محمد امین شہدی امت واحدہ کا سربراہ، مجلس وحدت المسلمین پاکستان کا سابقہ نائب صدر، اتحاد بین المسلمین کا داعی، مشہور مناظر اور سیاسی اور اجتماعی مسائل کا تجزیہ کار ہیں۔

سوانح عمری

شیخ محمد امین شہدی کاشغری 1966ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام محمد یوسف ہے۔ آپ کے دادا احمد خان کشمیر سے یارقند، کاشغر گئے کچھ عرصے کے بعد ان کے صاحب زادے محمد یوسف لے آئے۔

تعلیم

انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت شہر میں حاصل کی، ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے بعد اوائل 1986ء میں حوزہ علمیہ ایرا قم چلے گئے اور اس حوزہ مشہور علماء اور اساتذہ سے دینی علوم حاصل کی۔

اساتذہ

  • شیخ سعید رہائی
  • شیخ علی وجدانی
  • شیخ اعتمادی
  • شیخ فتوحی

علمی آثار

آپ نے مندرجہ ذیل کتابوں کا ترجمہ کئے ہیں:

  • تفسیر پیام قرآن(فارسی) از آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
  • مفاخر اسلام(فارسی) از آقای دوانی

مندرجہ ذیل عنوانات پر مقالات لکھے: حوزہ علمیہ میں طالب علموں کی ذمہ داریاں تاریخ تدوین حدیث و اجتہاد [1]۔

اتحاد امت مسلمہ کے بارے میں ان کا موقف

اسلامی معاشرے میں وحدت کی ضرورت

جب ان سے سوال کیا گیا کہ وحدت کے بارے میں گفتگو کیوں اور صرف اسلامی معاشرے میں ہی وحدت پر بات کیوں ضروری ہے؟ آپ نے اس کے جواب میں کہا: اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہےاور خاتم الانبیاء پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ان تمام سابقہ انبیاء(ع) کی تعلیمات کی کامل ترین شکل لے کر تشریف لائے. آپ کا کلمہ پڑھنے والوں کو آپ کی امت کہا گیا ہے، امت کے درمیان اتحاد، وحدت اور یکجہتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش، قرآن کی دعوت اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اللہ تعالیٰ قرآن میں کلمۂ اللہ کی بنیاد پر تمام انسانوں کو ایک پرچم تلے جمع ہونے اور اللہ کے مقابلے میں کھڑی غیر الہی قوتوں کے مقابلے میں طاقت کے اظہار کی دعوت دیتا ہے، ایسی صورتحال میں امت کے درمیان افتراق قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف ہے۔

امت کے درمیان اتحاد کا قیام قرآن اور نبی کریم کی دعوت پر لبیک کہنا ہے اسی لئے اسلامی معاشروں کے اندر وہ علماء اور اہل دانش جو حکمت دین اور فلسفہ نزول قرآن کو سمجھتے ہیں وہ افتراق امت کو لعنت اور اتحاد امت کو رحمت سمجھتے ہیں، اگر توحید اور رسالت کی بنیاد پر انسان کو یکجا کیا جائے اور اس میں جہاں دین خدا کی سربلندی وقوع پذیر ہوتی ہے وہی پر دین خدا کو ماننے والوں کی عزت، شرف، سربلندی اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔

امت کی سربلندی اور کامیابی کی بنیاد، امت کے تمام فرقوں اور گروپوں کے درمیان فکری اور عملی اتحاد ہے لیکن اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے روح کی بلندی اور فکر کی وسعت کے ساتھ قرآن اور سنت کا وسیع مطالعہ بھی درکار ہے۔ اسی امت کے درمیان جو ان نعمتوں سے محروم ہیں وہ اپنی دکانوں کو آباد کرنے کے لئے امت کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں اور لڑانے کے ذریعے گویا وہ جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ امت کو لڑا کر اپنی دکانیں آباد کرکے اپنی دنیا بنانا چاہتے ہیں، لیکن امت اسلام کے مفادات کی حفاظت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور دشمنان دین کو بھی اس چیز کا خوف ہے.

