بارہ امام اور بارہ خلیفے
بارہ امام اور بارہ خلیفہ سے منقول ایک حدیث ہے جس میں آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو بارہ کی عدد میں منحصر کیا ہے جو سب کے سب قریش سے ہونگے۔ یہ حدیث مختلف صورتوں سے نقل ہوئی ہے اور اہل سنت کے علم حدیث کے ماہرین کے مطابق یہ حدیث، صحیح احادیث میں سے ہے۔ شیعہ اس حدیث کو اپنے بارہ اماموں کی امامت پر دلیل سمجھتے ہیں۔ اہل سنت علماء کے درمیان اس حدیث کے مصادیق میں ایک واضح اور معین نقطہ نظر دیکھنے میں نہیں آتا ہے۔
اہل سنت احادیث میں بارہ خلیفے
مسلمانوں کی بہت ساری کتب میں بار خلفا کا ذکر موجود ہے کہ رسولﷲ کے بعد بارہ جانشین ہوں گے۔نقبائے بنی اسرائیل کی طرح میری امت کے بھی بارہ خلیفہ ہوں گے۔
- عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرة ؛قال: سمعت النبی(ص)یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعها،فقال ابی: انه قال: کلهم من قریش-عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے:
میں نے رسول خدا(ص) سے سنا : آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ ہوں گے، جابر کھتے ہیں : دوسرا کلمہ میں نے ٹھیک سے نہیں سنا جس میں آنحضرت(ص) نے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے ہوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کھا: وہ جملہ جو تم نے نہیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے۔ [1]
- مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آ یا ہے:
جابر بن سمرة؛ قال:انطلقتُ الی رسول(ص) اللّٰہ ومعی ابی، فسمعته، یقول: لایَزَالُ هذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْها الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلهم من قریش [2]
- جابر بن سمرہ کھتے ہیں :
ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خدا(ص) میں مشرف ہوا تو میں نے رسول(ص) سے سنا :آپ فرما رھے تھے: یہ دین الہٰی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رھے گا،اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حا ئل ہو گئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کھا :وہ جملہ یہ تھا:یہ تمام بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے۔ اس حدیث کومختلف مضامین کے ساتھ اھل سنت کی اہم کتابوں میں کثرت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ یکون فی آخر الزمان خلیفة یقسم المال ولا یعده [3]
- جابر بن عبد اللہ اور ابوسعید نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے :
آپ(ص) نے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں میرا ایک جانشین و امام ہوگا جو مال و ثروت کو( ناپ و تول کے ساتھ ) تقسیم کرے گا نہ کہ گنے گا
- عن ابی سعید؛ قال: قال رسول الله : من خلفاء کم خلیفة یحشو المال حشیاً ولا یعده عداً [4]
- ابو سعید نے رسول خدا(ص) سے دوسری حدیث نقل کی ہے ؛ آنحضرت(ص) نے فرمایا: تمھار ے خلفاء اور ائمہ میں سے ایک خلیفہ و امام وہ ہوگا جو مال کو مٹھی سے تقسیم کرے گا نہ کہ عدد و شمار سے
- امام زمانہ کے بارے میں فاضل نَوَوی شارح صحیح مسلم؛ مذکورہ حدیث کی لغت حل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
سونا اور چاندی کی اس قسم کی تقسیم ک ا سبب یہ ہے کہ اس وقت ان امام زمانہ(ع) کی وجہ سے کثرت سے فتوحا ت ہوں گی جن سے غنائم اورمال وثروت فراوانی سے حا صل ہوگا اور آپ اس وقت اپنی سخاوت اور بے نیاز ی کا اس طرح مظاھرہ فرمائیں گے، اس کے بعد کھتے ہیں : سنن ترمذی و ابی واؤد میں ایک حدیث کے ضمن میں اس خلیفہ کا نام (مھدی) مرقوم ہے، اس کے بعد اس حدیث کو سنن ترمذ ی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول(ص) نے فرمایا :قیامت واقع نہیں ہوگی جب تک میرے اھل بیت ( خاندان )سے میرا ھمنام، جانشین ظاھر ھو کر عرب پر مسلط نہ ھو جائے۔
