حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا

ویکی‌وحدت سے
حضرت فاطمه زهرا.jpg

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، (5 بعثت -11ھ) پیغمبر اکرم و حضرت خدیجہ کی بیٹی، امام علی کی زوجہ اور امام حسن، امام حسین، حضرت زینب و ام کلثوم کی والدہ ماجدہ ہیں.آپ اصحاب کسا یا پنجتن پاک میں سے ہیں جنہیں شیعہ معصوم مانتے ہیں۔ زہرا، بَتول و سیدۃ نساء العالمین آپ کے القاب اور اُمّ اَبیها آپ کی مشہور کنیت ہے.حضرت فاطمہؑ واحد خاتون ہیں جو نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ میں پیغمبر اکرم کے ہمراہ تھیں.سورہ کوثر، آیت تطہیر، آیت مودت، آیت اطعام اور حدیث بِضعہ آپ کی شان اور فضیلت میں وارد ہوئی ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرم نے فاطمہ زہراؑ کو سیدۃ نساء العالمین کے طور پر متعارف کیا اور ان کی خوشی اور ناراضگی کو اللہ کی خوشنودی و ناراضگی قرار دیا ہے. آپ نے سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کی مخالفت کی اور ابوبکر کی خلافت کو غصبی قرار دیتے ہوئے ان کی بیعت نہیں کی.آپ نے غصب فدک کے واقعے میں امیرالمومنین کے دفاع میں خطبہ دیا جو خطبہ فدکیہ کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت فاطمہؑ پیغمبر اکرم کی وفات کے فوراً بعد ابوبکر کے حامیوں کی طرف سے گھر پر کئے گئے حملے میں زخمی ہوئیں اور بیمار ہو گئیں. پھر مختصر عرصے کے بعد 3 جمادی‌ الثانی سنہ 11 ہجری کو مدینہ میں شہید ہو گئیں۔ دختر پیغمبرؐ کو ان کی وصیت کے مطابق رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا اور ان کی قبر آج بھی مخفی ہے. تسبیحات حضرت زہراؑ، مصحف فاطمہؑ اور خطبہ فدکیہ آپ کی معنوی میراث کا حصہ ہیں.مصحف فاطمہ ایک کتاب ہے جس میں فرشتہ الہی کے ذریعہ آپ پر القاء ہونے والے الہامات بھی شامل ہیں جنہیں امام علیؑ نے تحریر فرمایا ہے. روایات کے مطابق صحیفہ فاطمہ ائمہ سے منتقل ہوتے ہوئے اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس ہے. شیعہ آپؑ کو اپنے لیے نمونہ قرار دیتے ہیں اور آپ کی شہادت کے ایام میں عزاداری کرتے ہیں جو ایام فاطمیہ کے نام سے مشہور ہیں.ایران میں آپؑ کے روز ولادت (20 جمادی‌ الثانی) کو یوم مادر اور یوم خواتین قرار دیا گیا ہے اور فاطمہ و زہراؑ لڑکیوں کے سب سے زیادہ رکھے جانے والے ناموں میں سے ہیں.

حضرت فاطمہ زہرا کے القابات

ان کے القابات میں زہرا، صدیقہ، طاہرہ، رضیہ، مرضیہ، مبارکہ، بتول و محدثہ ہیں.ان میں زہرا زیادہ مشہور ہے، جو کبھی اپنے نام (فاطمہ زہرا) کے ساتھ آتی ہے یا فاطمہ الزہرا کے عربی مرکب کی شکل میں آتی ہے. زہرا، جو فاطمہ سے زیادہ عام ہے، لفظی معنی چمکدار و روشن ہے۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے کئی کنیت ہیں جن میں سب سے مشہور ام ابیھا، ام الائمہ، ام الحسن، ام الحسین اور ام المحسن ہیں.

فاطمہ کا معنی

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام فاطمہ رکھا۔ لفظ فاطمہ اسم فاعل ہے جو ف ط م ماخوذ ہے اور عربی زبان میں فطم کا مطلب ہے جدا کرنا، کاٹنا اور الگ کرنا ہے .اس نام کی وجہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ: : «إنّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ فَطمَ ابْنَتِی فاطِمَة وَ وُلدَها وَمَنْ أَحَبًّهُمْ مِنَ النّارِ فَلِذلِک سُمّیتْ فاطِمَة» خدا نے میری بیٹی فاطمہ کو اس لیے فاطمہ نام رکھا کیونکہ جو اس سے اور اس کے بچوں سے محبت کرے گا اللہ انہیں جہنم کی آگ سے بچائے گا.
ایک اور جگہ فاطمہ کا نام رکھنے کی وجہ ہر قسم کی برائی سے کٹ جانے کا معنی بیان کیا گیا ہے.

