جمعه نصر

نظرثانی بتاریخ 16:13، 25 اکتوبر 2024ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

جمعه نصر ایک ایسا واقعہ ہے جو قدس و فلسطین کی آزادی اور اسلامی مزاحمت کے پرچم بردار اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام سید حسن نصر الله کی بیروت پر اسرائیلی حملے میں شہید ہونے اور فلسطینی اسلامی مزاحمت کے جنگجوؤں کی جانب سے طوفان الاقصی آپریشن کی پہلی برسی کے موقع پر تہران میں پیش آیا اور آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی جانب سے سید حسن نصر اللہ اور شہید جنرل نیلفروشان سمیت ان کے ساتھیوں کی یاد میں یادگاری تقریب4 اکتوبر 2024ء بروز جمعہ کی صبح مصلای امام خمینی میں منعقد ہوئی اور اس کے بعد ولی امر مسلمین حضرت آیت الله العظمی امام خامنه ای مدظله کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی گئی۔

جمعه نصر
جمعه نصر.jpg
واقعہ کی معلومات
واقعہ کا نامجمعہ نصر
واقعہ کی تاریخ2024ء
واقعہ کا دن2اکتوبر
واقعہ کا مقام
عواملشہادت سید حسن نصر اللہ اور اسرائیل کا لبنان اور غزہ پر جارحانہ حملہ

مسلم امت کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر

مسلم امت اور ایرانی عوام اس وسیع ملک کے صوبوں اور شهروں اور دور دور کے مختلف خطوں سے پورے جوش خروش کے ساٹھ تهران آئے اور اس عظیم تقریب میں شرکت کے لئے سینکڑوں کیلومٹر مسافت طے کرچکے تھے اور کچھ لوگ تو تقریب سے ایک دو دن پهلے ہی پهنچ گئے تھے اور تہران کے باشندوں کے شانہ به شانہ سید حسن نصر الله اور ان کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعده تقریب میں کی شرکت کی۔

آخر میں رهبر انقلاب حضرت اما م خامنه ای کی امامت میں نماز جمعه ادا کی ۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کے سربراه اور قدس اور فلسطینی عوام کی آزادی کے علمبردار سید حسن نصر الله اور ان کے ساتھیوں کی یاد میں منعقده تقریب اور ولی امر مسلمین حضرت امام خامنه ای کی امامت میں منعقده نماز جمعہ میں شرکت کرنے والا مسلم امت کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر پوری دنیا کے عالمی سوشل میڈیا اور نیوز ایجنیسوں کے لئے حیرت کا باعث بنا۔

اس تاریخی تقریب میں مرد و خواتین، جوان اور بوڑھے سب نے شرکت کی تھی تمام شرکا نے یک صدا هو کر اسرائیل مردہ باد اور امریکہ مردہ باد کےفلگ شگاف نعرے لگائے۔ اس یوم الله جو کہ اسلامی جمهوریه ایران کے ترنگے پرچم کے نیچے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی راهنمائی میں قومی اقتدار اور اتحاد کا ایک کرشمہ تھا ، نہ صرف عبادت گزاروں کے دلوں میں بلکہ اس نے اس سرزمین کی تاریخ اور اس کے عالمی امیج میں ایک لازوال تصویر تخلیق کی۔

پهلا خطبه

بسم الله الرّحمن الرّحیم و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علیٰ سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علیٰ آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین. اللھمّ انّی احمدک و استعینک و استغفرک و اتوکّل علیک. و السّلام علیٰ ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین. قال اللہ تعالیٰ: وَ المُؤمِنونَ وَ المُؤمِناتُ بَعضُھم اَولِیاءُ بَعضٍ یَامُرونَ بِالمَعروفِ وَ یَنھَونَ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقیمونَ الصَّلوۃَ وَ یُؤتونَ الزَّکوۃَ وَ یُطیعونَ اللہَ وَ رَسولَہُ اُولئِکَ سَیَرحَمُھُمُ اللہُ اِنَّ اللہَ عَزیزٌ حَکیمٌ. اپنے سارے عزیز بھائیوں اور بہنوں کو تقوائے الہی کو ملحوظ رکھنے کی دعوت دیتا ہوں، سفارش کرتا ہوں۔ اپنی گفتار اور اپنے عمل میں ہم محتاط رہیں اور الہی حدود سے خارج نہ ہوں۔ تقوی کے معنی یہی ہیں۔

