سلمان ندوی
سید سلمان حسینی ندوی(1954ء) ہندوستان کے مشہور عالم دین، خطیب اور داعی اتحاد بین المسلمیں، شعلہ بیان مقرر، محدث، داعی اور ایک مخلص مربی ہیں۔ انجمن شباب اسلام اور جامعہ سید احمد شہید کے بانی و صدر اور بہت سی علمی، دعوتی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ موصوف عالمِ اسلام کے لیے ایک دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہیں اور ظلم و ستم اور نا انصافی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں مولانا کی آواز اس گھن گرج جیسی ہوتی ہے جس کی بازگشت ہندوستان کی سرحدوں کے باہر سیکڑوں میل دور عرب کے کوہساروں اور ریگزاروں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ آپ ناصبیت، غالی، رافضیت،، جمود، وتعطل،تجدد پسندی، عالم اسلام میں منافقت اور صہیونیت وصلیبیت پرستی کے خلاف آپ کی قلمی وزبانی جدوجہد مشہور ہے۔ دار العلوم ندوۃ العلماء میں حدیث کے استاد اور عمید کلیۃ الدعوۃ والاعلام کی حیثیت سے برسوں خدمت انجام دی، اس وقت جامعۃ الامام أحمد بن عرفان الشھید، ملیح آباد،احمد آباد کٹولی، لکھنؤ کے ناظم، جمعیۃ شباب الاسلام کے صدر اور ہندوستان کے متعدد مدارس کے سرپرست ہیں۔
سلمان ندوی | |
---|---|
دوسرے نام | سلمان حسینی ندوی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1954 ء، 1332 ش، 1373 ق |
پیدائش کی جگہ | ہندوستان |
مذہب | اسلام، [[ سنی]] |
اثرات | |
مناصب | خطیب اور دعوتی |
آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن رہے اور ابھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ، عالمی رابطہ ادب اسلامی، اسلامی فقہ اکیڈمی اور دیگر کئی تنظیموں اور اداروں کے رکن ہیں۔ بھارت کے مشہور خطیب اور میں سے ہیں۔ حدیث اور علوم الحدیث اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے علوم سے خصوصی اشتغال ہے۔ تصوف و سلوک میں لاہور کے شاہ نفیس الحسینی اور سید محمد رابع حسنی ندوی کے مجاز بیعت ہیں۔
سوانح عمری
سید سلمان حسینی ندوی بن مولانا سید محمد طاہر حسینی کی ولادت 1954ء میں ہوئی منصور پور، مظفرنگر کے سادات بارہہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی (برادر اکبر سید ابو الحسن علی ندوی) کے نواسے ہیں ہیں۔ سید سلمان حسینی علم و فضل اور زور خطابت میں شہرت رکھتے ہیں۔ پہلے بھارت کے شہروں اور دیہاتوں کے خوب دعوتی دورے کیے اور اب دنیا کے ملکوں میں دعوتی دورے ہوتے ہیں۔ لاہور کے بزرگ شاہ نفیس الحسینی سے اصلاح و تربیت کا تعلق تھا اور ان سے مجاز بیعت و ارشاد ہیں۔ ساتھ ہی سید محمد رابع حسنی ندوی کے بھی خلیفۂ مجاز ہیں۔ نیز سوریہ کے نقشبندی شیخ سراج الدین کے بھی مجاز بیعت و ارشاد ہیں۔
تعلیم
آپ کی تعلیم و تربیت میں سید ابوالحسن علی ندوی کا خاصا اثر رہا ہے۔ آپ کی والدہ انتہائی نیک صفت خاتون تھیں۔ سید ندوی نے ابتدائی تعلیم گھر اور محلہ کے مکتب میں حاصل کی۔ پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء کے درجہ حفظ میں داخلہ لے لیا اور حفظ کی تکمیل کے بعد اس عظیم دانشگاہ سے 1974ء میں عالمیت پھر1976ء میں فضیلت کی ڈگری لی۔ اس کے بعد سعودی عرب کی مشہور یونیورسٹی جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ میں داخلہ لے لیا جہاں سے 1980ء میں حدیث میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور MA کا اپنا علمی مقالہ اپنے وقت کے مشہور محدث شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی زیرِ نگرانی مکمل کیا، مولانا کا مقالہ مولانا کی علمی صلاحیت و قابلیت کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ 1976ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء سے حدیث میں فضیلت کے بعد ریاض کے جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ سے 1980ء میں ایم اے کیا، ایم اے کا علمی مقالہ عبد الفتاح ابو غدہ کے زیر نگرانی پورا کیا۔
