شیخ نعیم قاسم، لبنان میں حزب اللہ کے ڈپٹی سکریٹری جنرل، اور شیعہ شخصیات میں سے ایک ہیں جن کا لبنانی سیاست میں اہم کردار ہے، اور انہوں نے بہت سی سیاسی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں شروع کی ہیں۔ انہوں سید موسی صدر کے تعاوں سے، امل پارٹی اور حرکۂ المحرومین کی بنیاد رکھی۔ قاسم نعیم نے 1982 میں حزب اللہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور 1991 سے وہ مسلسل پانچ مرتبہ حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔

نعیم قاسم
نعیم قاسم.jpg
دوسرے نامشیخ قاسم نعیم
ذاتی معلومات
پیدائش1991 ء، 1369 ش، 1411 ق
پیدائش کی جگہلبنان
مذہباسلام، شیعہ
اثرات
  • سبيل الله
  • القرآن منهج هداية
  • الإمام الخميني الأصالة والتجديد
مناصبڈپٹی سکریٹری جنرل

سوانح عمری

نعیم قاسم جمادی الاول 1372ھ/فروری 1953ء کو بیروت کے علاقے بسطا تحتا میں پیدا ہوئے اور ان کے چھ بچے ہیں جن میں چار لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔

تعلیم

انہوں نے فن خطابت کی تعلیم سیکھی ‌‌ اور دینی کی دورس میں شرکت کی اور 1971 میں 18 سال کی عمر میں انہوں نے فرانسیسی زبان میں کیمسٹری پڑھنے کے لیے بیروت کے کالج آف ایجوکیشن (ڈار میل اینڈ فیمیل ٹیچرز) میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے بہت سی اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ابتدائی مذہبی اسباق تیار کیے، پھر مسجد میں بچوں کے لیے ہفتہ وار سیشن میں اسباق کا انعقاد کیا، اور آپ کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔

انہوں نے 1977 میں یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور چھ سال تک سرکاری ثانوی کلاسوں میں پڑھایا، شیخ نے اپنی مدرسہ کی تعلیم بھی جاری رکھی اس کی جدید تعلیم اور اس کی مذہبی سرگرمی بغیر کسی تھکاوٹ کے انجام دیے۔

اساتذہ

سید عباس الموسوی

  • سید علی الامین
  • شیخ اسد فنیش۔
  • شیخ محسن عطوی
  • شیخ مصطفیٰ خوش
  • شیخ حسن روایت
  • سید علی الامین

سمیت متعدد علماء کے ساتھ اپنی دینی تعلیم کو جاری رکھا، پھر انہوں نے فقہ اور اصول کی خارجی تحقیق سید محمد حسین فضل اللہ سے حاصل کی۔

سرگرمیان

انہوں نے ستر کی دہائی کے اوائل میں، نوجوان مومنین کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر اتحاد لبنانی لطلبۂ المسلمین نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ لبنانی مزاحمتی تنظیم امل، جب اس کی بنیاد 1974 میں امام موسیٰ صدر نے رکھی تھی، کی بنیاد رکھنے میں امام موسی صدر کے ساتھ تعاون کیا۔ انہوں نے لبنان کے علاقوں میں اسلامی شخصیات اور کمیٹیوں کے ساتھ امام موسی صدر کی پہلی ملاقاتوں میں شرکت کی۔ انہوں نے امل تحریک کے نائب مرکزی ثقافتی عہدیدار کا عہدہ سنبھالا، جس کے بعد آپ نے عقیدہ اور ثقافت کے ذمہ دار بن گئے، جہاں آپ لیبیا میں امام صدر کی گمشدگی کے بعد تحریک کی قیادت کی کونسل کے سیکرٹریوں میں سے ایک تھے۔

1978 میں سید حسین الحسینی کے ہاتھوں تحریک کی قیادت سنبھالنے پر۔ ایک سال بھی ایسا نہیں گزرا تھا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں 11 فروری 1979 کو فتح نصیب ہوئی۔ تحریک سے مستعفی ہو گئے،