حضرت زہرا کی ولادت

شیعہ اور سنی منابع میں فاطمہ کے نطفہ کے حاملہ ہونے کے بارے میں روایات موجود ہیں، جن کا خیال ہے کہ رسول خدا نے خدیجہ کو خدا کے حکم سے چالیس راتوں تک چھوڑ دیا، اور چالیس دن کی عبادت اور روزے کے بعد، پھر معراج پر جاکر کھانا کھایا۔ آسمانی خوراک یا پھل کھا کے خدیجہ کے پاس آیا اور فاطمہ کا نور خدیجہ کے وجود میں قرار پایا [1]۔

فاطمہ کی ولادت کا مقام مکہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھا۔ لیکن شیعہ اور سنی منابع میں ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل سنت نے لکھا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال پہلے اور کعبہ کی عمارت کی تجدید کے سال پیدا ہوئے تھے۔ لیکن کلینی کافی میں کہتے ہیں: فاطمہ کی ولادت پیغمبر کے مبعوث برسالت ہونے کے پانچ سال بعد ہوئی ہے۔ [2].

یعقوبی لکھتے ہیں: وفات (شہادت) کے وقت فاطمہ کی عمر 23 سال تھی۔ اس لیے ان کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے سال میں ہوئی ہوگی۔ یہ بیان شیخ طوسی کے قول کے مطابق ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ فاطمہ کی عمر کو جب انہوں نے علی سے شادی کی تھی، 13 سال تھی۔

شیعہ کیلنڈر میں 20 جمادی الثانی زہرا سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت ہے۔ امام خمینی نے اس دن کو خواتین کا دن قرار دیا۔ اور یہ ایرانی کیلنڈر میں یوم خواتین (ماں کا دن بھی) کے طور پر منایا جاتا ہے [3]۔

بچپن اور مدینہ کی طرف ہجرت

فاطمہ سلام اللہ علیہا کی پرورش اپنے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور ان کی دینی تعلیم میں ہوئی۔ ان کے بچپن کا دور - جو اسلام کی پختگی کا دور ہے اور مشرکین کی طرف سے مسلمانوں پر لگائی گئی پابندیاں ہیں - مسلمانوں کے لیے آزمائشوں اور اذیتوں کا دور ہے۔ اس دور میں شعب ابی طالب کی خشک اور جلتی ہوئی وادی میں معاشی اور سماجی محاصرہ ہوا، جس میں بھوک، پیاس اور مصائب بھی شامل تھے۔

فاطمہ سلام اللہ علیہا کے چاہنے والوں کی وفات بھی اسی دور میں ہوئی: ان کی والدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب بھی اس دور کے اہم حامی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ الحزن کے دسویں سال میں پیش آیا۔ یہ وہ دور تھا جب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی اپنے والد کی حمایت اور ان کی تسلی کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ام ابیھا کا لقب دیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال کی نظر میں مقام و مرتبہ تھا [4]

اس دور میں مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی جو بعد میں مسلم تاریخ کا ماخذ بنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لے جانے کے بعد آپ کے اہل خانہ بھی وہاں چلے گئے۔ بلاذری لکھتے ہیں: زید بن حارثہ اور ابو رافع کو فاطمہ سلام اللہ علیہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ام کلثوم کے ساتھ مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن ابن ہشام نے لکھا ہے کہ عباس بن عبد المطلب اسے لے جانے کے ذمہ دار تھے۔

حضرت فاطمہ زہرا کی درخواست اور شادی

فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بہت سے چاہنے والے تھے اور بہت سے بزرگ اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن میں عمر، ابوبکر، عبدالرحمٰن بن عوف اور... جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا۔

