مقاومتی بلاک

ویکی‌وحدت سے
مقاومت حزب الله.jpg

محور مزاحمت مِحوَر مُقاوِمَت یا جِبههٔ مقاومت(فارسی)، محور المقاومة (عربی)، Axis of Resistance(انگلش) ایک عنوان ہے جس میں بنیادی طور پر شیعہ مذہب کے ممالک اور طاقتوں کے درمیان غیر تحریری علاقائی اتحاد کی طرف اشارہ ہے، جیسے اسلامی جمہوریہ ایران، شام، عراق اور لبنان کی حزب اللہ لبنان صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کا بنیادی مقصد مشرق وسطیٰ کے علاقے میں مغرب کے تسلط کا خاتمہ اور فلسطین کی آزادی کا دفاع ہے۔ مزاحمت کے محور کا مجموعہ پہلی بار اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر جارج بش اور ان کے نائب صدر جان بولٹن کے ان الفاظ کے جواب میں استعمال کیا گیا تھا کہ فروری 1380ء کو اس نے ایران عراق، شمالی کوریا، لیبیا، شام اور کیوبا کو برائی کا محور کہا گیا۔ اس کے بعد، مختلف شخصیات بشمول سید علی خامنہ ای، رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصر اللہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل اور دوسرے سیاسی اور مذہبی لوگوں نے اپنے الفاظ میں یہ جملہ استعمال کیا۔

مفہوم شناسی

محور مقاومت یا مزاحمتی محاذ سے مراد چند ممالک کا مجموعہ اور اسی طرح مسلم اور شیعہ عسکری گروہوں کو کہا جاتا ہے جن کا مقصد مشرق وسطیٰ کے خطے میں مغربی تسلط کا خاتمہ، [1]۔ اسرائیل کے خلاف جنگ اور فلسطین کی آزادی کا دفاع کرنا ہے

عالمی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے بارے میں انقلاب اسلامی ایران کے منشور سے متاثر ہو کر مزاحمت کے محور کی تشکیل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

ایران، شام اور عراق کی حکومتیں، لبنان کی حزب اللہ، فلسطین میں اسلامی جہاد اور حماس کے ساتھ ساتھ یمن کے انصار اللہ گروپ کو مزاحمت کا محور سمجھا جات ہے۔ سید حسن نصر اللہ کے نزدیک، سید علی خامنہ ای مزاحمتی محور کا رہبر اور اسلامی جمہوریہ ایران، مزاحمتی محور کا قلب اور بنیاد ہے۔

مزاحمتی محور اصلاح میں

مزاحمت کے محور کا ترکیب 1380ء (29 جنوری 2002ء) کو امریکہ کے صدر جارج بش کے بعد پہلی بار استعمال کیا گیا، جس نے ایران، عراق اور شمالی کوریا کے ممالک کو برائی کا محور قرار دیا، اور اس وقت امریکہ کے نائب وزیر خارجہ جان بولٹن نے اس فہرست میں لیبیا اور کیوبا کو شامل کیا تھا، جس کے جواب میں لیبیا کے جریدے الزحف الاخضر نے ان ممالک کو برائی کا محور نہیں بلکہ مزاحمت کا محور نام رکھا، جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے خلاف ہیں۔

اس کے بعد فلسطینی وزیر داخلہ سعید سعیم نے العالم ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جنگ میں مشترکہ سیاسی اہداف کی طرف اشارہ کرنے کے لیے محور مقاومت کا لفظ استعمال کیا اور اس بات پر تاکید کی کہ سوریہ، ایران، حزب اللہ لبنان، حماس اور فلسطین نے مل کر محور مقاومت تشکیل دی ہے تاکہ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رہ سکیں۔

نیز، ایران کے سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی نے اگست 2009ء میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں ایران، شام، لبنان کی حزب اللہ، عراق کی نئی حکومت اور حماس کو شامل کرنے پر غور کیا۔ ان کے مطابق چونکہ یہ سلسلہ شام سے گزرتا ہے، اس لیے مذکورہ ملک نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے سیکریٹری سعید جلیلی کی ملاقات کے دوران اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں سنہری کردار ادا کیا تھا۔ مزاحمت کے محور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے اگست 1372ش میں پہلی بار لبنان کی حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے بارے میں بات کی اور اس پر غور کیا۔ اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ ہے کہ لبنان کے خلاف اس کی جارحیت سے نہ صرف مطلوبہ سیاسی اور عسکری اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں بلکہ یہ عوام کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بنی ہے [2]۔