مومنین کا با همی اتحاد اور اتفاق

جس آیت کی میں نے تلاوت کی اس میں مومنین کی ایک دوسرے سے وابستگي اور رابطے کا اہم موضوع اٹھایا گيا ہے۔ قرآنی بیان میں اس رابطے اور وابستگی کو 'ولایت' سے تعبیر کیا گیا ہے، مومنین کی آپس میں ایک دوسرے سے ولایت۔ یہ چیز قرآن کی کئی آیتوں میں آئی ہے۔ اس آیت میں ولایت و وابستگی کا ثمرہ رحمت خداوندی قرار دیا گيا ہے۔: اُولئِکَ سَیَرحَمُھُمُ اللہ۔ یعنی اگر آپ مسلمانوں میں آپسی رشتہ، رابطہ، تعاون اور ہمدلی ہو تو رحمت خداوندی آپ کے شامل حال ہوگی۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللہَ عَزیزٌ حَکیمٌ۔ عزت الہی اور حکمت الہی کا ذکر کرکے آیت کو ختم کیا گیا ہے۔ اس کا فلسفہ شاید یہ ہو کہ اس موقع پر رحمت خدا کا نزول عزت پروردگار اور حکمت الہی سے نسبت رکھتا ہے۔ چونکہ رحمت خداوندی میں بندوں پر اللہ کی جانب سے نازل ہونے والے گوناگوں فضائل شامل ہیں۔ ساری نعمتیں، سارے الطاف، زندگی کے سارے واقعات رحمت الہی سے عبارت ہیں۔ مگر اس آیت میں یہ رحمت در حقیقت عزت و حکمت سے نسبت رکھتی ہے۔ عزت الہی یعنی تمام عالم وجود پر پروردگار کی قدرت کا احاطہ و تسلط۔ حکمت الہی سے مراد ہے خلقت کے قوانین کا استحکام و پائیداری۔ شاید اس آیت میں ہماری توجہ اس مفہوم پر مرکوز کرائی گئی ہے کہ اگر مسلمانوں میں آپس میں اتحاد و اتفاق ہو تو عزت الہی اور حکمت خداوندی ان کی پشت پناہ قرار پائے گی۔ وہ بیکراں قدرت خداوندی کے فیوض سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ اللہ کی سنتوں اور قوانین الہی کے تقاضوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ ولایت کیا ہے؟ اس سے مراد ہے مسلمانوں کا باہمی رابطہ اور وابستگی۔ یہ مسلمانوں کے لئے قرآنی سیاست ہے۔ مسلمانوں کے لئے قرآنی سیاست یہ ہے کہ مسلم اقوام، مسلم جماعتیں آپس میں یکجہتی قائم کریں، گویا وعدہ کیا جا رہا ہے کہ اگر آپ مسلم اقوام نے آپس میں یکجہتی قائم کر لی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عزت الہی آپ کی پشت پناہ بن جائے گی۔ یعنی پھر آپ ساری رکاوٹیں کو عبور کر لیں گے، سارے دشمنوں پر فتحیاب ہو جائیں گے۔ حکمت الہیہ آپ کی پشت پناہ ہوگی۔ یعنی تمام قوانین خلقت آپ کی پیشرفت میں مددگار بنیں گے۔ یہ قرآنی منطق اور قرآنی سیاست ہے۔ اس کے برعکس سیاست، دشمنان اسلام کی سیاست ہے۔ یعنی دنیا کی استکباری طاقتوں اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والوں کی سیاست۔ اس کی پالیسی "تفرقہ ڈالو اور راج کرو" کی پالیسی ہے۔ ان کی بنیادی پالیسی ہی تفرقہ اندازی ہے۔ تفرقہ اندازی کی اس پالیسی کو اسلامی ممالک میں آج تک گوناگوں حربوں کے ذریعے نافذ کیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی وہ باز نہیں آئے ہیں، وہ سبب بنتے ہیں کہ مسلم اقوام کے دل ایک دوسرے کی طرف سے مکدر رہیں۔ لیکن اب قومیں بیدار ہو گئی ہیں۔ آج وہ دن ہے کہ امت اسلامی اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے اس حربے کو ناکام کر سکتی ہے۔

تمام مسلمین کا مشترکه دشمن

میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملت ایران کا جو دشمن ہے وہی ملت فلسطین کا بھی دشمن ہے، وہی ملت لبنان کا بھی دشمن ہے، وہی ملت عراق کا بھی دشمن ہے، وہی ملت مصر کا بھی دشمن ہے، وہی ملت شام کا بھی دشمن ہے، ملت یمن کا بھی دشمن ہے۔ دشمن ایک ہی ہے۔ بس الگ الگ ملکوں میں دشمن کی روشیں مختلف ہیں۔ کہیں نفسیاتی جنگ کے ذریعے، کہیں اقتصادی دباؤ کی مدد سے، کہیں دو ٹن وزنی بم کی مدد سے، کہیں اسلحے سے، کہیں مسکراہٹوں کے ذریعے ہمارے دشمن اپنی اس پالیسی کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ مگر سب کا کمانڈ اینڈ کنٹرول روم ایک ہے۔ ایک ہی جگہ سے احکامات صادر ہوتے ہیں۔ ایک ہی جگہ سے مسلم آبادیوں اور مسلم اقوام پر حملوں کا فرمان جاری ہوتا ہے۔ اگر یہ پالیسی کسی ایک ملک میں کامیاب ہوئی، کسی ایک ملک پر اس نے غلبہ پیدا کیا تو اس ایک ملک کی طرف سے آسودہ خاطر ہونے کے بعد دشمن دوسرے ملک کی طرف بڑھے گا۔ اقوام کو چاہئے کہ ایسا نہ ہونے دیں۔