ہمارے دشمن تب امت پر غلبہ حاصل کرسکتا ہے کہ جب امت کے درمیان اتحاد پیدا نہ ہو اور افتراق اپنے عروج کو پہنچے، اسی لئے امت کے درمیان اتحاد، تقریب فکر اور تقریب عمل ہر دور کی ضرورت تھی اور آج سب سے زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے اور اس موضوع کو تمام معاشروں میں زندہ رہنا چاہئے اور ہمیشہ اس پر بحث کے ذریعے غلط فہمیاں دور ہونی چاہیں، ہمیں مل بیٹھ کر ان نکات پر جو ہمیں ایک دوسرے کو نزدیک کرسکتے ہیں سوچنا اور تقریب کے لئے کوشش کرنی چاہے۔

اتحاد امت کے لیے اہل سنت کی کوشش

طول تاریخ میں وہ علماء اور اہل دانش جن کا دین کے حوالے سے جامع مطالعہ ہے ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مشترکات امت کی بنیاد پر کفر اور شرک کی بغاوت کے مقابلے میں موحدین اور نبی کا کلمہ پڑھنے والوں کو یکجا کیا جائے اس میں شیعہ اور سنی کا کوئی فرق نہیں ہے، شیعوں میں ایسے بڑے بڑے عالم گزرے ہیں جنہوں نے عملی طور پر اس راستے میں قدم اٹھایا اور تقریب بین المذاہب کے لئے جدوجہد کی اور اس عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ فکری اور نظریاتی جدوجہد بھی کی ہے، چاہئے وہ علماء نجف کے ہوں یا لبنان و قم کی سرزمین پر اور ان کے راستے کو اپنانے والے ایسے علماء برصغیر میں بھی گزرے ہیں جنہوں نے اس نظریات کو اپناتے ہوئے امت کو آپس میں متحد کرنے کے لئے اپنی زندگیاں صرف کیں، اس میں اہل سنت اور شیعہ دونوں ہیں۔

اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے یہ معرفت دین اور گہرے فہم و شعور کا ہے، جن حضرات کا فہم سطحی ہے چاہئے تشیع میں ہو یا تسنن میں ان کی سطحی فکر کی وجہ سے وہ مسلکی اختلافات کو ہوا دیتے رہے ہیں اور جن کی نگاہ عميق ہے اور دین کی روح سے واقف ہیں ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ مشترکات کی بنیاد پر امت کو متحد کرکے معاشرے میں موجود ظالمانہ نطام کے مقابلے میں امت کو کھڑا کرکے معاشرے کے اندر عدالت کی حکومت کے لئے جدوجہد کریں۔

لہذا اس سلسلے میں مصر کے علماء، کاشف الغطاء، شہید موسی صدر، آیت اللہ بروجردی، امام خمینی رح یا رہبر معظم انقلاب ہوں یا علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح، علامہ شہید عارف الحسینی جیسی شخصیات ہوں انہوں نے ہمیشہ اتحاد امت کے لئے جدو جہد کی اور مختلف تحریکوں میں علماء اور مفکرین نے ان کا ساتھ دیا.اتحاد کے حوالے سے قاضی حسین احمد مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی اور ابو اعلی مودودی کا اتحاد امت کے حوالے سے اہم کردار رہا ہے۔ اس لئے کشتی امت کی نجات کے لئے شیعہ اور سنی دونوں مکاتب کے بافہم علماء اور اکابرین کا رول اور کردار نطر آتا ہے۔

پاکستان میں اتحاد امت کے لیے اقدامات

اب تک پاکستان میں مذہبی اختلافات کو دور کرنے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں امین شہیدی نے کہا کہ : وحدتِ امت کے حوالے سے جن میدانوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے، ان میں سے سب سے اہم ترین میدان مسجد، ممبر اور قلم ہے، اگر وہ مراکز جہاں سے لوگ دین لیتے ہیں اتحادِ امت کی فضا قائم ہو تو معاشرے میں اتحادِ امت کی فضا قائم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی لیکن وہاں پر افتراق کی بنیادیں مضبوط ہوجائیں تو پھر معاشرے کے اندر بھی تفرقہ عام ہوجاتا ہے۔

اس بنیاد پر انقلاب اسلامی ایران کے بعد جو جدوجہد ہوئی ہے وہ کم نظیر اور انتہائی مؤثر بھی رہی ہے، پاکستان میں سیمیناروں اور مذہبی پلیٹ فارمز پر تمام مسالک کے اہل دانش کو جمع کرکے، لبرل اور ضدِ دین کے مقابلے میں دیندار طاقتوں کو طاقتور کرکے مرزائیت اور قادیانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد ہوکر علماء نے بڑی جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد نے کامیابی بھی حاصل کی ہے، قادیانیت کے مقابلے میں تشیع اور اہل سنت کا اتحاد اور اس کے نتیجے میں عظیم کامیابی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ جب بھی شیعہ اور سنی نے مل کر جدوجہد کی ہے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

دشمنوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ ہر صورت میں مشترکات کو نظرانداز اور افتراق کو ہوا دیں تاکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور رکھے۔ اب یہ علماء اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی نصاب، مساجد کے نطام اور یونیورسٹیز میں ان مشترکات کے فروغ کے لئے عملی جدوجہد کریں اور معاشرے کے پڑھے لکھے، فہیم اور دین کے ادراک رکھنے والوں کو مسلسل اس حوالے سے ترغیب دلائےاور یہی نجات کا راستہ ہے اور اس کے ذریعے سے ہم بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔

=

ہفتۃ وحدت کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنے اور دنیائے اسلام پر اس کے کیا اثرات ===

جب ہم ہفتۂ وحدت مناتے ہیں تو گویا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں اٹھاتے ہیں، نبی کریم (ص) کا پرچم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے اندر ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کو ایک پرچم کے نیچے جمع کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دین کے دشمنوں کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے، لہذا پوری دنیا کے اندر جب ان ایام میں کروڑوں لوگ میدان میں نکل کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں لیکر آپ سے عشق اور محبت کا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سب سے پہلے پوری دنیا کو بالخصوص استعمار، اسرائیل سمیت مغربی دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں امت متحد ہے۔

یہی اتحاد فلسطین،شام، عراق، یمن، ایران، افغانستان اور کشمیر میں شیعہ سنی کو اکٹھا کرکے بت پرستوں اور سرمایہ دارانہ نظام اور بےدینی کے مقابلے میں ایک بہت بڑی قوت کے طور پر پیش کر سکتا ہے اور یہ اتحاد و وحدت پوری دنیا کے لوگوں کے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

وحدت اسلامی کے پیش نظر فلسطین کی آزادی میں کردار

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم قدس شریف اور فلسطین کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے عرب، عجم اور شیعہ سنی کی تفریق کو مٹانا ہوگا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ افتراق بھی باقی رہے اور قدس بھی آزاد ہو کیونکہ اسرائیل کی بھی یہی کوشش رہی ہے کہ امت کو فرقہ وارانہ معاملات میں ایک دوسرے کے سامنے پیش کرکے ایک ایک کرکے گردن کاٹے لہذا فلسطین اور قدس کی آزادی سے امت کے اتحاد و وحدت کا گہرا تعلق ہے۔ آزادی تب ممکن ہو گی جب ہم قوموں، جغرافیائی اور مسالک و فرق کی قید سے نکل کر امت محمدی کی حیثیت سے مل کر جدوجہد کریں گے۔

اہل بیت علیہم السلام وحدت اسلامی کا محور

امام جعفر صادق علیہ السلام عالم اسلام کی وہ متفقہ اور مستند ہستی ہیں جن کو امام اہلبیت کہا جاتا ہے اور سب سے دلچسپ اور خوبصورت بات یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام عالم اسلام میں ایک محور اور مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں اور جتنے بھی فقہی اور کلامی مکاتب ہیں ان کے جتنے بھی پیشوا، آئمہ اور فقہاء ہیں، سب کے سب یا بالواسطہ یا بلاواسطہ صادق آل محمد علیہم السلام کے شاگرد ہیں اور ان تمام شخصیات کے بارے میں امام علیہ السلام کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ ٹیکنے کا تذکرہ شیعہ سنی کی تمام کتابوں میں موجود ہے۔

امام علیہ السلام کا مقام اتنا بلند ہے کہ کسی تاریخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ امام علیہ السلام نے کسی سے کچھ سیکھا ہو، اس کی وجہ یہی ہے کہ صادق آل محمد علیہم السلام، علوم آل محمد علیہم السلام کے وارث ہیں اور یہ علوم ان کے لئے کسبی نہیں بلکہ وہنی اور لدنی ہیں اور نبی کریم (ص) کی ذات اقدس سے ان تک منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم احادیث میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کو بابِ علم نبی(ص) سمجھتے ہیں تو یہی علوم اس باب سے آگے آئمہ(ع)کے توسط سے امام صادق علیہ السلام تک منتقل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ "حضرت ثابت ابن نعمان” یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو دو سال کے عرصے کو میں نے صادق آل محمد(ع) کی بارگاہ میں نہیں گزارا ہوتا تو میں ہلاک ہوتا، یہی وجہ ہے کہ محدثین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اپنے آپ کو امام علیہ السلام سے فیض پانے کی مرہونِ منت سمجھتی ہے۔

  1. سید عارف نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان(شمالی علاقہ جات)، 2994ء، امامیہ دارالتبلیغ، اسلام آباد جی سکس ٹو، ص131