محور مقاومت کا پھیلاٶ

اسرائیل کے خلاف مقاومتی محور کے داٸرے میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کئی ایسے نئے گروہ وجود میں آچکے ہیں، جنہوں نے غاصب حکومت کے خلاف نئے محاذ کھول دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں بحرین کے ایک جہادی گروہ ”سرایا الاشتر“ کا نام بین الاقوامی ذراٸع ابلاغ میں گونج رہا ہے۔ ”سرایا الاشتر“ نے گذشتہ ہفتے کو اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس نے مقبوضہ فلسطین کے شہر ”ام الرشراش“ میں ایک اہم صیہونی مرکز پر ڈرون حملہ کیا ہے۔

اس گروہ نے اس سے قبل گذشتہ منگل کو بھی اپنی پہلی کاررواٸی میں مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع شہر ایلات میں ذراٸع نقل و حمل سے متعلق ایک کمپنی Tracknet کو اپنے ڈرون حملے سے نشانہ بنایا تھا، جس نے علاقاٸی اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔ 'سرایا الاشتر' مزاحمتی گروپ کیا ہے اور اسے کب تشکیل دیا گیا؟ اس گروہ کا قیام 2011ء میں بحرین میں ہونے والے عوامی احتجاج کو دبانے کے بعد 2012ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔

یہ گروہ بحرین میں آل خلیفہ حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی اور مسلح کاررواٸیاں کرتا ہے۔ بحرین کی حکومت کے قریبی ذراٸع اور مغربی میڈیا کے دعووں کے مطابق آل خلیفہ کی حکومت کے مخالفین کی ایک بڑی تعداد نے حکومتی جبر سے بچنے کے لیے ایران میں سکونت اختیار کی اور پھر یہ مزاحمتی گروپ تشکیل دیا۔

اس محور مزاحمت کے مخالف میڈیا کے بقول اس گروہ کی قیادت احمد یوسف سرحان (جسے ابو منتظر کے نام سے جانا جاتا ہے) اور جاسم احمد عبداللہ (جو ذوالفقار کے نام سے مشہور ہے) کر رہے ہیں۔ یہ دو بحرینی شہری ہیں، جو فرار ہو کر کئی سالوں سے ایران میں مقیم ہیں، ان کے حوالے سے مغربی اور بحرینی میڈیا نے ابھی تک قابل اعتماد دستاویزات شاٸع نہیں کی ہیں۔ سرایا الاشتر کو 2014ء میں متحدہ عرب امارات، کینیڈا، مصر، سعودی عرب اور کویت نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا جبکہ امریکہ نے 2018ء میں اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا۔

مبصرین کے مطابق سرایا الاشتر کی جانب سے کی گئی حالیہ کاررواٸیاں ان کے دوستوں اور دشمنوں کے لیے مختلف نوعیت کے پیغامات لیے ہوئے ہیں، جن کا مختلف زاویوں سے جاٸزہ لیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ محور مزاحمت بتدریج غاصب صیہونی حکومت پر دباٶ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ یقیناً آنے والے عرصے میں دنیا علاقے میں براٸی کے محور کے خلاف محور مقاومت کی دیگر صلاحیتوں کے فعال ہونے کا مشاہدہ کرے گی[3]۔

  1. محمدی‌سیرت، «الگوی نمایش نقش امنیت‌آفرین شهیدان محور مقاومت در رسانه ملی» ص63
  2. دیدار دبیر کل‌ جنبش‌ حزب‌الله‌ لبنان‌ با رهبر انقلاب(حزب اللہ لبنان کے سیکٹری جنرل کی رہبر انقلاب سے ملاقات)-farsi.khamenei.ir/news(فارسی زبان)- شائع شدہ از: 23 جولائی 1993ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔
  3. محور مقاومت کا پھیلاٶ-شائع شدہ از: 5جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 اکتوبر 2024ء۔