قوموں کی بیداری

جو قوم بھی چاہتی ہے کہ دشمن کے مفلوج کن محاصرے میں گرفتار نہ ہو، اسے چاہئے کہ پہلے ہی اپنی آنکھیں کھلی رکھے، بیدار رہے، جیسے ہی دیکھے کہ دشمن کسی دوسری ملت کی سمت بڑھا ہے، خود کو اس مظلوم اور ستم رسیدہ قوم کے دکھ درد کا شریک جانے، اس کی مدد کرے، اس سے تعاون کرے تاکہ دشمن وہاں کامیاب نہ ہو سکے۔ اگر دشمن وہاں کامیاب ہو گیا تو دوسرے پوائنٹ کی جانب بڑھے گا۔ ہم مسلمان برسوں اس حقیقت سے غفلت برتتے رہے اور اس کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھا۔ اب آج ہمیں غافل نہیں ہونا ہے۔ ہمیں اپنے ہوش و حواس بجا رکھنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ دفاعی بیلٹ کو، خود مختاری کی بیلٹ کو، عزت و وقار کی بیلٹ کو افغانستان سے یمن تک، ایران سے غزہ و لبنان تک سارے اسلامی ملکوں میں، ساری مسلم اقوام میں محکم کریں۔ یہ پہلا نکتہ ہے جو میں آج عرض کرنا چاہ رہا تھا۔

دشمن کے مقابل استقامت کا مظاهره کرنے کی ضرورت

آج میری زیادہ گفتگو لبنانی اور فلسطینی بھائیوں سے ہے جو مشکلات سے دوچار ہیں۔ دوسرے خطبے میں یہ باتیں ان سے عرض کروں گا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے دفاعی احکامات نے ہمیں ہمارے فریضے سے آگاہ کر دیا ہے۔ اسلام کے دفاعی احکام نے بھی، ہمارے آئین نے بھی اور بین الاقوامی قوانین نے بھی، ویسے ان قوانین کی نگارش میں ہمارا کوئی رول نہیں رہا ہے، مگر حتی ان قوانین میں بھی یہ چیز جو میں عرض کرنے جا رہا ہوں مسلّمہ حقائق کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ چیز یہ ہے کہ ہر قوم کو اپنی سرزمین کا، اپنے گھر کا، اپنے ملک کا، اپنے مفادات کا ہر جارح کے مقابلے میں دفاع کرنے کا حق ہے۔ اس بات کا یہ مطلب ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ملت فلسطین کو پورا حق ہے کہ اس دشمن کے مقابلے میں جس نے اس کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے، اس کے گھر پر قبضہ کر لیا ہے، اس کی کھیتیوں کو تباہ کر دیا ہے، اس کی زندگی کو تباہ کر دیا ہے، دفاع کرے۔ ملت فلسطین کو یہ حق حاصل ہے۔ یہ بہت مدلل بات ہے جس کی تایید آج عالمی قوانین بھی کرتے ہیں۔

جائز تعاون اور دفاع کی ضرورت

فلسطین کس کا ہے؟ فلسطینی عوام کون ہیں؟ یہ قابض کہاں سے آئے ہیں؟ ملت فلسطین کو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حق ہے۔ کوئی بھی عدالت، کوئی بھی مرکز، کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ ملت فلسطین پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے۔ جو لوگ ملت فلسطین کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی در اصل اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں۔ کوئی بھی کسی بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے ملت لبنان اور حزب اللہ لبنان پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غزہ کی اور فلسطینی عوام کے قیام کی حمایت کر رہی ہے۔ یہ ان کا فریضہ تھا، انہیں یہ کرنا ہی تھا۔ یہ تو اسلامی حکم بھی ہے، عقل کا تقاضہ بھی ہے اور بین الاقوامی اور عالمی منطق بھی ہے۔ فلسطینی اپنی سرزمین کے لئے لڑ رہے ہیں، ان کا دفاع قانونی ہے، ان کی مدد قانونی ہے۔