- اس کے بعد نووی کھتے ہیں : ترمذی نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے اور سنن داوٴد میں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی تحریر ہے : وہ خلیفہ اس زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔
بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھیکہ آنحضرت نے فرمایا:
- کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ اِبنُ مَرْیَم فِیکُم وَاِمامُکم مِنْکُمْ.[5] تمھارا اس وقت خوشی سے کیا حال ہوگا جب ابن مریم حضرت عیسی تمھارے درمیان نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا؟ ابن حجر نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام شافعی اپنی کتاب ”المناقب“ میں تحریر کرتے ہیں : اس امت میں امام مھدی (ع)کا وجود اور آپ کا حضرت عیسی (ع) کو نماز پڑھانا حد تواتر کے طور پر ثابت ہے [6]۔
- ابن حجر اس کے بعد کھتے ہیں :
بدر الدین عینی اس حدیث کی مفصل شرح کرنے کے بعد اس طرح نتیجہ گیری کرتے ہیں : حضرت عیسی (ع) کا اس امت مسلمہ کے امام مھدی(ع) کے پیچھے قیامت سے نزدیک آخری زمانہ میں نماز پڑھنا ،اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ قائل ہیں کہ زمین کبھی حجت خد ا سے خالی نہیں ، وہ درست ہے اور ان کا یہ عقیده حق بجانب ہے [7]
- اور نووی کتاب تہذیب الاسماء میں کلمہٴعیسیٰ کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں:
حضرت عیسیٰ(ع) کا آخری زمانہ میں امام مھدی(ع) کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے آنا اسلام کی تائید اور تصدیق کی خاطر ہے ،نہ کہ اپنی نبوت اور مسیحت کو بیان کرنے کے لیے اور خدا وند متعال حضرت عیسیٰ(ع) کو امام مھدی (ع) کے پیچھے نماز پڑھواکر رسول (ص)اکرم کے احترام میں اس امت اسلام کو قابل افتخار بنانا چاھتا ہے [8]۔
بارہ خلیفہ کے مصادیق
حدیث باره خلیفہ کے متن میں ان بارہ خلفا کا نام نہیں آیا ہے۔ ابن جوزی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق اور جستجو کی اور اس سے متعلق سوال کیا لیکن میں نے کسی شخص کو نہیں پایا جو اس حدیث کے مصداق کو جانتا ہو۔ [9] اہل سنت کے بعض علماء نے اس حدیث کے مصادیق یعنی بارہ خلفاء کو مشخص کرنے کی بہت زیادہ کوشش کی ہے۔ عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ ان کی نظر میں بارہ خلیفہ سے مراد: ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ، یزید، سفاح، منصور، جابر، امین، سلام، مہدی اور امیر العصب ہیں۔ [10]
سیوطی نے بھی ان کو یوں معرفی کیا ہے: ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن بن علی، معاویۃ بن ابی سفیان، عبداللہ بن زبیر اور عمر بن عبدالعزیز۔ اس کے بعد سیوطی نے یہ احتمال دیا ہے کہ ان بارہ خلیفہ میں سے دو نفر شاید بنی عباس کے دو حکمران المہتدی" اور الظاہر ہوں کیونکہ سیوطی کی نظر میں یہ دو عادل شخص تھے۔ سیوطی آگے چل کر لکھتے ہیں: اس کے بعد دو نفر باقی بچتے ہیں ہمیں ان کا انتظار کرنا چاہئے جن میں سے ایک "مہدی" جو حضرت محمد ؐ کے اہل بیت میں سے ہیں۔ سیوطی نے دوسرے شخص کا نام نہیں لیا ہے [11]
شیعوں کے بارہ امام
قندوزی حنفی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد بعض محققین کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کہتے ہیں: جب ہم ان احادیث پر غور و فکر کرتے ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اکرم(ص) کے بعد بارہ خلیفے ہوں گے، تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان احادیث میں رسول اکرم کی مراد اہل تشیع کے بارہ امام ہیں جو سب کے سب پیغمبر اکرم کی اہل بیت میں سے ہیں۔ کیونکہ اس کے بقول اس حدیث کو کسی طرح بھی خلفائے راشدین پر تطبیق کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے کم ہیں، اسی طرح اسے بنی امیہ یا بنی عباس کے سلاطین پر بھی تطبیق نہیں کی جا سکتی کیونکہ ان دو سلسلوں میں سے ہر ایک میں بارہ سے زیادہ حکمران رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ ان میں بعض افراد نہایت ہی ظالم اور سفاک قسم کے لوگ تھے اور بعض تو بالکل اسلامی احکام کے پابند بھی نہیں تھے سوائے عمر بن عبدالعزیز کے، اس کے علاوہ بنی امیہ، بنی ہاشم میں سے بھی نہیں ہیں جبکہ پیغبر اکرم(ص) نے ان احادیث میں ان سب کے قبیلہ بنی ہاشم میں سے ہونے پر تاکید فرمائی ہیں۔
