"بعثت" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 30: | سطر 30: | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
{{اسلامی اصطلاحات}} | |||
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]] | [[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]] | ||
[[fa:بعثت]] | [[fa:بعثت]] |
حالیہ نسخہ بمطابق 11:21، 27 فروری 2024ء
بعثت اس کا مطلب ہے کسی شخص کو خدا کی طرف سے نبی منتخب کرنا اور اس کی نبوت کے دور کا آغاز۔ اگرچہ بعثت کو تمام انبیاء کے انتخاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا استعمال حضرت محمد کو بطور نبی منتخب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسلامی ثقافت میں اس دن کو کہا جاتا ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ بعث کے لفظی معنی ہیں بیدار کرنا۔ اس کا مطلب بھی بھیجنا ہے۔ بعثت کو قرآن پاک میں لوگوں کی رہنمائی اور مردوں کو جمع کرنے کے لیے انبیاء کو اٹھانے اور بھیجنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت وہ دن ہے جب پیغمبر اسلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی اور ہمیشہ کے لیے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اٹھایا تھا۔ شیعوں کی رائے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 27 رجب کو 40 ویں سال الفیل (610 عیسوی کے مطابق) میں ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ اسلام کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے [1]۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت
اہل السنۃ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کی 17 یا 18 یا 19 تاریخ بروز پیر کو ایک نبی کی طرف مبعوث کیا گیا۔
لیکن شیعوں کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیامت 40ویں سال الفیل (610ء کے مطابق) میں رجب کے مہینے کی 27 تاریخ کو ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ شیعہ منابع میں اس امر کی تائید کرنے والی بہت سی روایات ہیں، ان میں سے مرحوم کلینی نے اپنی سند کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: رجب کی ستائیسویں تاریخ کو مت بھولو، کیونکہ یہ وہ دن ہے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت پر مامور کیا گیا تھا [2]۔
شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی دوسری احادیث بھی دوسرے ائمہ یا صحابہ کرام سے نقل ہوئی ہیں۔
پہلی وحی
جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔
جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔
روایت کی گئی ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو بیان کر رہے تھے، فرمایا: انہوں نے سب سے زیادہ فرمانبردار دل پائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے دروازے کھول دیے اور فرشتوں کو اجازت دی اور وہ نیچے آگئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تو اس پر عرش سے رحمت نازل ہوئی اور وہ روح الامین کی طرف دیکھ رہا تھا، جبرائیل - فرشتوں کا مامور - جبرائیل اس کے پاس اترے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور کہا: اے محمد! پڑھو، محمد نے کہا: کیا پڑھوں؟ اس نے کہا: اے محمد! اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذی خَلَقَ * خَلَقَ الْاِنسانَ مِنْ عَلَقَ * اِقْرَا وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ * اَلَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ... [3]
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ سے نیچے اترے جبکہ خدا کی عظمت اور عظمت الٰہی نے انہیں چکرا دیا تھا اور وہ بخار اور کپکپاہٹ میں مبتلا تھے۔ جس چیز نے اسے مزید پریشان کر دیا وہ یہ تھا کہ اسے ڈر تھا کہ قریش اس کا انکار کر دیں گے اور اسے پاگل پن سے منسوب کر دیں گے، جبکہ وہ ان میں سب سے زیادہ عقلمند اور قابل احترام اور ان کی نظروں میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا۔ لہٰذا، خدا نے چاہا کہ اس کے دل کو ہمت سے بھر دے اور اسے فراخ دل بنائے۔ اس لیے آپ ان کو ہر پتھر اور درخت کے پاس سے یہ کہتے ہوئے سن سکتے تھے۔
السلام علیک یا رسول اللّه
ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل امین ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ اترے اور میکائیل ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ اترے اور ان کو عزت و تکریم کا تختہ لایا اور نبوت و رسالت کا تاج آپ کے سر پر رکھا اور ان کی تعریف و توصیف کی۔ کہا بیٹھو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔
ایک اور روایت میں ہے کہ وہ کرسی سرخ یاقوت کی تھی، اس کی بنیاد آزور جیڈ سے بنی ہوئی تھی اور اس کی بنیاد موتیوں سے بنی ہوئی تھی، اور جب فرشتے آسمان پر چڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ حرہ سے نیچے تشریف لائے اور روشنیاں روشن ہوئیں۔ اس کے جلال نے اسے ڈھانپ لیا، تاکہ کوئی نہ دیکھ سکے کہ اس کا چہرہ مبارک نہیں تھا اور ہر درخت، پودے اور پتھر پر جس سے وہ گزرتا تھا، انہوں نے اسے سجدہ کیا اور فصیح زبان میں کہا:
السلام علیک یا نبی الله، السلام علیک یا رسول الله
گھر میں داخل ہوتے ہی خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا کا گھر آپ کے چہرے مبارک کے نور سے منور ہو گیا اور اس نیک خاتون نے پوچھا: اے محمد! یہ کیا نور ہے جو میں تم میں دیکھ رہا ہوں؟ حضرت نے فرمایا: یہ ایک نبی کا نور ہے، کہو: لا الہ الا اللہ، محمد اللہ کے رسول ہیں۔
خدیجہ نے کہا: میں آپ کو برسوں سے نبی کے طور پر جانتی ہوں اور اب بھی گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ خدا کے رسول اور نبی ہیں۔ اس طرح حضرت خدیجہ پہلی شخصیت تھیں جو اپنے شوہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں ۔
مردوں میں سے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی آپ پر ایمان لایا اور اپنی شہادتوں کا اظہار کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے گھر کے پاس نماز پڑھتے اور خدیجہ سلام اللہ علیہا اور علی علیہ السلام آپ کے پیچھے پیچھے نماز پڑھتے۔ ان تینوں لوگوں نے اپنی جان و مال سے اسلام کی آبیاری کی اور پھیلایا [4]۔
بعثت اسلام کے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دن مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