کوتاهی اور جلد بازی سے پرهیز

بنابریں یہ سارے حملے اور طوفان الاقصی آپریشن جو گزشتہ سال انہیں ایام میں انجام دیا گيا، ( بالکل صحیح اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے منطقی قدم تھا۔ اس میں فلسطینی حق بجانب تھے۔ لبنانیوں کا فلسطینی عوام کے دفاع کے لئے دلیری سے کھڑے ہو جانا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ وہ بھی قانونی، عقلمندانہ، منطقی اور جائز اقدام تھا۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ ان پر تنقید کرے کہ آپ ان کے دفاع کے لئے کیوں آگے آئے۔ دو تین شب قبل ہماری مسلح فورسز کا درخشاں کارنامہ بھی پوری طرح قانونی اور جائز اقدام تھا۔ ہماری مسلح فورسز نے جو کیا وہ علاقے میں امریکہ کے پاگل کتے، خوں آشام انتظامیہ، بھیڑیا صفت حکومت کے حیران کن جرائم پر غاصب صیہونی جکومت کو دی جانے والی کم ترین سزا تھی۔ اس تعلق سے اسلامی جمہوریہ کا جو بھی فریضہ ہوگا اسے پوری قوت، استحکام اور تیقن کے ساتھ انجام دے گی۔ فریضے پر عمل آوری میں نہ تو ہم لیت و لعل سے کام لیں گے اور نہ عجلت و جلدبازی کریں گے۔ لیت و لعل بھی نہیں کریں گے، کوتاہی بھی نہیں کریں گے اور عجلت پسندی کا شکار بھی نہیں ہوں گے۔ جو منطقی اقدام ہے، عقلی اقدام ہے، جو سیاسی و عسکری عہدیداران کی نظر میں صحیح ہوگا وہ اپنے وقت پر، اپنے موقع پر انجام دیا جائے گا۔ دوسرے خطبے میں لبنان کے مسائل پر بات ہوگی اور اس خطبے میں ہمارا خطاب علاقے کے ممالک میں رہنے والے ہمارے عرب بھائیوں سے ہے۔ لہذا یہ خطبہ عربی زبان میں دوں گا۔ بِسمِ اللَهِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ. وَ العَصرِ * اِنَّ الاِنسانَ لَفی‌ خُسرٍ * اِلَّا الَّذینَ آمَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ.

دوسرا خطبه

والحمد للہ رب العالمین، احمدہ و استعینہ و استغفرہ و اتوکل علیہ و اصلی و اسلّم علی حبیبہ الرسول الاعظم، سیدنا محمد المصطفی و آلہ الطاھرین سیما علی امیر المومنین و حبیبتہ الزھراء المرضیۃ و الحسن و الحسین سیدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی الباقر و جعفر ابن محمد الصادق و موسی بن جعفر الکاظم و علی ابن موسی الرضا و محمد بن علی الجواد و علی بن محمد الھادی و الحسن ابن علی الزکی العسکری و الحجۃ بن الحسن القائم المھدی صلوات اللہ علیھم اجمعین و اسلم علی صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدین و علی حماۃ المستضعفین و ولاۃ المومنین۔

