مندرجات کا رخ کریں

"سید عباس عراقچی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 67: سطر 67:
وفد نے [[سید علی خامنہ ای|رہبر معظم انقلاب اسلامی]] اور ایرانی حکومت اور عوام کی جانب سے فلسطینی عوام اور مقاومت کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔
وفد نے [[سید علی خامنہ ای|رہبر معظم انقلاب اسلامی]] اور ایرانی حکومت اور عوام کی جانب سے فلسطینی عوام اور مقاومت کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔
حماس کے وفد نے صیہونی حکومت کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے [[ قاسم سلیمانی|شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی]]، [[ اسماعیل ہنیہ|شہید اسماعیل ہنیہ]]، [[یحیی سنوار|شہید یحیی سنوار]]، [[محمد دیاب ابراہیم المصری|شہید محمد ضیف]]، [[سید حسن  نصر اللہ|شہید سید حسن نصراللہ]]، [[سید ہاشم صفی الدین|شہید سید ہاشم صفی الدین]] اور ہزاروں فلسطینی، لبنانی، عراقی، یمنی اور ایرانی مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کی اور کہا کہ شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں قابض حکومت کو اسٹریٹجک شکست ہوئی اور فلسطینی عوام کے لئے وسیع پیمانے پر عالمی حمایت حاصل ہوئی<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1930197/%D8%BA%D8%B2%DB%81-%D9%88%D8%A7%D9%84%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%86%DB%81%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B1%D9%88%D9%81-%D8%B3%DB%92-%D9%84%DA%A9%DA%BE%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%DB%92-%DA%AF%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C غزہ والوں کی مقاومت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی، ایرانی وزیرخارجہ]- شائع شدہ از: 9 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء</ref>۔
حماس کے وفد نے صیہونی حکومت کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے [[ قاسم سلیمانی|شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی]]، [[ اسماعیل ہنیہ|شہید اسماعیل ہنیہ]]، [[یحیی سنوار|شہید یحیی سنوار]]، [[محمد دیاب ابراہیم المصری|شہید محمد ضیف]]، [[سید حسن  نصر اللہ|شہید سید حسن نصراللہ]]، [[سید ہاشم صفی الدین|شہید سید ہاشم صفی الدین]] اور ہزاروں فلسطینی، لبنانی، عراقی، یمنی اور ایرانی مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کی اور کہا کہ شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں قابض حکومت کو اسٹریٹجک شکست ہوئی اور فلسطینی عوام کے لئے وسیع پیمانے پر عالمی حمایت حاصل ہوئی<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1930197/%D8%BA%D8%B2%DB%81-%D9%88%D8%A7%D9%84%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%86%DB%81%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B1%D9%88%D9%81-%D8%B3%DB%92-%D9%84%DA%A9%DA%BE%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%DB%92-%DA%AF%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C غزہ والوں کی مقاومت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی، ایرانی وزیرخارجہ]- شائع شدہ از: 9 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء</ref>۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:ایران]]

نسخہ بمطابق 11:28، 26 اپريل 2025ء

سید عباس عراقچی
دوسرے نامڈاکٹر سید عباس عراقچی
ذاتی معلومات
پیدائش1962 ء، 1340 ش، 1381 ق
یوم پیدائش4ستمبر
پیدائش کی جگہتہران ایران
مذہباسلام، شیعہ
مناصبایران کا وزیر خارجہ اور سیاست دان


سید عباس عراقچی (پیدائش: 4 دسمبر 1962)ایک ایرانی سفارت کار اور سیاست دان ہیں جنہوں نے 1403 سے ایران کے وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام رہا ہے ۔ اس نے وزارت خارجہ کی بین الاقوامی تعلقات کی فیکلٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں بی اے، اسلامی آزاد یونیورسٹی، مرکزی تہران برانچ سے سیاسیات میں ایم اے ، اور کینٹ یونیورسٹی سے سیاسی نظریات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ عراقچی ایران عراق جنگ کے دوران پاسداران انقلاب کا رکن تھا اور عراقچی نے 1367ش سے وزارت خارجہ میں بین الاقومی امور میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور 1378ش سے 1383ش تک فنلاند میں اور 1386ش سے 1390ش فن لینڈ میں اور 2007 سے 2011 تک جاپان میں ایران کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 2013 میں، عراقچی نے دسویں حکومت میں چار ماہ کی مدت کے لیے وزارت خارجہ کے قائم مقام ترجمان کے طور پر خدمات انجام دیں ۔ 2013 سے 2017 تک، انہوں نے قانونی اور بین الاقوامی امور کے نائب وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں اور P5+1 گروپ کے ساتھ ایران کی جوہری مذاکراتی ٹیم کے رکن تھا ۔ وزارت کی تنظیم نو کے بعد، وہ 17 جنوری 2017 سے 13 ستمبر 2021 تک نائب وزیر خارجہ برائے سیاست کے عہدے پر فائز رہے ۔ رئیسی کی حکومت کے دوران، انہوں نے وزیر خارجہ کے سینئر مشیر، نیشنل ڈپلومیسی ایسوسی ایشن کے رکن، اور سٹریٹجک کونسل کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں ، 2017 سے 2017ء تک وہ خارجہ امور کے لیے 2017 سے 2017 تک کام کر چکے ہیں۔ 14ویں حکومت میں ایران کے وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