تبلیغی سرگرمیاں

انہوں نے بیروت اور جنوبی مضافات کی متعدد مساجد اور حسینیہ میں درس و تدریس کے ذریعے اپنی اسلامی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ شیخ نعیم پورے لبنان میں وسیع پیمانے پر تبلیغ کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے، البر اور الارشاد مسجد میں مصيطبة ہفتہ وار تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرتے تھے، جو دس سال سے زیادہ جاری رہے، پھر ہفتہ وار اسباق کو امام مہدی علیہ السلام مسجد کی طرف منتقل کیا۔ مسجد شیاح میں تین سال تک، حسينيۂ برج البراجنة اور دیگر مساجد میں تین سے پانچ سال تک ہر ہفتہ تفسیر اور مذہبی اور دینی تعلیم پڑھا تے رہے۔

تعلیمی سرگرمیاں

انہوں نے 1977 میں جمعیۂ الاسلامیۂ الدینی الاسلامی (اسلامک ریلیجن ایجوکیشن ایسوسی ایشن) کے قیام میں اپنا حصہ ڈالا، جس کا تعلق سرکاری اور نجی اسکولوں میں دین اسلام کی تعلیم سے متعلق ہے، ہر اسکول میں ایک مرد یا خاتون ٹیچر بھیجنا ہے تاکہ ہر کلاس سیکشن کو دین کے ایک یا دو حصے کی تعلیم دیے جائیں۔ جس کے اساتذہ پورے لبنان میں پھیل چکے ہیں اور پانچ سو سے زیادہ اسکولوں میں تین سو سے زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ بیروت کے جنوبی مضافات، طائر، نبطیہ اور قصرنبا میں چھ المصطفیٰ (ص) اسکولوں کی بنیاد رکھی، جو سرکاری لبنانی نصاب پڑھائیں

انقلاب اسلامی ایران سے وابستگی

انہوں نے ایرانی اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت کی وابستگی ظاہر کی، اور ایران میں اسلامی انقلاب کی حمایت کرنے والی اسلامی کمیٹیوں میں حصہ لیا، جس میں منظر عام پر کام کرنے والی تمام اسلامی جماعتیں شامل تھیں۔ اور جس نے انقلاب کے بارے میں میڈیا سرگرمیاں، مارچ اور لیکچرز کیے۔ اسلامی کمیٹیوں اور اس کے جانشین، اسلامی دعوت پارٹی لبنان برانچ، بقاع کے علماء کے ساتھ اور اسلامی امل موومنٹ کے درمیان 1982 میں ملاقاتوں کے بعد، حزب اللہ کی بنیاد رکھی گئی۔

آپ تین دوروں تک حزب اللہ کی شوریٰ کونسل کے رکن رہے، انہوں نے ابتدائی طور پر بیروت میں تعلیمی اور اسکاؤٹنگ سرگرمیوں کی ذمہ داری سنبھالی، پھر ایگزیکٹو کونسل کے چیئرمین کے طور پر آپ حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل رہ چکے ہیں۔ جب سے شہید عالم سید عباس موسوی 1991 میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بنے اور سید عباس کی شہادت کے بعد اپنے جانشین کے ساتھ اس عہدے پر برقرار رہے۔

شیخ نعیم حزب اللہ کی پارلیمانی ورک کونسل کے سربراہ ہیں، آپ مزاحمتی بلاک کے ساتھ وفاداری، نمائندوں کے قانون سازی اور ان کی سیاسی تحریک کی پیروی کرتے ہیں۔ آپ مختلف وزارتوں کی پیروی کرنے اور ان کے ڈھانچے اور فیصلوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے کام میں حزب اللہ کے وزراء کی پیروی سے متعلق حکومتی ورک باڈی کے سربراہ ہیں۔ آپ 1992 کے پہلے پارلیمانی انتخابات سے لے کر اب تک حزب اللہ کے پارلیمانی انتخابات کے جنرل کوآرڈینیٹر رہے ہیں۔