تعلیمی سرگرمیاں
سعودی عرب سے واپسی کے بعد آپ ہندوستان کی مشہور اسلامک یونیورسٹی دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حدیث کے لیکچرر مقرر ہوئے اور پھر اگلے چالیس سال تک حدیث کا درس دیتے رہے۔ سید کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے جو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ اپنے درس میں کسی خاص مذہب، خاص مسلک اورخاص مکتب فکر نہیں پڑھاتے بلکہ ندوی طلباء کے اندر جستجو اور حق کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں جو طلباء کے اندر ایک علمی و تحقیقی ذوق پیدا کرنے میں مہمیز کا کام کرتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ نے کبھی کسی خاص مسلک اور مکتبِ فکر کی تبلیغ نہیں کی۔
1985ء میں جامعہ سید احمد شہید کی بنیاد ڈالی۔ دینی تعلیم کے میدان میں 9سے زائد مدارس اور پچاس سے زائد مکاتب مولانا کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ کلیۃ حفصہ للبنات، مدرسہ سیدنا بلال ڈالی گنج، وغیرہ اوسط درجے کے جہاں مدارس ہیں وہیں عصری تعلیم کے لیے حراء نام سے کئی اسکول بھی موصوف چلاتے ہیں۔ طب کے میدان میں ڈاکٹر عبدالعلی یونانی میڈیکل کالج اور ہسپتال کا قیام آپ کی عظیم الشان خدمات میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا کی تنظیم انجمن شباب اسلام اور جامعہ سید احمد شہید سے کئی مؤقر میگزین اور مجلات بھی شائع ہوتے ہیں۔ مولانا سید سلیمان حسینی ندوی کی اصول حدیث پر بڑی گہری نظر ہے اور حدیث کے شعبہ میں کئی مؤقر تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں۔
تبلیغی سرگرمیاں
سلمان حسینی ندوی نے 1974ء میں ندوہ سے فراغت کے بعد جمعیت شباب اسلام قائم کی اور لکھنؤ اور اس کے اطراف میں مسلم نوجوانوں کے اندر مختلف دعوتی و سماجی سرگرمیوں کے ذریعے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جہاں ان کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کو ممکن بنایا جاسکے، آہستہ آہستہ یہ تنظیم ایک سوسائٹی کی شکل میں تبدیل ہوگئی اور اس کے تحت آپ نے کئی دینی و عصری تعلیم گاہیں، مدارس اور مکاتب کھولے جو تعلیمی میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
نظریہ
سید سلمان حسینی چند چیزوں کی وجہ سے حلقہ اکابر میں کافی شہرت پزیر ہیں آپ ہی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اصلاح نصاب کے موضوع کو تجدید پسند علما کے درمیان اپنی نگارشات وتقاریر کے ذریعے تحریکی موضوع بناتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ عصر حاضر میں درس نظامی امت مسلمہ کو ایسے افراد مہیا نہیں کرسکتا جو کماحقہ اس کی علمی ،فکری و سیاسی قیادت کرسکیں بلکہ اب ہمیں ایسا وحدانی نظام تعلیم رائج کرنا ہوگا جو صفہ نبوی کے نظام کے موافق ہو اور ثنویت سے پاک ہو ،ورنہ امت کو عروج نصیب نہیں ہوگا۔
آپ ہندوستان کے پہلے ایسے عالم ہیں جنہوں نے سعودی عرب کی اسلامی فکر کے خلاف پالیسیوں اور اس کے مغربی فکر کو اپنانے پر کهل کر تنقید کی اور اسلامی قضیوں کے تئیں اس کی سرد مہری ومنافقت کو واشگاف کیا۔ ندوی ہی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے بابری مسجد -رام مندر کے سلسلے میں باہمی مصالحت کرنے کی پیہم کوشش کی لیکن ہندوستانی اکابر علما نے ان کے نظریہ مصالحت کو قبول نہیں کیا۔
مسلمانوں کے درمیان اتحاد و بھائی چارے کی اہمیت
