مندرجات کا رخ کریں

"اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 49: سطر 49:
ایکس پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ہماری بہادر مسلح افواج نے صہیونی حکومت کو سزا دینے کے لیے صبح 4 بجے تک اپنی کاروائیاں جاری رکھیں۔
ایکس پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ہماری بہادر مسلح افواج نے صہیونی حکومت کو سزا دینے کے لیے صبح 4 بجے تک اپنی کاروائیاں جاری رکھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام ایرانیوں کے ساتھ میں بھی مسلح افواج کے جوانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے دشمن کے حملوں کا جواب دینے اور ملک کے دفاع کے لئے آخری لمحے تک استقامت کا مظاہرہ کیا<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1933846/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D9%86%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D8%A2%D8%AE%D8%B1%DB%8C-%D9%84%D9%85%D8%AD%DB%92-%D8%AA%DA%A9-%D8%AC%D9%88%D8%A7%D8%A8-%D8%AF%DB%8C%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1 آخری دم تک دشمن سے لڑنے پر مسلح افواج کا شکریہ، ایرانی وزیر خارجہ]- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء</ref>۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام ایرانیوں کے ساتھ میں بھی مسلح افواج کے جوانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے دشمن کے حملوں کا جواب دینے اور ملک کے دفاع کے لئے آخری لمحے تک استقامت کا مظاہرہ کیا<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1933846/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D9%86%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D8%A2%D8%AE%D8%B1%DB%8C-%D9%84%D9%85%D8%AD%DB%92-%D8%AA%DA%A9-%D8%AC%D9%88%D8%A7%D8%A8-%D8%AF%DB%8C%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1 آخری دم تک دشمن سے لڑنے پر مسلح افواج کا شکریہ، ایرانی وزیر خارجہ]- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء</ref>۔
== ٹرمپ کی جنگ بندی؛ "سیاسی  ہذیان گوئی" سے اسرائیل کے "اسٹریٹجک لاچاری" تک ==
ٹرمپ کی ایران اسرائیل جنگ میں جنگ بندی تک پہنچنے میں جلد بازی  کی وجہ ان کی "سیاسی ہذیان گوئی" سے زیادہ امریکہ اور صیہونی رژیم کی "اسٹریٹجک لاچاری" اس جلد بازی کا سبب بنی۔
[[ایران]] کی جانب سے قم، اصفہان اور نطنز میں پر امن ایٹمی تنصیبات پر حملے کے جواب میں ایران نے  قطر  میں خطے میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے پر  چند میزائل داغے؛ اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو ختم کرنے یا ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی بے تکی بات کی تھی، اپنے فوجی اڈے پر حملہ کے بعد ٹرمپ نے فوری طور پر اپنا لہجہ بدلا اور خطے میں جنگ بندی اور کشیدگی کے خاتمے کی ضرورت پر بات کی۔
اسی اثنا میں ٹرمپ کے بیانات کی اچانک اور پے در پے تبدیلیاں بین الاقوامی حلقوں میں طنز کا باعث بنے، اس نے تل ابیب اور تہران کے مابین جنگ بندی کی خواہش کا  اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ  24 جون کی صبح سات بجے جنگ بندی ہوگی۔ ٹرمپ کی جانب سے  جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی صیہونی حکومت نے ایک اور غلط اندازے کے ساتھ سوچا کہ جنگ بندی سے پہلے آخری گھنٹوں میں حملوں کی بوچھاڑ  کرکے  جنگ  میں فتح اپنے نام کر ے گی۔
