تنظیم آزادی فلسطین

نظرثانی بتاریخ 11:49، 31 دسمبر 2023ء از Mahdipor (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏حوالہ جات)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

تنظیم آزادی فلسطین (PLO) ایک نیم فوجی سیاسی تنظیم ہے جسے اقوام متحدہ اور عرب لیگ نے فلسطین کے اندر اور باہر فلسطینی عوام کے واحد جائز نمائندے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اس کا قیام 1964 میں یروشلم میں پہلی فلسطینی عرب کانفرنس کے انعقاد کے بعد، 1964 کی عرب سربراہی کانفرنس (قاہرہ) کے ،بین الاقوامی فورمز میں فلسطینیوں کی نمائندگی کے فیصلے کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔ اس میں تحریک فتح اورعوامی محاذ برائے آزادی فلسطین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے بینر تلے فلسطینی گروپوں اور جماعتوں کی ایک بڑی تعداد سرگرم ہے۔سوائے تحریک حماس ،تحریک جہاد اسلامی اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین -قیادت عامہ کے جن کی رکنیت معطل کر دی گئی ہے۔ اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین کو بیرون ملک رہنے والے فلسطینیوں کے علاوہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کا صدر تصور کیا جاتا ہے۔

تنظیم آزادی فلسطین
سازمان آزادی بخش فلسطین3.png
پارٹی کا نامتنظیم آزادی فلسطین
بانی پارٹی
  • احمد الشقیری
پارٹی رہنمامحمود عباس
مقاصد و مبانیمسلح جدوجہد کے ذریعے فلسطین کی آزادی

ہدف

تنظیم کے قیام کا بنیادی ہدف مسلح جدوجہد کے ذریعے فلسطین کو آزاد کرانا تھا۔ تاہم، تنظیم نے بعد میں فلسطین کے ایک حصے میں ایک عارضی جمہوری ریاست کے قیام کے خیال کو اپنایا جو 1974 میں فلسطینی نیشنل کونسل کے عبوری پروگرام کا حصہ تھا، جس کی اس وقت بعض فلسطینی گروپوں نے مخالفت کی تھی۔ 1988 میں، تنظیم نے سرکاری طور پر تاریخی فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام اور امن و امان کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ رہنے کا نظریہ اپنا لیا جو پناہ گزینوں کی واپسی اور 1967 میں غصب شد سرزمین پر فلسطینیوں کی آزادی اور مشرقی یروشلم کو ان کا دارالحکومت بنانے کی ضمانت دیتا ہے [1]۔ 1993 میں پی ایل او کی اس وقت کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین یاسر عرفات نے اس وقت کے اسرائیلی صدر اسحاق رابن کے نام ایک سرکاری خط میں اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا۔بدلے میں اسرائیل نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کا واحد جائز نمائندہ تسلیم کیا۔ اس کے نتیجے میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک فلسطینی خود مختار اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا، جسے پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدے کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے [2]

تاسیس

عرب لیگ میں ، 1945 میں اس کے قیام کے بعد سے ہی فلسطینی عوام کے مختلف نمائندے رہے ہیں۔ حالانکہ فلسطین اس وقت برطانوی مینڈیٹ کے تحت تھا۔اس دور میں فلسطین کے نمائندے بالترتیب موسی العلمی، عبدالکریم العلمی، احمد حلمی عبد الباقی، اور احمد الشقیری تھے۔

1964 میں پہلی عرب سربراہی کانفرنس میں، جسے مصری صدر جمال عبدالناصر نے بلایا تھا، تنظیم آزادی فلسطین کا قیام فلسطین کے عوام کی مرضی کے اظہار اور ان کے حقوق اور خود ارادیت کا مطالبہ کرنے والی ایک تنظیم کے طور پر کیا گیا تھا۔ کانفرنس نے فلسطین کے نمائندے احمد الشقیری کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ فلسطینیوں سے رابطہ کریں اور اس پر ایک رپورٹ لکھیں جو اگلی عرب سربراہی کانفرنس میں پیش کی جائے۔ احمد الشقیری نے ایک سفر کیا جس کے دوران انہوں نے عرب ممالک کا دورہ کیا اور وہاں کے فلسطینیوں سے رابطہ کیا۔ ان کے دورے کے دوران، قومی چارٹر اور تنظیم آزادی فلسطین کے آئین کا مسودہ تیار کیا گیا، اور ایک عام فلسطینی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

الشقیری نے کانفرنس کے لیے تیاری کمیٹیاں بنائی، جس کے نتیجے میں پہلی فلسطینی کانفرنس میں رکنیت کے لیے امیدواروں کے ناموں کی فہرستیں تیار کی گئیں، جو یروشلم میں 28 مارچ سے 2 جون 1964 کے درمیان منعقد ہوئی تھی اور اس کا افتتاح شاہ حسین بن طلال نے کیا تھا۔ اس کانفرنس کو آزادی فلسطین قومی کونسل کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کانفرنس میں 242 فلسطینی نمائندوں نے شرکت کی جن کا انتخاب عرب حکومتوں اردن، شام، لبنان، مصر، کویت، قطر اور عراق نے کیا تھا۔

اس کانفرنس نے احمد الشقیری کو اپنا صدر منتخب کیا اور نابلس سے حکمت المصری، غزہ سے حيدر عبد الشافی اور لبنان سے نقولا الدر کو نائب صدر منتخب کیا گیا اور تنظیم آزادی فلسطین کے قیام کا اعلان کیا گیا [3]۔ نیز کانفرنس نے قومی چارٹر اور تنظیم کے بنیادی قانون کی توثیق کی، اور شقیری کو تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ کانفرنس نے شقیری کو مستقل کمیٹی کے پندرہ اراکین کا انتخاب کرنے کا کام سونپا، اور یروشلم کو تنظیم کی قیادت کے لیے ہیڈ کوارٹر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ کانفرنس میں فلسطینی عوام کو عسکری طور پر تیار کرنے اور فلسطینی نیشنل فنڈ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کی سربراہی عرب بینک کے بانی کے بیٹے عبدالمجید شومان کو سونپی گئی ۔فلسطینی نیشنل فنڈ کے لئے عرب حکومتوں اور پناہ گزینوں سے رقم اکٹھی کی گئی، جن میں سے ہر ایک کو ہر سال ایک چوتھائی دینار (تقریباً ایک ڈالر) دینے کو کہا گیا۔

جب تنظیم آزادی فلسطین کا قیام عمل میں آیا تو سات دفاتر کھولے گئے۔ سعید السبع کو الجزائر میں، شفیق الحوط کو لبنان میں، جمال الصوریانی کو مصر میں اور مصطفیٰ سہتوت کو شام میں دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

کانفرنس میں مندرجہ ذیل متن سامنے آیا

اپنے مقدس وطن فلسطین پر فلسطینی عرب عوام کے حق پریقین، اور اس کے غصب شدہ حصے کو آزاد کرانے کے لیے جنگ کے ناگزیر ہونے اور اپنے فعال انقلابی وجود کو اجاگر کرنے اور اپنی توانائیوں ، صلاحیتوں اور مادی ،فوجی اور روحانی طاقتوں کو متحرک کرنے کے لیے اس کے عزم اور اصرار کی تصدیق کرتے ہوئے اور عرب قوم کی ایک مستند خواہش کی تکمیل کے لیے جس کی ترجمانی عرب لیگ اور پہلی عرب سربراہی کانفرنس کے فیصلوں میں کی گئی ہے۔

ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے 28 مئی 1964 کو یروشلم شہر میں منعقد ہونے والی پہلی فلسطینی عرب کانفرنس کی طرف سے مندرجہ ذیل چیزوں کا اعلان کرتے ہیں:

  • آزادی کی جنگ لڑنے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی حفاظت اور فتح حاصل کرنے کے لئے فلسطینی عرب عوام کی متحرک قیادت کے طور پر، تنظیم آزادی فلسطین کا قیام
  • تنظیم آزادی فلسطین کے قومی چارٹر کی توثیق جس کے 29 آرٹیکل ہیں۔
  • بنیادی قانون کی منظوری، جس میں 31 دفعات ہیں، اور نیشنل کونسل اور فلسطینی نیشنل فنڈ کے اندرونی ضوابط کی منظوری۔
  • جناب احمد الشقیری کا ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر انتخاب اور انہیں ایگزیکٹو کمیٹی کے 15 اراکین کو منتخب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
  • یہ کانفرنس، اپنے تمام 397 اراکین کے ساتھ، تنظیم آزادی فلسطین کی خشت اول بن گئی ہے۔

تنظیمی محکمے

  • سیاسی شعبہ
  • فوجی محکمہ
  • فلسطینی قومی فنڈ کا محکمہ
  • پناہ گزینوں کے امور کا محکمہ
  • مقبوضہ وطنی سرزمین کے امور کا محکمہ
  • محکمہ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم
  • محکمہ قومی تعلقات
  • محکمہ اطلاعات و ثقافت
  • پاپولر آرگنائزیشن ڈیپارٹمنٹ
  • محکمہ سماجی امور
  • انتظامی امور کا محکمہ
  • مذاکراتی امور کا محکمہ

حوالہ جات

  1. mideastweb.org
  2. William L. Cleveland, A History of the Modern Middle East, Westview Press (2004). ISBN 0-8133-4048-9.
  3. alwatanvoice.com