سید ابوالحسن ندوی کے پوتے اور ہندوستان میں جمعیت الشباب الاسلامی کے رہنما مولانا سلمان حسینی ندوی تہران میں اہل سنت کے نماز گاہ کے نمازیوں میں موجود تھے۔ اہل السنۃ مشہد کے مطابق مولانا سلمان حسینی ندوی نے پہلے نماز جمعہ میں شرکت پر خوشی کا اظہار کیا اور پھر مسلمانوں کے درمیان اتحاد و بھائی چارے کی اہمیت اور مقام کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی ایسا عمل اور کوشش جو فتنہ میں شدت کا باعث بنے۔ فرقہ واریت خطرناک ہے اور مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے۔
پھر صدی کی ڈیل کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے قابضین کے ساتھ تعاون اور فلسطینی سرزمین کے مالکان پر دباؤ کی مذمت کی اور انہوں نے مقدس مقام کی آزادی کے حصول کو ضروری سمجھا۔ مسلمانوں کو قرآن کی تعلیمات کی طرف لوٹنے اور اختلافات کو ہوشیاری سے دور کرنے کی ضرورت ہے [1]۔
اسلامی جمہوریہ ایران عالم اسلام میں اتحاد کے لئے دہائیوں سے کوشش کر رہا ہے
اسلامی جمہوریہ ایران عالم اسلام میں اتحاد کے لئے دہائیوں سے کوشش کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے 12 -17 ربیع الاول کو ہفتۂ وحدت اعلان کیا۔ تب سے آج تک اسلامی دنیا میں اتحاد کے لئے بے شمار کانفرنسیں، سیمینار اور پروگرام ہو چکے ہیں۔
اس بات کے مد نظر کہ عالم اسلام میں اتحاد کی بہت زیادہ ضرورت ہے، اس ضرورت کے پوری نہ ہونے کی حالت میں اسلامی دنیا کو نقصان پہونچ رہا ہے، اگر یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو ایسے بڑے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں شاید ابھی تصور کرنا ممکن نہ ہو، ایران میں اسلامی دنیا میں اتحاد کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں انکے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟
میں مسلمانوں کے درمیان گذشتہ 40-45 برسوں سے کام کر رہا ہوں۔ میں نے جمیعت الشباب الاسلام کے نام سے 1975 میں نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کے مختلف مسلکوں و طبقوں کے درمیان اتحاد برقرار کرنا ہے۔ بھارت میں 1972 میں مسلم پرسنل لا بورڈ قائم ہونے سے اتحاد کا اچھا تجربہ ہوا جس میں ہمارے دیوبند کی بڑی ہستی قاری طیب بھی شامل ہوئے، بہار کے مولانا منت اللہ صاحب بھی تھے۔ ندوۃ العلماء کے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی بھی تھے اور پورے ملک سے نمائندے شامل ہوئے تھے۔
ہندوستان میں اتحاد بین المسلمین کے لیے کوششیں
ان میں سنی بھی تھے شیعہ بھی تھے، دیوبندی بھی تھے بریلوی بھی تھے، بوہرے بھی تھے اور مہدوی بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ سنہ 1972 میں مسلم پرسنل لا بورڈ قائم ہوا وہ ایک بہترین مثال تھی۔ الحمد للہ اتنا زمانہ گذر چکا ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ میں یہ سارے طبقے اپنی نمائندگی رکھتے ہیں اور اس بات پر یہ متفق ہیں کہ اسلام میں خاص طور پر اسلامی شریعت اور بالخصوص پرسنل لا میں حکومت کسی طرح کی دخل اندازی نہ کرے اور اگر دخل اندازی ہوتی ہے تو ہم سب سیسا پلائی ہوئی دیوار کی طرح اسکا مقابلہ کریں گے۔
ظاہر ہے کہ 1972 میں جو یہ تجربہ تھا، اسی تجربہ کو ملک کے سبھی نوجوانوں کو منتقل کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے سنہ 1974 میں میں نے جمعیت الشباب الاسلام نامی تنظیم یا انجمن قائم کی کہ ہمارے بڑوں نے، ہمارے علماء نے جو ایک اچھی مثال پیش کی ہندوستان میں، دنیا کے کسی ملک میں اس طرح کی تنظیم نہیں ہے اور ہندوستان میں پیش کی گئی اور اس میں دیوبند، ندوہ سمیت دوسرے مدارس سب شریک رہے، تو اب اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم، اپنے عقائد و افکار میں اختلاف کے باوجود، ایک مشترکہ پلیٹفارم بنا سکتے ہیں۔