سید حسن نصر اللہ کے ساتھ خاص تعلقات

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے ساتھ ان کا براہ راست تعلق 35 سال سے زائد عرصے تک جاری رہا، حزب اللہ کی شوریٰ میں مشترکہ عملی حیثیت، مستقل ملاقاتوں، مشاورت اور پیش رفت سے باخبر رہنے کے ذریعے۔ آپ مذہبی تبلیغ کے کام کو جاری رکھنے کے خواہشمند ہیں، اور باقاعدگی سے سیمینار، ثقافتی نمائش، اور ثقافتی، تعلیمی، اور اخلاقی ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں شامل حصہ لیتے ہیں، جس میں انہوں نے ایران میں اہل بیت کی بین الاقوامی کونسل، فرقوں کی قربت کی کونسل، اسلامی اتحاد کانفرنسوں، عالمی یوم قدس کانفرنسوں اور دیگر بہت سی کانفرنسوں میں شرکت کی۔

شہید حسن نصراللہ نے سب کچھ راہ خدا میں فدا کردیا

شہید سید حسن نصراللہ نے سب کچھ راہ خدا میں فدا کردیا/ جانشین کی تقرری کا عمل جاری ہے۔ حزب اللہ کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے تنظیم کے سربراہ کی شہادت کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ شہید حسن نصراللہ امام خمینی اور رہبر معظم کے پیروکار تھے۔

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ہم نے ایک بھائی اور باپ کو کھودیا ہے۔ ہم اپنے کمانڈروں اور سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر عباس نیلفروشان کی شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے تمام علاقوں میں قتل عام کر رہا ہے۔ یہ عام شہریوں، صحت کی تنظیموں، الرسالہ سکاؤٹس، اور بچے، خواتین اور بوڑھوں پر حملہ کر رہا ہے جو اپنے گھروں میں مقیم ہیں۔

امریکہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ صہیونی حکومت کی حمایت کرتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے قتل عام میں لامحدود فوجی مدد اور ہر قسم کی حمایت کے ساتھ حصہ لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک بھائی، ایک پیارے انسان اور اپنے باپ کو کھو دیا۔ میں آپ کو اپنی زندگی کے انتہائی تکلیف دہ لمحات میں بیان کر رہا ہوں۔

نعیم قاسم نے کہا کہ سید نصر اللہ مجاہدین سے محبت کرتے تھے جنہوں نے اپنے پاس جو کچھ تھا خدا کی خاطر دے دیا۔ وہ امام خمینی اور رہبر معظم کی راہ کے حقیقی پیرو تھے۔ شہید حسن نصراللہ فلسطین کی آزادی کے عاشق تھے۔ انہوں نے کہا کہ سید حسن نصراللہ کی شہادت کے باوجود حزب اللہ کی کاروائیوں میں کمی نہیں آئے گی۔ حزب اللہ کی جانب سے حیفا پر ایک میزائل فائر کرنے سے دس لاکھ صہیونی پناہ گاہوں میں چھپ گئے ہیں۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ صہیونی فوج لبنان کی سرحدوں میں داخل ہونے کی صورت میں حزب اللہ کے جوان ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مکمل تیار ہیں۔ صہیونی حکومت ہماری طاقت کو ختم نہیں کرسکتی ہے۔ یہ جنگ طویل اور آپشنز زیادہ ہیں۔ حزب اللہ کے نائب سربراہ نے کہا کہ شہید سید حسن نصراللہ کے جانشین اور دیگر کمانڈروں کی فہرست بنائی جارہی ہے۔ ہم سب میدان میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2006 کی جنگ کی طرح اس مرتبہ بھی ہم ہی میدان میں فاتح ہوں گے۔ شیخ نعیم قاسم نے صہیونی حکومت کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شہید سید حسن نصراللہ کے ساتھ حزب اللہ کے 20 کمانڈروں کے اجلاس کی خبر بے بنیاد ہے [1]۔

الفرار، لبنان پر صہیونی فوج کا زمینی حملہ، حزب اللہ نے عقب نشینی پر مجبور کردیا

جنوبی لبنان پر حملے کے کئی گھنٹے بعد حزب اللہ کے جوابی حملوں کی وجہ سے صہیونی فوج عقب نشینی پر مجبور ہوگئی ہے۔ صہیونی فوجی ترجمان نے فضائیہ اور توپ خانے کی مدد سے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر زمینی حملے کا اعلان کیا تھا۔

اسرائیل فوج کے حملے کے فورا بعد حزب اللہ کا خصوصی دستہ رضوان میدان جنگ میں داخل ہوا جس کی وجہ سے صہیونی فوج کو عقب نشینی کرنا پڑا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز حزب اللہ کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ حزب اللہ ہر طرح کی حالت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے[2]۔

اسرائیل 5000 لبنانیوں کے قتل عام کے درپے تھا لیکن اسے کامیابی نہیں ملی

حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے شہید ابراہیم عقیل کی تشییع جنازہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت مواصلاتی آلات پر سائبر حملے کے ذریعے 5000 شہریوں کے قتل عام کے درپے تھی لیکن اسے رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا اور وہ ناکام رہی۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ لبنان کی حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اس تحریک کے سینئر کمانڈر شہید ابراہیم عقیل کی نماز جنازہ کے شرکاء سے خطاب کے دوران کہا کہ اگرچہ اس شہید کا جسد خاکی ہم سے رخصت ہو گیا، لیکن ان کی روح اور ان کے راستے پر چلنے والے سورما باقی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہید ابراہیم عقیل حزب اللہ کی کارروائیوں کے کمانڈر تھے اور انہوں نے 2008 میں رضوان یونٹ قائم کی تھی، وہ آپریشنز اور جہادی کارروائیوں میں سید حسن نصراللہ کے جنگی نائب تھے۔

قاسم نعیم نے مزید کہا کہ اسرائیل نے 3 وحشت ناک جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جس سے اس رجیم کی درندگی اور سفاکیت ظاہر ہوئی۔ اسرائیل نے "پیجر" دھماکے میں 5000 افراد کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔ انہوں نے واضح کیا کہ حملہ آوروں نے مزاحمت کو مفلوج کرنے اور رضوان یونٹ کو نشانہ بنا کر حمایتی محاذ کو توڑنا چاہا لیکن مزاحمتی فورسز نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔

حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے مقاومتی خاندانوں کے جذبہ شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ زخمی اپنے اہل خانہ اور ساتھی سپاہیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ہر صورت میدان جنگ میں واپس آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ "اسرائیل" کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام میں شریک ہے تاہم اس کے حربے ناکام ہوئے۔ شیخ نعیم قاسم نے صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: کہ پہاڑ مٹ سکتے ہیں لیکن حزب اللہ کبھی نہیں مٹ سکتی۔ بلکہ اس کے برعکس تم خوف سے مرجاو گے، تمہاری معیشت تباہ ہو جائے گی اور تم اپنے شوم مقاصد حاصل نہیں کر پاوو گے۔ تمہاری حماقت نے فلسطینی مزاحمت کو عالمی بنا دیا ہے۔

حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے مزید کہا: کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ واپس آگئے ہیں۔ میدان جنگ اس کا ثبوت ہے۔ لبنان کی کاروائیاں غزہ کے خلاف جنگ بند ہونے تک جاری رہیں گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ شمال (مقبوضہ فلسطین) کے آبادکار نہ صرف ان علاقوں میں واپس نہیں جائیں گے بلکہ نقل مکانی کی لہر میں مزید اضافہ ہوگا اور فلسطین کی حمایت کا محاذ وسیع ہوگا، عسکری جارحیت سے مقبوضہ شمالی فلسطین کے صیہونی آبادکاروں کی زندگی مزید خطرے سے دوچار ہوگی۔

شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ ہم عسکری حملوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تم اس کے نتائج کا جلد مشاہدہ کرو گے۔ ہم یہ نہیں بتاتے کہ تمہاری جارحیت کا جواب کیسے دیا جائے۔ ہم ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں جہاں ایک نئی جنگ چھڑے گی۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ گزشتہ رات، ہم نے ایک ہلکی سی جوابی کارروائی کی، جس کے دوران راکٹوں کی 3 لہریں حیفہ کے علاقے میں پہنچی اور اپنے فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔" کل رات کے واقعات عسکری توازن کی جنگ کا ایک حصہ تھے۔ اپنی نگاہیں میدان جنگ پر موکوز رکھیں۔ حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہم ان کو تباہ کریں گے اور انہیں وہاں سے سرپرائز دیں گے جہاں ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا [3]۔

صہیونی حکومت کی نابودی مقاومت کے اہداف میں سرفہرست

حزب اللہ کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے کہا ہے کہ لبنان کے خلاف کسی قسم کی حماقت کی صورت میں دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت شروع ہونے کے بعد لبنان کی مقاومتی تنظیم حزب اللہ نے غاصب صہیونیوں کے خلاف مسلسل حملے کئے ہیں۔ گذشتہ نو مہینوں کے دوران حزب اللہ نے کامیاب کاروائیاں کرتے ہوئے صہیونی سیکورٹی فورسز کو شمالی سرحدوں پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔

حزب اللہ کے حملے شروع ہونے کے بعد صہیونی حکومت اور اس کے حامی مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ لبنانی سرحد سے ہونے والے حملوں کو روکا جائے۔ امریکی اعلی عہدیداروں نے اس مقصد کے تحت کئی مرتبہ بیروت کا سفر کیا ہے۔ صدر جوبائیڈن کے مشیروں نے لبنان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات دیے لیکن ہر دفعہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ حزب اللہ نے فلسطینی عوام کے بارے میں اپنے دوٹوک موقف کا ہر وقت اعادہ کیا اور اعلان کیا ہے کہ غزہ میں صہیونی حکومت کی جارحیت رکنے تک شمالی سرحدوں پر حملے ہوتے رہیں گے۔ مہر نیوز نے فلسطین اور لبنان کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں حزب اللہ کے نائب سیکریٹری شیخ نعیم قاسم سے گفتگو کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔

صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں کے خلاف مقاومت کس مقام پر کھڑی ہے؟

دنیا جانتی ہے کہ صہیونی حکومت عالمی استکبار کی حمایت سے وجود میں آئی ہے۔ برطانیہ اور امریکہ نے اس کی تشکیل کے لئے سرمایہ کاری کی۔ یورپی ممالک نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اسرائیل کی تشکیل کا بنیادی مقصد خطے میں صہیونیوں کو مسلط کرنا تھا تاکہ عالمی استکبار اپنے مفادات کی بہتر نگرانی کرسکے۔ طوفان الاقصی گذشتہ 75 سالوں کے دوران ہونے والے اسرائیلی مظالم کا ایک جواب تھا۔

اسرائیل نے فلسطینی شہروں اور قصبوں پر قبضہ کررکھا تھا۔ کسی کے اندر اس کو جواب دینے کی ہمت نہیں تھی۔ طوفان الاقصی نے خطے کے عوام کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔ فلسطینی مقاومت نے طوفان الاقصی کے ذریعے صہیونی حکومت اور امریکہ کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام کا راستہ روکا اور ان کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ مقاومتی بلاک نے امریکہ اور صہیونی حکومت کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے لئے اہم اقدام کیا ہے۔

امریکی اور صہیونی مظالم کے خلاف ایک نظریہ وجود میں آیا

غاصب صہیونی حکومت کا دعوی یہ ہے کہ وہ خطے کی واحد طاقت ہے جو کسی بھی ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ اسرائیل کسی دوسرے کو سر اٹھانے نہیں دیتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں کیا صہیونی حکومت مقاومتی تنظیموں کو برداشت کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے؟

صہیونی اپنی فوج کے ناقابل شکست ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے۔ 1948 کے بعد ہر جنگ میں حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں اسرائیلی فوج کو خطے کی طاقت ور ترین فوج سمجھتے تھے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین کی تقسیم کو قبول کرنے کے بعد صہیونی فوج کو مزید طاقت ور بنانے اور عرب ممالک کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ لیکن اللہ کے کرم سے ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تشکیل کے بعد فلسطین کے حق میں مسلسل آواز بلند ہوئی۔ اس طرح امریکی اور صہیونی مظالم کے خلاف ایک نظریہ وجود میں آیا۔

فلسطینی مقاومتی تنظیمیں روز بروز طاقت ور ہونے لگیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود فلسطین اور لبنان میں صہیونی فورسز اور تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ مقاومتی طاقتوں نے ہی طوفان الاقصی برپا کرکے صہیونیوں کی وحشت میں مزید اضافہ کردیا۔

آج مقاومت ماضی کی طرح کمزور نہیں ہے اس کے برعکس اسرائیل کمزور ہوچکا ہے۔ اگر امریکہ مدد نہ کرتا تو طوفان الاقصی کے بعد اسرائیل چند دن بھی مقابلہ نہ کرپاتا۔ امریکی وسیع حمایت کے باوجود صہیونی حکومت دفاعی اور اقتصادی لحاظ سے نہایت کمزور ہوچکی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنگ کے بعد صہیونی حکومت کے لئے بنیادی خطرات ایجاد ہوں گے۔ صہیونی حکومت کے لئے مقاومتی تنظیموں کے ساتھ صلح کے ساتھ رہنے کا آپشن باقی نہیں رہے گا کیونکہ مقاومت ایک طاقت بن چکی ہے جس کو شکست دینا صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ مقاومت اپنے فیصلے خود کرے گی۔ اللہ پر توکل اور اپنی طاقت کے سہارے مقاومت آگے بڑھے گی جو صہیونی حکومت کے تزلزل اور بتدریج کمزوری کا باعث بنے گی۔

فلسطین کے آزادی تک جاری رہی گی

سید حسن نصراللہ کی تقریر سے پہلے صہیونیوں کی جانب سے دھمکی آمیز پیغامات دیے گئے۔ صہیونی کابینہ کے اراکین مسلسل جنگ کی باتیں کرنے لگے تھے۔ سید حسن نصراللہ کی تقریر کے بعد صہیونیوں کے موقف کے بارے میں کیا تجزیہ کریں گے؟ علاوہ ازین شدید دباو کے ذریعے حماس کو جنگ بندی پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟

شیخ نعیم قاسم: صہیونی حکومت شمالی سرحدوں پر حزب اللہ کی کاروائیوں کو رکوانے کے لئے مسلسل دھمکی دے رہی تھی لیکن سید حسن نصراللہ اور مقاومتی رہنماؤں نے واضح کیا کہ غزہ کے خلاف جارحیت ختم ہونے تک شمالی سرحدوں پر حملے بند نہیں ہوں گے۔ حزب اللہ کے حملے رفح میں صہیونی فوجی آپریشن ختم ہونے تک محدود نہیں ہے بلکہ جب تک غزہ میں جنگ جاری ہے، ہمارے حملے بھی جاری رہیں گے۔ حزب اللہ غزہ کی حمایت کے عزم پر باقی ہے۔ ہم کسی قسم کی دھمکی سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ جب تک فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہے، حزب اللہ کی کاروائیاں بھی جاری رہیں گی۔

اگر اسرائیل جنگ کا دائرہ وسیع کرے تو ہم بھی حملوں کا دائرہ بڑھا دیں گے۔ کسی بھی مرحلے پر عقب نشینی نہیں کریں گے۔ مقاومت کے کئی اہداف ہیں جن میں سے سرفہرست صہیونی حکومت کی نابودی ہے۔ حماس اور مقاومت پر جنگ بندی کے لئے دباو کا مقصد یہ ہے کہ اپنے مطالبات سے عقب نشینی اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کے موقف کو قبول کریں اور معدود فلسطینی قیدیوں کے بدلے صہیونی یرغمالیوں کو آزاد کرنے کے بعد دوبارہ غزہ پر حملے کریں۔ فلسطینی مقاومت اس کو ہرگز قبول نہیں کرے گی اور آخر تک استقامت کرے گی۔

ہم نے دفاعی، تحقیقاتی اور میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت کی ہے

شمالی مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کے خلاف کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دنوں جاسوس ڈرون ہدہد نے کامیابی کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کے اندر جاکر اہم صہیونی تنصیبات کی فلمبرداری کی۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ یہ کئی گھنٹے جاری رہنے والی کاروائی کا ایک حصہ ہے۔ مقاومت کی اس کامیابی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ حزب اللہ نے فلسطین کی حمایت میں صہیونیوں کے خلاف جنگ کا دائرہ بتدریج بڑھادیا ہے۔ دشمن کے حملے بڑھنے کے ساتھ حزب اللہ کی کاروائیوں میں بھی شدت آئی ہے۔ حزب اللہ نے ہر مرحلے میں نیا ہتھیار استعمال کیا ہے تاکہ صہیونیوں پر ثابت کرے کہ ہمارے پاس وسیع آپشنز ہیں۔ دشمن اپنی حفاظت کے لئے آئرن ڈوم، پیٹریاٹ سسٹم، میزائل اور جنگی طیارے استعمال کرتے ہیں تاہم یہ سب ہماری دسترس میں ہیں اور حزب اللہ ان پر حملہ کرکے تباہ کرسکتی ہے۔

حزب اللہ نے ثابت کردیا ہے کہ دشمن کے حساس مقامات اور تنصیبات کے بارے میں معلومات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے دفاعی، تحقیقاتی اور میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت کی ہے۔ ہدہد ڈرون کی کامیاب کاروائی مقاومت کی دفاعی طاقت کا ایک مظہر ہے۔ صہیونی حکومت ریڈلائن عبور کرنے کی صورت میں مقبوضہ فلسطین کے اندر ہم حملے کرسکتے ہیں۔ اس پیغام کو صہیونی رہنما بخوبی جان چکے ہیں۔

مقاومت کے اندر اپنے دفاع کی صلاحیت پیدا کرنے میں ایران کا کیا کردار

مقاومت کے اندر اپنے دفاع کی صلاحیت پیدا کرنے میں ایران کا کیا کردار ہے۔ کہتے ہیں کہ مقاومت مغربی اور عرب ممالک کے مقابلے میں ایران کا بازو ہے؛ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ صہیونیوں کے مقابلے میں مقاومت کی حمایت کرنے میں ایران کے کیا مفادات ہیں؟

ایران سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے خودمختار ملک ہے جو اپنے کردار کے بارے میں بخوبی ادراک رکھتا ہے۔ ایران اسلامی اصولوں کے تحت استکبار کے مقابلے میں کمزور طبقات کی حمایت کرتا ہے۔ یہ وہ اصول ہیں جن پر اسلامی جمہوری ایران کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ امام خمینی اور رہبر معظم دونوں ان اصولوں کے پابند رہے ہیں۔ آئندہ بھی اسی کے تحت ایران حرکت کرے گا۔

حریت پسند تحریکوں کی حمایت اور صہیونی حکومت کے مقابلے فلسطینی مقاومت کی مدد اسلامی جمہوری ایران کی اہم پالیسی ہے۔ فلسطینی اپنے وطن کو غاصب صہیونیوں کے چنگل سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ان کو ہتھیار اور تربیت کی ضرورت ہے۔ فلسطینی بخوبی جانتے ہیں کہ ایران واحد ملک ہے جو فلسطینی کو ان کی ضرورت کی چیزیں فراہم کرسکتا ہے۔

لبنانی مقاومت بھی ایران کے ساتھ اس موقف میں شریک ہے کہ صہیونی حکومت صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ عراق، مصر، لبنان، شام اور پورے خطے کے لئے خطرہ ہے چنانچہ رہبر معظم نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اس حوالے سے ایران اور حزب اللہ کے درمیان مکمل ہماہنگی ہے۔ مقاومت کو فلسطینی، لبنانی، یا حزب اللہ اور حماس میں تقسیم کرنا غلط ہے۔ مقاومت ایک ہے اور ایران اس کی حمایت کرتا ہے۔ ایران اور مقاومت کا دشمن مشترک ہے اس لئے ان کے عقائد اور اہداف بھی مشترک ہیں لہذا صہیونی حکومت کے خلاف فعالیت کرنے والوں کے درمیان اتحاد اور ہماہنگی فطری بات ہے۔

ایران ایک منظم ملک ہے۔ رہبر معظم کی قیادت میں ملکی نظام چلتا رہا

آپ نے شہید رئیسی کی تشییع جنازہ کے مناظر دیکھے۔ اس طرح کے مناظر دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتے ہیں۔ اس سانحے کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

شہید سید ابراہیم صدر رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ ایران ایک منظم ملک ہے۔ رہبر معظم کی قیادت میں ملکی نظام چلتا رہا اور کسی قسم کی عقب نشینی نظر نہیں آئی۔ قائم مقام صدر اور عبوری وزیرخارجہ کا انتخاب خوش اسلوبی کے ساتھ عمل میں آیا۔ ایران میں ہر ادارہ اپنے اختیارات کے تحت کام کرتا ہے۔ انقلاب اسلامی کے بعد سخت ترین حالات میں ایران عدم استحکام کا شکار نہ ہوا اور ملک ترقی کی جانب گامزن رہا۔ عراق کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ کے دوران بھی ملک میں انتخابات ہوتے رہے۔ ایران نے دنیا کو بہترین پیغام دیا ہے۔

شہید رئیسی کو پیش آنے والے واقعے سے ایران کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے کیونکہ ایران ایک مستحکم ملک ہے جس نے صہیونی حکومت کی جانب سے دمشق میں اپنے سفارتخانے پر دہشت گرد حملے کے جواب وعدہ صادق آپریشن کے ذریعے صہیونی حکومت کو دندان شکن جواب دیا اور دنیا کو حیران کردیا۔

یہ دلیل ہے کہ ایران ایک خودمختار ملک ہے جو اپنے خلاف ہونے والے حملوں کا ہر حال میں جواب دیتا ہے۔ یہ ایک بے نظیر کاروائی تھی جو رہبر معظم کی قیادت میں شہید صدر رئیسی کی حکومت نے انجام دی تھی [4]۔

علمی آثار

  • معالم للحياة من نهج الأمير(ع).
  • عاشوراء مددٌ وحياة
  • سلسلة شرح رسالة الحقوق للإمام زين العابدين(ع) (7جز):
  • حقوق الجوارح
  • حقوق الوالدين والولد
  • حقوق الأفعال
  • حقوق الزوج والزوجة
  • حقوق المعلم والمتعلم
  • الحقوق الثلاثة (طبعة ثامنة).
  • حقوق الناس
  • في رحاب رسالة الحقوق
  • حزب الله: المنهج.. التجربة.. المستقبل
  • سبيلك إلى مكارم الأخلاق
  • قصتي مع الحجاب
  • الشباب شعلة تُحرق أو تُضيء
  • المهدي المخلِّص
  • مجتمع المقاومة (إرادة الشهادة وصناعة الإنتصار)
  • سبيل الله
  • القرآن منهج هداية
  • الإمام الخميني الأصالة والتجديد
  • مفاتيح السعادة
  • الوليُّ المجدِّد
  • أميرُ النَّهج
  • المرأةُ بين رؤيتين
  • خليفة الله تعالى
  • التَّربية بالحُبّ
  • HIZBULLAH the story from Within- SAQI-LONDON

حوالہ جات

  1. شہید حسن نصراللہ نے سب کچھ راہ خدا میں فدا کردیا/ جانشین کی تقرری کا عمل جاری ہے، شیخ نعیم قاسم- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 30 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2024ء۔
  2. الفرار، لبنان پر صہیونی فوج کا زمینی حملہ، حزب اللہ نے عقب نشینی پر مجبور کردیا-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 1اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2024ء۔
  3. اسرائیل 5000 لبنانیوں کے قتل عام کے درپے تھا لیکن اسے کامیابی نہیں ملی، شیخ نعیم قاسم-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 22 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2024ء۔
  4. حزب اللہ کے نائب سربراہ کی مہر نیوز سے خصوصی گفتگو؛ صہیونی حکومت کی نابودی مقاومت کے اہداف میں سرفہرست ہے- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 1جولائی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2024ء۔