اور ان کے جواب میں فرمایا: فاطمہ جوان ہیں اور جب علی (علیہ السلام) نے ان خواستگاری کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول کرلیا۔ اور آپ نے فاطمہ سے فرمایا: تم ملت اسلامیہ کی سب سے پہلی بیوی ہو، میں نے تمہیں پہلی مسلمان کی بیوی بنایا ہے۔ نیز مہاجرین کے ایک گروہ نے حضرت فاطمہ کی (سلام اللہ علیہا) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواستگاری کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی فاطمہ کا نکاح خدا کے ساتھ ہے نہ کہ کسی اور کے ، اگر وہ چاہے گا اور اچھا سمجھے گا تو میں وہ کام انجام دوں گا اور میں خدا کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہوں۔ [5] حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا حضرت علی علیہ السلام سے نکاح دوسرے سال ہجری میں ہوا۔ پیغمبر کی بیٹی کے کیبن کی قیمت 400 درہم یا اس سے کچھ زیادہ یا کم تھی اور امام علی علیہ السلام نے اپنا ایک سامان بیچ کر یہ رقم کمائی۔ وہ اس کی قیمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شمار کیے بغیر کچھ رقم بلال رضی اللہ عنہ کو دے دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لیے ایک اچھا عطر خرید لو! پھر اس نے باقی رقم ابوبکرؓ کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کو جو ضرورت ہے تیار کرو۔ عمار یاسر اور ان کے چند ساتھی ابوبکر کے ساتھ اپنی صوابدید کے ساتھ زہرا کا سامان تیار کرنے کے لیے گئے۔ شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی میں ان آلات کی فہرست ذکر کی ہے۔ [6]

حضرت فاطمہ زہرا کے فضائل

حضرت فاطمہ زہرا(س) عالم اسلام کی ایسی با عظمت خاتون ہیں جنکی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس سمندر کی فضلیتوں کو قرآنی آیات اور معصومین(ع) کی روایات میں بارہا ذکر کیا گیا ہے ۔ حضرت زہرا(س) کے فضائل کے بیان میں بہت زیادہ روایتیں وارد ہوئی ہیں لیکن ہم فقط ان احادیث کو بیان کریں گے جو قرآنی آیات کی تفسیر کے طور پر وارد ہوئی ہیں یا آیت کے شان نزول کو بیان کرتی ہیں جبکہ یہ روایات فقط فضائل کے چند گوشوں کو بیان کرتی ہیں۔ احادیث کی رو سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے چند فضائل و مناقب درج ذیل ہیں:

  • حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیر المومنین اور حسنین سلام اللہ علیہا کے ساتھ عصمت اور پاکیزگی کے مقام میں شریک ہونا (حقیقت میں ان کی روایتوں کے مطابق آپ کی عصمت کی علامت ہے)
  • حضرت صدیقہ کو اپنے والد، شوہر اور بچوں کے ساتھ ہر حال میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہونے اور رہنے کی اجازت دینا۔
  • آپ آئمہ اطہار علیہم السلام کی والدہ ہیں۔
  • جب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولادت ہوئی تو ان کے نور سے مکہ کے تمام گھر بھر گئے۔
  • زہرا سلام اللہ علیہا کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
  • عرش کی ٹانگوں اور جنت کے دروازوں پر فاطمہ کا نام لکھا ہوا ہے۔
  • اس کے ساتھ جنگ ​​یا صلح ایسی ہے جیسے پیغمبر، علی اور حسنین کے ساتھ جنگ ​​اور صلح کی ہو۔
  • آپ سیدہ نساء العالمیں ہیں۔
  • اس کے ساتھ دوستی اور دشمنی نبی کے ساتھ دوستی اور دشمنی کی طرح ہے۔
  • حضرت محدث ہیں یعنی فرشتے ان سے باتیں کرتے تھے۔
  • پیغمبر نے آپ کے شیعوں کو جنت کی بشارت دی ہے۔
  • اس کے مخالفین فنا ہو جائیں گے۔
  • قیامت کے دن اسے اپنے باپ، شوہر اور بچوں کی طرح گھیر لیا جائے گا۔
  • فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی محبت ہر ایک پر واجب ہے، جس طرح ان کے معصوم شوہر اور بچوں کی محبت واجب ہے۔
  • وہ اپنے والد، شوہر اور بچوں کے ساتھ گنبد وسیلہ یا جنت کے وسیلہ کے درجے میں رکھے جاتے ہیں۔
  • اپنے والد، شوہر اور بچوں کے ساتھ نور کے ایک گنبد میں جو تخت کے نیچے کھڑا ہے اور اس بلند مقام پر پانچ لوگوں کے علاوہ کسی کے لیے جگہ نہیں ہے۔
  • روحانی خصوصیات اور اقدار کے لحاظ سے وہ امام علی علیہ السلام کے برابر ہیں۔
  • حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری عمر تک بنی نوع انسان کو حضرت صادقہ زہرا سلام اللہ علیہا سے اپیل کی جاتی رہی ہے۔
  • جب فاطمہ سلام اللہ علیہا محشر کے منظر میں داخل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا: اے اہل محشر اپنی نگاہیں نیچی رکھو تاکہ فاطمہ گزر جائیں [7]۔