مشترکہ دشمن کے خلاف۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے، میں نے الحمد للہ یہ کوشش شروع کی اور پھر سبھی حلقوں کے لوگوں سے میری ملاقاتیں ہوئیں۔ میرے روابط رہے مولانا کلب صادق سے میرے بہت قریبی تعلقات رہے۔ جہاں تک دیوبند کے علماء کی بات ہے، ندوہ کے علماء کی بات ہے تو میں انہیں کی ایک فرد رہا۔ بریلوی علماء سے میری ملاقاتیں رہیں۔
ان کے ساتھ اجلاس میں شریک رہا۔ الحمدللہ جو تجربہ ہمارے بڑوں نے کیا، ہم نے یہ تجربہ نوجوانوں میں منتقل کیا۔ یہاں سے جب مجھے دعوت ملی ایران سے اتحاد اسلامی کی تو بین الاقوامی سطح پر بین الممالک کی سطح پر اگر ایران اور عالم اسلام کا اتحاد ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں پوری امت اسلامیہ متحد ہو جائے گی۔ سب سے بڑا جھگڑا جو بین المللی ہے، بین الاقوامی ہے، وہ شیعہ سنی ہے اور یہ جھگڑا قرن اول سے چلا آ رہا ہے۔
لہذا اگر شیعہ سنی اتحاد ہو جائے، اور جو مشترک چیزیں ہیں، ان پر اتفاق کیا جائے۔ قرآن پاک میں نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا کہ آپ یہودیوں سے کہئے، عیسائیوں سے کہئے کہ اے اہل کتاب آؤ کم از کم جو ہمارے اور تہمارے درمیان مشترکہ نکات ہیں ان پر تو اتفاق کرلیں، ہو ایک اللہ کو مانیں، ہم شرک نہ کریں، ہم سے کوئی کسی دوسرے کو خدا نہ بنائے۔ یہ قرآن کی دعوت ہے، تو گویا بین المذاہب اتحاد کی دعوت پیش کی گئ اور قرآن میں پیش کی گئی۔
فرقہ واریت اور اختلافات سے مسلمانوں کو نقصانات
تو جب اسلام اتنی وسعت عطا کرتا ہے تو کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان مسلمان ٹکرائیں اور اس ٹکراؤ کا جو نتیجہ شروع سے نکلا ہے وہ بڑا بھیانک ہے۔ اسی اختلاف نے وہ شکل اختیار کی، وہ سیاست وجود میں آئی جس نے نبی پاک علیہ الصلواۃ و السلام کے محبوب نواسے کو اور خاندان نبوت کو شہید کر دیا۔ تو معلوم یہ ہوا کہ ایسا اختلاف اور ایسی فرقہ واریت کہ جس سے انسان کا نہ دماغ صحیح رہے نہ دل صحیح رہے۔
اسلام سے تو کیا کہنا انسانیت سے نسبت باقی نہ رہے تو یہ نوبت آتی ہے۔ تو اب آپ سوچئے کہ پہلی صدی میں سنہ61 ہجری میں ان لوگوں نے جو مسلمان کہلاتے تھے، شہید کردیا تو اسکے بعد کیا نہیں ہوگا۔ اب جو کچھ ہوا شام میں، جو عراق میں ہوا، جو یمن میں ہو رہا ہے، جو لیبیا میں ہوا اور ہو رہا ہے، یہ سب نتیجہ ہے آپس کے اختلاف کا۔ اگر ہمارے درمیان یہ اختلاف ختم ہو جائے اور امت ایک ہو جائے تو ہمارا خون نہ بہے اور دشمن فائدہ نہ اٹھائے، لیکن ہم دشمن کے لئے تر نوالہ بن گئے آپس کے اختلاف کی وجہ سے۔
اتحاد امت کے حوالے سے اردو زبان علماء کے لیے اہم پیغام
اتحاد بین المسلمین کے لئے علماء، دانشوروں اور مفکرین کا رول شاید سب سے اہم اور اس کا اثر شاید سب سے دیر پا ہے انکی کوششوں کا، سیاسی رہنماؤں کے اتحاد اور انکے اتفاق میں الگ الگ پہلو رہتے ہیں اور دوسری چیزیں متاثر کرتی ہیں، اسکے علاوہ جو مفکرین ہیں، علماء ہیں انکا لوگوں سے دل سے رابطہ رہتا ہے، اردو زبان علماء کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
میں نے آپ سے شروع میں بات کہی کہ 1972 میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو تجربہ کیا ہے، علماء کا تجربہ ہے یعنی مختلف فرقوں اور طبقوں کے جو بڑے نامی گرامی علماء تھے انہوں نے اپنے اتفاق کا مظاہرہ کیا۔ یہ وقتی اتفاق نہیں تھا۔ آپ غور فرمائیں کہ پچاس سال کے قریب وقت گذر چکا ہے اور یہ اتحاد قائم ہے۔ یہ ایک مثالی اتحاد ہے۔ ہندوستان نے ایک مثال پیش کی ہے۔ اور میں نے کہا کہ دیوبند کے مہتمم مولانا قاری محمد طیب اور ندوہ کے ناظم مولانا ابو الحسن علی ندوی اور انکے علاوہ دیگر علماء، بریلوی کے مولانا مظفر حسین کچھوچھوی صاحب، شیعہ حضرات میں مولانا کلب عابد پھر مولانا کلب صادق صاحب ان سب نے مضبوط اتحاد قائم کیا
