مندرجات کا رخ کریں

"ہیثم علی طباطبائی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 17: سطر 17:
| known for = [[حزب اللہ لبنان]] کے ممتاز کمانڈر
| known for = [[حزب اللہ لبنان]] کے ممتاز کمانڈر
}}
}}
'''ہیثم علی طباطبائی''' شہید ہیثم علی طباطبائی، جو ابوعلی طباطبائی کے نام سے معروف تھے، [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] کے ایک سینئر [[لبنان|لبنانی]] عسکری کمانڈر تھے۔ وہ [[مقاومتی بلاک|اسلامی مزاحمت]] کی خصوصی یونٹوں کے بانی اراکین میں شمار ہوتے تھے اور اپنی عملی خدمات کے دوران انہوں نے رضوان یونٹ (نخبة خصوصی فورس) کی کمان سنبھالی۔ وہ علاقائی کارروائیوں میں یونٹ 3800 کے ایک اعلیٰ افسر کے طور پر بھی سرگرم رہے۔ 2024ء  میں سینئر رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد، وہ حزب اللہ کے چیف آف اسٹاف کے منصب پر فائز ہوئے اور [[ نعیم قاسم|شیخ نعیم قاسم]] کے بعد تنظیم کے دوسرے اہم ترین فرد سمجھے جاتے تھے۔
'''ہیثم علی طباطبائی''' جو ابوعلی طباطبائی کے نام سے معروف تھے، [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] کے ایک سینئر [[لبنان|لبنانی]] عسکری کمانڈر تھے۔ وہ [[مقاومتی بلاک|اسلامی مزاحمت]] کی خصوصی یونٹوں کے بانی اراکین میں شمار ہوتے تھے اور اپنی عملی خدمات کے دوران انہوں نے رضوان یونٹ (نخبة خصوصی فورس) کی کمان سنبھالی۔ وہ علاقائی کارروائیوں میں یونٹ 3800 کے ایک اعلیٰ افسر کے طور پر بھی سرگرم رہے۔ 2024ء  میں سینئر رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد، وہ حزب اللہ کے چیف آف اسٹاف کے منصب پر فائز ہوئے اور [[ نعیم قاسم|شیخ نعیم قاسم]] کے بعد تنظیم کے دوسرے اہم ترین فرد سمجھے جاتے تھے۔
طباطبائی 2016 سے امریکی پابندیوں کی زد میں تھے، اور 23 نومبر 2025 کو بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک اپارٹمنٹ پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔
طباطبائی 2016 سے امریکی پابندیوں کی زد میں تھے، اور 23 نومبر 2025 کو بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک اپارٹمنٹ پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔
== ابتدائی زندگی اور پس منظر ==
== ابتدائی زندگی اور پس منظر ==

حالیہ نسخہ بمطابق 15:31، 26 نومبر 2025ء

ہیثم علی طباطبائی
دوسرے نامابو علی
ذاتی معلومات
پیدائش1968 ء، 1346 ش، 1387 ق
یوم پیدائش5 نومبر
پیدائش کی جگہالباشورہ بیروت لبنان
یوم وفات23 نومبر
وفات کی جگہحارہ حریک
مذہباسلام، شیعہ
مناصبحزب اللہ لبنان کے ممتاز کمانڈر

ہیثم علی طباطبائی جو ابوعلی طباطبائی کے نام سے معروف تھے، حزب اللہ کے ایک سینئر لبنانی عسکری کمانڈر تھے۔ وہ اسلامی مزاحمت کی خصوصی یونٹوں کے بانی اراکین میں شمار ہوتے تھے اور اپنی عملی خدمات کے دوران انہوں نے رضوان یونٹ (نخبة خصوصی فورس) کی کمان سنبھالی۔ وہ علاقائی کارروائیوں میں یونٹ 3800 کے ایک اعلیٰ افسر کے طور پر بھی سرگرم رہے۔ 2024ء میں سینئر رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد، وہ حزب اللہ کے چیف آف اسٹاف کے منصب پر فائز ہوئے اور شیخ نعیم قاسم کے بعد تنظیم کے دوسرے اہم ترین فرد سمجھے جاتے تھے۔ طباطبائی 2016 سے امریکی پابندیوں کی زد میں تھے، اور 23 نومبر 2025 کو بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک اپارٹمنٹ پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔

ابتدائی زندگی اور پس منظر

ہیثم علی طباطبائی (جسے ابو علی بھی کہا جاتا تھا) ۵ نومبر ۱۹۶۸ کو بیروت کے علاقے الباشورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایرانی تھے اور والدہ لبنانی، لہٰذا وہ ایرانی نسب اور لبنانی شہریت دونوں کے مابین تعلق رکھتے تھے۔ حزب‌الله کی صفوں میں ان کی شمولیت بہت ابتدائی دور کی ہے؛ وہ اسلامی مزاحمت (resistance) کے قیام کے تقریباً آغاز سے ہی اس تحریک کا حصہ بن گئے۔

تعلیم اور تربیت

حزب الله کی وہ رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف عسکری تربیت بلکہ Ideological (عقیدتی) تربیت بھی حاصل کی۔ انہوں نے مختلف ملٹری کورسز اور لیڈرشپ ٹریننگ پروگرامز میں حصہ لیا، جن کی بنا پر وہ نئے اور اہم عسکری آپریشنز کی منصوبہ بندی اور قیادت کرنے کے قابل ہوئے۔ ان کی تربیت اور تجربے نے انہیں حزب‌الله کی خصوصی افواج —رَضوان فورس (Radwan Force) — کی تنظیم اور قیادت میں کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔

عسکری سرگرمیاں

  • انہوں نے 1993 تا 1996 صیہونی دشمن کے خلاف محاذوں پر براہِ راست شرکت کی اور 2000 میں جنوبی لبنان کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔
  • 1996 سے 2000 تک وہ اسلامی مزاحمت کے اہم میدانی کمانڈروں میں شمار ہوئے اور مختلف آپریشنز کی منصوبہ بندی اور قیادت کی۔
  • 2006 کی 33 روزہ جنگ کے بعد انہیں کمانڈ کی سطح پر مزید اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
  • 2008 کے بعد انہوں نے حزب اللہ کے دیگر کمانڈروں کے ساتھ لبنان سے باہر بھی مشن انجام دیے تاکہ تکفیری گروہوں کے بڑھتے خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
  • وہ اسلامی مزاحمت کے خصوصی یونٹس کے بانیوں میں شامل تھے اور منصوبہ بندی، تربیت اور کمانڈنگ میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔
  • 2024 تک وہ مزاحمت کی عملیاتی فورسز کے ایک حصے کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔
  • شہید طباطبائی "محورِ مقاومت" کے اہم اور اثرانداز کمانڈروں میں شمار ہوتے تھے، جنہوں نے خطے میں دہشت گرد گروہوں اور غاصب اسرائیلی کے خلاف جنگ میں اسٹریٹجک کردار ادا کیا۔

ہیثم علی طباطبائی نے حزب‌الله کی عسکری اور آپریشنل قیادت میں ایک طویل اور اہم کیریئر گزارا:

ابتدائی آپریشنز اور جنوب لبنان

وہ ۲۰۰۰ سے پہلے کے دور میں، جب اسرائیل جنوب لبنان میں موجود تھا، کئی مہمات میں شامل رہے۔ خاص طور پر، انہوں نے جنوبی لبنان کی آزادکی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ ۱۹۹۳ اور ۱۹۹۶ میں اسرائیلی حملوں کے دوران، وہ مزاحمت کی محاذ آرائیوں میں سرِ ميدان تھے۔

کمانڈر کی حیثیت اور رضاوان فورس

شہید طباطبائی کو بعد میں رَضوان فورس کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ یہ حزب‌الله کی ایلٹ (خاص) فورس ہے، جسے خاص آپریشنز، سرحدی کارروائیوں اور خطرناک مشنز کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ ان کا کردار صرف لبنان تک محدود نہ رہا: وہ دیگر محاذوں، جیسے شام اور یمن، میں حزب‌الله اور متحدہ ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ ان کی ذمہ داریوں میں لو جِسٹکس، تربیت اور آپریشن کوآرڈینیشن شامل تھیں، خاص طور پر ایران-مدد یافتہ ملیشیا گروپوں کے ساتھ مشترکہ کوششوں میں۔

علاقائی کردار اور حکمتِ عملی

رپورٹس کے مطابق، انہوں نے حزب‌الله کے “یونٹ ۳۸۰۰” کے آپریشنل سپر وِژن میں حصہ لیا، جو شام اور یمن سمیت مختلف محاذوں پر حزب‌الله کی مداخلت اور تعاون کی ذمہ داری رکھتا ہے۔ ۲۰۲۴ میں، لبنان اور دیگر محاذوں پر ان کی قیادت اور آپریشنل حکمتِ عملی نے انہیں ایک مرکزی عسکری شخصیت بنا دیا۔ بعد از جنگ معاہدے کے بعد، حزب‌الله نے انہیں “چیف آف اسٹاف” (عملیاتی سربراہ) کے عہدے پر فائز کیا، اور کہا جاتا ہے کہ وہ نائم قاسم کے بعد تنظیم کے دوسرے-in-command تھے۔-

سیاسی اور مزاحمتی کردار

ہیثم علی طباطبائی کو نہ صرف عسکری رہنما بلکہ مزاحمتی تحریک میں ایک کلیدی سیاسی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جنہوں نے لبنان میں حزب‌الله کی طاقت کو مستحکم کرنے میں اہم حصہ لیا۔ ان کی شہادت پر حزب‌الله کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی “مقاومت اور دفاعِ لبنان” کے لیے وقف کی۔ ایران کی حکومت نے بھی ان کی شہادت کو نہایت افسوس کے ساتھ لیا اور ان کی خدمات کو سراہا۔

شہادت

طباطبائی 23 نومبر 2025 کو غاصب اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوگئے[1]۔

رد عمل

۲۳ نومبر ۲۰۲۵ کو، بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے حارہ حریک میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہیثم علی طباطبائی شہید ہوئے۔

  • حزب‌الله نے ان کی شہادت کو ایک “غدارانہ اور ظالمانہ حملہ” قرار دیا، اور بیان دیا کہ ان کے خون نے مقاومت (مزاحمت) کی قوت کو مزید بڑھایا ہے۔ ان کے انتقال پر حزب‌الله اور متحدہ مزاحمتی گروہ مضبوطی اور عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھنے کا عہد کر رہے ہیں۔

ورثہ

یثم علی طباطبائی نے اپنی پوری زندگی مزاحمت کی راہ میں گزاری۔ ان کی تربیت، عسکری مہارت اور قیادت نے حزب‌الله کو ایک مضبوط فوجی اور آپریشنل قوت بنایا۔ ان کا کردار نہ صرف لبنان تک محدود تھا، بلکہ وہ علاقائی سطح پر ایران-مدد یافتہ ملیشیاؤں کے ساتھ کام کرتے رہے، اور مختلف محاذوں پر مزاحمتی سرگرمیوں کی حکمتِ عملی میں حصہ لیتے رہے۔ ان کی شہادت ایک بڑا نقصان ہے حزب‌الله کے لیے، لیکن ان کی زندگی اور جدوجہد مزاحمت کے حامیوں کو تحریک دیتی رہے گی، کیونکہ انہیں “شہیدِ مزاحمت” کے طور پر یاد کیا جائے گا۔

رہنماؤں کی شہادت سے حزب اللہ مزید طاقتور اور صہیونی حکومت کا زوال مزید تیز ہوگا

سپاہ پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ نے مقاومتی رہنماؤں پر حملے کو صہیونی حکومت کی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعلی کمانڈروں کی شہادت سے حزب اللہ مزید طاقتور ہوگی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سابق سپاہ پاسداران انقلاب کے سربراہ اور ایران کی مصلحت کونسل کے رکن محسن رضائی نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے مزاحمتی قیادت پر حملے سے اس کا زوال مزید تیز ہوگا۔

تفصیلات کے مطابق، کرمان میں ایرانی گمنام شہداء کے جنازے میں شریک شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تل ابیب کو غلط فہمی ہے کہ قیادت کو ختم کرکے مزاحمتی محاذ کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ ہر شہید ہونے والا رہنما اسرائیل کے خاتمے کو ایک قدم اور قریب کردیتا ہے۔ یہ رہنما کسی حکومت کے مقرر کردہ لوگ نہیں ہوتے بلکہ براہ راست عوام کی امنگوں اور حمایت سے کھڑے ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بیروت کے رہائشی علاقے پر اسرائیل کے حالیہ حملے میں حزب اللہ کے سینئر کمانڈر ہيثم علی طباطبائی اور چار دیگر مجاہدین شہید ہوئے، جبکہ عورتوں اور بچوں سمیت اٹھائیس افراد زخمی بھی ہوئے۔ محسن رضائی نے کہا کہ لبنان کی مزاحمت شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد بھی مزید مضبوط ہوئی ہے۔ اسرائیل صبر اور تحمل کی پالیسی کا غلط فائدہ اٹھا رہا ہے، جس پر لبنان کی مزاحمتی قوتوں کو اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنا پڑسکتا ہے[2]۔

سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی

بسمِ اللہ الرَّحمٰن الرَّحیم

سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی نے حزب اللہ لبنان کے سینئر کمانڈر، شہید ہیثم علی طباطبائی، کے دہشت گردانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنا سرکاری بیان جاری کیا ہے، جو درج ذیل ہے: صیہونی رژیم نے ایک بار پھر کھلی اور واضح دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے حزب اللہ لبنان کے استوار و ثابت قدم کمانڈر، شہید ہیثم علی طباطبائی کو جنوبی بیروت کے علاقے ضاحیہ میں نشانہ بنایا۔ نام نہاد جنگ بندی کے دوران — جسے زمانے کے فرعونیوں نے بارہا پامال کیا — اس بزدلانہ اقدام کا وقوع پذیر ہونا طاقت کی نہیں بلکہ اُس دشمن کی کمزوری و درماندگی کی علامت ہے جو خطے کی اقوام اور محورِ مزاحمت کے عزم و ارادے کے مقابلے میں بن‌بست کا شکار ہوچکا ہے۔

سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی اس وحشیانہ جرم کی شدید مذمت کرتی ہے، جس کے نتیجے میں یہ مقتدر اور جہاد و شہادت کے دلدادہ کمانڈر، جو محورِ مقاومت کی نبردوں اور تکفیری سازشوں کی ناکام سازی میں مؤثر کردار ادا کرتے رہے، اپنے چند ساتھیوں اور لبنان کے ثابت قدم عوام کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرگئے۔ سپاہ پاسداران بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے اداروں کی مجرمانہ خاموشی اور بے عملی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ:

امریکہ، صیہونی رژیم اور ان کے دوسرے حامی و شریکِ جرم عناصر کے برخلاف، محورِ مقاومت زندہ، متحرک اور پُرعزم ہے۔ شہیدوں کا خون نہ صرف مقاومت کو کمزور نہیں کرتا بلکہ دنیا کے آزادمردوں اور مخلص و شجاع رزمندگان کے دلوں میں امید اور استقامت کی شمع کو مزید فروزاں کرتا ہے۔ یقیناً حزب اللہ لبنان اور محورِ مقاومت کو اپنے شہیدوں کے خون کا انتقام لینے کا حق حاصل ہے اور وقتِ مقررہ پر ظالم و دہشت گرد جارح کو جوابِ کوبندہ ملے گا۔

امتِ اسلامی اور دنیا کی آزاد و حق‌طلب اقوام اس قتل کو صیہونی رژیم کی نفرت‌انگیز جنگِ نفسیاتی اور اس کی داخلی بحرانوں و میدانی شکستوں کو چھپانے کی ناکام کوشش سمجھتی ہیں—خصوصاً لبنان کے قہرمانانہ اور استوار مقاومت، عزیز و مقتدر حزب اللہ، اور فلسطین کی مظلوم و ثابت قدم مقاومت کے مقابلے میں—جس کا انجام سوائے شکست، رسوائی اور عالمی رائے عامہ کی بڑھتی ہوئی نفرت کے کچھ نہیں ہوگا۔

محورِ مقاومت تمام میدانوں—فوجی، سیاسی، ذرائع ابلاغ اور عوامی—میں کامل انسجام اور مقدس عزم کے ساتھ القدس کی آزادی اور صیہونی جعلی و غاصب رژیم کے سرطان جیسے وجود کو ختم کرنے کا راستہ، حتمی فتح تک جاری رکھے گا۔ سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی، لبنان کی مقاومت کے حالیہ شہداء کی مقدس شہادت پر دبیرِکلِ قہرمان، دیگر کمانڈروں اور رزمندگانِ حزب اللہ کو تبریک و تعزیت پیش کرتی ہے اور شہیدانِ مقاومت، بالخصوص شہید سید حسن نصراللہؒ، کے عظیم اہداف سے تجدیدِ بیعت کرتی ہے۔

سپاہ پاسداران کا کہنا ہے کہ شہید ہیثم علی طباطبائی اور مقاومت کے دیگر تاریخ‌ساز و افتخارآفرین شہداء کا خون خطے اور امتِ اسلامی کے مستقبل کا ایک تزویراتی سرمایہ ہے؛ ایسا سرمایہ جسے دشمن کبھی خاموش نہیں کرسکے گا، اور جس کا فروغ اور درخشندگی مجاہدینِ مقاومت کی صفوں و سنگروں میں صیہونی غاصبوں کے لیے ایک بھیانک و بے آرام خواب ثابت ہوچکا ہے[3]۔

بیروت میں حزب اللہ کے کمانڈر کی شہادت: خطے میں نئی محاذ آرائی کا آغاز؟

اسرائیلی حملے میں ابو علی طباطبائی کی شہادت کو کشیدگی کے فیصلہ کن موڑ قرار دیا جارہا ہے، جس کے بعد مقاومتی بلاک اور اسرائیل کے درمیان طاقت کا توازن نئے مرحلے میں داخل ہونے کا امکان ہے۔ بیروت کے حساس علاقے حارہ حریک میں حزب اللہ کے سینئر فوجی کمانڈر ہیثم علی طباطبائی المعروف ابو علی طباطبائی کی اسرائیلی حملے میں شہادت کو لبنان کی حالیہ تاریخ کا سب سے سنگین اور فیصلہ کن واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ سیاسی و عسکری تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ حملہ خطے میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری کشمکش کو ایک بالکل نئے مرحلے میں دھکیل سکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق، اسرائیل نے انتہائی درست نشانہ لگانے والے جدید ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اس حملے کو انجام دیا، جس نے نہ صرف حزب اللہ کے سیکیورٹی سسٹم کو چیلنج کیا بلکہ ضاحیہ جیسے محفوظ ترین خطے میں تل ابیب کی رسائی کے بارے میں سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ علاقہ دہائیوں سے حزب اللہ کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، جہاں کسی بھی بیرونی حملے کی کامیابی کو سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔

لبنانی اور بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ 2024ء کی جنگ بندی کی عملی حیثیت اب شدید متاثر ہوچکی ہے اور اسرائیل کے اس اقدام نے واضح کر دیا ہے کہ تل ابیب اب تنازع کو سرحدی جھڑپوں تک محدود رکھنے کے بجائے مرکزی میدان تک لے آیا ہے۔ دوسری جانب، حزب اللہ کی جانب سے ممکنہ بھرپور اور وسیع ردعمل کے امکانات نے خطے میں نئی کشیدگی کی فضا پیدا کر دی ہے۔

حملے کی منصوبہ بندی اور پیغام: لڑائی نئے مرحلے میں داخل

اتوار کے روز حارہ‌حریک میں ایک رہائشی عمارت پر ہونے والا حملہ انتہائی درست نشانے والے میزائلوں کے ذریعے کیا گیا۔ لبنان کی وزارت صحت کے مطابق اس حملے میں پانچ افراد شہید اور اٹھائیس زخمی ہوئے۔ لبنانی سکیورٹی ذرائع نے بھی تصدیق کی کہ ہیثم طباطبائی اس کارروائی کا اصل ہدف تھے اور انہیں براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کئی برسوں سے انہیں حزب اللہ کا نمبر دو اور اس تنظیم کے فوجی ڈھانچے کے سب سے بااثر کمانڈر کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ وہ شخصیت جس نے رضوان فورسز کی تشکیل، 2006 کی جنگ کے نظم و نسق اور حزب اللہ کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اس کارروائی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیل دوبارہ ضاحیہ جنوبی میں داخل ہوا۔ گزشتہ چند ماہ میں زیادہ تر حملے جنوب لبنان اور بقاع تک محدود تھے اور تل ابیب بیروت کے مرکزی حصوں میں کارروائی سے گریز کرتا تھا۔ لیکن اب، ضاحیہ کے عین وسط میں براہ راست حملہ یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ اسرائیل اب پرانی سرخ لکیروں کا پابند نہیں رہا اور وہ عملی طور پر جنگ کو حزب اللہ کے مرکز تک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے کو پچھلے برسوں کی منظم ٹارگٹڈ کارروائیوں کے تسلسل میں دیکھنا چاہیے۔ فؤاد شکر اور ابراہیم عقیل سے لے کر سید حسن نصراللہ تک کی شہادتوں کا سلسلہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل ایک منظم منصوبے کے تحت مزاحمت کی اعلی سطحی قیادت کو کمزور کرنے کا منصوبہ چلا رہا ہے۔

امن کے وقفے سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوششیں

2024 کی جنگ کے بعد لبنان میں جس جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا، وہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں جنگ بندی نہیں تھی۔ اسرائیل ہر روز اس کی خلاف ورزیاں کرتا رہا۔ ڈرون حملے، توپخانے کی گولہ باری اور چھوٹے پیمانے کے مسلسل سرحدی اشتعال انگیزی اس کی مثالیں ہیں۔ اگرچہ یہ خلاف ورزیاں اس حد تک شدید نہیں تھیں کہ بڑے پیمانے پر میڈیا کی توجہ حاصل کریں، لیکن اب جب اتوار کے حملے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، تو واضح ہوگیا ہے کہ

اسرائیل نے اس جنگ بندی کے دوران دو اہم مقاصد حاصل کیے:

  1. مزاحمتی کمانڈرز کی درست لوکیشنز کی نشاندہی۔
  2. نسبتا امن کی فضا پیدا کرکے ان کمانڈرز کی سیکورٹی میں کمی لانا۔ دوسرے الفاظ میں، جنگ بندی اسرائیل کے لیے ایک معلوماتی موقع تھی اور طباطبائی کی شہادت اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔

لبنانی اور علاقائی مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنی باریک بینی اور حساس نوعیت کی کارروائی امریکہ کی خاموش منظوری کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ گزشتہ کئی مہینوں سے امریکہ لبنان اور اسرائیل کے مابین تمام رابطہ لائنوں پر کنٹرول رکھے ہوئے تھا اور جنگ بندی کے نظام کی نگرانی بھی کر رہا تھا۔ اسی دوران واشنگٹن حزب اللہ کے خلاف سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی دباؤ کی ہمہ جہت پالیسی بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ سعودی عرب، خلیجی ممالک یہاں تک کہ جنگ بندی کے ضامن ملکوں کا سکوت بھی ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے صرف اسرائیل نہیں؛ بلکہ ایک مکمل علاقائی و بین الاقوامی سیاسی چھتری بھی موجود ہے۔

صہیونی–غربی اتحاد کا ٹوٹتا ہوا دفاعی توازن

7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نے زیادہ سے زیادہ خطرہ مول لینے کی پالیسی اپنا لی۔ اس پالیسی کے تحت اس نے جنگ کو صرف غزہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے لبنان، یمن اور یہاں تک کہ ایران تک پھیلا دیا۔ اگرچہ بعض محاذوں خصوصا ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ میں اسرائیل کو بھاری لاگت اور واضح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کی مجموعی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تل ابیب اب بھی سمجھتا ہے کہ مزاحمتی کمانڈروں کا ٹارگٹڈ قتل ایک بڑی جنگ کو روک سکتا ہے اور حزب اللہ پر تنظیمی خوف مسلط کر کے دوبارہ توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔

لیکن مزاحمتی محور کے تجزیہ کار اس سوچ کو سنگین غلط فہمی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ بیس برس میں حزب اللہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ متعدد سطحوں پر مشتمل، لچک دار اور متبادل قیادت رکھنے والا ڈھانچہ رکھتا ہے۔ لہذا کمانڈروں کا قتل توازن پیدا نہیں کرتا، بلکہ عموما زیادہ سخت اور وسیع ردعمل کو جنم دیتا ہے اور لڑائی کے قواعد کو بدل دیتا ہے۔ اسی پس منظر میں بہت سے ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ یہ ترور ممکن ہے مزاحمت کے محدود جوابی فارمولے سے آگے بڑھ کر ایک زیادہ سخت اور وسیع جنگی معادلے کی ابتدا ثابت ہو۔

لبنانی ریاست: کمزور ڈھانچہ اور سیاسی ارادے کا بحران

اس بڑھتی ہوئی جارحیت کے مقابلے میں لبنانی حکومت تقریبا مفلوج دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی نظام کی تقسیم، مختلف جماعتوں کا بیرونی طاقتوں پر انحصار اور اندرونی اختلافات نے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی ہے کہ ریاست کسی مشترکہ قومی ردعمل پر متفق ہی نہیں ہورہی۔ حکومت نہ کوئی عملی قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، نہ واضح سیاسی موقف اختیار کرنے کی طاقت ہے۔ حتی کہ بنیادی سطح کے سفارتی اقدامات تک نہیں کیے گئے۔

یہ صورتحال ایک بار پھر حزب اللہ کے مؤقف کو مضبوط کرتی ہے کہ لبنان کی حفاظت صرف اپنی اندرونی مزاحمتی قوتوں کے سہارے ممکن ہے۔ اس حوالے سے مغربی ضمانتوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ ایک سال میں بعض لبنانی جماعتوں کی جانب سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے یا اس کے دفاعی کردار کو محدود کرنے کے مطالبات بھی اس حملے کے بعد بے معنی ہوگئے ہیں۔

دارالحکومت بیروت اور ضاحیہ کے قلب میں حملے نے یہ حقیقت واضح کردی کہ اسرائی کسی بھی وقت کشیدگی کا درجہ بڑھانے اور مزاحمت پر کاری ضرب لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اگر لبنان کے پاس مضبوط دفاعی قوت نہ ہو تو وہ محض ایک کھلا میدان بن کر رہ جائے گا جہاں بیرونی قوتیں جب چاہیں داخل ہوں اور حملہ کر کے نکل جائیں۔

شہید ہیثم طباطبائی کی زندگی اور جدوجہد پر ایک نظر

شہید ہیثم علی طباطبائی المعروف ابو علی 1968 میں جنوبی لبنان میں پیدا ہوئے اور حزب اللہ کے کمانڈروں میں شمار ہوتے تھے۔ حزب اللہ کے وہ بانی رہنما جنہوں نے 1980 کی دہائی میں تنظیم کی بنیاد رکھی، ان کے برعکس ابو علی ایک ایسے دور میں حزب اللہ میں داخل ہوئے جب تنظیم زیادہ منظم، پختہ اور واضح ڈھانچے کی حامل ہوچکی تھی۔

انہوں نے جوانی ہی میں حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی اور 1990 کی دہائی میں جنوبی محاذوں پر ہونے والی جنگوں میں فعال کردار ادا کیا۔ 1996 میں وہ محور نبطیہ کے کمانڈر بنے اور سن 2000 میں جنوبی لبنان کی آزادی تک یہ ذمہ داری سنبھالتے رہے۔ بعد میں انہوں نے الخِیام محاذ کی کمان سنبھالی اور 2006 کی جنگ میں متعدد اہم عملیاتی محاذوں کی قیادت کی۔ ابو علی اس جنگ میں حزب اللہ کی کارروائیوں اور صہیونی فوج کے خلاف آپریشنز کے سب سے اہم منتظمین میں شامل تھے۔

2006 کی جنگ کے بعد وہ حزب اللہ کی فورسز آف انٹروینشن سے منسلک ہوئے اور رضوان فورسز کی تشکیل اور مضبوطی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد ابو علی طباطبائی تکفیری گروہوں کے خلاف اہم محاذوں کے مرکزی کمانڈروں میں شامل رہے۔ القلمون اور حلب کے کئی فیصل کن آپریشنز میں ان کی قیادت فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ وہ یمن میں انصار اللہ کی مدد کے لیے فوجی مشاورت اور بعض عملیاتی معاونت بھی فراہم کرتے رہے، جس کے باعث امریکہ اور اسرائیل کی نظر میں وہ مغربی ایشیا میں مزاحمتی محور کی سب سے کلیدی شخصیات میں شمار کیے جانے لگے۔

حالیہ برسوں میں، جب حزب اللہ کے کئی سینئر کمانڈر شہید ہوئے، ابو علی کا مقام اور اثر چند گنا بڑھ گیا۔ فؤاد شکر کی شہادت کے بعد انہیں عملا حزب اللہ کا اولین عسکری کمانڈر تصور کیا جانے لگا۔ اسرائیل نے ماضی میں بھی انہیں شام اور لبنان میں کئی بار نشانہ بنانے کی کوشش کی، مگر ہر بار ناکام رہا۔ یہ سلسلہ بالآخر اس وقت ختم ہوا جب صہیونی حکومت نے ضاحیہ جنوبی کے قلب میں ایک کامیاب حملہ کرکے انہیں نشانہ بنایا۔

طباطبائی کی شہادت لبنان کے مستقبل پر اسٹریٹجک اثرات

ابو علی طباطبائی کی شہادت حزب اللہ کی عسکری صلاحیت کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنے اور اس کے کمانڈ ڈھانچے کو کمزور کرنے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ اگر وہ حزب اللہ کی قیادت کی زنجیر میں خلل ڈال دے اور اہم شخصیات کو راستے سے ہٹا دے، تو آئندہ کسی بڑی جنگ میں مزاحمت کو بڑے چیلنج کا سامنا ہوسکتا ہے۔ لیکن ماضی کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ حزب اللہ ایک کثیر سطحی اور مربوط ڈھانچے پر مشتمل ہے اور کمانڈروں کی جگہ تیزی سے بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اگر حزب اللہ سخت اور وسیع جواب دیتی ہے تو جنگ کے پھیلنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اگر وہ محدود جواب دیتی ہے تو اسرائیل اس سلسلے کے مزید ٹارگٹڈ حملے جاری رکھے گا۔ اس طرح حزب اللہ ایک اہم اسٹریٹجک دو راہے پر کھڑی ہے۔ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اب لبنان اور حزب اللہ کو اپنے دفاع کے طریقے اور دشمن کو روکنے کے انداز دوبارہ طے کرنا پڑیں گے۔

حاصل سخن

ابو علی طباطبائی کی شہادت لبنان میں جاری کشیدگی کا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اب نہ جنگ بندی کی کوئی حقیقی حیثیت باقی رہی ہے اور نہ ہی پرانے سرخ خطوط برقرار ہیں۔ اسرائیل کی کارروائیاں زیادہ منظم، زیادہ عمیق اور زیادہ خطرناک شکل اختیار کرچکی ہیں۔ امریکہ کی پشت پناہی، جنگ بندی کے ضامن ممالک کی خاموشی، لبنانی حکومت کی کمزوری اور داخلی دباؤ ان سب نے مل کر ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس میں حزب اللہ کو انتہائی مشکل اور فیصلہ کن انتخاب کرنا پڑے گا۔

اس حملے کا اصل پیغام واضح ہے کہ صرف طاقت کی زبان ہی اسرائیل کو روک سکتی ہے۔ بیرونی وعدوں یا داخلی سیاسی دباؤ پر انحصار کرنا صرف لبنان کی دفاعی طاقت کو کمزور کرے گا۔ اب یہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں حزب اللہ کے ردعمل پر منحصر ہوگا کہ لبنان ایک نئی دفاعی صورتحال میں داخل ہوتا ہے یا پھر اسرائیل قتل و حملوں کا سلسلہ مزید بڑھا دیتا ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ اس حملے کے بعد پرانے اصول اور پرانے توازن اب ختم ہوچکے ہیں۔ لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں جنگ کبھی نظر آتی ہے اور کبھی پردے کے پیچھے چلتی ہے[4]۔

متعلقہ تلاشیں

حوالہ جات

  1. حزب اللہ کمانڈر شہید ہیثم علی طباطبائی کون تھے؟- شائع شدہ از: 24 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24نومبر 2025ء
  2. رہنماؤں کی شہادت سے حزب اللہ مزید طاقتور اور صہیونی حکومت کا زوال مزید تیز ہوگا، محسن رضائی- شائع شدہ از: 24 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 نومبر 2025ء
  3. بیانیه سپاه در پی شهادت فرمانده ارشد حزب‌الله/پاسخ کوبنده در انتظار اسرائیل است سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی- شائع شدہ از: 24 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 نومبر 2025ء
  4. بیروت میں حزب اللہ کے کمانڈر کی شہادت: خطے میں نئی محاذ آرائی کا آغاز؟- شائع شدہ از: 24 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 نومبر 2025ء