اہل سنت کے منابع میں حضرت فاطمہ کے فضائل

اسلام کی عظیم خاتون اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکلوتی بیٹی حضرت صدیقہ اطہر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و عظمت کے بارے میں دونوں شیعوں میں بہت بات کی گئی ہے۔ اور سنی ذرائع.. اس کے فضائل اتنے ہیں کہ اس میں کسی قسم کے شبہ یا انکار کی جگہ نہیں۔ ہم اس نبی کے ان گنت فضائل کا ذکر کرتے ہیں جو سنی منابع میں موجود ہیں۔

طہارت کی آیت اور قصا کی حدیث

ام سلمہ نے کہا: تزکیہ کی آیت میرے گھر میں نازل ہوئی۔ اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فاطمہ، علی، حسن اور حسین علیہما السلام تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلام اہل بیت، یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں۔ حاکم حسکانی اپنی کتاب "التزیل کے ثبوت برائے القوام التفسیل" میں لکھتے ہیں: جب لوگوں کو نماز اور صبر کا حکم دینے والی آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ہر نماز میں علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کے دروازے کے سامنے اہل بیت [8]۔

ابن عساکر، دمشق کی تاریخ کی کتاب میں، امیر المومنین علی علیہ السلام کے ترجمے میں جو ابی سعید خدری نے لکھا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت رضی اللہ عنہم کے بارے میں۔ آیت کے نزول کے بعد آٹھ مہینے تک صبح کی نماز میں لوگوں کو نماز پڑھنے اور صبر کرنے کا حکم دو، آپ علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کے دروازے کے سامنے آتے تھے۔ اور کہے گا: صلاۃ، خدا تجھ پر رحم کرے، لیکن خدا آپ کو اہل بیت کی شرمندگی سے نوازے اور مجھے پاک کرے [9]۔

مباہلہ آیت

ابن سعد کتاب طبقات الکبری میں الحسین علیہ السلام کے ترجمے میں لکھتے ہیں: نجران کے علماء سے بحث کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میرے بچے ہیں [10]۔

حکیم نیشاابوری کتاب مستدرک الصحیحین میں لکھتے ہیں: جب مباہلہ کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام کی تلاوت فرمائی اور فرمایا: (اے اللہ! خدا کی قسم یہ میرے لوگ ہیں [11]۔

حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی

اہل سنت و الجماعت کے بزرگوں کی تحریروں کے مطابق خلیفہ اول حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو تجویز دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور اپنی تجویز کا اظہار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نکاح کے بارے میں خدا کے حکم کا انتظار کر رہا ہوں، خلیفہ اول نے اس جواب کو نفی سمجھا۔

دوسرا خلیفہ بھی اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور پہلے خلیفہ کی طرح نفی میں جواب ملا۔ پھر علی علیہ السلام کے گھر والوں نے مشورہ دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جائیں تاکہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تجویز کریں۔ حضرت تشریف لے گئے اور ان کی تجویز قبول کر لی گئی۔

ابن عباس نے کہا: علی علیہ السلام کے ساتھ فاطمہ س کے نکاح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاطمہ کے سامنے تھے اور جبرائیل دائیں طرف تھے۔ اور میکائیل بائیں طرف تھے اور ستر ہزار فرشتہ حضرت زہرا کے سر کے پیچھے چل رہا تھا اور یہ بہت سے فرشتے صبح تک خدا کی تسبیح اور تقدیس میں مصروف تھے [12] ۔

فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں سب سے محبوب خاتون ہیں

حکیم نیشابوری نے کتاب المستدرک میں بیان کیا ہے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال غزہ سے واپس آئیں گے تو دو رکعت تک مسجد کا سفر کریں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ سے ہمبستری کرے گی، پھر شادی کرے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جنگ یا سفر سے واپس آتے تو مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے اور انہیں برکت دیتے اور پھر اپنی بیویوں کے پاس جاتے [13]۔

ابن حجر نے کتاب استیعاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر سلام ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عورتوں میں سے اور علی علیہ السلام کے مردوں میں سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہیں۔

فاطمہ سلام اللہ علیہا کا غضب خدا کا غضب ہے

حکیم نیشابوری لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: خدا ناراض سے ناراض اور راضی سے راضی ہوتا ہے، خدا تمہارے غضب سے ناراض ہوتا ہے اور تمہارے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے [14]

فاطمہ سلام اللہ علیہا جنت میں رسول خدا کے ساتھ ہیں

محب الطبری نے الریاض الندرۃ میں نقل کیا ہے کہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے میں ہیں۔ حکیم نیشابوری لکھتے ہیں: علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے ہیں۔