ایک حقیقت ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے سامنے ایک مثال موجود ہے ہمیں اسی مثال کو زندہ کرنا چاہیئے عالمی سطح پر بین الاقوامی سطح پر، مقامی سطح پر، یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ آج جو علماء تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہیں، شدت اختیار کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں یہ داعشی علماء ہیں۔ یہ داعش کے لوگ ہیں۔ جو دوسرے کو برداشت نہیں کر پاتے۔ دوسرے کو برداشت کرنا، دوسرے کی رائے کو برداشت کرنا، اپنی رائے پیش کرنا، مہذب علمی گفتگو کرنا، یہ علم کا، دین کا اور ایمان کا تقاضا ہے۔
اس تقاضے سے ہٹ کر جو لوگ تناؤ میں رہتے ہیں، ٹینشن زدہ رہتے ہیں وہ بیمار لوگ ہیں اور میں اگر آج یہ کہوں کہ وہ لوگ داعش کے لوگ معلوم ہوتے ہیں، داعشی علماء، داعشی مولوی، داعشی ملا ہیں وہ جو تناؤ پیدا کرتے ہیں، لڑائی کرواتے ہیں، انتشار پیدا کرتے ہیں، حقائق کا انکار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ غلط ہیں۔
ایران کا انقلاب ایک فکری اور اجتماعی انقلاب
ایران میں 1979 میں جو انقلاب برپا ہوا، امام خمینی جس انقلاب کو لے کر سامنے آئے، وہ محض سیاسی انقلاب نہیں تھا، وہ ایک فکری انقلاب بھی تھا، وہ ایک اجتماعی انقلاب بھی تھا اور مجمع التقریب بین المذاہب کے نام سے مختلف مسالک کے درمیان کوشش کی جائے کہ مفاہمت پیدا ہو، قرب پیدا ہو دوریاں ختم ہوں۔ اس کے لئے جو ایران میں اکیڈمی قائم کی گئی، ہونا یہ چاہیئے تھا کہ یہ اکیڈمی اس سے بھی پہلے سعودی عرب میں قائم ہوتی، امارات میں قائم ہوتی، مصر میں قائم ہوتی۔
افسوس ہے کہ انکے یہاں اس طرح کا ادارہ قائم نہیں ہوا اور اگر قائم ہوا جیسے رابطۃ العالم الاسلامی ہے تو وہ بھی صرف سنیوں تک محدود ہو گیا، وہاں بریلوی حضرات کی نمائندگی نہیں ہے، وہاں پر شیعہ حضرات کی نمائندگی نہیں ہے اور سب جانتے ہیں کہ پاکستان و ہندوستان میں بہت بڑی تعداد بریلوی علماء کی ہے اور انکے عوام کی ہے اور ایران ایک ایسا ملک ہے جس میں شیعہ حضرات ہیں اور سنی بھی ہیں۔ آذربائیجان میں بڑی تعداد میں شعیہ حضرات ہیں، لبنان میں اچھی خاصی تعداد شیعہ حضرات کی ہے۔
شام میں ہے، عراق میں ہے، ھندوستان میں ہے، پاکستان میں ہے۔ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ ہے جوشیعی مسلک سے وابستہ ہے تو اگر مسالک کے درمیان تقریب کی کوشش ہر ملک میں ہوتی اور یہ فرقہ واریت ختم کی جاتی تو بہت خوش آیند بات ہوتی۔ ملت ایک ہوتی چلی جاتی، لیکن اکثر یہ ہوا کہ جس ملک میں کوئی ادارہ قائم ہوا وہ اس ملک کی سیاست کا عضو بن گیا اور اب اس ملک کی سیاست جوبھی خفیہ آرڈر دے اس پلیٹ فارم سے وہی آرڈر پاس کیا جاتا ہے۔
یہاں جو مجمع التقریب بین المذاہب ہے، چونکہ اس کے جو ایک بہت بڑے عالم دین تھے آیت اللہ تسخیری صاحب ان سے میری بڑی ملاقاتیں رہیں، قطر میں رہیں، ترکی میں رہیں، میری ملاقات ان سے انڈونیشیا میں ہوئی، میں نے قریب سے ان کو سمجھا اور ساتھ ساتھ یہ کہ یہ ادارہ فی نفسہ اچھے مقصد کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ اتحاد امت کی ضروت ہے، آپ کا جو بھی نظریہ ہے، آپ کی جو بھی رائے ہے وہ اپنی جگہہ پر ہے لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ میں ہونے کی وجہہ سے آپ کے اندر اتحاد ہونا چاہيئے۔
قادیانیوں کو کافر کہہ دیا گیا،اب ان کو ملت سے خارج کر دیا گیا اس لئے نہ پرسنل لا بورڈ میں قادیانی ہیں، نہ مجمع التقریب میں قادیانی ہیں نہ رابطۃ العالم الاسلامی میں قادیانی ہیں۔ اگر سنی یہ مانتے ہیں کہ شیعہ حضرات جو ہیں یہ بھی قادیانیوں کی طرح ہیں، نعوذا باللہ کافر ہیں تو پھر انکو حج کی اجازت کیوں ہے، عمرہ کی اجازت کیوں ہے۔ میں نے بہت کھل کر سعودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگرآپ یہ کہتے ہو کہ یہ مجوسی ہیں تو پھر حج کی اجازت کیوں دیتے ہو؟
اپنے اندر جرآت دکھاؤ یا تو یہ فیصلہ کرو یا وہ فیصلہ کرو اور امت مسلمہ کے جب افراد ہیں تو پھر آپ کو ملنا چاہیئے۔ آج خوشی کی بات ہے جو میں سن رہا ہوں کہ سعودی حکومت عراق میں عراق کی وساطت سے ایران سے مذاکرات کر رہی ہے، گویا اب شاید ان کو یہ خیال آیا ہے کہ اتحاد کے بغیر چارہ کار نہیں ہے، اور یمن میں بہت خون بہہ گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آگے بڑھتا چلا جائے۔
اللہ تعالی ان کو عقل عطا فرمادے اور سمجھ پیدا ہو۔ یہی سمجھ پاکستان میں منتقل ہونی چاہيئے، ہندوستان میں ہونی چاہیئے۔ ہندوستان میں تو شیعہ سنیوں کا ایک پلیٹ فارم ہے اور وہ آپس میں جھگڑتے نہیں، لیکن پاکستان میں تشدد انکی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شیعہ کافر، سنی کافر، شیعہ کافر، سنی کافر، یہ سب کہتے رہتے ہیں۔ پھر اسکے بعد امت کے یہ دو دھڑے آپس میں اگر لڑیں گے تو دشمن کو پورا موقع فراہم کریں گے، اس کو فتح طشتری میں رکھ کر دے دیں گے۔ یہ وہ جہالت بھی ہے، تعصب بھی ہے تنگ نظری بھی ہے جو امت کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔
ایران اور ایران میں مجمع التقاریب مخلصانہ طور پر اس جدوجہد
یہ جو مجمع التقریب کی طرف سے یہ جو ہفتہ وحدت منایا جا رہا ہے اور نبی پاک علیہ الصلوۃ و السلام کی پیدائش کی یادگار کو بھی خاص طور پر منایا جا رہا ہے، اس موقع پر میں کہوں گا کہ مولانا حمید شہریاری، جنہیں یہاں آیت اللہ شہریاری کہا جاتا ہے، انہوں نے جو دستاویز تیار کی ہے، عربی زبان میں میں نے اس کو دیکھا وہ بہترین دستاویز ہے۔ اس کا ترجمہ اور دیگر زبانوں میں ہونا چاہیئے۔ انہوں نے جس اعتدال کے ساتھ، جس توازن کے ساتھ، فکر کو پیش کیا ہے اور اتحاد کی جس طرح دعوت دی ہے مدلل قرآن کی روشنی میں وہ بڑی کامیاب کوشش ہے۔ اس سے خود یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایران اور ایران میں مجمع التقاریب مخلصانہ طور پر اس جدوجہد کو انجام دے رہے ہیں۔
سنی شیعہ اختلافات کو اس معنی میں ختم کیا جائے کہ اس کی وجہہ سے سب و شتم نہ ہو لعن طعن نہ ہو، جھگڑے نہ ہوں۔ اور یہ میں نے دیکھا یہاں بڑی شدت کے ساتھ، آیت اللہ موسوی عراق سے تشریف لائے ہیں بزرگ ہیں انکی داڑھی سفید ہے، بڑی شدت کے ساتھ انہوں نے تقریر کی کہ جو شیعہ حضرات ابو بکر، عمر اور عثمان پر لعن طعن کرتے ہیں، وہ بے انتہاء مضر قسم کے لوگ ہیں جو حضرت عائشہ پر لعن طعن کرتے ہیں یہ بالکل غلط لوگ ہیں اور انکی وجہہ سے فتنے پیدا ہوتے ہیں، آگ بھڑکتی ہے، اسکی شدت سے ممانعت ہونی چاہیئے۔
آیت اللہ خامنہ ای اور سیستانی کے خلفاء راشدین پر لعن و طعن جائز نہیں
میں نے یہاں یہ بات محسوس کی جناب خامنہ ای صاحب کا قائد اعلی کا یہ فتوی ہے اور ادھر علامہ سیستانی کا یہ فتوی ہے کہ خلفاء راشدین پر لعن طعن کی بالکل بھی اجازت نہیں، نہ حضرت عائشہ پر کسی طرح کے لعن طعن کی اجازت ہے، لہذا اس موقف کے بعد پھر کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ اہل سنت اور شیعوں کا جھگڑا رہے اور جھگڑا صرف جھگڑا نہ رہے بلکہ بات آگے بڑھے اور لڑائی تک پیدا ہو۔
اہل سنت بھی اہل بیت کو مانتے ہیں
یہ نکتہ بہت اہم ہے، کیونکہ اس پر اگر ہم اتفاق کر لیتے ہیں اہل بیت کی جو فضیلتیں ہیں اہل سنت کتابیں ان سے بھری ہوئی ہیں،جو بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں جانتے ہیں، بخاری میں، مسلم میں، ابو داؤد، ترمذی اور دیگر کتابوں میں حضرت علی ابن ابی طالب کے اور حضرت فاطمہ زہرا کے اور حضرات حسنین کے اور پھر دیگر اہلبیت کے کتنے فضائل بیان کئے گئے ہیں، جو اکثر ہمارے یہاں منبروں پر بیان نہیں کئے جاتے۔
اللہ کا یہ فضل ہے، یہ کرم ہے کہ ہمارے بزرگ حضرت شاہ نفیس الحسینی صاحب لاہور میں تھے، انہوں نے مناقب اہل بیت پر کتابیں شائع کیں، حضرت فاطمہ زہرا پر ایک کتاب شائع کی، حضرت حسین پر کتاب شائع کی۔ اس کا اہتمام کیا، لہذا انکی شخصیت ایسی تھی کہ وہ دیوبندی حضرات میں بھی تسلیم کئے جاتے ہیں اور شیعہ حضرات بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کا انتقال ہو گیا۔ میرا ان سے تعلق رہا پاکستان میں جیسے میرا تعلق مولانا علی میاں ابو الحسن ندوی سے وہ تو میرے نانا بھی تھے۔
یہ حضرات ہیں جنہوں نے ہمیشہ اتفاق کی بات کی اور ان سے شیعہ حضرات بھی قریب رہے، سنی حضرات کے تو یہ معتبر علماء میں شمار ہوتے ہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایران سے جو کوشش اس وقت ہو رہی ہے اور یہ جو ہفتے وحدت منایا جا رہا ہے، اس موقع پر جو ایک دستاویزی کتاب شائع کی گئی ہے اسکے ترجمے ہوں اور اس بنیاد پر اب از سر نو اتفاق ہو اور کم از کم سنی حضرات جو سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب جو ہے جزیرۃ العرب یا حرمین کا ملک اب وہ بھی ایران سے اتفاق کر رہا ہے اور مذاکرات کر رہا ہے تو اس میں صداقت ہو، امانت ہو، دیانت ہو، سچائی کے ساتھ یہ عمل کیا جائے تو میں تو بہرحال اتحاد کی دعوت دیتا ہوں، میں
تو ہندو مسلم اتحاد کی دعوت دیتا ہوں، تمام مذاہب کے درمیان بھی کہ انسانی بنیادوں پر ہمارا اور آپکا اتحاد ہو اور اسلامی بنیادوں پر تمام طبقوں کا اتحاد ہو، یہ پیغام پہونچنا چاہیئے پاکستان بھی، ہندوستان بھی، تمام لوگوں تک پہونچنا چاہیئے۔ یہ بات سمجھیں اور اس تناؤ کو ختم کریں، کیونکہ یہ تناؤ ان کا خاتمہ کر دے گا[2]۔
آثار
ان کی اسانید حدیث پر محمد اکرم ندوی نے ایک کتاب العقد اللجيني في أسانيد المحدث الشريف سلمان الحسيني لکھی ہے جو دار الغرب الإسلامي بيروت سے 2004ء میں شائع ہوئی ہے ہوئی۔
اردو
- مذکراتی
- ترتیب و تدوین قرآنی
- الامانۃ فی ضوء القرآن
- علماء اورسیاست
- انتخابِ تفاسیر
- قرآن کی ترتیب نزولی
- مختصر تاریخ فلسطین
- عالمی سیاسی نظریات اور اسلامی سیاست
- ہندوستان میں امارت شرعیہ
- اصلاح معاشرہ کے لیے ہم کیا کریں؟
- امام بخاری اور ان کی الجامع الصحیح (ایک مختصر اور جامع تعارف)
- آزادئ ہند حقیقت یا سراب؟
- تقلید و اجتہاد (حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکار و نظریات کی روشنی میں)
- حدیث نبوی کے چند اسباق
- یہودی خباثتیں (عبد اللہ التل کی کتاب خطر اليهودية العالمية على الإسلام والمسيحية کی اردو ترجمانی)
- خطبات بنگلور
- خطبات سیرت
- ہمارا نصاب تعلیم کیاہو؟
- دعوت عمل پیہم
- آخری وحی اردو کے جدید قالب میں
- دینی مدارس کا نظام تعلیم، خوب تر سے خوب تر کی تلاش
- سفرنامہ ایک طالب علم کا
- عصری تعلیم گاہوں میں مسلم طلبہ کے مسائل اور ان کا حل
- فارغین مدارس کے ذریعہ اسلامی تمدن کی بازیافت
- ماہ رمضان اور پیام قرآن
- محدثین کے ہاں فقہ اور فقہا کی اہمیت
- مسلمان کیا کریں؟
کل ہند شریعہ کونسل کے امیرمنتخب
مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ معاشی اور سیاسی میدان میں رہنمائی کے فقدان کو قرار دیتے ہوئے سلمان حسینی ندوی نے کہا کہ "کل ہند شریعہ کونسل" کے قیام کا مقصد مسلمانوں کی دینی، علمی، معاشی، سیاسی، اقتصادی میدانوں میں شرعی رہنمائی کرنا ہے یہ بات انہوں نے کل ہند شریعہ کونسل کے امیر منتخب ہونے کے بعد کہی انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی دینی علمی معاشی سیاسی اقتصادی میدانوں میں شرعی رہنمائی کرنا ہے اس کیلئے ہر ضلع میں شرعی رہنما ڈیسک قائم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اس کونسلٖ کا مقصد ملک کے تمام انسانوں تک قرآن وسیرت کا پیغام پہونچانا بھی ہے۔