پورے خطے کے اقوام کا ترجمان

میں نے ضروری سمجھا کہ میرے بھائی، میرے عزیز، باعث افتخار، عالم اسلام کی محبوب ہستی، پورے خطے کے اقوام کا ترجمان ، لبنان کے گوہر درخشاں جناب سید حسن نصر اللہ رضوان اللہ علیہ کو خراج عقیدت کا پروگرام تہران کی نماز جمعہ میں منعقد ہو اور کچھ نکات بھی سب کی خدمت میں عرض کر دوں۔ اس خطبے میں خطاب تمام عالم اسلام سے ہے لیکن میری عزیز ملت لبنان و فلسطین اس کے خصوصی مخاطب ہیں۔ ہم سب کے سب سید عزیز کی شہادت پر غمزدہ اور ان کے سوگوار ہیں۔ یہ بہت بڑا خسارہ ہے، اس نے واقعی ہمیں غمزدہ کر دیا۔ البتہ ہماری عزاداری افسردگی، ذہنی انتشار اور مایوسی کے معنی میں نہیں ہے۔ یہ سید الشہدا امام حسین ابن علی علیہما السلام کی عزاداری جیسی ہے: زںدگی دینے والی، سبق آموز، جوش و جذبہ پیدا کرنے والی اور امید آفرین۔ سید حسن نصر اللہ کا جسم ہمارے درمیان سے چلا گیا لیکن ان کی اصلی شخصیت، ان کی روح، ان کا راستہ، ان کی دور رس آواز بدستور ہمارے درمیان ہے اور باقی رہے گی۔ وہ ظالم اور لٹیرے شیاطین کے مقابلے میں مزاحمت کا بلند پرچم تھے، مظلوموں کی بولتی زبان اور بہادر محافظ تھے، مجاہدین اور حق پرستوں کی جرئت و ڈھارس کا موجب تھے۔ ان کی مقبولیت اور گہری تاثیر کا دائرہ لبنان، ایران اور عرب ممالک کی حدود سے آگے تک پھیلا ہوا تھا اور اب ان کی اس شہادت سے ان کی تاثیر میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ آپ وفادار ملت لبنان کے لئے ان کا سب سے اہم زبانی اور عملی پیغام یہ ہے کہ امام موسی صدر، عباس موسوی اور دیگر ممتاز شخصیات کے رخصت ہو جانے کی صورت میں آپ مایوس اور پریشان نہ ہوں، پیکار کی راہ میں شک و تردد سے دوچار نہ ہوں، اپنی کوششیں اور توانائياں بڑھائیے، اپنے اتحاد و یکجہتی میں اضافہ کیجئے۔ جارح و حملہ آور دشمن کے مقابلے میں جذبہ ایمان و توکل کی تقویت کرکے مزاحمت کیجئے اور اسے شکست دیجئے۔ میرے عزیزو! باوفا ملت لبنان! حزب اللہ اور امل کے جوشیلے جوانو! میرے فرزندو! آج بھی اپنی ملت، مزاحمتی محاذ اور عالم اسلام سے ہمارے شہید سید کی خواہش یہی ہے۔ پلید اور پست دشمن جب حزب اللہ یا حماس، یا جہاد اسلامی یا دیگر مجاہد فی سبیل اللہ تحریکوں کے مستحکم ڈھانچے کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا پا رہا ہے تو ٹارگٹ کلنگ، بمباری، قتل عام اور غیر مسلح افراد کو سوگوار کرکے اسے اپنی کامیابی ظاہر کر رہا ہے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ اس روئے کا نتیجہ عوام الناس کے غم و غصہ کی شدت، جذبات کا بھڑک جانا، زیادہ لوگوں، سرداروں، رہنماؤں اور جاں نثاروں کا سامنے آنا اور خوں آشام بھیڑئے کے گرد محاصرہ تنگ تر ہو جانا اور صفحہ ہستی سے اس کے شرمناک وجود کا خاتمہ ہے۔ عزیزو! غمزدہ دلوں کو اللہ کے ذکر اور اس سے طلب نصرت کے ذریعے سکون ملے گا، ویرانیاں دور ہوں گی اور آپ کے صبر و استقامت سے عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔ عزیز سید تیس سال تک سخت پیکار میں قائد کے فرائض انجام دیتے رہے اور حزب اللہ کو ایک ایک قدم کرکے بلندیوں پر پہنچایا۔ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا. سید کی مدبرانہ کوششوں سے حزب اللہ نے مرحلہ بہ مرحلہ، صبر و تحمل کے ساتھ منطقی و فطری انداز میں نمو کا عمل طے کیا اور مختلف مواقع پر صیہونی حکومت کو پسپا کرکے دشمن کو اپنی موجودگی کا احساس کرایا۔ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا.

حزب الله شجره طیبه

حزب اللہ واقعی شجرہ طیبہ ہے۔ حزب اللہ اور اس کے شجاع و شہید رہبر لبنان کی تاریخی و شناختی خصوصیات کا نچوڑ ہیں۔ ہم ایرانی بہت قدیم ایام سے لبنان اور اس کی خصوصیات سے آشنا ہیں۔ محمد بن مکی العاملی شہید، علی بن عبد العال کرکی، زین الدین العاملی شہید، حسین بن عبد الصمد العاملی، ان کے بیٹے محمد بھاء الدینی المعروف بہ شیخ البھایی اور دیگر دینی ہستیاں اور علما سربداران اور صفوی حکومتوں میں آٹھویں، دسویں اور گیارہویں صدی ہجری میں اپنے علم کی برکتوں سے فیض پہنچاتے رہے ہیں۔ زخمی اور لہولہان لبنان کا قرض ادا کرنا ہمارا اور تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔ حزب اللہ اور شہید سید نے غزہ کا دفاع کرکے، مسجد الاقصی کے لئے جہاد کرکے اور غاصب و ظالم حکومت پر ضرب لگا کر پورے علاقے اور دنیائے اسلام کی حیاتی خدمت کی راہ میں قدم بڑھایا۔ غاصب حکومت کی سلامتی کی حفاظت پر امریکہ اور اس کے ہمنواؤں کا زور اس علاقے کے وسائل کو ہڑپنے اور اسے دنیا کی بڑی جنگوں میں استعمال کرنے کے مقصد سے اس حکومت کو ایک حربے میں تبدیل کرنے کی مہلک پالیسی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ ان کی پالیسی اس حکومت کو علاقے سے مغربی دنیا کے لئے انرجی کی سپلائی اور مغرب سے پروڈکٹ اور ٹیکنالوجی اس علاقے میں لانے کے دروازے میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کا مطلب غاصب حکومت کے وجود کی گارنٹی فراہم کرنا اور پورے علاقے کو اس کا محتاج بنا دینا ہے۔ مجاہدین کے خلاف اس حکومت کا سفاکانہ اور بے لگام رویہ اسی پوزیشن میں پہنچنے کی لالچ کا نتیجہ ہے۔ یہ حقیقت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس حکومت پر پڑنے والا ہر وار خواہ وہ کسی بھی شخص اور تنظیم کی طرف سے ہو پورے علاقے بلکہ پوری انسانیت کی خدمت ہے۔ یقینا یہ صیہونی و امریکی خواب خیال باطل اور محال شئے ہے۔ یہ حکومت وہی شجرہ خبیثہ ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور قول پروردگار کے مطابق اسے کوئی بقا نہیں ہے. یہ خبیث حکومت بنیاد سے عاری، مصنوعی اور ناپائيدار ہے اور صرف امریکہ کی مدد سے اس نے بہ مشکل اپنا وجود باقی رکھا ہے۔ لیکن اذن الہی سے وہ زیادہ نہیں ٹک سکے گی۔ اس دعوے کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس وقت دشمن غزہ اور لبنان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا و کئی مغربی حکومتوں کی وسیع مدد کے باوجود کچھ ہزار مردان جنگ اور مجاہد فی سبیل اللہ افراد کے مقابلے میں جو محصور بھی ہیں اور باہر سے ان کی ہر طرح کی مدد روک دی گئی ہے، شکست کھا گئی، اس کی ساری کامیابی بس گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور غیر مسلح افراد کے ہجوم والی جگہوں پر بمباری کرنا ہے۔ آج رفتہ رفتہ مجرم صیہونی گینگ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ حماس و حزب اللہ کو ہرگز شکست نہیں دے سکے گا۔

انقلاب کے ستون

لبنان اور فلسطین کے ثابت قدم عوام! شجاع مجاہدین اور صابر و قدر شناس عوام! یہ شہادتیں، یہ زمین پر بہنے والا خون آپ کی تحریک کو کمزور نہیں مستحکم تر بنائے گا۔ ایک سال (1981) کے موسم گرما کے تقریبا تین مہینے میں اسلامی مملکت ایران کی کئی درجن ممتاز شخصیات کو قتل کر دیا گيا، جن میں سید محمد بہشتی جیسی عظیم ہستی بھی شامل تھی، رجائی جیسے صدر اور باہنر جیسے وزیر اعظم شامل تھے، آیت اللہ مدنی، قدوسی، ہاشمی نژاد وغیرہ جیسے علما شامل تھے۔ ان میں سے ہر ایک ملّی یا مقامی سطح پر انقلاب کے ستونوں میں شمار ہوتے تھے اور ان کا چلا جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ لیکن انقلاب کی پیش قدمی رکی نہیں، وہ پسپا نہیں ہوا بلکہ اس کی رفتار مزید تیز ہو گئی۔ اس وقت بھی علاقے میں مزاحمت کو ان شہادوں کی وجہ سے پسپائی نہیں ہوگی، مزاحمت فتحیاب ہوگی۔ غزہ میں مزاحمت نے دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا، اسلام کو عزت دی۔ غزہ میں تمام تر شرانگیزیوں اور پست حرکتوں کے مقابلے میں اسلام سینہ سپر ہوکر کھڑا ہے۔ کوئی بھی آزاد سوچ رکھنے والا انسان ایسا نہیں جو اس استقامت کو سلام نہ کرے اور سفاک و خوں آشام دشمن پر لعنت نہ بھیجے۔ طوفان الاقصی اور غزہ و لبنان کی ایک سال کی مزاحمت نے غاصب حکومت کو اس حالت میں پہنچا دیا کہ اس کا سارا ہم و غم اپنے وجود کو بچانا ہے، یعنی وہی فکرمندی جو وجود میں آنے کے ابتدائی برسوں میں اسے لاحق رہتی تھی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ فلسطین و لبنان کے مجاہد مردوں کی جدوجہد نے صیہونی حکومت کو ستر سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔

صیہونی حکومت خطے میں جنگ، بدامنی اور پسماندگی کی اصلی وجہ

اس علاقے میں جنگ، بدامنی اور پسماندگی کی اصلی وجہ صیہونی حکومت کا وجود اور ان حکومتوں کی موجودگی ہے جو دعوی کرتی ہیں کہ علاقے میں امن و آشتی کے لئے کوشاں ہیں۔ علاقے کی سب سے بڑی مشکل اغیار کی دخل اندازی ہے۔ علاقے کی حکومتیں اس علاقے میں امن و سلامتی قائم کرنے پر قادر ہیں۔ اس عظیم اور نجات بخش ہدف کے لئے قوموں اور حکومتوں کی کوششوں اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اللہ اس راہ پر چلنے والوں کے ساتھ ہے۔ "و انّ اللہ علی نصرھم لقدیر" اللہ کا سلام ہو شہید رہنما نصر اللہ پر، شہید ہیرو ہنیہ پر اور مایہ ناز کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی پر۔ بِسمِ اللَهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ‌ * اِذا جاءَ نَصرُ اللَهِ وَ الفَتحُ * وَ رَاَیتَ النّاسَ یَدخُلونَ فی‌ دینِ اللهِ اَفواجاً * فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ وَ استَغفِرهُ اِنَّهُ کانَ تَوّاباً. [1]

جمعه نصر کی بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر عکاسی

جمعه نصر کے خطبات بین الاقوامی اور علاقائی نشر هوئے اور مختلف علاقائی اور عالمی میڈیا نے ان کی کوریج کی ۔

اسکائی نیوز

برطانیه کے نیوز چینل اسکائی نیوز نے رهبر معظم کے جمعه نصر کے خطبات نشر کرتےهوئے لکھا که انهوں نے تمام مسلمانوں کو مشترکه اور جارحیت پسند دشمن یعنی اسرائیل کے خلاف متحد هونے کی دعوت دی۔ اس ٹی وی چینل نے مصلای تهران کی تصاویر نشر کرتے هوئے مغربی ایشیا خاص کر غزه اور لبنان کی کشیدگی کے نازک حالات میں رهبر معظم کے حضور کو انتهائی اهم قرار دیا ۔ اسکائی نیوز نے مشرق وسطیٰ کے حالات سے متعلق خصوصی صفحہ پر رهبر معظم کے کچھ بیانات نشر کیا اور لکھا: گزشتہ چار سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای نے تہران میں نماز جمعہ ادا کی ہے۔ اپنے بیانات میں انہوں نے افغانستان سے لے کر یمن تک اور ایران سے لے کر غزہ اور لبنان تک مسلم اقوام سے کہا کہ وہ آزادی کے لئے کمر کس لیں۔

ترکی NTVچینل

ترکی کی این ٹی وی کے رپورٹر: ایران نے اپنی طاقت دکھایا ۔ ہم نے تہران نماز جمعہ میں لوگوں کی بے مثال شرکت کا مشاہدہ کیا ۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فتح اور کامیابی کا خطبہ دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کا عالم اسلام کے لیے پیغام، اتحاد کا پیغام تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ کها که ایران کا ردعمل ہلکا تھا لیکن اگر دوبارہ ضرورت پڑی تو ہم اس بار سخت جواب دیں گے۔ صدر، پارلیمنٹ کے اسپیکر، عدلیہ کے سربراہ اور ملک کے حکام کی عوام کے ساتھ موجودگی مختلف زاویوں سے ایرانیوں کے اتحاد کی علامت تھی۔

CNN

سی این این نیوز چینل نے تہران میں نماز جمعہ میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی شرکت پر تاکید کی اور اس خبر کو شائع کرتے ہوئے لکھا : آیت اللہ خامنہ ای نے تہران میں نماز جمعہ کی امامت حزب الله لبنان کے سربراه سید حسن نصر اللہ کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب کے ایک حصے کے طور پر کی۔ اس نیوز چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا که جمعه نصر ایک بے مثال واقعه تھا جس میں آیت الله خامنه ای کی امامت میں نماز جمعه ادا کرنے هزاروں کی تعداد میں لوگ جمع هوئے ۔ اس تقریب میں موجود لوگوں کی بڑی تعداد کے ہاتھوں میں فلسطین اور لبنان کے جھنڈے دیکھے جا سکتے تھے۔ فرانس کی خبر رساں ایجنسی فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (ایجنسی فرانس پریس) نے کی تقریر کی عکاسی کرتے ہوئے ایسی سرخی لگائی کہ اسرائیل پر حملے کے بعد تقریر کے دوران ایران کے رہنما نے اپنے پاس بندوق رکھی تھی۔ اس خبر رساں ایجنسی نے مزید بتایا که ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل پر تہران کے میزائل حملے کے چند روز بعد تہران میں نمازیوں سے ایک نادر خطبہ میں خطاب کے دوران بندوق اپنے پاس رکھ لی تھی۔ برطانوی میڈیا

بی بی سی

بی بی سی کی ویب سائٹ نے اس عنوان کے تحت که ایران کے رہنما نے ایک نادر تقریر میں اسرائیل کے خلاف حملے کا دفاع کیا۔ ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کے میزائل آپریشن کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک جائز اقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا: ایران نے جو کچھ کیا وہ اسرائیل کو ان کے "حیران کن جرائم" کے خلاف "کم سے کم سزا" تھا۔ ایران کے رہبر معظم نے اسرائیل کو " جارح " حکومت اور امریکہ کو خطے میں "پاگل کتا" قرار دیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ اسرائیل کے خلاف ہر ضروری اقدام طاقت اور عزم کے ساتھ کرے گا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے دو بار اس بات پر زور دیا کہ ایران اسرائیل کے حوالے سے نہ تو تاخیر کر ےگا اور نہ ہی عجلت سے کام لے گا ۔