محشر میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت

حضرت زہرا کی عظمت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک منادی پکارے گا کہ اے اہل محشر آنکھیں بند کرو کیونکہ رسول خدا کی بیٹی فاطمہ زہرا داخل ہوں گی [15]۔

فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کٹا ہوا جسم ہے

بخاری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے، پس جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

فاطمہ کے ساتھ دوستی اور دشمنی پیغمبر سے دوستی اور دشمنی ہے، بہت سے سنی بزرگوں نے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام نے علی (علیہ السلام)، فاطمہ، حسن اور حسین کی طرف دیکھا اور فرمایا: میں تمہارے دشمنوں کا دشمن ہوں۔ اپنے دوستوں کے ساتھ، میرے دوست [16]۔

فاطمہ دنیا کی خواتین ہیں

ابن سعد، بخاری، ذہبی اور حاکم نیشابوری نے لکھا ہے کہ نبی کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت زہرا رضی اللہ عنہا ان کے پاس گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ کہا اور فاطمہ روئیں اور پھر ان سے کچھ کہا۔ زہرہ مسکرائی۔ عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا۔ اس وقت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے عائشہ سے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر ظاہر نہیں کروں گی۔

وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے آپ سے دوبارہ سوال کیا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک جبرائیل علیہ السلام ہر سال آتے ہیں۔ پہلے قرآن میرے سامنے پیش کرنے کے لیے نازل کیا جاتا تھا لیکن اس سال دو بار نازل ہوا ہے۔ اس لیے کہ میری موت قریب ہے۔ میں اس کی وجہ سے رو پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیوں رو رہی ہو لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اس قوم کی عورتوں کی سردار ہو، دنیا کی عورتوں کی، کیا تم اس بات سے مطمئن نہیں کہ تم اس قوم کی عورتوں کی آقا ہو یا آقا ہو؟ دنیا کی عورتوں کی؟

سنی محققین کے الفاظ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا

ابن سباغ مالکی

فاطمہ کی شان میں اتنا ہی کافی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں۔

محمد بن طلحہ شافعی

مباہلہ کی آیت اور اس کی ترتیب و اقوال اور حضرت فاطمہ کے بلند مقام کے حوالہ جات کی طرف توجہ فرمائیں اور ان کو درمیان میں کیسے رکھا گیا ہے (جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چل رہی تھیں) اور علی کو ان کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے زیادہ واضح کریں۔

عباس محمود، العکاد المصری

ہر مذہب میں ایک کامل عورت کی شخصیت ہوتی ہے جسے ہر کوئی تقدس دیتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ وہ مرد اور عورت کے درمیان خدا کی نشانی ہے، عیسائیت میں خالص مریم کا چہرہ ہے، اور اسلام میں لازمی طور پر فاطمہ بتول کا کامل چہرہ ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا کے بارے میں اہل سنت کی احادیث

پیغمبر اسلام کی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل کے بارے میں مختلف روایات مختلف کتب میں نقل ہوئی ہیں جن میں سنی برادران کی کتابیں بھی شامل ہیں۔

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت کے دن رسول کی پکار ہو: اے جماعت کے لوگو، تاریخ فاطمہ تک اپنی آنکھیں بند کرو۔
  • قیامت کے دن آواز آئے گی کہ اے غاز والو سنو کہ فاطمہ کا انتقال ہونے والا ہے۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم جنت کی خوشبو کے متمنی ہو تو فاطمہ کی گردن پر ہو۔
  • اگر میں جنت کی خوشبو کا تمنا کرتا تو فاطمہ کو سونگھتا۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی، خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہ سے شادی کروں۔
  • اے علی! خدا نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کی شادی فاطمہ سے کر دوں۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے فاطمہ سے شادی کی۔
  • خدا نے علی اور فاطمہ سے شادی کی۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت کی خاتون فاطمہ رضی اللہ عنہا۔
  • جنتی عورتوں کی سرور حضرت فاطمہ ہیں۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے پہلے علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔
  • جنت میں داخل ہونے والے پہلے لوگ ہیں: علی اور فاطمہ
  • جنت میں داخل ہونے والے پہلے لوگ ہیں: علی اور فاطمہ
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی قوت سماعت کھو چکے ہیں
  • فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی

شیعہ نقطہ نظر سے حضرت فاطمہ زہرا کی شہادت

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے معاویہ کی موجودگی میں مغیرہ بن شعبہ سے ایک مناظرہ میں فرمایا:

تم وہ ہو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مارا، یہاں تک کہ لوگوں کو اور ان کے پیٹ میں ہماری پیدائش...؛ تم نے میری ماں کو مارا پیٹا اور زخمی کر دیا یہاں تک کہ اس نے اپنے بچے کا اسقاط حمل کر دیا [17]

ابو بصیر نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے: فاطمہ کی موت کا سبب وہ ضربیں تھیں جو عمر کے غلام قنفود نے عمر کے حکم پر انہیں تلوار سے ماری تھی۔ چنانچہ اس نے (اپنے بیٹے) محسن کو کھو دیا اور وہ شدید بیمار ہو گئے اور اپنے ستانے والوں میں سے کسی کو (اس سے ملنے) نہیں آنے دیا [18]۔

حضرت فاطمہ زہرا کی تدفین کی جگہ

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنی قبر کو چھپانے کا حکم دیا تاکہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی دلیل اور گواہ چھوڑ سکیں اور اپنی مخالفت کو برقرار رکھیں اور غاصبوں اور ظالموں سے لڑیں۔ آپ علیہ السلام نے اسے رات کو دفن بھی کیا اور ان کی قبر کی جگہ بھی چھپا دی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مدفن کے بارے میں چار اقوال ہیں:

  • بعض ان کی قبر کو بقیع میں سمجھتے ہیں۔ کشف الغمہ میں اربلی اور ایون المجازات میں سید مرتضی سمیت اہل سنت بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ چاروں اماموں کے مزار کے قریب واقع قبر کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر سمجھتے ہیں۔

علامہ مجلسی لکھتے ہیں: جب علی فاطمہ کو مسجد میں لے آئے اور نماز پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا: اے رب! اب فاطمہ تمہارے نبی کی بیٹی ہیں جن کو میں نے دنیا کے اندھیروں سے آخرت کی روشنی تک پہنچایا۔ اس وقت ایک منادی نے آواز دی کہ بقیع کا مقبرہ مدفن ہے اس کی طرف چلو۔ جب امیر المومنین وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک قبر بنی ہوئی ہے اور ایک قبر ڈال دی گئی ہے۔ چنانچہ اس نے فاطمہ کی لاش کو وہیں دفن کر دیا۔

ابن جوزی بھی لکھتے ہیں: فاطمہ بقیع میں مدفون ہیں، اور یہ معلومات اس لیے استعمال کی گئی ہوں گی کہ علی ابن ابی طالب نے بقیع میں چالیس نئی قبریں بنوائیں، اور جب مخالفین نے نئی قبروں کو بے نقاب کرنا چاہا تو وہ غصے میں آگئے اور انہیں تباہ کر دیا، اس نے دھمکی دی۔ اس کو قتل کرنا اور اس تفصیل سے واضح ہے کہ قبروں میں سے ایک قبر فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ہے۔ علامہ نورالدین سمھودی کہتے ہیں: افضل یہ ہے کہ اس کی معزز تربت بقیع میں ہو۔ لیکن انہوں نے کہا کہ بقیع میں جو قبر ہے وہ فاطمہ بنت اسد کی قبر ہے، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نہیں [19]۔

  • طبقات کے مالک ابن سعد جیسے کچھ لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ فاطمہ کو عقیل کے گھر میں دفن کیا گیا تھا [20]۔
  • بعض نے کہا ہے کہ وہ خاتون رسول خدا کی قبر میں دفن ہیں۔ مجلسی نے محمد بن ہمام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: علی نے فاطمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں دفن کیا، لیکن انہوں نے قبر کے نشانات کو مٹا دیا۔ باز مجلسی نے زہرا کی کنیز فضہ سے نقل کیا ہے: انہوں نے فاطمہ کے لیے رسول اللہ کی قبر میں دعا کی اور وہیں دفن ہوئیں [21]۔
  • بعض نے کہا ہے: فاطمہ کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا جس کی تصدیق بہت سے شواہد اور روایات سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت فاطمہؓ کی میت کو دفنانے کے بعد حضرت علی علیہ السلام اٹھے اور رسول اللہ کی قبر مبارک کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’سلام ہو تجھ پر اور تیری بیٹی پر اے خدا کی بھیجے ہوئے نبی، اب جب کہ آپ کی بیٹی آپ کے قریب پہنچی ہے‘‘ اور ہم جانتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام گھر روضہ کے قریب ہے رسول اللہ تھے [22]۔

شیخ طوسی یاد دلاتے ہیں: آپ نبی کے گھر میں فاطمہ کی قبر کی زیارت کر سکتے ہیں، اور بعض کا خیال ہے کہ وہ اپنے گھر میں دفن ہیں۔ میرے خیال میں یہ دونوں اقوال ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ان دونوں جگہوں پر آنحضرت کی زیارت کرنا افضل ہے، لیکن بقیع میں فاطمہ کے دفن ہونے کی روایت صحیح نہیں ہے [23]۔