کل ہند شریعہ کونسل کے اراکین
واضح رہے کہ کل ہند شریعہ کونسل کا قیام مختلف ریاستوں کے علما کی نگرانی میں عمل میں آیا جس میں بالاتفاق کل ہند شریعہ کونسل کے امیر کے طور پر مولانا سلمان حسینی ندوی اور نائب صدر مولانا علی پاشاہ قادری اور قومی جنرل سکریٹری مولانا مفتی فاروق قاسمی منتخب ہوئے اور اراکین میں مولانا محامد ہلال قاسمی، ڈاکٹر راشد شریف ،امتیاز حمید خان ،مسٹرعمیر ،مفتی محمد اسماعیل قاسمی،مفتی ابصار ،مفتی محمد ممتاز قاسمی،مفتی ناصر حسین ،شامل ہیں اور ان شاءاللہ بہت جلد مرکزی منتظمہ وعاملہ ریاستی وضلعی باڈی کا انتخاب عمل میں آئے گا۔
کل ہند شریعہ کونسل کے مقاصد
اسی کے ساتھ کل ہند شریعہ کونسل کے مقاصد میں:
- بین المسالک رواداری
- ویمن ایمپاورمنٹ
- آن لائن تعلیمی پروگرام،نوجوانوں کی کردار سازی
- فروغ امن کیلئے جدوجہد
- خدمت خلق
- تصنیف و تالیف
- جدید لائبریریز کا قیام
- عالمگیر تعلیمی
- دعوتی انفراسٹرکچر
- کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز
- علوم القرآن کا فروغ
- اِحیاءِ اِسلام
- اِتحادِ اُمت
- فلاحِ اِنسانیت
- قیامِ اَمن اور فکری و روحانی تربیت کے لیے گراں قدر خدمات اَنجام دہی شامل ہیں۔
کونسل کے اغراض ومقاصد
کونسل اپنےاغراض ومقاصد میں:
- اسلام، شعائر اسلام اور مسلمانوں کے ماثر ومعابد کی حفاظت
- مسلمانوں کےمذہبی، تعلیمی،تمدنی، اور شہری حقوق کی تحقیق و تحصیل
- مسلمانوں کےمذہبی، تعلیمی، معاشرتی اصلاح
- ایسے اداروں کا قیام جو مسلمانوں کی تعلیمی، تہذیبی، سماجی،اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی ترقی واستحکام کا ذریعہ ہوں
- اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انڈین یونین کے مختلف فرقوں کے درمیان میل جول پیدا کرنے کے ساتھ اسے مضبوط کرنے کی جدوجہد کرنا
- علوم عربیہ اور اسلامیہ کا احیا اور زمانہ کے مقتضیات کے مطابق نظام تعلیم کا اجرا
- تعلیم اسلامی کی تشر واشاعت اور اسلامی اوقاف کی تنظیم وحفاظت
- مرکزدعوت اسلامی،شعبہ نشرواشاعت
- دارالمطالعہ،فقہی رہنمائی کے لیے
- مباحث فقہیہ دینی تعلیمی بورڈ،شعبہ ریلف ہیں
اس کے علاوہ بہت سارے میدانوں میں شریعہ کو نسل امت و انسانیت کے فلاح وبہبود کیلئے کام کرے گی اور ہر موقعہ پر اسلام وشریعت کے نفاذ ودفاع کیلئے جد وجہد کرے گی [3]۔
عربی
- لمحۂ عن علم الجرح و التعدیل
- دروس من الحدیث النبوی الشریف
- مفردات القرآن للبخاری
- المقدمۃ فی اصول الحدیث
- بین اھل الرأی واصل الحدیث [4]۔
- ↑ حضور مولانا سلمان حسینی ندوی در نماز جمعهی اهلسنت صادقیهی تهران(سید سلمان ندوی اہل سنت کے نماز جمعہ میں حاضری)-فارسی زبان- mazloum.ir-شائع شدہ از:3 ستمبر 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ تحاد بین المسلمین کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ، ہندوستان کے معروف محقق اور نظریہ پرداز مولانا سلمان ندوی کے ساتھ آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR کا انٹرویو-urdu.khamenei.ir- شائع شدہ از: 15نومبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ مولانا سلمان حسینی ندوی ’کل ہند شریعہ کونسل‘ کے امیرمنتخب-dailyhindustanexpress.com- شائع شدہ از: 23جنوری 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ مولانا سید سلمان حسینی ندوی، ایک ایسی شخصیت جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا-urduleaks.com- شائع شدہ از: 18 اگست 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2024ء۔