جنگ بندی کے آخری گھنٹوں میں ہونے والے حملوں کے بعد، اسلامی جمہوری کی مسلح افواج کا [[آپریشن وعده صادق 3|آپریشن وعدہ صادق 3]] کا آخری مرحلہ جنگ بندی سے دو گھنٹے قبل شروع ہوا اور آخری لمحات تک جاری رہا، جس کے ساتھ  مقبوضہ علاقے میں غیر معمولی جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے۔
=== مقبوضہ علاقوں میں داخلی طور پر لاچاری کی فضا قائم ہوئی ===
اگرچہ نتن یاہو نے اپنی کابینہ کو جنگ بندی کے بارے میں کسی بھی قسم کا بیان جاری کرنے سے منع کیا تھا، صیہونیوں کے غلط اندازے نے ان کے لیے معاملات کو اس حد تک پیچیدہ کر دیا کہ صیہونی حکومت کی کئی سابقہ اعلیٰ شخصیات اور بین الاقوامی مبصرین نے جنگ کے خاتمے کو ایک انتہائی تلخ واقعہ اور نتن یاہو اور اسرائیل کے لیے ایک افسوسناک سانحہ قرار دیا۔
اسرائیل کے سابق وزیر اور "اسرائیل  ہمارا گھر" نامی تنظیم کے سربراہ ایویگڈور لائبرمین نے ایک بیان میں کہا کہ کسی خاص معاہدے کے بغیر جنگ بندی ہمیں اگلے دو یا تین سالوں کے لیے  ایک اور جنگ کی طرف لے جائے گی جس میں  بہت زیادہ خراب حالات میں ہوسکتے ہیں۔ لائبرمین نے مزید کہا کہ ایران یورینیم  افزودگی اور میزائیل بنانے کے عمل کو نہیں روکے گا۔
اسرائیلی ٹی وی کے  چینل 12 نے  بھی یہ خبر شائع کی کہ اسرائیل میں لگائے گئے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے ابھی تک اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اور خطرناک ہتھیار استعمال نہیں کیے ہیں۔ بھاری میزائل جو ایک ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد لے  جاسکتے ہیں اور کروز میزائل جن کو ٹریک کرنا اور روکنا مشکل ہوتا ہے۔
== ایران  اب پہلے سے زیادہ مضبوط  ہوکر جنگ سے نکل رہا  ہے ==
اسرائیلی فوج کی ریزرو فورسز کے ایک جنرل ٹام سامیہ نے بھی کہا: یہ ایران تھا جس نے صورتحال پر قابو پالیا اور جنگ بندی کا وقت مقرر کیا۔ انہوں نے مزید کہا: ہم نے صرف چند سال کا امن خریدا وہ بھی  بہت گراں  قیمت پر اور آنے والی نسلوں کے لیے بڑی تکلیف  میں مبتلا کرکے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ 12 دنوں سے جاری جنگ کی  صورت حال ایسی نہیں تھی جیسا کہ صیہونیوں نے منصوبہ بنایا تھا۔ تل ابیب کا خیال تھا کہ اس کی ابتدائی فوجی کارروائی سے وہ ایران کے اندرونی حالات کو تبدیل کردے گا اور چند ہی دنوں میں اسلامی جمہوری حکومت بیرونی حملوں پر قابو پانے میں ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی حالات پر بھی اپنا کنٹرول کھو بیٹھی گی اور تباہی کے قریب پہنچ  جائے گی۔ایران کے مختلف علاقوں پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں اور تہران اور ایران کے دیگر شہروں میں موجودہ حالات کی مخالفت میں عوامی اتحاد اور عوامی اتفاق ایک ایسا مسئلہ تھا جس کا صیہونی تجزیہ نگار صحیح اندازہ لگانے سے قاصر تھے۔ جو ہوا اس کے بالکل برعکس ہوا اور ایران نے ابتدائی دھچکا لگنے کے بعد 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے میں اپنا فوجی آپریشن شروع کر دیا۔
دوسری جانب امریکی اور صیہونی حلقوں کے مطابق ایران کے میزائل ہتھیاروں کی صلاحیت امریکہ اور صیہونی حکومت کے تصور سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ  ایسے وقت  میں تھا کہ  جب امریکی اور صیہونی فضائی دفاع کا چرچا تھا ۔جن کا دعوا ان کے عسکری حکام نے بھی کیا  تھا،  اس کے باوجود وہ ایران کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہے۔
صیہونیوں کی ایک اور تشویش ایرانی میزائلوں کی بڑی مقدار اور تعداد تھی، جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ جنگ  کی طوالت ایران کے  عسکری ساختار کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرے گی۔ یہ امر امریکی میڈیا کی ان رپورٹوں کے برعکس تھا جس میں صیہونی حکومت کے فضائی دفاعی نظام کو میزائلوں کی شدید کمی کا سامنا تھا۔
ایرانی میزائلوں کا درست نشانہ پر لگنا اور رفتار میں اضافہ اور صیہونی اہداف کو نشانہ بنانے کی تیز رفتاری نے جو جنگ کے آغاز کے بعد سے گزشتہ چند دنوں سے بڑھ رہی تھی، صیہونیوں کے لیے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا، یہاں تک کہ اس حکومت کے وجود کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی سنسر شپ نافذ کی گئی تاکہ اسرائیل میں  آپریشن  وعدہ صادق3 کی تباہ کاریوں  کی نشریات کو روکا جا سکے۔
مذکورہ تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران جنگ کو بڑھانے کے لیے پوری طرح تیار تھا، لیکن امریکی میڈیا کی رپورٹس نے جنگ میں شدت لانے کے لیے عوام اور صیہونی حکومت کے رہنماؤں کی لچک کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کو جنم دیا۔  بدلتی ہوئی صورت حال  نے نتن یاہو کو ایک  بند گلی میں ڈال دیا، جس سے نکلنے کا واحد راستہ امریکہ کے لیے براہ راست جنگ میں داخل ہونا تھا۔ تاہم گزشتہ چند مہینوں کی پیش رفت، خاص طور پر یمن کی جنگ سے امریکہ کے اچانک اور یکطرفہ انخلاء سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایسی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا جس سے خطے میں اس کے فوجی اہلکاروں کی جانوں کو خطرہ ہو۔
ایران کی پر امن ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے میں امریکیوں کے غلط اندازے  کے مطابق ان کا خیال تھا کہ ایران اس حملے سے ہتھیار ڈال دے گا اور صیہونی حکومت کی مسلسل جارحیت اور  یورینیم افزودگی کو روکنے کی روشنی میں مذاکرات جاری رکھنے پر راضی ہو جائے گا۔ لیکن  اس طرح کی خام خیالیاں صرف قیاس  آرائیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطر میں امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے کے فوراً بعد ٹرمپ کا لہجہ بدل گیا اور انہوں نے فوری جنگ بندی کا معاملہ اٹھایا۔
== جنگ کے خاتمے کا تعین ایران کرے گا ==
صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا تھا، صیہونیوں کی ایک "غلطی" سے شروع ہوئی، لیکن اس جنگ کے  خاتمے کا تعین ایرانی مسلح افواج کرے گی۔  ابھی بھی امریکی اور صیہونی دشمن کی کسی بھی نئی سٹریٹیجک غلطی کا اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آئے گا اور یہ  بات سب پر عیاں ہے  کہ اس جنگ کا جاری رہنا نتن یاہو اور ٹرمپ کے لیے بہت زیادہ خوفناک اور تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ اسلامی جمہوری ایران کی جیت یقینی ہے<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1933863/%D9%B9%D8%B1%D9%85%D9%BE-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%DB%81%D8%B0%DB%8C%D8%A7%D9%86-%DA%AF%D9%88%D8%A6%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%AC%DA%A9 ٹرمپ کی جنگ بندی؛ "سیاسی  ہذیان گوئی" سے اسرائیل کے "اسٹریٹجک لاچاری" تک]- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء</ref>۔
== اسرائیل اور اس کی شکست کی نوعیت ==
== اسرائیل اور اس کی شکست کی نوعیت ==
[[بشارت الفتح آپریشن (امریکی فوجی اڈے پر حملہ)|جنگ میں فتح]] و شکست کا معیار جنگی اہداف پر منحصر ہے۔ اگر وہ اہداف حاصل ہو جائے تو فاتح کہلایا جاتا ہے۔
[[بشارت الفتح آپریشن (امریکی فوجی اڈے پر حملہ)|جنگ میں فتح]] و شکست کا معیار جنگی اہداف پر منحصر ہے۔ اگر وہ اہداف حاصل ہو جائے تو فاتح کہلایا جاتا ہے۔

نسخہ بمطابق 23:48، 24 جون 2025ء

اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی

جنگ بندی سے پہلے ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ، تل ابیب زوردار دھماکوں سے لرز اٹھا

جنگ بندی کا آغاز ہونے سے پہلے ایران کی جانب سے اسرائیل پر شدید میزائل حملوں میں تل ابیب سمیت کئی شہروں میں زور دار دھماکے ہوئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر میزائلوں کا شدید حملہ کیا گیا ہے جو کامیابی سے اپنے پہلے سے طے شدہ اہداف پر جالگے۔

تفصیلات کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے صہیونی حکومت کی جانب سے کی جانے والی حالیہ جارحیت کے جواب میں مقبوضہ علاقوں کی جانب میزائل داغے، جو دشمن کے دفاعی حصار کو عبور کر کے اپنے اہداف پر کامیابی سے جا گرے۔ دوسری جانب قابض صہیونی افواج نے دعوی کیا ہے کہ ایران کی طرف سے آج میزائل حملے کی چھٹی لہر بھی شروع کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایران نے جنگ بندی کے آغاز سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل کئی مرحلوں پ مشتمل حملے میں 20 میزائل داغے۔ مقبوضہ علاقوں کا روزمرہ منظر، الجلیل، نہاریا اور بئر السبع میں میزائل گرنے کی اطلاعات

صہیونی ریڈیو نے اطلاع دی ہے کہ ایران کے میزائل حملوں کے نتیجے میں بئر السبع میں سینکڑوں میٹر کے دائرے میں تباہی پھیل چکی ہے، جہاں کئی عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں۔ عبرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران نے ان حملوں میں ایسے وزنی بیلسٹک میزائل استعمال کیے ہیں جو اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں کیے گئے تھے۔ یہ ایک نیا اور سنگین حملہ تھا۔

اسی دوران، صہیونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ میزائل حملے کی پانچویں لہر کے دوران حیفا اور شمالی علاقوں میں سائرن بجائے گئے ہیں، اور پورا شمالی اسرائیل ممکنہ میزائل حملوں کی زد میں ہے۔

تل ابیب اور نقب میں زوردار دھماکے؛ بئر السبع میں جانی نقصان کی اطلاع

عبرانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے میزائل حملوں کے نتیجے میں بئر السبع کی ایک عمارت پر میزائل گرنے سے کم از کم ایک شخص ہلاک اور چھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسی دوران تل ابیب اور جنوبی علاقے النقب میں بھی متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں، تاہم فوری طور پر نقصان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ صہیونی چینل 12 نے کہا ہے کہ اسرائیلی طیارے تقریباً ایک گھنٹے سے فضاء میں چکر لگا رہے ہیں لیکن انہیں لینڈنگ کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ یہ صورتحال خطے میں کشیدگی اور حفاظتی اقدامات کے عروج کی علامت ہے[1]۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی عمل درآمد کے مرحلے میں داخل

ذرائع کے مطابق ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی عملی میدان میں داخل ہوگئی ہے۔ ذرائع نے کہا ہے کہ ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی اب عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اس سے پہلے ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا تھا "ہماری طاقتور مسلح افواج کی جانب سے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کارروائیاں آخری لمحے یعنی صبح 4 بجے تک جاری رہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں تمام ایرانیوں کے ساتھ مل کر اپنی بہادر مسلح افواج کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو اپنے خون کے آخری قطرے تک وطن عزیز کا دفاع کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں، اور انہوں نے دشمن کے ہر حملے کا آخری لمحے تک جواب دیا۔ ایک اور پوسٹ میں عراقچی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر ردعمل دیا جس میں جنگ بندی کی بات کی گئی تھی۔ انہوں نے لکھا کہ جیسا کہ ایران بارہا واضح کر چکا ہے کہ اس جنگ کو ایران نے نہیں بلکہ اسرائیل نے شروع کیا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت جنگ بندی یا فوجی کارروائیوں کے خاتمے پر کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔ تاہم اگر صہیونی حکومت صبح 4 بجے تک ایرانی عوام کے خلاف اپنی غیر قانونی جارحیت ختم کر دیتی ہے، تو ایران بھی جواب کاروائی جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔" عراقچی اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہماری فوجی کارروائیوں کے مکمل خاتمے کا حتمی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا[2]۔

رد عمل

ایران

صہیونی جارحیت کو پشیمانی میں بدل دیا، مسلح افواج مزید جواب دینے کے لیے تیار ہیں ایران۔ ایران نے کہا ہے کہ 12 روزہ مزاحمت، قیادت کی حکمت عملی اور عوامی اتحاد کے سہارے دشمن کو پشیمانی پر مجبور کیا، افواج اب بھی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کو تیار ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی قومی سلامتی کونسل نے صہیونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے بیان میں کہا ہے کہ صہیونی حکومت کی جارحیت کے جواب میں، اسلامی جمہوری ایران کی مسلح افواج کے دلیر اور جانثار جوانوں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے فرمان پر لبیک کہا اور بے مثال شجاعت کے ساتھ دشمن کی ہر شرارت کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان کارروائیوں کا نقطۂ عروج امریکی اڈے "العدید" پر حملہ اور اس کے بعد مقبوضہ علاقوں پر وسیع پیمانے پر میزائل حملے تھے۔