گارڈین اخبار

گارڈین اخبار کی ویب سائٹ نے رہبر معظم انقلاب کے بعض بیانات کونشر کیا ، جن میں الاقصیٰ طوفان آپریشن کی قانونی حیثیت اور صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے ردعمل کے ساتھ ساتھ مشترکه دشمن کے خلاف مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں ان کے بیانات کے حولے سے لکھا گیا هے  : اسرائیل دہشت گردی اور عام شہریوں کے قتل کے ذریعے اسٹریٹجک فتح حاصل کرنے کا ڈرامہ کرتا ہے۔ فلسطینی عوام کو اپنے دفاع کا قانونی حق حاصل ہے۔

پاکستانی نیوز چینلز

تمام پاکستانی نیوز چینلز نے تہران میں حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے نماز جمعہ کے خطبات کو اپنے معمول کے پروگراموں کی بجائے براہ راست نشر کیا اور رپورٹ دی کہ رہبر معظم نے فلسطین اور مزاحمتی محاذ کی افواج کی بھرپور حمایت جاری رکھنے پر تاکید اور ایرانی مسلح افواج کی صیہونی حکومت کی کسی بھی جارحیت کو جواب دینے کے لئے تیار هونے کا اعلان کیا ۔

عربی دنیا کا میڈیا

المیادین چینل

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیانات کی عکاسی کرتے ہوئے المیادین چینل نے مزید کہا: آیت اللہ خامنہ ای نے دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی ممالک کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ آج ملت اسلامیہ باشعور ہوچکی ہے اور دشمنون کے منصوبوں پر قابو پا سکتی ہے۔

قطر کا الجزیرہ چینل

قطر کے الجزیرہ چینل نے کہا: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حزب اللہ کے غزہ کے دفاع اور مسجد اقصیٰ کی حمایت کو پورے خطے کے لیے ایک اہم خدمت قرار دیا اور مزید کہا: غاصب صیہونی حکومت کو کوئی بھی ضرب خطے اور تمام لوگوں کی خدمت ہے۔ الجزیرہ چینل نے اپنی رپورٹ جاری رکھتے هوئے لکھا : رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران نے فرمایا کہ صیہونی حکومت جس نے امریکہ اور مغرب سے وسیع پیمانے پر امداد حاصل کی ہے، کئی ہزار مجاہدوں اور جنگجوؤں کے ہاتھوں شکست کھا گئی۔ جمعه نصر میں لوگوں کی شرکت کی کثرت پر صہیونی کارشناس کی حیرت صیہونی حکومت کے عسکری اور سیکورٹی امور کے ماہر یا فیالکوف نے رہبر معظم انقلاب اسلامی اور مصلای تهران میں موجود ہجوم کی تصویریں شائع کیں اور لکھا: آیت اللہ خامنہ ای کی امامت میں نماز جمعہ کے ساتھ ساتھ سید حسن نصر الله کی یادگاری تقریب منعقد هوئی جس میں ایرانی عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز

خبر رساں ادارے روئٹرز نے سپریم لیڈر آیت الله خامنه ای کی تقریر کو براه راست نشر کیا ۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے تہران کی نماز جمعہ میں سپریم لیڈر کی تقریر کے کچھ حصوں کو لائیو ٹیگ لگا کر کور کیا۔ اس خبر رساں ادارے نے ان کی تقریر کے کئی نکات پر توجہ مرکوز کی ہے: خبر رساں ادارے روئٹرز نے تہران کی نماز جمعہ میں سپریم لیڈر کی تقریر کے کچھ حصوں کو لائیو ٹیگ لگا کر کور کیا۔ اس خبر رساں ادارے نے ان کی تقریر کے کئی نکات پر توجہ مرکوز کی ہے: ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ مسلم ممالک کا مشترکہ دشمن ہے۔ ہمیں افغانستان سے یمن تک تمام اسلامی ممالک میں دفاع اور آزادی کے لئے کمر کس لینی چاہیے۔ فلسطینی قوم کو اس کی زندگی اجیرن کرنے والے دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حق ہے۔ [2]

حوالہ جات

  1. رهبر معظم کی ویب سایٹ نماز جمعے کے خطبات urdu.khamenei.ir - تاریخ درج شده: 4/اکتوبر /2042 ء تاریخ اخذ شده: 24/اکتوبر/ 2024ء
  2. اسکائی نیوز، https://www.ntv.com.tr/ntv/ ترکی