زندگی

عباس عراقچی 4 دسمبر 1962ء کو تہران کے ایک روایتی گھرانے میں پیدا ہوا ۔ اس کی 3 بہنیں اور 3 بھائی ہیں، جن میں سے زیادہ تر تجارت کے شعبے میں سرگرم ہیں، اور ان کے دادا قالین کے تاجر تھے۔ اس نے 17 سال کی عمر میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اس کے دو بڑے بھائی ہیں، جن میں سے ایک ایکسپورٹرز یونین کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر ہے اور دوسرا سیلرز یونین کا ممبر ہے۔

ان کے بھتیجے، سید احمد اراغچی نے 2017 سے 2018 تک سینٹرل بینک آف ایران کے ڈپٹی فارن ایکسچینج گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ولی اللہ سیف کی مرکزی بینک کی صدارت سے علیحدگی کے بعد فارن ایکسچینج مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے بعد ، انہیں بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور عدلیہ نے گرفتار کر لیا۔ عراقچی کی پہلی بیوی کا نام بہارہ عبداللہیان تھا، جس سے اس کے تین بچے تھے۔ عبداللہیان سے علیحدگی کے بعد، عراقچی نے آرزو احمدوند سے شادی کی اور اس کی ایک بیٹی تھی ۔

سیاسی پس منظر

عباس عراقچی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان ، ایشیا اور بحرالکاہل کے امور کے سابق نائب وزیر خارجہ اور مارچ 2007 سے اکتوبر 2011 تک جاپان میں ایران کے سفیر رہ چکا ہے۔ وزارت خارجہ کی تنظیم نو کے بعد، انہوں نے ستمبر 2017 سے فروری 2011 تک نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور کے طور پر کام کیا۔

فلسطین کا مقصد فراموش نہیں کیا جا سکتا

ایرانی وزیر خارجہ نے یوم القدس کی تقریب میں عوام کی بھرپور شرکت کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا مقصد کبھی فراموش نہیں ہوسکتا۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے عالمی یوم القدس کے موقع پر شرکت کے بارے میں سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ آج ایرانی عوام کے ساتھ مل کر عالمی یوم القدس کی ریلی میں شرکت کا موقع ملا۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اس عظیم اجتماع نے ظلم کے خلاف ایرانی قوم کی مزاحمت اور گذشتہ سال کے اہم علاقائی واقعات کی حساسیت کو بخوبی اجاگر کیا۔ عراقچی نے عوام کی آگاہی اور ان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ باشعور قوم ہی ملک کی اصل طاقت اور سب سے بڑی مدافعتی قوت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ فلسطین کا مقصد کبھی فراموش نہیں ہو سکتا[1]۔

صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنا ضروری ہے

ایرانی وزیر خارجہ نے غزہ میں صیہونی حکومت کے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اسلامی اور علاقائی ممالک کی جانب سے فوری اجتماعی اقدام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو ہوئی، جس میں خطے کی تازہ ترین صورتحال بالخصوص غزہ میں صہیونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور یمن پر امریکی فوجی حملوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

عراقچی نے غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور یمن کے خلاف امریکی جارحیت کی شدید مذمت کی۔ صنعاء اور دیگر یمنی شہروں میں امریکی حملوں کے نتیجے میں بے گناہ خواتین اور بچوں کا قتل عام اور اس ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی ہوئی۔ انہوں نے علاقائی اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ اور صہیونی حکومت کے مظالم اور خطے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کو روکنے کے لیے فوری اور اجتماعی اقدام کریں۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر عالمی طاقتوں کی بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر اس صورتحال کو نظرانداز کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ گفتگو کے دوران متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے بھی یمن اور فلسطین کی صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے مسلسل مشاورت کی ضرورت پر زور دیا[2]۔