ایرانی عوام کی ہوشیاری، بروقت بصیرت، بے مثال مزاحمت، اتحاد اور ہم دلی نے دشمن کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا۔ اس کے نتیجے میں مسلح افواج کو برسوں کی مسلسل مجاہدت سے حاصل ہونے والی طاقت کو مؤثر انداز میں استعمال کرنے کا موقع میسر آیا اور مسلح افواج نے جارحیت کا بروقت اور موزوں جواب دیا۔

اس حکیمانہ قیادت، مسلح افواج کی تدبیر اور قوم کی بیداری کا نتیجہ خدائی نصرت اور فتح کی صورت میں ظاہر ہوا، جس نے دشمن کو پشیمانی، شکست تسلیم کرنے اور اپنی یکطرفہ جارحیت روکنے پر مجبور کردیا۔

اسی بنیاد پر عظیم اور مجاہد ایرانی قوم کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج دشمن کے بیانات پر رتی برابر اعتماد کیے بغیر، پوری طرح چوکنا اور تیار ہیں؛ ہمارے ہاتھ ٹریگر پر ہیں اور کسی بھی جارحانہ اقدام پر فیصلہ کن اور پشیمان کن جواب کے لیے پوری تیاری میں ہیں[3]۔

ایرانی وزیر خارجہ

آخری دم تک دشمن سے لڑنے پر مسلح افواج کا شکریہ، ایرانی وزیر خارجہ۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایرانی مسلح افواج کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے آخری دم تک دشمن کا مقابلہ کیا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایرانی مسلح افواج کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے دشمن کے مقابلے میں آخری دم تک استقامت کا مظاہرہ کیا۔

ایکس پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ہماری بہادر مسلح افواج نے صہیونی حکومت کو سزا دینے کے لیے صبح 4 بجے تک اپنی کاروائیاں جاری رکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام ایرانیوں کے ساتھ میں بھی مسلح افواج کے جوانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے دشمن کے حملوں کا جواب دینے اور ملک کے دفاع کے لئے آخری لمحے تک استقامت کا مظاہرہ کیا[4]۔

ٹرمپ کی جنگ بندی؛ "سیاسی ہذیان گوئی" سے اسرائیل کے "اسٹریٹجک لاچاری" تک

ٹرمپ کی ایران اسرائیل جنگ میں جنگ بندی تک پہنچنے میں جلد بازی کی وجہ ان کی "سیاسی ہذیان گوئی" سے زیادہ امریکہ اور صیہونی رژیم کی "اسٹریٹجک لاچاری" اس جلد بازی کا سبب بنی۔ ایران کی جانب سے قم، اصفہان اور نطنز میں پر امن ایٹمی تنصیبات پر حملے کے جواب میں ایران نے قطر میں خطے میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے پر چند میزائل داغے؛ اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو ختم کرنے یا ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی بے تکی بات کی تھی، اپنے فوجی اڈے پر حملہ کے بعد ٹرمپ نے فوری طور پر اپنا لہجہ بدلا اور خطے میں جنگ بندی اور کشیدگی کے خاتمے کی ضرورت پر بات کی۔

اسی اثنا میں ٹرمپ کے بیانات کی اچانک اور پے در پے تبدیلیاں بین الاقوامی حلقوں میں طنز کا باعث بنے، اس نے تل ابیب اور تہران کے مابین جنگ بندی کی خواہش کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ 24 جون کی صبح سات بجے جنگ بندی ہوگی۔ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی صیہونی حکومت نے ایک اور غلط اندازے کے ساتھ سوچا کہ جنگ بندی سے پہلے آخری گھنٹوں میں حملوں کی بوچھاڑ کرکے جنگ میں فتح اپنے نام کر ے گی۔

جنگ بندی کے آخری گھنٹوں میں ہونے والے حملوں کے بعد، اسلامی جمہوری کی مسلح افواج کا آپریشن وعدہ صادق 3 کا آخری مرحلہ جنگ بندی سے دو گھنٹے قبل شروع ہوا اور آخری لمحات تک جاری رہا، جس کے ساتھ مقبوضہ علاقے میں غیر معمولی جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے۔