پس ناچار اس حدیث کو شیعوں کے بارہ اماموں پر تطبیق کرنا پڑے گا جو سب کے سب پیغمبر اکرم(ص) کی اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ یہ اشخاص اپنے زمانے کے سب سے زیادہ دین سے آشنا اور علم و آگاہی میں کوئی بھی ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور فضل و کرم اور تقوی و پرہیزگاری میں میں یہ ہستیاں ہر زمانے میں زبان زد عام و خاص تھے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ ان ہستیوں کو یہ علوم اپنے نانا پیغمبر اکرم(ص) سے ورثہ میں ملی ہے۔ اسی طرح حدیث ثقلین اور اس طرح کی دوسری احادیث اس نظریے کی تائید کرتی ہیں [12]
شیعہ احادیث میں ایک ہی موضوع کو دو طرح سے منعکس اور داخل کیا گیا ہے:
- خلفاء کی تعداد درج ذیل ہے:جعفر بن محمد (ع) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہیں۔ ان میں سے پہلے علی بن ابی طالب ہیں اور ان میں سے آخری قائم (ع) ہیں۔ پس یہ لوگ میرے جانشین، ولی اور سرپرست ہیں اور میری امت پر خدا کی طرف سے حجت ہیں۔ مومن ان کی امامت کا اقرار کرتا ہے اور کافر ان کے فضل اور مقام کا انکار کرتا ہے [13]
- بارہ خلفاء میں سے ہر ایک کے نام ذکر کیے گئے ہیں: جابر بن عبدالله عنہ کی روایت، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیت اطاعت میں سب سے پہلی چیز سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ میرے بعد جانشین اور سردار ہیں۔ ان میں سے سب سے پہلے علی بن ابی طالب، پھر حسن، پھر حسین ، پھر علی بن الحسین ، پھر محمد بن علی، جو تورات میں باقر کے نام سے مشہور ہیں، اور آپ۔ جب آپ اس سے ملیں گے تو اسے دیکھیں گے۔ اسے سلام کہیں۔ پھر صادق جعفر بن محمد پھر موسیٰ بن جعفر پھر علی بن موسی پھر محمد بن علی پھر علی بن محمد پھر حسن بن علی پھر نام اور لقب دونوں میں ہوں۔ زمین پر خدا کا ثبوت اور حسن بن علی کے بعد لوگوں کے درمیان خدا کی باقیات، جس کے ذریعے خدا مشرق اور مغرب کو فتح کرتا ہے [14]۔
حوالہ جات
- ↑ صحیح بخاری ج9، کتاب الاحکام، باب(52)”استخلاف“ حدیث6796۔ صحیح مسلم ج6، کتاب الامارة، باب(11) الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش،،حدیث 1821
- ↑ صحیح مسلم ج 6 ،کتاب الامارہ ،باب1حدیث1821۔(کتاب الامارة کی حدیث نمبر9)
- ↑ صحیح مسلم جلد8 ،کتاب الفتن ،باب” لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل…“ حدیث2913۔2914
- ↑ صحیح مسلم جلد8 ،کتاب الفتن، باب ”لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل…“ حدیث2913،2914
- ↑ صحیح بخاری جلد4 ،کتاب الانبیاء ،باب ”نزول عیسی ابن مریم “حدیث 3265۔
- ↑ فتح الباری شرحا لبخاری ج7 ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم …ص 305
- ↑ عمدة القاری جلد16 ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم
- ↑ الا صابة جلد4،عیسی المسیح بن مریم الصدیقة بنت عمران ، ص638
- ↑ کشف المشکل من حدیث الصحیحین، عبد الرحمن بن الجوزی، تحقیق علی حسین البواب، ریاض، دار الوطن، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۴۴۹
- ↑ تاریخ الخلفاء، ص۲۱۰
- ↑ تاریخ الخلفاء، ص۱۰- ۱۲
- ↑ نابیع المودۃ، ج2، ص535
- ↑ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج۴، ص ۱۸۰
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج ۲۳،ص ۲۹۰