امریکہ اور برطانیہ کی یمن پر جارحیت اور معصوم بچوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہیں

ایرانی وزیر خارجہ نے یمن پر امریکہ اور برطانیہ کی فوجی جارحیت، معصوم خواتین اور بچوں کے قتل عام، اور فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کی شدید مذمت کی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے تہران میں اسلامی ممالک کے سفیروں اور سفارتی اہلکاروں کے اعزاز میں دی گئی افطار پارٹی کے موقع پر کہا کہ مسلمان ایسے وقت میں ماہ رمضان میں داخل ہورہے ہیں جب فلسطین، غزہ، لبنان، شام، اور یمن کے مظلوم عوام صیہونی حکومت کے جنگی جرائم، نسل کشی اور وحشیانہ حملوں کا شکار ہیں۔

وزیر خارجہ نے یمن پر امریکہ اور برطانیہ کی فوجی جارحیت، بے گناہ خواتین و بچوں کے قتل عام، اور فلسطینی عوام پر صیہونی جرائم کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ رمضان میں مسلم ممالک کے درمیان یکجہتی اور اتحاد میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مسلمان اقوام کو متحد ہوکر ان جرائم کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے، تاکہ امت مسلمہ کے تمام حقوق کا دفاع اور بالخصوص فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے[3]۔

غزہ والوں کی مقاومت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی

ایرانی وزیرخارجہ عراقچی نے حماس کے سیاسی دفتر کے اعلی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کہا کہ صہیونی مظالم کے خلاف غزہ کے عوام کی مقاومت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی مقاومتی تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اور ارکان نے تہران میں ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی سے ملاقات کی۔

ملاقات کے دوران ایرانی وزیر خارجہ نے غاصب صیہونی حکومت کے فلسطینی عوام کی تاریخی فتح کو مبارک باد پیش کی اور اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت کی بہیمانہ نسل کشی کے خلاف غزہ کے عوام کی مزاحمت تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ فلسطینی عوام کے صبر و تحمل سےمقاومت کی جو طاقت ابھرکر سامنے آئی ہے، وہ دنیا کے تمام مسلمانوں اور حریت پسندوں کے لئے فخر کا باعث ہے۔

عراقچی نے زور دے کر کہا کہ وحشیانہ جرائم کے ارتکاب اور ہزاروں خواتین، بچوں اور بے سہارا لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود صیہونی حکومت مقاومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگئی جسے وہ مکمل طور پر تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ درحقیقت قابض حکومت اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام اور مقاومت اپنے اہداف میں مکمل کامیاب رہی۔ وزیر خارجہ نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ غزہ سے فلسطینی عوام کو زبردستی بے دخل کرنے کا منصوبہ نوآبادیاتی سازشوں کا تسلسل اور بین الاقوامی قانون اور قراردادوں کے منافی ہے لہذا ہم اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل اور بعض عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کو اس خطرناک سازش کے خلاف مربوط اور فیصلہ کن موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر حماس کے وفد کے سربراہ محمد اسماعیل درویش نے بھی تہران کے دورے پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ حماس کے وفد نے رہبر معظم انقلاب اسلامی، صدر پزشکیان اور ایرانی پارلیمنٹ کے سربراہ قالیباف سے ملاقاتیں کیں اور اسلامی انقلاب کی سالگرہ اور غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی عظیم فتح پر مبارکباد پیش کی۔

وفد نے رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ایرانی حکومت اور عوام کی جانب سے فلسطینی عوام اور مقاومت کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ حماس کے وفد نے صیہونی حکومت کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی، شہید اسماعیل ہنیہ، شہید یحیی سنوار، شہید محمد ضیف، شہید سید حسن نصراللہ، شہید سید ہاشم صفی الدین اور ہزاروں فلسطینی، لبنانی، عراقی، یمنی اور ایرانی مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کی اور کہا کہ شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں قابض حکومت کو اسٹریٹجک شکست ہوئی اور فلسطینی عوام کے لئے وسیع پیمانے پر عالمی حمایت حاصل ہوئی[4]۔

حوالہ جات

  1. فلسطین کا مقصد فراموش نہیں کیا جا سکتا، عراقچی- شائع شدہ از: 29 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
  2. صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنا ضروری ہے، عراقچی-شائع شدہ از: 22 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
  3. امریکہ اور برطانیہ کی یمن پر جارحیت اور معصوم بچوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہیں، عراقچی-شائع شدہ از: 18 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
  4. غزہ والوں کی مقاومت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی، ایرانی وزیرخارجہ- شائع شدہ از: 9 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء