشا۔محبان و عاشقان شہدائے کربلا سال بھر خصوصا ماہ محرم و صفر میں امام حسین علیہ السلام ،ان کے اقربا و رفقا کو یاد کرتے ہیں۔انہوں نے اس یاد کو جزوایمان بنا لیا ہے۔ایک ایسا دور بھی آیاجب محبان و عاشقان حسین پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے ان پر بندشیں لگائی گئیں۔انہیں دارورسن کی منزلوں سے گزرنا پڑا لیکن وقت کے اتار چڑھاو کے ساتھ اس واقعہ کی یاد اور زیادہ بڑھتی گئی ،جذبہ ایمانی نکھر تاگیا اور عزاداری پروان چڑھتی گئی۔مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں : دنیا میں ہر چیز مرجاتی ہے کہ فانی ہے۔مگر خون شہادت کے ان قطروں کے لیے جو اپنے اندر حیات الٰہیہ کی روح رکھتے ہیں کبھی فنا نہیں ہے۔ حضرت زینب، امام سجاد، ام البنین اور رباب وغیرہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری منعقد کی۔ اسی طرح کمیت اسدی اور دعبل خزاعی نے امام باقر، امام صادق اور امام رضا علیہم السلام کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام کے غم میں بلند پایہ اشعار کہے ہیں [7]۔

ایران

شروع میں عزاداری کی ان محفلوں میں امام حسین کی مصیبت کو اشعار میں بیان کر کے آپؑ پر گریہ و زاری کی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ان محافل میں مرثیہ سرائی، نوحہ خوانی اور سینہ زنی وغیرہ بھی انجام پانے لگی۔ ایران میں آل بویہ، صفویہ اور قاجاریہ کی حکومت کے دوران عزاداری کے مراسم پورے ملک میں پھیل گئے یہاں تک کہ خاندان صفویہ کے دور حکومت میں جہاں عزاداری کے مراسم میں وسعت آئی وہاں شیعہ مذہب کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔ البتہ ایران کے بعض حکمرانوں جیسے نادرشاہ افشار اور رضاشاہ پہلوی کے دور حکومت میں عزاداری کو محدود کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔

شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے جو اپنے زمانے میں حوزہ علمیہ قم کے سرپرست تھے، محرم اور صفر میں ملک کے مختلف شہروں میں دینی طلاب کو بعنوان مبلغ بھیجا ۔ اسی طرح شہید مرتضی مطہری اور ڈاکٹر علی شریعتی نے بھی اپنے دور میں عزاداری کے مراسم کو مختلف قسم کے خرافات سے دور رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی اپنے ایک فتوے میں عزاداری میں قمہ زنی کو حرام قرار دیا اسی طرح قم میں موجود دوسرے مراجع جیسے آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ جواد تبریزی، آیت اللہ نوری ہمدانی اور آیت اللہ مظاہری نے بھی اس طرح کے فتوے جاری کئے ہیں۔ دیگر مراجع تقلید جیسے آیت اللہ روح اللہ خمینی، آیت اللہ سید علی سیستانی، آیت اللہ حسین وحید خراسانی، آیت اللہ حافظ بشیر حسین نجفی اور اکثر علماء کا کہنا ہے کہ عزاداری کو ہر علاقے کی روایات کے مطابق منانا ضروری ہے۔

برصغیر (ہند و پاک ) میں عزاداری کی تاریخ

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا ہونا شروع ہوئی [8]۔

محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران عزاداری ذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا،لکھتا ہے: سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے،تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنی بھیڑ تھی کہ بھگڈر مچنے سے تقریبا 50 شیعہ اور 25 ہندو اپنی جان گنوابیٹھے۔ [9]

کچھ ایسا ہی منظر1620ء کے عشرے میں ڈچ تاجر پیلے سارٹ نے آگرہ میں دیکھا:

محرم کے دوران شیعہ فرقے کے لوگ ماتم کرتے ہیں۔ ان دنوں میں مرد اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں اور دن میں فاقے کرتے ہیں۔ عورتیں مرثیے پڑھتی ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتی ہیں۔ ماتم کے لیے تعزیے بنائے جاتے ہیں جنہیں خوب سجا کر شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے وقت کافی شور و غوغا ہوتا ہے۔ آخری تقریبات شام غریباں کی ہوتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے پورے ملک کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا ہے [10]۔

امام حسین علیہ السلام نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پر شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بلا تفریق مذہب ہوا کرتی تھیں۔

شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندو امام حسین علیہ السلام کا بہت احترام کرتے تھے اور انہوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندو شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن جات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ ایک ہندو ریاست گوالیار، میں محرم عظیم الشان نمائش کے ساتھ منایا جاتا تھا۔

سیاحوں نے ہندوؤں کو ریاست اودھ میں سبز لباس میں امام حسین علیہ السلام کے فقیر بنے دیکھا۔ ایک ہندی اخبار نے جولائی 1895ء میں خبر دی۔' محرم بنارس میں مکمل طور پر امن و امان سے گزرا۔جب ہندو ہی سب سے زیادہ اس کے منانے والے تھے تو پھر خوف کیا ہو تا؟ مرہٹہ راجا شیو پرشاد نے ایک خصوصی تعزیہ بہانے کے لیے تیار کیا تھا۔ محرم کے دسویں روز، آدمی جتنا بلند قامت روشن کاغذوں سے بنا تعزیہ نما مقبرہ اور اور اس سے لٹکی زنجیریں جلوس میں دفنانے کے لیے لائی جاتی تھیں، مسلم خادم سوز خوانی کرتے،جبکہ شیو پرشاد اور اس کے بیٹے ننگے پاؤں اور ننگے سر احترام میں ان کے پیچھے چلتے تھے۔

ہندؤوں میں ایک گروہ حسینی براہمن بھی کہلاتا ہے جن کے مطابق ان کے آباؤ اجداد میدان کربلا میں امام حسین ابن علی کے شانہ بشانہ لشکر یزید سے لڑے اور جاں بحق ہوئے۔ یہ گروہ باقاعدگی سے کربلا کی یاد مناتا ہے۔ ہندوستان کے سابق رجواڑوں میں بھی ہندو حضرات کے یہاں امام حسین علیہ السلام سے عقیدت اور عزاداری کی تاریخی روایات ملتی ہیں جس میں راجستھان، گوالیار، مدھیہ پردیش اور اندھرا پردیش قابل ذکر ہیں۔

سلطنت اودھ میں عزاداری

 
امام باڑه آصف الدوله (لکهنو)

برصغیر میں مسلم تہذیب نوابین اودھ کے دور میں عروج کو پہنچی۔ لکھنؤ کی عزاداری کے بارے میں عبد الحلیم شرر اپنی کتاب "گزشتہ لکھنؤ" میں یوں منظر کشی کرتے ہیں:۔

"محرم میں اور اکثر مذہبی عبادتوں کے ایام میں لکھنؤ کے گلی کوچوں میں تمام گھروں سے پر سوز و گداز تانوں اور دلکش نغموں کی عجیب حیرت انگیز صدائیں بلند ہوتی تھیں اور کوئی مقام نہیں ہوتا تھا جہاں یہ سماں نہ بندھاہو۔ آپ جس گلی میں کھڑے ہو کے سننے لگئے، ایسی دلکش آوازیں اور ایسا مست و بے خود کرنے والا نغمہ سننے میں آ جائے گا کہ آپ زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ ہندوؤں اور بعض خاص خاص سنیوں کے مکانوں میں تو خاموشی ہوتی تھی، باقی جدھر کان لگائیے نوحہ خوانی کے قیامت خیز نغموں ہی کی آوازیں آتی ہوتی تھیں۔تعزیہ داری چونکہ نوحہ خوانی کا بہانہ ہے اس لیے سنی اور شیعہ دونوں گروہوں کے گھروں میں نوحہ خوانی کے شوق میں تعزیہ داری ہونے لگی اور سنی مسلمان ہی نہیں، ہزار ہا ہندو بھی تعزیہ داری اختیار کر کے نوحہ خوانی کرنے لگے [11].

مجلس کی نشست کی شان یہ تھی کہ لکڑی کا ایک ممبر جس میں سات آٹھ زینے ہوتے، دالان یا کمرے کے ایک جانب رکھا ہوتا اور لوگ چاروں طرف دیوار کے برابر پر تکلف فرش پر بیٹھتے۔ اور اگر مجمع زیادہ ہوا تو بیچ کی جگہ بھی بھر جاتی۔ جب کافی آدمی جمع ہو جاتے تو ذاکر صاحب ممبر پر رونق افروز ہو کر پہلے ہاتھ اٹھا کر کہتے، فاتحہ۔

ساتھ ہی تمام حاضرین ہاتھ اٹھا کر چپکے چپکے سورہ فاتحہ پڑھ لیتے۔ اس کے بعد اگر وہ حدیث خوان یا واقعہ خوان ہوتے تو کتاب کھول کر بیان کرنا شروع کرتے اور اگر مرثیہ خوان ہوتے تو مرثیے کے اوراق ہاتھ میں لے کر مرثیہ سنانے لگتے۔ مجتہدوں اور حدیث خوانوں کے بیان کو لوگ خاموشی اور ادب سے سنتے اور رقت کے موقعوں پر زار و قطار روتے۔ مگر مرثیوں کے سنتے وقت مجمع حاضرین سے، بجز رقت کے بندوں کے جبکہ رونے سے فرصت نہیں ملتی، برابر صدائے آفرین و مرحبا بلند ہوتی رہتی تھی۔سوز خوان ممبر پر نہیں بیٹھتے بلکہ لوگوں کے بیچ میں ایک جانب بیٹھ کر نوحے اور مرثیے سناتے اور اکثر داد بھی پاتے تھے۔

اکثر مجلسوں میں مختلف ذاکر یکے بعد دیگرے پڑھتے اور عموما حدیث خوانی کے بعد مرثیہ خوانی اور اس کے بعد سوز خوانی ہوتی تھی۔ سوز خوانی چونکہ دراصل گانا ہے اس لیے اس کا رواج اگرچہ لکھنؤ ہی نہیں، سارے ہندوستان میں کثرت سے ہو گیا ہے مگر مجتہدین اور ثقہ اور پا بند شرع بزرگوں کی مجلسوں میں سوز خوانی نہیں ہوتی تھی۔ مجتہدین کے وہاں کی مجلسوں میں پابندی دین کا بہت خیال رہتا تھا۔ خصوصا یہاں غفران مآب کے امام باڑے میں نویں محرم کو جو مجلس ہوتی تھی وہ خاص شان اور امتیاز رکھتی تھی۔

اس کی شرکت کے شوق میں لوگ دور دور سے آتے تھے۔ اس میں اثنائے بیان میں اونٹ حاضرین کے سامنے لائے جاتے جن پر کجاوے یا محملیں ہوتیں اور ان پر سیاہ پوششیں پڑی ہوتیں۔ اور مومنین کو یہ منظر نظر آ جاتا کہ دشت کربلا میں اہلبیت کا لوٹا مارا اور تباہ شدہ قافلہ کس مظلومیت اور ستم زدگی کی شان سے شام کی طرف چلا تھا۔ حاضرین پر اس المناک منظر کا ایسا اثر پڑتا کہ ہزار ہا حاضرین سے دس بیس کو غش ضرور آ جاتا۔ جو بڑی مشکل سے اٹھا کر اپنے گھروں کو پہنچائے جاتے [12]

حوالہ جات

  1. سورہ مریم آیت58،سورہ المائدہ آیت83،سورہ نبی اسرائیل آیت 109،سورہ النجم آیت 35
  2. وسائل الشيعة ، ج‏14، ص 502، باب استحباب البكاء لقتل الحسين؛ الأمالي( للصدوق)،ص 130، المجلس السابع و العشرون
  3. حنبلی، احمد بن محمد، فضائل الصحابة لابن حنبل، ج۲، ص۶۷۵، ح</۱۱۵۴.
  4. طبری، احمد ابن عبدالله، ذخائر العقبی، ج۱، ص۱۹
  5. ملاعلی قاری، علی بن سلطان‌محمد، مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ج۹، ص۳۹۸۰
  6. قندوزی حنفی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع المودة لذوی القربی، ج۲، ص۱۱۷
  7. ابوالکلام آزاد: کربلا شناسی عشرہ محرم الحرام(مضمون) مشمولہ سہ ماہی راہ اسلام ،شمارہ 203،204،جنوری تا جون 2007ء
  8. ابن تغری بردی، جمال الدين ابي المحاسن يوسف، النجوم الزّاهرہ في ملوك مصر و القاہرہ ج 4، ص 126
  9. محمد بلخی، بحر الاسرار، مرتبہ ریاض الاسلام، کراچی،1980،ص 7-10
  10. ڈاکٹر مبارک علی،"جہانگیر کا ہندوستان"، صفحہ 87، تاریخ پبلیکیشنز لاہور (2016)
  11. عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 215،نسیم بک ڈپو، 1974
  12. عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 358،نسیم بک ڈپو، 1974