محمد خان شیرانی

نظرثانی بتاریخ 12:43، 10 جولائی 2024ء از Mahdipor (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (Mahdipor نے صفحہ مسودہ:محمد خان شیرانی کو محمد خان شیرانی کی جانب بدون رجوع مکرر منتقل کیا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

محمد خان شیرانی، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ شیرانی ایک بھاری بھر کم سیاسی و علمی شخصیت ہیں اس وجہ سے سنجیدہ سیاسی حلقوں میں آپ کی دیانت اور راست بازی کی بنیاد پر آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کو امام سیاست بھی کہا جاتاہے آپ کا مولانا فضل الرحمان سے دو چیزوں پر سخت اختلاف ہے۔ اول یہ کہ مولانا فضل الرحمن نے انھیں بلوچستان میں عہدہ کیوں نہیں دیا دوم مولانا نے عمران خان کو یہودی ایجنٹ کیوں کہا اور اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرتے۔

محمد خان شیرانی
محمد خان شیرانی.jpg
دوسرے ناممولانا شیرانی
ذاتی معلومات
پیدائش1948 ء، 1326 ش، 1366 ق
پیدائش کی جگہشیرانپاکستان
مذہباسلام، سنی
مناصبجمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین

سوانح عمری

ان کی پیدائش 1948ء ضلع شیرانی میں ہوئی۔

تعلیم

انہوں نے اپنا دینی تعلیم بنوں کے معراج العلوم سے حاصل کی۔

سیاسی سرگرمیاں

پاکستان عام انتخابات 2013 میں حلقہ این اے 264 سے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں ژوب،قلعہ سیف اللہ اور شیرانی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مولانا شیرانی جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ آپ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں جمعیت میں دراڑ پڑی اور جمعیت نظریاتی کے نام سے ایک نئی جماعت وجود میں آئی۔

جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان

جعمیت علمائے اسلام ف سے نکالے گئے ارکان نے جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ منگل کو اسلام آباد میں ناراض ارکان کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ فضل الرحمٰن نے ف کے نام سے اپنا الگ گروپ بنایا ہم کبھی بھی جے یو آئی ف یا فضل الرحمٰن گروپ کا حصہ نہیں رہے۔ مولانا شیرانی کے مطابق "ہم دستور کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے رکن ہیں اور رہیں گے"۔

شیرانی نے اپنے ساتھیوں کو جماعت کے ساتھ رابطے نہ توڑنے کی ہدایت بھی کی۔ مولانا شیرانی نے فضل الرحمن گروپ کے حوالے سے کچھ شرائط کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ "اگر وہ ہمیں کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دیتا ہے تو ہم جائیں گے۔"

جمعیت علمائے اسلام ف کے نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کی تجویز

انہوں نے ایک قرارداد پاس کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کیا جائے اور نیا نوٹیفکیشن جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے نام سے جاری کیا جائے اور الیکشن کمیشن میں جمع کروایا جائے۔ بقول ان کے "اس وقت جو ہو رہا ہے وہ صداقت اور دیانت سے خالی ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں سیاست اکابرین سے وراثت میں ملی ہے۔

حافظ حسین احمد کا کہنا تھا "ہم نے جماعت چھوڑی ہے نہ جماعت سے علیحدگی اختیار کی ہے۔" ان کے مطابق آزادی مارچ کے موقع پر بات کرنے کی کوشش کی گئی تو نہیں کرنے دی گئی۔ چند روز پیشتر مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کے باعث مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد اور دو دیگر ارکان کی جمعیت علمائے اسلام ف نے رکنیت ختم کر دی تھی، جے یو آئی ف اس وقت حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور مولانا فضل الرحمن اس کے صدر ہیں

سیاست کی ابتداء

محمد خان شیرانی سے پہلی بار اس وقت متعارف ہوا، جب جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاء کے دور میں کچھ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی تو کوئٹہ کے ٹاﺅن ہال میں ایم آر ڈی کا جلسہ عام تھا۔ لوگوں کی تعداد بہت کم تھی، یحییٰ بختیار کی تقریر تھی، اس کے بعد مولانا محمدخان شیرانی کا نام پکارا گیا آپ جوان تھے، ان کی داڑھی سیاہ تھی۔ ان کی تقریر بڑے غور سے سنی۔ اس لئے کہ ان کی اردوبڑی اچھی تھی۔

انقلاب ایران سے متاثر

یہ ان سے میرا پہلا سیاسی تعارف تھا۔ ان سے کوئی قربت نہیں تھی، پھر ایک دن ان سے کوئٹہ کے خانہ فرہنگ ایران میں ملاقات ہوگئی۔ وہ آیت اللہ باقر صدر کی کتاب کی تلاش میں تھے اور وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھی۔ آپ مجھے جانتے تھے، اس لئے کہ وہ میرے کالم پڑھتے تھے۔ اس لئے وہاں ان سے سلام دعا ہوئی اور پھر ہم دونوں خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر ذاکری سے ملے۔ مولانا شیرانی کی فارسی اتنی اچھی نہیں تھی۔ اس لئے ترجمانی کے فرائض ادا کئے۔ مولانا شیرانی انقلاب ایران سے متاثر تھے، لیکن وہ اس وقت دیوبندیت کے حصار میں تھے ،اس لئے گفتگو بھی اسی دائرے میں ہورہی تھی۔

ایران کا سفر

سال یا دو سال کے بعد ایران میں اسلامی انقلاب کی تقریبات ماہ فروری میں شروع ہونے والی تھیں۔ ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ایران جناب ذاکری نے مجھے بلایا اور کہاکہ ہم چند علماءکو ایران بھیجنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ اسلامی انقلاب کو قریب سے دیکھیں اور خود جائزہ لیں۔ ان سے کہا کہ محمدخان شیرانی کو دعوت دیں تو وہ بڑے حیران ہوئے اور مجھ سے کہاکہ جناب شادیزئی صاحب کوئی اور نام بتائیں۔

میرا اصرار تھا کہ انہی کو بھیجیں۔ یہ ان کاسب سے کھلے ذہن کامولوی ہے، وہ خوب ہنسا اور حیران ہوا۔ میرے اصرار پر انہوں نے اسلامی انقلاب کی تقریبات میں دعوت دے ڈالی۔ آقائے ذاکری نے کہاکہ یہ مولوی ہے اور عام مولویوں کے مقابل سیاسی ذہن رکھتا ہے اور انقلاب سے متاثر ہوگا۔ اس لئے کہ ایران میں انقلاب مولویوں کی قیادت میں برپا ہوا ہے اور یہ ان سے متاثر ہوگا اور پھر جب مولانا محمد شیرانی نے انقلاب کو دیکھااور انقلابی علماءسے ملاقات کی تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

پھر انہوں نے انقلاب کی کھل کر حمایت کی۔ محمدخان شیرانی سے میری بعض ملاقاتیں ہوائی سفر کے دوران ہوئی ہیں، آمنے سامنے بہت کم ہوئی ہیں ،ان سے کبھی بھی کھل کر انقلاب اور سیاست پر گفتگو نہیں ہوئی ، یہ بھی حسن اتفاق ہے۔ جمعیت علمائے اسلام میں انہوں نے مجھے متاثر کیاہے۔

جماعت کی صدارت

آپ ایک روشن فکر اور کھلے ذہن کے انسان ہیں۔ ان کی سیاسی روش اور ان کی جماعت کی پالیسیوں سے اختلاف رہا ہے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے بہت قریب چلے گئے تھے۔ یوں تو مولانا فضل الرحمان بھی جنرل پرویز مشرف کے بہت قریب رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن محترمہ بے نظیر مرحومہ کے بھی قریب رہے۔ آصف علی زرداری کے بھی بہت قریب تھے اور اب انہیں نواز شریف کی حکومت میں وزیر کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔

عبدالغفور حیدری بھی وزیر بن گئے ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی بھی جنرل پرویز مشرف کے قریب رہے ہیں اور انہیں اپنے خاص مشوروں سے نوازتے رہے ہیں۔ مولانا محمدخان شیرانی طویل ترین عرصے تک جماعت کے عہدہ صدارت پر فائز رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی ان کی صدارت میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ وہ صوبہ بلوچستان میں جمعیت کے ایک لحاظ سے آمر تھے ،ان کا طوطی بولتا تھا۔

انتخابات میں شرکت

32سال تک انہوں نے کسی کوقریب پھٹکنے نہیں دیا۔ ان کی صدارت کو کوئی چیلنج نہیں تھا۔ وہ فیصلے کرنے میں ایک طرح سے فوجی جنرل کا روپ اختیار کرچکے تھے۔ وہ بہت سے معاملات میں بہت زیادہ بااختیار ہوگئے تھے اور انہوں نے پارٹی میں ایک لحاظ سے آمریت قائم کرلی تھی۔ ان کے رویے کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام کے اندر بغاوت پھوٹی اور انہوں نے اس ردعمل کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی۔

پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور مولانا عصمت اللہ نے بغاوت کی اور ان کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام کے اندر سے تضاد پھوٹا اور پارٹی تقسیم ہوگئی۔ انہوں نے اس تقسیم کو قبول ہی نہیں کرتے تھے اور ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم بھی نہیں کرتے ہیں، بلکہ مولانا کے نزدیک یہ باغی اور خارجی تھے، لیکن مولانا کی 32سالہ سیاسی آمریت نے پارٹی کے اندرسے ایک اور بغاوت کو جنم دیا اور خضدار کے ممتاز عالم دین مولانا فیض محمد نے انتخاب میں انہیں بُری طرح شکست سے دوچار کیا۔

انتخابات میں شکست

محمد خان شیرانی بہت زیادہ ووٹوں سے ہار گئے اور ان کے ساتھ دانشور ایڈووکیٹ ملک سکندر خان نے بھی جنرل سیکرٹری کی نشست جیت لی اور ضلع کوئٹہ سے حافظ حمداللہ بھی ہار گئے۔ اس لئے وہ شیرانی کے سیاسی سائے میں آگے آگئے تھے۔ حالیہ ملکی انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کی نشست پر محمود خان سے زبردست شکست کاسامنا کرنا پڑا۔ ان کا سیاسی دور ختم ہوگیا۔ وہ سینیٹر نہ ہوتے تو گوشہ گمنامی میں چلے جاتے، اب ان کے سر سے محمدخان شیرانی کا سایہ اٹھ گیا ہے تو پارٹی کے اندر ان کا وہ وزن نہیں رہا، جو کل تک تھا ،وہ بھی کوئٹہ کی ضلعی صدارت پر بُری طرح ہار گئے ہیں[1]۔

اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کے خیال میں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے جبکہ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

سابق رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا شیرانی ہمیشہ اپنے متنازع بیانات کے باعث تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں سے ایک اسرائیلی اخبار میں اس حوالے سے خبر شائع ہونے کے بعد کہ "پاکستان سے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا"، پاکستان میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی سختی سے تردید کر دی تھی، مگر اب اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

اسرائیل کے بارے میں ان کا موقف

اپنے حالیہ بیان میں مولانا محمد خان شیرانی نے بلوچستان کے ضلع لورالائی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور وہ اس چیز کے حق میں ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔

یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے مولانا شیرانی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ "نافرمانی کرنے پر مرد عورت کی معمولی پٹائی کرسکتا ہے،" جس پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ان پر شدید تنقید کی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں وہ پشتو زبان میں کہتے نظر آئے کہ "اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ میں اس کے حق میں ہوں کہ اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔"

تقسیم فلسطین

شیرانی نے تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت داؤد نے ایک ہزار قبل مسیح میں فلسطین کو فتح کیا تھا۔ انہوں نے ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھی اور حضرت اسماعیل نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ شیرانی سمجھتے ہیں کہ جس طرح اس سے قبل یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ مشرقی علاقے میں اسرائیل اور مغربی حصے میں فلسطین کی ریاست قائم کی جائے۔ بعد میں اسرائیل اسی پر ریاست قرار دیا گیا، لیکن فسلطینوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ "اسرائیل کو تسلیم کر کے فلسطین کو اپنا حصہ لے لینا چاہیے اور باقی اپنے حصے کے لیے دعویٰ برقرار رکھنا چاہیے۔" ساتھ ہی انہوں نے کہا: "کیا فلسطین کی زمین اسرائیل پر نہیں بیچی گئی۔ فلسطین نے اپنا حصہ پہلے نہیں لیا جس پر اسرائیل نے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔"

مولانا شیرانی نے مزید کہا کہ :"آج کی دنیا اقوام متحدہ کے چارٹر اور معاہدوں کے ساتھ جڑی ہے۔ ہمیں بھی انہی کے ساتھ چلنا ہوگا۔" اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مولانا محمد شیرانی سے براہ راست رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔ تاہم جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

رد عمل

مولانا عبدالحق ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسرائیل کے تسلیم کرنے کے حق میں اگر کوئی بیان دیتا ہے تو اس کی سیاسی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن کوئی بھی پاکستانی اس موقف کا حامی نہیں ہے۔ ان کے بقول "اگر ہم نے اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کرلیا تو ہم کشمیر سے دستبردار ہو جائیں گے۔ کیوں کہ پھر کوئی بھی ہمیں مضبوط موقف پیش کرنے نہیں دے گا۔"

ہاشمی نے بتایا کہ مولانا محمد شیرانی جو بھی موقف اختیار کریں یہ ان کا حق ہے، لیکن عالمی سیاست کا ادراک رکھنے والوں کو اس بارے میں احتیاط کرنا چاہیے [2]۔

فرقہ واریت ہمارے مذہب اور پاکستان دونوں کیلئے زہر قاتل ہے

جمعیت علمائے اسلام کے رہنماء اور سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے علمائے کرام کے ایک وفد کے ہمراہ پشاور میں معروف شیعہ دینی درسگاہ جامعہ عارف حسین الحسینی کا دورہ کیا اور وہاں مدرسے کے علمائے کرام سے ملاقات کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جمعیت علمائے اسلام کے رہنماء اور سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے علمائے کرام کے ایک وفد کے ہمراہ پشاور میں معروف شیعہ دینی درسگاہ جامعہ عارف حسین الحسینی کا دورہ کیا اور وہاں مدرسے کے علمائے کرام سے ملاقات کی۔ مولانا عابد حسین شاکری، مولانا احسان اللہ محسنی اور مولانا جمیل حسن شیرازی سمیت دیگر مدرسین نے مولانا محمد شیرانی کا استقبال کیا۔

مدرسہ کے شیعہ علمائے کرام سے ملاقات کے دوران مولانا محمد خان شیرانی نے ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ استعمار کی کوششوں کے باوجود مسلمانوں کو اپنے اندر اتحاد و وحدت کو فروغ دینا ہوگا۔ فرقہ واریت ہمارے مذہب اور پاکستان دونوں کیلئے زہر قاتل ہے۔ مدرسہ ہذا کے علمائے کرام نے مولانا محمد خان شیرانی کو کتابوں کا تحفہ بھی دیا [3]۔

دہشت گردی اور جہاد

دہشت گردی اور جہاد دو وہ باتیں ہیں جو میرے اور دوسرے مغربی ڈپلومیٹس کے ساتھ ملاقاتوں میں ہر وقت زیر بحث آتی ہیں۔ بدقسمتی سے مغرب کا تصور یہ ہے کہ جہاد ، اسلام اور مسلمان یہ تینوں کلمے دہشت گردی کے مساوی ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق ہر مسلمان دہشت گرد ہے جو دنیا کو خودکش حملوں سے اڑانے پر تلا ہوا ہے لیکن وہ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ آج ان کے بقول جو دہشت گردی ہے دراصل ان کی اپنی ہی پیدا کردہ ہے اور مسئلے سے نمٹنے کی اب یہ ناکافی کوششیں کر رہے ہیں۔

ہوا یوں کہ سوویت یونین کو شکست کے بعد 1992ء میں جب مجاہدین نے افغانستان میں ایک سپر طاقت کو دوسری سپر طاقت میں بدلنے سے انکار کیا تو انہیں مغربی ممالک نے جہاد کا غلط استعمال کرتے ہوئے مدرسوں کے نوجوان جذباتی طلباء کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ان کو مالی اور دوسری طرح کی امداد فراہم کرنا شروع کر دی۔ آج جسے مغرب القاعدہ کے نام سے پکارتی ہے سب سے پہلے مغرب نے ہی اس کی تخلیق کی۔

اور اسے توانا کیا پھر 11ستمبر کو ایسا موڑ آیا جب مغرب کو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد نیٹو اتحاد رکھنے کے لئے ایک نئے دشمن اور جواز کی تلاش کی ضرورت پڑی اس لئے نائن الیون کے بعد تہذیبی اورثقافتی جنگ کے آغاز کا دور شروع ہونے کا عندیہ دیا حتیٰ کہ بہت سے مفکرین نے واشگاف الفاظ میں اسے اسلام اور مغرب کی لڑائی کا نام دیا۔ نیٹو اتحاد نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے بہت سے گروپ بنائیں اور نام نہاد جنگ شروع کی اور اسکی ہر جگہ حمایت کی۔

لیکن بدقسمتی سے اسے اپنے بقول وہ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئے۔ میں اس دہشت گردی کو خانہ جنگی کا نام دیتا ہوں جو عراق، افغانستان اور لیبیا میں شروع کی گئی۔ مغرب کے ہاتھوں ان ممالک کی تباہی ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں، دوسری بات ہمارے ملک پاکستان میں بھی اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، معصوم شہری، خواتین، بچے اور بوڑھے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

ذمہ دار کون

تاہم خطے میں تباہی کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہرانا بے جا نہیں۔ ہر انسان کے لئے اپنے خالق، بزرگوں، ہم عمر لوگوں کا احترام اور بچوں کے ساتھ شفقت کا جو رشتہ ہے وہ بہت اہم ہے اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اب اگر کوئی بیرونی طاقت ان رشتوں کے درمیان توہین، عداوت یا بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے میں دہشت گرد سمجھتا ہوں اور ان رشتوں کے دفاع کو جہاد سمجھتا ہوں۔

اس تعریف سے ایک عام قاری کو پتہ چلتا ہے کہ جہاد اسلام میں ایک مقدس فریضہ ہے جس کو ایک آلے کے طور پر مغرب استعمال کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے آج مغرب میں جہاں نو عمر حاملہ لڑکیوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ہمارے خاندانی نظام اور سماجی رشتوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے جس کی مثال اسلام آباد میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی حالیہ تقریب کا انعقاد ہے۔

اگر مغرب دنیا میں امن، آشتی اور بھائی چارے کی فضا دیکھنا چاہتا ہے تو مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل پیرا ہونا چاہئے سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ وہ اپنے لئے جو پسند کرے وہی دوسروں کیلئے بھی پسند کرے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مذہبی آزادی کو حقیقی طور پر یقینی بنائے۔ ایسی کوششیں نہ کرے جو عقیدوں پر مبنی معاشروں کو غیر مذہبی طرز معاشرت کی جانب مجبور کرے۔

با الفاظ دیگر ایک فرد یا افراد پر مشتمل ادارے اگر اپنی سیاسی معاشی اور معاشرتی طرز زندگی کو اپنے مذہبی عقیدوں کے مطابق استوار کرنا چاہتے ہیں تو ان کا راستہ روکا جائے ۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ اسلام میں ہمارے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف مذہبی تعلیمات اور ان کے عملی اقدامات مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے بلکہ ان کی طرز حکمرانی کا تجربہ بھی ایک بہترین مثال ہے۔

مغرب کو بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی کوشش کرنی چاہئے جس سے عقیدوں کے پیروکار اپنے مذاہب سے دوری کی بجاے مذہب کے قریب آسکیں کیونکہ تمام مذاہب ہمدردی اور روا داری کی تلقین کرتے ہیں اور جھوٹ و دغا بازی سے پرہیز کا درس دیتے ہیں اور اچھی باتوں کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس خطے میں ایسی تنظیموں کی مدد کی جائے جو لوگوں کے عقیدوں اور اجتماعی طرز زندگی پر قدغن لگاتے ہیں یہ وہ تمام باتیں ہیں اگر حقیقی طور انہیں عملی جامہ پہنایاجائے تو امن، رواداری، انصاف اور رشتوں کی اقتدار کا تحفظ یقینی ہوجائے گا اور نام نہاد دہشت گردی بھی خود بخود ختم ہوجائیگی[4]۔

حوالہ جات

  1. مولانا شیرانی کا طویل سیاسی دور ختم ہو گیا- شائع شدہ از: 9جولائی 2014ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔
  2. اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید- independenturdu.com- شائع شدہ از:21 دسمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔
  3. فرقہ واریت ہمارے مذہب اور پاکستان دونوں کیلئے زہر قاتل ہے، مولانا محمد خان شیرانی-ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از:30ستمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7جولائی 2020ء
  4. دہشت گردی اور جہاد...مولانا محمد خان شیرانی…چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل -jang.com.pk/news-شائع شدہ از: 14فروری 2013ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7جولائی 2024ء۔