مقبوضہ علاقوں میں داخلی طور پر لاچاری کی فضا قائم ہوئی

اگرچہ نتن یاہو نے اپنی کابینہ کو جنگ بندی کے بارے میں کسی بھی قسم کا بیان جاری کرنے سے منع کیا تھا، صیہونیوں کے غلط اندازے نے ان کے لیے معاملات کو اس حد تک پیچیدہ کر دیا کہ صیہونی حکومت کی کئی سابقہ اعلیٰ شخصیات اور بین الاقوامی مبصرین نے جنگ کے خاتمے کو ایک انتہائی تلخ واقعہ اور نتن یاہو اور اسرائیل کے لیے ایک افسوسناک سانحہ قرار دیا۔

اسرائیل کے سابق وزیر اور "اسرائیل ہمارا گھر" نامی تنظیم کے سربراہ ایویگڈور لائبرمین نے ایک بیان میں کہا کہ کسی خاص معاہدے کے بغیر جنگ بندی ہمیں اگلے دو یا تین سالوں کے لیے ایک اور جنگ کی طرف لے جائے گی جس میں بہت زیادہ خراب حالات میں ہوسکتے ہیں۔ لائبرمین نے مزید کہا کہ ایران یورینیم افزودگی اور میزائیل بنانے کے عمل کو نہیں روکے گا۔

اسرائیلی ٹی وی کے چینل 12 نے بھی یہ خبر شائع کی کہ اسرائیل میں لگائے گئے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے ابھی تک اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اور خطرناک ہتھیار استعمال نہیں کیے ہیں۔ بھاری میزائل جو ایک ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد لے جاسکتے ہیں اور کروز میزائل جن کو ٹریک کرنا اور روکنا مشکل ہوتا ہے۔

ایران اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر جنگ سے نکل رہا ہے

اسرائیلی فوج کی ریزرو فورسز کے ایک جنرل ٹام سامیہ نے بھی کہا: یہ ایران تھا جس نے صورتحال پر قابو پالیا اور جنگ بندی کا وقت مقرر کیا۔ انہوں نے مزید کہا: ہم نے صرف چند سال کا امن خریدا وہ بھی بہت گراں قیمت پر اور آنے والی نسلوں کے لیے بڑی تکلیف میں مبتلا کرکے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ 12 دنوں سے جاری جنگ کی صورت حال ایسی نہیں تھی جیسا کہ صیہونیوں نے منصوبہ بنایا تھا۔ تل ابیب کا خیال تھا کہ اس کی ابتدائی فوجی کارروائی سے وہ ایران کے اندرونی حالات کو تبدیل کردے گا اور چند ہی دنوں میں اسلامی جمہوری حکومت بیرونی حملوں پر قابو پانے میں ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی حالات پر بھی اپنا کنٹرول کھو بیٹھی گی اور تباہی کے قریب پہنچ جائے گی۔ایران کے مختلف علاقوں پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں اور تہران اور ایران کے دیگر شہروں میں موجودہ حالات کی مخالفت میں عوامی اتحاد اور عوامی اتفاق ایک ایسا مسئلہ تھا جس کا صیہونی تجزیہ نگار صحیح اندازہ لگانے سے قاصر تھے۔ جو ہوا اس کے بالکل برعکس ہوا اور ایران نے ابتدائی دھچکا لگنے کے بعد 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے میں اپنا فوجی آپریشن شروع کر دیا۔

دوسری جانب امریکی اور صیہونی حلقوں کے مطابق ایران کے میزائل ہتھیاروں کی صلاحیت امریکہ اور صیہونی حکومت کے تصور سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ ایسے وقت میں تھا کہ جب امریکی اور صیہونی فضائی دفاع کا چرچا تھا ۔جن کا دعوا ان کے عسکری حکام نے بھی کیا تھا، اس کے باوجود وہ ایران کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہے۔

صیہونیوں کی ایک اور تشویش ایرانی میزائلوں کی بڑی مقدار اور تعداد تھی، جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ جنگ کی طوالت ایران کے عسکری ساختار کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرے گی۔ یہ امر امریکی میڈیا کی ان رپورٹوں کے برعکس تھا جس میں صیہونی حکومت کے فضائی دفاعی نظام کو میزائلوں کی شدید کمی کا سامنا تھا۔

ایرانی میزائلوں کا درست نشانہ پر لگنا اور رفتار میں اضافہ اور صیہونی اہداف کو نشانہ بنانے کی تیز رفتاری نے جو جنگ کے آغاز کے بعد سے گزشتہ چند دنوں سے بڑھ رہی تھی، صیہونیوں کے لیے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا، یہاں تک کہ اس حکومت کے وجود کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی سنسر شپ نافذ کی گئی تاکہ اسرائیل میں آپریشن وعدہ صادق3 کی تباہ کاریوں کی نشریات کو روکا جا سکے۔

مذکورہ تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران جنگ کو بڑھانے کے لیے پوری طرح تیار تھا، لیکن امریکی میڈیا کی رپورٹس نے جنگ میں شدت لانے کے لیے عوام اور صیہونی حکومت کے رہنماؤں کی لچک کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ بدلتی ہوئی صورت حال نے نتن یاہو کو ایک بند گلی میں ڈال دیا، جس سے نکلنے کا واحد راستہ امریکہ کے لیے براہ راست جنگ میں داخل ہونا تھا۔ تاہم گزشتہ چند مہینوں کی پیش رفت، خاص طور پر یمن کی جنگ سے امریکہ کے اچانک اور یکطرفہ انخلاء سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایسی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا جس سے خطے میں اس کے فوجی اہلکاروں کی جانوں کو خطرہ ہو۔

ایران کی پر امن ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے میں امریکیوں کے غلط اندازے کے مطابق ان کا خیال تھا کہ ایران اس حملے سے ہتھیار ڈال دے گا اور صیہونی حکومت کی مسلسل جارحیت اور یورینیم افزودگی کو روکنے کی روشنی میں مذاکرات جاری رکھنے پر راضی ہو جائے گا۔ لیکن اس طرح کی خام خیالیاں صرف قیاس آرائیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطر میں امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے کے فوراً بعد ٹرمپ کا لہجہ بدل گیا اور انہوں نے فوری جنگ بندی کا معاملہ اٹھایا۔

جنگ کے خاتمے کا تعین ایران کرے گا

صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا تھا، صیہونیوں کی ایک "غلطی" سے شروع ہوئی، لیکن اس جنگ کے خاتمے کا تعین ایرانی مسلح افواج کرے گی۔ ابھی بھی امریکی اور صیہونی دشمن کی کسی بھی نئی سٹریٹیجک غلطی کا اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آئے گا اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اس جنگ کا جاری رہنا نتن یاہو اور ٹرمپ کے لیے بہت زیادہ خوفناک اور تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ اسلامی جمہوری ایران کی جیت یقینی ہے[5]۔

اسرائیل اور اس کی شکست کی نوعیت

جنگ میں فتح و شکست کا معیار جنگی اہداف پر منحصر ہے۔ اگر وہ اہداف حاصل ہو جائے تو فاتح کہلایا جاتا ہے۔ جنگ میں فتح و شکست کا معیار جنگی اہداف پر منحصر ہے۔ اگر وہ اہداف حاصل ہو جائے تو فاتح کہلایا جاتا ہے۔ ابھی ایران اور غاصب اسرائیل کے درمیان صلح نہیں بلکہ موقتی جنگ بندی ہوئی ہے۔ جنگ بندی دونوں طرف کےلئے سانس لینے کی ایک فرصت ہے۔ لیکن جنگ بندی ہو بھی جائے تو اسرائیل نے موقع پاکر پھر حملہ کرنا ہے۔ دنیا کو ذرہ برابر اس غاصب پر اعتماد نہیں ہے۔ اس کی دلیل تاریخی تجربہ ہے۔

لیکن اس جنگ کا آغاز بھی غاصب اسرائیل نے کیا ہے اور جنگ بندی کا التماس بھی اس نے کیا ہے۔ اس غیر منصفانہ جنگ میں امریکہ و اسرائیل کے چند اہداف تھے۔ ان میں سب سے پہلا ہدف عوام کو نظام سے جدا کر کے بغاوت پر ابھارنا تھا۔ لیکن ان کے ہدف کے برعکس تمام ایرانی عوامل مکمل طور پر اپنی تمام تر اختلافات ختم کر کے نظام کے ساتھ ہم سو ہو گئی۔ اس طرح اپنے ابتدائی اہداف میں ہی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

دوسرا ہدف ان کے میزائل سسٹم کو مکمل نابود کرنا تھا۔ جس کےلئے ان کے تمام صف اول کے کمانڈرز کو ٹارگٹ کلنگ کر کے راستے سے ہٹا لیا۔ لیکن ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی مدبرانہ اور ہوشمندانہ حکمت عملی کی وجہ سے نئے کمانڈرز معین ہوگئے اور چوبیس گھنٹے کے اندر پشیمان کنندہ جوابی کاروائی کر کے ان کے غرور کو خاک میں ملایا۔

تیسرا ہدف ایرانی ایٹمی پلانٹ اور افزودہ یورنیم کو مکمل ختم کرنا تھا۔ تمام بین الاقوامی اور NPT کے قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے جنگی جنایت کا مرتکب ہوا جس کےلئے جدید ترین جنگی جہازوں کا استعمال کیا اور ایران کے تین اہم ایٹمی تنصیبات اصفہان، فردو اور نطنز پر حملہ کیا۔ لیکن اس ہدف میں نہ صرف کامیاب نہیں ہوے بلکہ پوری دنیا سے طنز و طعنوں اور مذمت کا سامنا کرنا پڑا اور خود ان کی میڈیا نے مکمل اعتراف کیا کہ اس حملے سے کچھ نقصان نہیں ہوا۔

ایک اور ہدف نظام جمہوری اسلامی کا تختہ الٹنا تھا۔ جس کےلئے موساد اور سی آئی اے نے منافقین کے ساتھ ملکر جو چالیس سال بیٹھ کے برنامہ بنایا تھا۔ اس جاسوسی نیٹ ورک کو چار دنوں میں پکڑنا اسرائیل کےلئے کوئی کم نقصان نہیں ہے۔ اس نیٹ ورک نے اسلحہ ساز فیکٹریوں سے لیکر سائیبر سپیس ہیکر کی تربیت تک، سائنٹسٹ اور کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ سے لیکر حساس جگہوں کی شناسائی تک، تعلیمی اداروں سے لیکر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اپنی جگہ بنانے تک، فضائی، دریائی اور امنیتی انفارمیشن سے لیکر معاشیات اور کرنسی کی نشیب و فراز تک ان جاسوس کی رسائی تھی۔ لیکن اس جنگ کی برکت سے اس نیٹ ورک کا شیرازہ بکھر گیا۔

اس کے بدلے میں انقلاب اسلامی نے آپریشن وعدہ صادق 3 کی اکیسویں لہر تک مختلف میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے اسرائیل جیسے سرطان پر تابڑ توڑ حملے کرتا رہا جو تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ یہ شکست نہ فقط اسرائیل کی بلکہ پوری مغربی تہذیب کی کھلی شکست تھی جو خود کو دنیا کی تمام ترقیاتی معیاروں میں اول و آخر سمجھتی ہے۔ دوسری طرف ملت اسلامیہ کے عوام میں ایک خوشی کی لہر دوڑی اور ملت میں عظیم اتحاد و ہمدلی کی باعث بنی۔ تیسری بات یہ کہ ایران میں موجود تمام تر سیاسی، عوامی ، نژادی اختلافات اپنے اختتام کو پہنچیں۔ عوام نے اتحاد و انسجام ملی، ایثار و قربانی ، حماسہ و شجاعت اور میھن پرستی اور نظام اسلامی کے ساتھ حمایت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے[6]۔

  1. جنگ بندی سے پہلے ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ، تل ابیب زوردار دھماکوں سے لرز اٹھا- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  2. ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی عمل درآمد کے مرحلے میں داخل- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24جون 2025ء
  3. صہیونی جارحیت کو پشیمانی میں بدل دیا، مسلح افواج مزید جواب دینے کے لیے تیار ہیں، ایران- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  4. آخری دم تک دشمن سے لڑنے پر مسلح افواج کا شکریہ، ایرانی وزیر خارجہ- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  5. ٹرمپ کی جنگ بندی؛ "سیاسی ہذیان گوئی" سے اسرائیل کے "اسٹریٹجک لاچاری" تک- شائع شدہ از: 24 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء
  6. عارف بلتستانی، اسرائیل اور اس کی شکست کی نوعیت- شائع شدہ از: 23 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2025ء