محمد امین شہیدی
محمد امین شہدی امت واحدہ کا سربراہ، مجلس وحدت المسلمین پاکستان کا سابقہ نائب صدر، اتحاد بین المسلمین کا داعی، مشہور مناظر اور سیاسی و اجتماعی مسائل کا تجزیہ کار ہیں۔
محمد امین شہیدی | |
---|---|
دوسرے نام | شیخ محمد امین شہیدی کاشغری |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1966 ء، 1344 ش، 1385 ق |
پیدائش کی جگہ | پاکستان |
اساتذہ |
|
مذہب | اسلام، شیعہ |
اثرات |
|
مناصب |
|
سوانح عمری
شیخ محمد امین شہدی کاشغری 1966ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام محمد یوسف ہے۔ آپ کے دادا احمد خان کشمیر سے یارقند، کاشغر گئے کچھ عرصے کے بعد ان کے صاحب زادے محمد یوسف گلگت تشریف لے آئے۔
تعلیم
انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت شہر میں حاصل کی، کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے بعد، اعلٰی دینی تعلیم حاصل کرنے لیے 1986ء کے اوائل میں حوزہ علمیہ قم ایران چلے گئے اور اس حوزہ کے مشہور علماء اور اساتذہ سے دینی علوم حاصل کی۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف کی ترویج کے لئے تشکیل دیا تھا۔
ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیے [1]۔
اساتذہ
- شیخ سعید رہائی
- شیخ علی وجدانی
- شیخ اعتمادی
- شیخ فتوحی
علمی آثار
آپ نے مندرجہ ذیل کتابوں کا ترجمہ کئے ہیں:
- تفسیر پیام قرآن(فارسی) از آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
- مفاخر اسلام(فارسی) از آقای دوانی
مندرجہ ذیل عنوانات پر مقالات لکھے:
- حوزہ علمیہ میں طالب علموں کی ذمہ داریاں
- تاریخ تدوین حدیث و اجتہاد
[2]۔
اتحاد امت مسلمہ کے بارے میں ان کا موقف
اسلامی معاشرے میں وحدت کی ضرورت
جب ان سے سوال کیا گیا کہ وحدت کے بارے میں گفتگو کیوں اور صرف اسلامی معاشرے میں ہی وحدت پر بات کیوں ضروری ہے؟ آپ نے اس کے جواب میں کہا: اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہےاور خاتم الانبیاء پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ان تمام سابقہ انبیاء(ع) کی تعلیمات کی کامل ترین شکل لے کر تشریف لائے. آپ کا کلمہ پڑھنے والوں کو آپ کی امت کہا گیا ہے، امت کے درمیان اتحاد، وحدت اور یکجہتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش، قرآن کی دعوت اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اللہ تعالیٰ قرآن میں کلمۂ اللہ کی بنیاد پر تمام انسانوں کو ایک پرچم تلے جمع ہونے اور اللہ کے مقابلے میں کھڑی غیر الہی قوتوں کے مقابلے میں طاقت کے اظہار کی دعوت دیتا ہے، ایسی صورتحال میں امت کے درمیان افتراق قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف ہے۔
امت کے درمیان اتحاد کا قیام قرآن اور نبی کریم کی دعوت پر لبیک کہنا ہے اسی لئے اسلامی معاشروں کے اندر وہ علماء اور اہل دانش جو حکمت دین اور فلسفہ نزول قرآن کو سمجھتے ہیں وہ افتراق امت کو لعنت اور اتحاد امت کو رحمت سمجھتے ہیں، اگر توحید اور رسالت کی بنیاد پر انسان کو یکجا کیا جائے اور اس میں جہاں دین خدا کی سربلندی وقوع پذیر ہوتی ہے وہی پر دین خدا کو ماننے والوں کی عزت، شرف، سربلندی اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔
امت کی سربلندی اور کامیابی کی بنیاد، امت کے تمام فرقوں اور گروپوں کے درمیان فکری اور عملی اتحاد ہے لیکن اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے روح کی بلندی اور فکر کی وسعت کے ساتھ قرآن اور سنت کا وسیع مطالعہ بھی درکار ہے۔ اسی امت کے درمیان جو ان نعمتوں سے محروم ہیں وہ اپنی دکانوں کو آباد کرنے کے لئے امت کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں اور لڑانے کے ذریعے گویا وہ جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ امت کو لڑا کر اپنی دکانیں آباد کرکے اپنی دنیا بنانا چاہتے ہیں، لیکن امت اسلام کے مفادات کی حفاظت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور دشمنان دین کو بھی اس چیز کا خوف ہے۔
اتحاد امت کے لیے اہل سنت کی کوشش
طول تاریخ میں وہ علماء اور اہل دانش جن کا دین کے حوالے سے جامع مطالعہ ہے ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مشترکات امت کی بنیاد پر کفر اور شرک کی بغاوت کے مقابلے میں موحدین اور نبی کا کلمہ پڑھنے والوں کو یکجا کیا جائے اس میں شیعہ اور سنی کا کوئی فرق نہیں ہے، شیعوں میں ایسے بڑے بڑے عالم گزرے ہیں جنہوں نے عملی طور پر اس راستے میں قدم اٹھایا اور تقریب بین المذاہب کے لئے جدوجہد کی اور اس عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ فکری اور نظریاتی جدوجہد بھی کی ہے، چاہئے وہ علماء نجف کے ہوں یا لبنان و قم کی سرزمین پر اور ان کے راستے کو اپنانے والے ایسے علماء برصغیر میں بھی گزرے ہیں جنہوں نے اس نظریات کو اپناتے ہوئے امت کو آپس میں متحد کرنے کے لئے اپنی زندگیاں صرف کیں، اس میں اہل سنت اور شیعہ دونوں ہیں۔
اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے یہ معرفت دین اور گہرے فہم و شعور کا ہے، جن حضرات کا فہم سطحی ہے چاہئے تشیع میں ہو یا تسنن میں ان کی سطحی فکر کی وجہ سے وہ مسلکی اختلافات کو ہوا دیتے رہے ہیں اور جن کی نگاہ عميق ہے اور دین کی روح سے واقف ہیں ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ مشترکات کی بنیاد پر امت کو متحد کرکے معاشرے میں موجود ظالمانہ نطام کے مقابلے میں امت کو کھڑا کرکے معاشرے کے اندر عدالت کی حکومت کے لئے جدوجہد کریں۔
لہذا اس سلسلے میں مصر کے علماء، کاشف الغطاء، شہید موسی صدر، آیت اللہ بروجردی، امام خمینی رح یا رہبر معظم انقلاب ہوں یا علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح، علامہ شہید عارف الحسینی جیسی شخصیات ہوں انہوں نے ہمیشہ اتحاد امت کے لئے جدو جہد کی اور مختلف تحریکوں میں علماء اور مفکرین نے ان کا ساتھ دیا.اتحاد کے حوالے سے قاضی حسین احمد مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی اور ابو اعلی مودودی کا اتحاد امت کے حوالے سے اہم کردار رہا ہے۔ اس لئے کشتی امت کی نجات کے لئے شیعہ اور سنی دونوں مکاتب کے بافہم علماء اور اکابرین کا رول اور کردار نطر آتا ہے۔
پاکستان میں اتحاد امت کے لیے اقدامات
اب تک پاکستان میں مذہبی اختلافات کو دور کرنے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں امین شہیدی نے کہا کہ : وحدتِ امت کے حوالے سے جن میدانوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے، ان میں سے سب سے اہم ترین میدان مسجد، ممبر اور قلم ہے، اگر وہ مراکز جہاں سے لوگ دین لیتے ہیں اتحادِ امت کی فضا قائم ہو تو معاشرے میں اتحادِ امت کی فضا قائم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی لیکن وہاں پر افتراق کی بنیادیں مضبوط ہوجائیں تو پھر معاشرے کے اندر بھی تفرقہ عام ہوجاتا ہے۔
اس بنیاد پر انقلاب اسلامی ایران کے بعد جو جدوجہد ہوئی ہے وہ کم نظیر اور انتہائی مؤثر بھی رہی ہے، پاکستان میں سیمیناروں اور مذہبی پلیٹ فارمز پر تمام مسالک کے اہل دانش کو جمع کرکے، لبرل اور ضدِ دین کے مقابلے میں دیندار طاقتوں کو طاقتور کرکے مرزائیت اور قادیانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد ہوکر علماء نے بڑی جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد نے کامیابی بھی حاصل کی ہے، قادیانیت کے مقابلے میں تشیع اور اہل سنت کا اتحاد اور اس کے نتیجے میں عظیم کامیابی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ جب بھی شیعہ اور سنی نے مل کر جدوجہد کی ہے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ہفتۃ وحدت کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنے اور دنیائے اسلام پر اس کے اثرات
جب ہم ہفتۂ وحدت مناتے ہیں تو گویا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں اٹھاتے ہیں، نبی کریم (ص) کا پرچم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے اندر ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کو ایک پرچم کے نیچے جمع کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دین کے دشمنوں کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے، لہذا پوری دنیا کے اندر جب ان ایام میں کروڑوں لوگ میدان میں نکل کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں لیکر آپ سے عشق اور محبت کا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سب سے پہلے پوری دنیا کو بالخصوص استعمار، اسرائیل سمیت مغربی دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں امت متحد ہے۔
یہی اتحاد فلسطین،شام، عراق، یمن، ایران، افغانستان اور کشمیر میں شیعہ سنی کو اکٹھا کرکے بت پرستوں اور سرمایہ دارانہ نظام اور بےدینی کے مقابلے میں ایک بہت بڑی قوت کے طور پر پیش کر سکتا ہے اور یہ اتحاد و وحدت پوری دنیا کے لوگوں کے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
وحدت اسلامی کے پیش نظر فلسطین کی آزادی میں کردار
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم قدس شریف اور فلسطین کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے عرب، عجم اور شیعہ سنی کی تفریق کو مٹانا ہوگا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ افتراق بھی باقی رہے اور قدس بھی آزاد ہو کیونکہ اسرائیل کی بھی یہی کوشش رہی ہے کہ امت کو فرقہ وارانہ معاملات میں ایک دوسرے کے سامنے پیش کرکے ایک ایک کرکے گردن کاٹے لہذا فلسطین اور قدس کی آزادی سے امت کے اتحاد و وحدت کا گہرا تعلق ہے۔ آزادی تب ممکن ہو گی جب ہم قوموں، جغرافیائی اور مسالک و فرق کی قید سے نکل کر امت محمدی کی حیثیت سے مل کر جدوجہد کریں گے۔
اہل بیت علیہم السلام وحدت اسلامی کا محور
امام جعفر صادق علیہ السلام عالم اسلام کی وہ متفقہ اور مستند ہستی ہیں جن کو امام اہلبیت کہا جاتا ہے اور سب سے دلچسپ اور خوبصورت بات یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام عالم اسلام میں ایک محور اور مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں اور جتنے بھی فقہی اور کلامی مکاتب ہیں ان کے جتنے بھی پیشوا، آئمہ اور فقہاء ہیں، سب کے سب یا بالواسطہ یا بلاواسطہ صادق آل محمد علیہم السلام کے شاگرد ہیں اور ان تمام شخصیات کے بارے میں امام علیہ السلام کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ ٹیکنے کا تذکرہ شیعہ سنی کی تمام کتابوں میں موجود ہے۔
امام علیہ السلام کا مقام اتنا بلند ہے کہ کسی تاریخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ امام علیہ السلام نے کسی سے کچھ سیکھا ہو، اس کی وجہ یہی ہے کہ صادق آل محمد علیہم السلام، علوم آل محمد علیہم السلام کے وارث ہیں اور یہ علوم ان کے لئے کسبی نہیں بلکہ وہنی اور لدنی ہیں اور نبی کریم (ص) کی ذات اقدس سے ان تک منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم احادیث میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کو بابِ علم نبی(ص) سمجھتے ہیں تو یہی علوم اس باب سے آگے آئمہ(ع)کے توسط سے امام صادق علیہ السلام تک منتقل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ "حضرت ثابت ابن نعمان” یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو دو سال کے عرصے کو میں نے صادق آل محمد(ع) کی بارگاہ میں نہیں گزارا ہوتا تو میں ہلاک ہوتا، یہی وجہ ہے کہ محدثین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اپنے آپ کو امام علیہ السلام سے فیض پانے کی مرہونِ منت سمجھتی ہے۔
پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے دینِ اسلام کو انسان کی تسکین کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اہم ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ وہاں کے لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس نظام کا حاصل یہ ہے کہ انسان پیسہ کمانے کی مشین اور یہی پیسہ سرمایہ داروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے نزدیک انسان ایک آلہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی نظر میں انسان ہدف ہے، اسی لئے اس کی تربیت کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا گیا۔ مطالعہ اور تحقیق کے بعد حیرت انگیز حقائق کا انکشاف ہوتا ہے کہ تمام دنیا اسلام کے خلاف مصروفِ عمل ہے لیکن اس دین کی آئیڈیالوجی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چند یورپی مالک کے تھنک ٹینکس نے اپنی حکومتوں کو خبردار کیا ہے کہ اگلے چالیس سالوں میں اسلام ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ سال کے تقریبا ہر روز ایک کلیسا کو گرا کر پارک، ہسپتال یا مسجد کو تعمیر کیا جا رہا ہے۔
کلیسا جو دنیا کے سب سے بڑے مذہب مسیحیت کا مرکز ہے، اب مسیحوں کی قلبی و روحانی تسکین کا باعث نہیں رہا۔ تیزی سےبڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت کلیساؤں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ صرف دینِ اسلام ہی انسان کی روح کو مخاطب کر کے اسے آخری وقت تک مایوس ہونے نہیں دیتا۔ پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے امین شہیدی نے کہا: کہ ہمارے تعلیمی نظام، نصاب اور اس کے ڈھانچہ کو بھی مغرب نے تشکیل دیا ہے اور اسی نصاب کے ذریعہ دیسی لبرلز تیار کیے جاتے ہیں۔ دیسی لبرلز کی مثال "کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا" جیسی ہے جن کو نہ سرمایہ ملتا ہے اور نہ خدا و رسولؐ ہمارے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑا چیلنج دین بیزاری کا ہے۔
شہیدی نے ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کو سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں مہسا امینی کو حجاب مخالف تحریک کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر مہسا امینی نہ ہوتی تو اس چال کے لئے کوئی اور ذریعہ تلاش کر لیا جاتا۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپ کے سرمایہ دار ممالک مہسا امینی کے نام کو استعمال کر کے حجاب مخالف تحریک کی اقتصادی اورثقافتی پشت پناہی رہے ہیں۔ ایران پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے جب کہ اس کے مقابلہ میں ان کے اپنے معاشرہ میں سنگین جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن وہ ان کے لئے چیلنج نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ ان کے لئے چیلنج ہے اور وہ اس بات کو بہانہ بنا کر ہماری دینی اقدار اور کلچر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں [3]۔
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے شہیدِ قدس جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یمن میں ہونے والی استعماری مداخلت ہو، شام کی حکومت کے خاتمہ کے لیے مغرب، اسرائیل اور عرب ریاستوں کی مشترکہ جدوجہد ہو، عراق میں مغربی حکومت کے قیام کے لیے یورپ، امریکہ اور عرب ریاستوں کی سرمایہ کاری اور دہشت گردی ہو، افغانستان کی گھمبیر صورتحال ہو، داعش کی تشکیل کے ذریعہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنا ہو یا پھر اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کر کے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش ہو، شہید حاج قاسم وہاں ایک جنگی ماہر، درد مند اسلامی رہنما، کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور نجات دہندہ کے طور پر نظر آتے ہیں۔
فلسطین، مشرقِ وسطی کا سب سے اہم ایشو ہے۔ فلسطینی مقاومت و مجاہدت کی حمایت اور پیش رفت کے حوالہ سے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے میں جو کردار شہید حاج قاسم نے ادا کیا، اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ سنہ 2006ء کی جنگ میں لبنان فرنٹ لائن تھا جہاں حزب اللہ اور دیگر مقاومتی قوتوں کے ذریعہ لبنان کی سرزمین کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے لبنان کی عوام کو اس بربریت سے نجات دلائی اور اتنا طاقتور بنا دیا کہ اسرائیلی، لبنان کی حکومت کی بجائے حزب اللہ سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ تاریخ نے لکھا کہ ایک ملک میں منتخب حکومت ہونے کے باوجود وہاں کے منظم گروہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعہ قومی حمیت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل جیسی خوفناک قوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
آپ جیسی ہمہ جہت شخصیت تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اگرچہ دشمنوں نے آپ کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا لیکن آپ کی شہادت نے ایرانی، عراقی، شامی، لبنانی، یمنی، فلسطینی، بحرینی، حجازی، پاکستانی اور افغان عوام کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا۔ ان کی شخصیت تمام مظلوم انسانوں کو تاریکی سے نکالنے اور معاشرتی ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، اپنی ذات میں جامع شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر غور و فکر، مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو پتہ چلنا چاہیے کہ آلِ محمؐد کی تعلیمات پر عمل کے نتیجہ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی جیسے مجاہدین جنم لیتے ہیں جو دنیا کی تمام ظالم اور سرکش حکومتوں اور طاقتوں کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد عوام کو ان کے سامنے کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہید حاج قاسم اس حوالہ سے انسانی معاشرہ کے عظیم ہیرو ہیں [4]۔
حوالہ جات
- ↑ بی کے الیکشن میں حصہ لینے کا مقصد روایتی سیاست کے بت کو گرانا اور عوامی حقوق کی بازیابی ہے، علامہ امین شہیدی -mwmpak.org-شائع شدہ از:15مئی 20015ء-اخذ بہ تاریخ:6مئی 2024ء۔
- ↑ سید عارف نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان(شمالی علاقہ جات)، 2994ء، امامیہ دارالتبلیغ، اسلام آباد جی سکس ٹو، ص131
- ↑ وقت پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ جاری ہے, علامہ محمد امین شہیدی -shianews.com.pk-شائع شدہ از:22اکتوبر 2022ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی2024۔
- ↑ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:3جنوری 2023ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی 2024ء۔