حضرت فاطمہ زہرا کی شہادت

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کی تاریخ کے بارے میں روایات کے مطابق دس پندرہ سے زیادہ اقوال ہیں لیکن تین اقوال زیادہ مشہور اور معروف ہیں:

  • "40" دنوں کی روایت، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کے بعد کے پہلے عشرے میں لی گئی ہے، جو 8 سے 10 ربیع الثانی کے مطابق ہے۔
  • "75" دنوں کی روایت، جو دوسرے عشرے میں لی گئی ہے، جمادی الاولی کی 13 تا 15 تاریخ کے مساوی ہے۔
  • "95" دنوں کی تیسری روایت جو کہ تیسرے عشرے میں لی گئی ہے، 1 تا 3 جمادی الاخر کے مطابق ہے جس پر زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

اسلامی تاریخ کے محققین تیسری روایت کو، یعنی 95 دن کو زیادہ معتبر اور تاریخی اعتبار کا حامل سمجھتے ہیں۔

جناب سیدہ (س) نے اپنے کردار کی پاکیزگی سے نسوانیت کو معراج عطا کی

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا: جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے اپنے کردار کی پاکیزگی سے نسوانیت کو معراج عطا کی، آپ کا وجود اس بات پر مکمل گواہ ہے کہ خواتین بھی معنویت اور رہنمائی کے عظیم درجات حاصل کر سکتی ہیں۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 3 جمادی الثانی روز شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا: جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرامین پیغمبر صلی‌الله‌ علیه‌ وآله‌ وسلّم ایسی حقیقت ہیں کہ جسے تمام مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا: جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا دختر رسول ہونے کے حوالے سے احترام اور عقیدت اپنی جگہ ہے لیکن ان کا یہ پہلو سب سے منفرد اور نمایاں ہے کہ وہ سیدة النساء العالمین ہیں، عالم نسواں کے لئے قیامت تک نمونہ عمل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے عمل اور اخلاق کے میدان میں اپنی زندگی کے جو اصول اور نقوش چھوڑے ہیں وہ دائمی اور ابدی ہیں کسی زمانے، معاشرے یا علاقے تک مخصوص اور مختص نہیں ہیں۔ان کی نورانی اور معنوی زندگی ہر طرح کے احترام و اکرام کی سزاوار ہے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے اپنے کردار کی پاکیزگی سے نسوانیت کو معراج عطا کی، آپ کا وجود اس بات پر مکمل گواہ ہے کہ خواتین بھی معنویت اور رہنمائی کے عظیم درجات حاصل کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا: آپ سلام اللہ علیہا بیٹی کی حیثیت سے رحمت العالمین جیسی ہستی کے لئے باعث رحمت قرار پائیں، شادی کے بعد بیوی اور ماں کی حیثیت سے جس نظام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے مثالی حیثیت رکھتا ہے، اپنے گھر کے تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتیں۔

اس دور کے مطابق اپنے گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا، بچوں کی تربیت کرنا، کنیز سے برابری اور دوست جیسا سلوک کرنا، امیر المومنین علیہ السلام جیسے شوہر سے کاموں کی تقسیم کار باہر کے کام ان کے ذمہ اور گھر کے اندر کے تمام کام جناب سیدہ سلام اللہ علیہا خود انجام دیتیں۔

قائد ملت جعفریہ نے کہا: مسلم معاشرہ ازدواج اور شادی جیسے اہم مسئلہ میں بھی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جیسی ہستی کی سیرت کو نمونہ عمل قرار دے تاکہ سارے مفاسد، بے راہ روی اور انتشار سے بچ کر اخروی نجات مل سکے۔ سید ساجد نقوی نے کہا: موجودہ سنگین دور میں امت مسلمہ خواتین کی آزادی کے لئے ان اصولوں کی روشنی میں جدوجہد کرے جو جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت سے اخذ ہوتے ہیں کیونکہ سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پرورش آغوش رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا: خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اور خاندانی معاملات سے اجتماعی معاملات تک ہر موقع پر سیدہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت و کردار کو مدنظر رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی گود سے ایسی نیک سیرت نسلیں معاشرے کو فراہم کریں جو دنیا میں بہترین معاشرہ تشکیل دینے کی استعداد رکھتی ہوں جیسا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی پاکیزہ گود سے حسن اور حسین علیہما السلام جیسی شخصیات نے پرورش کی جنہوں نے وقت اور تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا[24]۔

حضرت فاطمہ زہراء (س) کی انقلابی اور سیاسی زندگی کے موضوع پر خصوصی اجلاس

آستانہ قدس رضوی کے ادارہ غیر ملکی زائرین کے تعاون سے حرم امام رضا (ع) میں متعدد اردو زبان مفکرین کا ’’حضرت فاطمہ زہراء (س) کی انقلابی و سیاسی زندگی‘‘ پر خصوصی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق؛ آستانہ قدس رضوی کے شعبۂ غیر ملکی زائرین کے زیر انتظام صحن پیامبر اعظم (ص) کے باب الہادیؑ پر واقع فاطمیون روم میں ہندوستان اور پاکستان کے اردو زبان مفکرین کی موجودگی میں خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں حجت الاسلام والمسلمین ابن علی حیدری نے خطاب کیا اور حضرت فاطمہ زہراء (س) کی سیاسی اور انقلابی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔

انہوں نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کی حمایت میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے نمایاں کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت فاطمہ زہراء (س) اس وقت کے تمام مشکل حالات اور پریشانیوں میں حضرت امام علی علیہ السلام کی معاون و مددگار رہیں۔ حجت الاسلام حیدری نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت فاطمہ(س) نے یہ ثابت کر دیا کہ ایک مسلمان عورت سیاسی و سماجی میدان میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

اسلامی معاشرے کی قیادت میں أمیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے حق کا دفاع، ظلم اور ناانصافی کا مقابلہ اور ولایت کا دفاع جملہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیاسی و انقلابی زندگی کے چند اہم پہلو ہیں۔ واضح رہے کہ اس خصوصی اجلاس کے انعقاد کا مقصد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی زندگی اور تعلیمات کے بارے میں آگہی دینا اور غیر ملکی زائرین میں دینی و ثقافتی بنیادوں کو مستحکم بنانا تھا[25]۔

حوالہ جات

  1. حلاتی، حضرت فاطمہ اور ان کی بیٹیوں کی زندگی، ص7-8
  2. کلینی، اصول کافی، ج1، ص530
  3. شیہدی، فاطمہ زہرا کی زندگی، ص35
  4. شیہدی، فاطمہ زہرا کی زندگی، صفحہ 45-39
  5. قزوینی، فاطمۃ الزہرہ ولادت سے شہادت تک، ص 191
  6. الکاشف، ج4، ص670؛ مجلم البیان، ج10، ص611-614؛ روح المعانی، جلد 16، جلد 29، صفحہ 270-269
  7. فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی کتاب علامہ عبدالحسین امینی نے لکھی ہے
  8. التنزیل کا ثبوت برائے القوام التفضیل 1 ص 497 526
  9. ابن عساکر، تاریخ دمشق، ترجمہ امام علی علیہ السلام ص 89
  10. طبقات الکبری، ابن سعد، ترجمہ الحسین، البیت انسٹی ٹیوٹ، صفحہ 139 اور 140
  11. مستدرک الصحیحین 3، ص 150
  12. تاریخ بغداد 5، ص 7
  13. اعیان الشیعہ 1، ص 307
  14. مستدرک الصحیحین 3 ،ص 154
  15. مستدرک 3 ص 153
  16. ترمذی، 3870، المصنف فی الاحادیث، 7 ص 512
  17. طبرسی احتجاج، جلد۔ 1، ص۔ 414- بحار الانوار، جلد 1۔ 43، ص 197، ح 28۔
  18. بحار الانوار، ج43، ص170
  19. اخبار المدینہ (دار المصطفیٰ کے اخبار کا خلاصہ) ص 291
  20. طبقات، ابن سعد، ج8، ص20؛ مدینہ نیوز، ص 290
  21. بحار الانوار، ج43، ص185
  22. نہج البلاغہ، ترجمہ فیض الاسلام، ص 652، خطبہ 195
  23. بحار الانوار، جلد 97، صفحہ 197-196؛ فاطمہ زہرا، علامہ سید محمد حسین فضل اللہ، ص 96
  24. جناب سیدہ (س) نے اپنے کردار کی پاکیزگی سے نسوانیت کو معراج عطا کی-ur.hawzahnews.com/news- شائع شدہ از: 6 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 دسمبر 2024ء۔
  25. مشہد مقدس؛’’حضرت فاطمہ زہراء (س) کی انقلابی اور سیاسی زندگی‘‘ کے موضوع پر خصوصی اجلاس- شائع شدہ از: 15 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء