"فلسطین" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 27: | سطر 27: | ||
== یہودی وطن کے لیے انگریزوں کی حمایت == | == یہودی وطن کے لیے انگریزوں کی حمایت == | ||
پہلی عالمی جنگ (1914-19ء) میں سلطنت عثمانیہ برطانیہ (اتحادیوں) کے خلاف جرمنی (محوریوں) کی حمایتی تھی۔ برطانوی حکومت نے عرب ممالک کی امداد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے مکہ کے شریف حسین سے گفت و شنید کی۔ شریف مکہ نے دوسرے عرب سرداروں اور حمکرانوں سے مشورہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ عرب ممالک صرف اسی صورت میں برطانوی حکومت کی امداد کرسکتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کے آزادی اور خود مختاری کا اعلان کا وعدۂ کیا جائے۔ برطانوی حکومت نے جنگ جیتنے کے لیے عربوں کی یہ شرط منظور کرلی اور کچھ عرصہ بعد عرب ممالک کی سرحدوں کا تعین کردیا۔ | پہلی عالمی جنگ (1914-19ء) میں سلطنت عثمانیہ برطانیہ (اتحادیوں) کے خلاف جرمنی (محوریوں) کی حمایتی تھی۔ برطانوی حکومت نے عرب ممالک کی امداد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے مکہ کے شریف حسین سے گفت و شنید کی۔ شریف مکہ نے دوسرے عرب سرداروں اور حمکرانوں سے مشورہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ عرب ممالک صرف اسی صورت میں برطانوی حکومت کی امداد کرسکتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کے آزادی اور خود مختاری کا اعلان کا وعدۂ کیا جائے۔ برطانوی حکومت نے جنگ جیتنے کے لیے عربوں کی یہ شرط منظور کرلی اور کچھ عرصہ بعد عرب ممالک کی سرحدوں کا تعین کردیا۔ | ||
عربوں سے آزادی کا وعدہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے دو خفیہ معاہدے کئے جس سے عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ پہلا خفیہ معاہدہ سائیکس پیکٹ(Sykes Pact) 1916ء میں طے پایا۔ جس کے تحت عرب علاقوں کو برطانیہ اور فرانس کے مابین تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا | عربوں سے آزادی کا وعدہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے دو خفیہ معاہدے کئے جس سے عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ پہلا خفیہ معاہدہ سائیکس پیکٹ(Sykes Pact) 1916ء میں طے پایا۔ جس کے تحت عرب علاقوں کو برطانیہ اور فرانس کے مابین تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ | ||
دوسرا خفیہ معاہدہ 1917ء بالفور (Balfour Declaration) تھا۔ بالفور اس خط کا متن ہے جو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مقیم یہودیوں کی فاؤنڈیشن کے چیئرمین لارڈراتھس چائلد کو لکھا تھا۔ اس خط میں وعدہ کیا گیا تھا کہ حکومت برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کی کے لیے ایک قومی وطن (National Home) قائم کرنے میں مدد دے گی۔ یہ اعلان یہودی مملکت کے مطالبے کو بین الاقوامی پیمانے پر تسلیم کئے جانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اتحادی طاقتوں نے اعلان بالفور کی تائید کی <ref>محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء،ص617-618</ref>۔ | |||
== فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی == | == فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی == | ||
1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ انہیں بے حس کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن کو استعمال کیا۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1% یہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8% یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2% ان کے اختیار میں تھا۔ | 1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ انہیں بے حس کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن کو استعمال کیا۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1% یہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8% یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2% ان کے اختیار میں تھا۔ |
نسخہ بمطابق 14:12، 1 جنوری 2024ء
فلسطین مغربی ایشیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور اس پر 1948 سے اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت بیت المقدس ہے۔ پوری تاریخ میں فلسطین کی سرزمین مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے آباد رہی ہے ۔ اسلام فلسطین میں عمر بن خطاب کے دور خلافت میں داخل ہوا۔ فلسطین میں اسلام کی آمد کے بعد امویوں، عباسیوں، فاطمیوں اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر غلبہ حاصل کیا۔ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں پر عیسائیوں کی فتح کے بعد فلسطین کی حکومت کچھ عرصے کے لیے عیسائیوں کو دے دی گئی۔ لیکن کچھ عرصہ بعد مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ پہلے یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا اور پہلے جنگ عالمی جنگ تک اس کی یہی حیثيت رہی۔ فلسطین پر 1948 سے اسرائیلی حکومت کا قبضہ ہے اور اس کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے کئی جنگیں، انتفاضہ اور قتل عام ہو چکا ہے۔ اس ملک میں بہت سے شیعہ رہتے ہیں۔ ان کی آبادی کے کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ اسلامی جہاد موومنٹ اور صابرین موومنٹ کو شیعہ سے متاثر فلسطینی گروپ سمجھا جاتا ہے ۔ حماس اور الفتح اس ملک کی دوسری جماعتیں ہیں۔
جغرافیہ
فلسطین کا رقبہ 10419 مربع میل ہے ۔ جو بحر متوسط کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کی سرحدین اردن۔، شام، مصر اور لبنان سے ملتی ہیں [1]۔ 1917 میں انگریزوں کے فلسطین پر قبضے سے پہلے شام کے جنوب مغربی علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ اس کے علاوہ، ماضی میں، سرزمین فلسطین کو شام کا حصہ سمجھا جاتا تھا ، اس لیے عربوں میں اسے "جنوبی شام" کہا جاتا تھا۔ فلسطین کا رقبہ 27 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔
عالم اسلام میں فلسطین کا مقام
فلسطین کی سرزمین مسلمانوں کے درمیان مختلف وجوہات کی بنا پر ایک خاص مقام رکھتی ہے، بشمول اس ملک میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلہ اول) کا وجود، سرزمین فلسطین کو قرآن میں "مقدس سرزمین" اور "مبارک سرزمین" کہا گیا ہے۔
فلسطین بہت سے انبیاء کی تدفین کی جگہ ہے۔ مثال کے طور پر، حضرت مریم کو ناصرہ کے شہر میں، اور حضرت یحیی کو سامریہ کے شہر میں اور ابراہیم شہر حبرون میں دفن کیا گیا ہے بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت، وہ جگہ بھی تھی جہاں سے یہودیت اور عیسائیت کا ظہور ہوا ۔ حضرت نبی کی قبر، مقام حضرت موسیٰ، مسجد اقصیٰ، مسجد صخرہ اسی شہر میں واقع ہیں۔ اریحا اور غزہ کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ محمد بن ادریس شافعی، چار سنی فقہاء میں سے ایک، فلسطین کے شہر غزہ میں پیدا ہوئے۔
اسلام سے پہلے فلسطین کی تاریخ
مؤرخین کے مطابق فلسطین ہجر کے دور سے بنی نوع انسان کا آباد ہے۔۔ فلسطین کا قدیم ترین نام "کنعان کی سر زمین" ہے جو کہ کنعانی عربوں سے لیا گیا ہے، جو فلسطین میں تارکین وطن کا پہلا گروہ تھا۔ اس گروہ نے 3500 قبل مسیح میں ہجرت کے لیے فلسطین کا انتخاب کیا۔ فلسطین کا نام ان تارکین وطن قبائل سے لیا گیا ہے جو 1200 قبل مسیح کے آس پاس مغربی ایشیا سے اس سرزمین کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ طویل صدیوں کے دوران، فلسطین کے زیادہ تر باشندے کنعانی عرب تھے، اور آہستہ آہستہ وہ دوسرے عرب قبائل کے ساتھ گھل مل گئے۔ اس کے علاوہ،مختلف ادوار کے دوران، یہودی فلسطین کے بعض علاقوں میں حکومت کرنے آئے۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومیوں نے فلسطین پر غلبہ حاصل کیا اور یہودیوں کو اپنے زیر تسلط کر لیا۔ 30 عیسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز تھا ۔ اس نے اپنی تعلیمات بیت المقدس شہر میں شروع کیں اور لوگوں کی رہنمائی میں مصروف رہے۔
مرتضی مطہری کے مطابق ، فلسطین کی سرزمین اپنی تاریخ میں کبھی بھی یہودیوں کی نہیں رہی، نہ اسلام سے پہلے اور نہ اسلام کے بعد۔ صرف ایک عارضی دور میں، داؤد (ع) اور سلیمان (ع) نے وہاں حکومت کی۔ جب مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا تو فلسطین عیسائیوں کے قبضے میں تھا اور مسلمانوں نے عیسائیوں سے صلح کر لی۔ امن معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ عیسائیوں نے کہا کہ فلسطین یہودیوں کو نہ دیا جائے۔
اسلامی دور میں فلسطین
اسلام ابوبکر کے دور خلافت میں فلسطین میں داخل ہوا۔ تاہم، یہ سرزمین سنہ 13 ہجری میں فتح ہوئی اور عمر بن خطاب کے دور خلافت میں خالد بن ولید کی قیادت میں اجنادین کی جنگ سمیت کئی لڑائیوں کے دوران فتح ہوئی ۔ عمر بن خطاب کے دور خلافت میں فلسطین اسلامی سرزمین کا حصہ بن گیا اور اس سرزمین پر اموی اور عباسی خلفاء نے حکومت کی۔ 358ھ میں فاطمیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے، فاطمیوں نے مقامی انقلابات، قراماطہ اور سلجوقی ترکوں کے ساتھ جنگ کی۔ اس عرصے کے دوران، فلسطین پر تنازعہ جاری رہا، اس طرح کہ فلسطین کی حکومت کو مصر کے مملوکوں، منگولوں اور عثمانیوں کے درمیان تبدیل کیا گیا ، یہاں تک کہ عثمانیوں نے 400 عیسوی کے لگ بھگ سے فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ صلیبی جنگوں اور تقریباً ستر ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد 493 ہجری میں یورپی عیسائیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کے بعد 88 سال تک عیسائیوں کی حکمرانی جاری رہی۔ جنگ حطین کے بعد صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ فلسطین پر عثمانی حکومت 1917 میں برطانیہ کے قبضے تک جاری رہی ۔ برطانیہ کی طرف سے فلسطین پر قبضہ 1948 تک جاری رہا، حالانکہ برطانیہ نے 1922 میں قبضے کے عنوان کو ایک محافظ ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔
فلسطین کو یہودیانے کی پالیسی اور یہودیوں کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1931 (1310ھ) میں القدس اسلامی کانگریس کے نام سے ایک کانفرنس فلسطین کے مفتی اعظم محمد امین الحسینی نے بیت المقدس میں منعقد کی ۔ اس کانگریس کے نائب صدر اور سیکرٹریٹ کے سربراہ سید ضیاء الدین طباطبائی (وفات: 1348)، ایک ایرانی سیاست دان تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں کہہ کر ہر قوم کی ملت کے تحفظ پر زور دیا۔ اس کانفرنس میں اقبال لاہوری جیسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔
1936 میں فلسطینی عوام نے برطانوی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس انقلاب کو برطانوی اور صیہونی رکاوٹوں نے شکست دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس بغاوت کی ناکامی کے ساتھ ہی برطانوی حکام نے امین الحسینی کو جلاوطن کر دیا اور دوسری قدس کانگریس کے انعقاد کو روک دیا۔
یہودی وطن کے لیے انگریزوں کی حمایت
پہلی عالمی جنگ (1914-19ء) میں سلطنت عثمانیہ برطانیہ (اتحادیوں) کے خلاف جرمنی (محوریوں) کی حمایتی تھی۔ برطانوی حکومت نے عرب ممالک کی امداد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے مکہ کے شریف حسین سے گفت و شنید کی۔ شریف مکہ نے دوسرے عرب سرداروں اور حمکرانوں سے مشورہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ عرب ممالک صرف اسی صورت میں برطانوی حکومت کی امداد کرسکتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کے آزادی اور خود مختاری کا اعلان کا وعدۂ کیا جائے۔ برطانوی حکومت نے جنگ جیتنے کے لیے عربوں کی یہ شرط منظور کرلی اور کچھ عرصہ بعد عرب ممالک کی سرحدوں کا تعین کردیا۔ عربوں سے آزادی کا وعدہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے دو خفیہ معاہدے کئے جس سے عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ پہلا خفیہ معاہدہ سائیکس پیکٹ(Sykes Pact) 1916ء میں طے پایا۔ جس کے تحت عرب علاقوں کو برطانیہ اور فرانس کے مابین تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ دوسرا خفیہ معاہدہ 1917ء بالفور (Balfour Declaration) تھا۔ بالفور اس خط کا متن ہے جو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مقیم یہودیوں کی فاؤنڈیشن کے چیئرمین لارڈراتھس چائلد کو لکھا تھا۔ اس خط میں وعدہ کیا گیا تھا کہ حکومت برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کی کے لیے ایک قومی وطن (National Home) قائم کرنے میں مدد دے گی۔ یہ اعلان یہودی مملکت کے مطالبے کو بین الاقوامی پیمانے پر تسلیم کئے جانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اتحادی طاقتوں نے اعلان بالفور کی تائید کی [2]۔
فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی
1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ انہیں بے حس کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن کو استعمال کیا۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1% یہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8% یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2% ان کے اختیار میں تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے واقعات 1917 میں بالفور اعلامیہ کے اجراء کا باعث بنے۔ اس بیان میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنانے کا مطالبہ کیا۔ اسی وجہ سے فلسطین پر برطانوی حکومت کے دوران صیہونیوں کی ایک بڑی آبادی نے فلسطینی سرزمین کی طرف ہجرت کی، تاکہ اس عرصے میں یہودیوں کی تعداد میں چھ گنا اضافہ ہوا۔ اسرائیل کی بنیاد 1948 میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت یہودیوں کا فلسطین کی 78% زمین پر قبضہ تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطین کے شمال میں واقع الخلیل، بحیرہ روم کا ساحل، صحرائے نقب اور فلسطین کا وسطی علاقہ شامل تھا۔ چونکہ مغربی کنارہ اردن کے زیر انتظام تھا اور غزہ بھی مصری حکومت کے زیر انتظام تھا ، اس لیے یہ دونوں علاقے صیہونیوں کے قبضے سے بچ گئے تھے۔ تاہم، 1967 سے 1995 تک، اسرائیل مغربی کنارے کے 60% اور غزہ کے 40% حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ نیز اس عرصے میں اسرائیل فلسطین کے 97% حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔
اسرائیل کے قیام کے دن کو یوم نکبت یا تباہی کا دن کہا جاتا ہے اور سال 1948 کو نکبت کا سال کہا جاتا ہے۔ نیز اسرائیل سے عرب ممالک (مصر، شام، اردن اور عراق) کی شکست کی وجہ سے سنہ 1967 کو نکسہ کا سال کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ 6 سال تک جاری رہی اور عرب ممالک کی شکست کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے کچھ علاقے اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔
19/8/1351 کو اسرائیل کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں امام خمینی نے کہا: عظیم استعماری طاقت کا اسرائیل کو بنانے کا ارادہ نہ صرف فلسطین پر قبضہ کرنا ہے۔ بلکہ اگر انہیں موقع دیا گیا تو تمام عرب ممالک فلسطین کا حشر کریں گے۔
رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دینا
امام خمینی، رہبر اسلامی جمہوریہ ایران ، 1358۔ اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی حمایت میں انہوں نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دیا۔ ہر سال دنیا کے کئی ممالک جیسے عراق ، ایران ، ہندوستان اور ملائیشیا میں یوم قدس کے موقع پر فلسطینی عوام کی حمایت میں بڑے مظاہرے ہوتے ہیں۔
اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام
1948 میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہمیشہ تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ دوسری چیزوں کے علاوہ اسرائیل نے کئی بار فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ 1948 میں اسرائیل نے 34 قتل عام کیے جن میں دیر یاسین کا سب سے مشہور قتل عام ہے۔ اس قتل عام میں 254 افراد بے دردی سے شہید کئے گئے۔ اسرائیل کا ایک اور جرم 1956 میں "خان یونس" کا قتل عام ہے۔ اس جرم میں 250 فلسطینی مارے گئے۔ تاریخ کے سب سے بڑے جرائم میں سے ایک صابرہ اور شتیلا کا قتل ہے ۔ یہ واقعہ 1982 میں پیش آیا تھا جس میں 3297 فلسطینی خواتین اور بچے شہید ہو گئے تھے۔
غزہ کی پٹی
مہر 1402/اکتوبر 2023 میں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بارہ روزہ حملے کے دوران 135,000 سے زیادہ رہائشی مکانات کو تباہ کر دیا اور غزہ کے محلوں کو مسمار کر دیا ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 3200 سے زائد فلسطینی شہید اور 11000 زخمی ہوئے۔ فلسطینی وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی حملے کے گیارہویں دن تک پانچ سو خواتین اور تقریباً سات سو بچے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ 25 مہر/17 اکتوبر کو اس حکومت نے غزہ کی پٹی کے سب سے اہم اسپتالوں میں سے ایک محمدانی اسپتال (الاحلی العربی) کو زمین بوس کردیا، جس سے 500 سے زائد افراد شہید ہوگئے۔
اسرائیل کے خلاف فلسطینی انتفاضہ
فلسطین پر قبضے کے سالوں کے دوران اس سرزمین نے فلسطینی عوام کی بے شمار بغاوتیں دیکھی ہیں۔ فلسطینی عوام کی پہلی بغاوت 1976 میں ارتھ ڈے انتفاضہ کے نام سے ہوئی تھی۔ ایک اور انتفاضہ 1987 میں ہوا جسے پہلی انتفاضہ یا فلسطینی شاخ انتفادہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ انتفاضہ مغربی کنارے اور غزہ میں ہوا۔ 2000 میں، ایک اور انتفادہ، جسے الاقصیٰ انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی وجہ سے شروع ہوا۔ الاقصیٰ انتفاضہ کے سب سے اہم نعروں میں سے ایک فلسطینی ریاست کا قیام اور مغربی کنارے سے قابضین کا انخلاء تھا۔ 1987 کے انتفاضہ میں، جو چھ سال تک جاری رہا، 1,540 افراد شہید اور 130,000 زخمی ہوئے۔ 2000 کے انتفاضہ میں 2800 افراد مارے گئے۔
حماس اور اسلامی جہاد 2021 میں اسرائیل کے خلاف میزائل حملے
2021 میں مزاحمتی گروپوں اور اسرائیل کے درمیان تصادم ہوا جو 11 دن تک جاری رہا۔ اس تنازع میں حماس اور اسلامی جہاد تحریک نے راکٹوں کا استعمال کرتے ہوئے تل ابیب سمیت اسرائیل کے زیر قبضہ مختلف فلسطینی شہروں کو نشانہ بنایا۔ یہ تنازعہ فلسطینی مظاہروں کو دبانے کے ردعمل میں پیش آیا جنہوں نے اسرائیلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو شیخ جراح کا علاقہ چھوڑ کر اپنے گھر صہیونیوں کے حوالے کر دینے چاہئیں۔ اگرچہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا اور متعدد مزاحمتی قوتیں اور شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ لیکن فلسطینیوں نے بھی جنگ بندی کے بعد اپنی فتح کا جشن منایا۔
فلسطینی باشندے
تاریخی ذرائع کے مطابق فلسطین کے باشندے دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، عرب اور یہودی۔ عرب بھی عرب مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر گروہوں میں تقسیم ہیں۔
عرب
اعداد و شمار کے مطابق 1948 میں فلسطین میں رہنے والے عربوں کی تعداد تقریباً ایک ملین چھ لاکھ تھی جن میں سے 88.5% مسلمان ، 10.4% عیسائی اور 1.1% دیگر گروہ تھے۔ 1949 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینی عرب چار گروہوں میں تقسیم ہو گئے: جنہوں نے 1948 کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی۔ اس گروپ کا نام گرین لائن کے رہائشیوں کے نام پر رکھا گیا تھا۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کے رہائشی ۔ گرین لائن، مغربی کنارے، غزہ، اردن، شام اور لبنان کے پناہ گزین جنہوں نے آباد کاری کے لیے ان علاقوں کا انتخاب کیا۔ فلسطینی تارکین وطن جو دوسرے عرب اور غیر عرب ممالک میں ہجرت کر گئے تھے۔ 1948 میں، تقریباً نصف فلسطینی عربوں (تقریباً 700,000 افراد) کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا اور مغربی کنارے، غزہ ، اردن ، شام ، لبنان ، مصر اور عراق کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 2023 میں مذکورہ علاقوں میں پناہ گزینوں کی تعداد 5,600,000 بتائی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس سال فلسطین میں باقی ماندہ عرب فلسطین کی کل آبادی کا 14% تھے۔ یورونیوز کے مطابق آج فلسطین میں باقی ماندہ عرب مقبوضہ فلسطین کی آبادی کا 20% ہیں۔ 2002 کے اعدادوشمار کے مطابق فلسطینیوں کی کل آبادی 80 لاکھ تھی جن میں سے 52% دوسرے ممالک میں پناہ گزین تھے۔
یہودی
1914 میں، یہودی فلسطین کی کل آبادی کا تقریباً 8% تھے۔ لیکن یہ تناسب 1943 میں بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا۔ 1948 میں اور اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد اس سرزمین کی زیادہ تر آبادی یہودیوں کو دے دی گئی۔
سیاسی جماعتیں
اخوان المسلمون
اخوان المسلمون فلسطین 1948 میں مصر اور اردن کی اخوان المسلمین کی شمولیت سے قائم ہوئی تھی ۔ 1967 میں دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مصر اور اردن کی اخوان المسلمون کا فلسطین سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہ فلسطینی اخوان المسلمین کی ترقی اور ترقی کا سبب بنا۔
اسلامی مزاحمتی تحریک
حماس
فلسطینی مزاحمتی تحریک فلسطین کی سب سے نمایاں اسلامی مزاحمتی تحریک ہے۔ یہ تحریک اخوان المسلمون کی تحریک کا تسلسل ہے۔ تحریک حماس نے فلسطین میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے زمین تیار کرنے کے لیے افراد، خاندانوں اور معاشرے کی تعلیم پر اپنی سرگرمیوں کو ترجیح دی ہے۔ اپنی تشکیل کے آغاز میں حماس کے پاس فلسطین پر قبضے کا مقابلہ کرنے کا کوئی خیال نہیں تھا۔ لیکن بعد میں وہ مسلح جدوجہد میں داخل ہو گئے۔
اسلامی جہاد تحریک
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک اس تحریک نے فلسطین اسرائیل تنازع کو اپنا نظریہ بنایا ہے۔ یہ تحریک 1980 میں شروع ہوئی۔ اسلامی جہاد کی تحریک اخوان المسلمین سمیت دیگر روایتی اسلامی تحریکوں سے اختلافات رکھتی ہے۔
فلسطینی محب وطن آزادی کی تحریک (فتح)
تحریک فتح پیٹریاٹک لبریشن موومنٹ آف فلسطین فلسطین کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے۔ اس تحریک کی بنیاد 1965 میں یاسر عرفات نے رکھی تھی ۔ فلسطینی حکومت کے زیادہ تر عہدیدار اس جماعت کے رکن ہیں ۔
مذہب
بین الاقوامی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق 85% فلسطینی (مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس میں رہنے والے عربوں سمیت) مسلمان ہیں ۔ اکثر مسلمانوں کو بھی شافعی مذہب کے پیروکار سمجھا جاتا رہا ہے۔ مو فلسطینیوں کی طرف نبی ازم کا انتساب یہودیوں میں سے ایک فرضی تصور کیا گیا ہے اور اس کی وجہ فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کو ختم کرنا ہے۔ نیز اہل بیت (ع) کے نام سے مختلف مساجد کا وجود جیسے کہ غزہ میں مسجد علی بن ابی طالب ، رفح، خان یونس اور نابلس، جیسے شہروں میں حضرت زہرا (س) کے نام سے منسوب مساجد۔ غزہ، رفح اور جنین اور بچوں کے نام اہل بیت (ع) کے نام پر رکھنا، انہوں نے اسے اہل بیت (ع) اور ان کے غیروں سے فلسطینی عوام کی محبت کی ایک دوسری وجہ قرار دیا ہے۔
فلسطین میں شیعہ
فلسطین میں شیعوں کی موجودگی کا پس منظر شام میں ابوذر غفاری کی موجودگی سے ملتا ہے۔ مقدیسی نے کتاب احسن التقاسم میں اور ناصر خسرو نے کتاب "ابوہریرہ کی قبر کا سفر" میں نقل کیا ہے کہ ایک وقت میں فلسطین کی اکثریت شیعہ تھی ۔ شیعہ مذہب فلسطین میں چوتھی صدی میں اور فاطمیوں کے دور میں پروان چڑھا۔ فاطمیوں کے چھٹے حکمران الحکم بامر اللہ نے بیت المقدس میں فاطمی دارالعلم قائم کیا ۔ اس جگہ نے فلسطین میں شیعیت کے پھیلاؤ میں نمایاں اثر ڈالا اور صلیبیوں کے فلسطین پر قبضے تک کام جاری رہا۔ صلیبی جنگوں اور اس کے بعد صلاح الدین ایوبید کے فلسطین اور لیونٹ کے علاقوں پر سنی مذہب کے غلبہ کے باوجود، شیعہ فلسطین میں رہے اور عثمانی دور میں ، فلسطینی شیعہ دوبارہ ابھرے۔ فلسطین میں شیعوں کا پہلا جبر صلاح الدین ایوبی نے کیا۔ عثمانی دور میں شیعوں کی خوشحالی کے بعد احمد پاشا نے تقریباً دس سال تک شیعوں کے خلاف جنگ کی اور ان کی کتابیں جلا دیں۔ 21ویں صدی میں اور عصر حاضر میں فلسطین پر شیعوں کا اثر و رسوخ لبنانی حزب اللہ کے ساتھ فلسطینی گروہوں کے تعلق کی وجہ سے بڑھ گیا ہے ۔ اسرائیل پر لبنان کی حزب اللہ کی فتوحات نے فلسطین میں شیعیت کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسوسی ایشن آف ریلیجن اینڈ سوشل لائف "PEW Institute" کے شماریاتی مرکز نے فلسطین میں شیعوں کے وجود کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، فلسطین میں گروہ شیعہ کے خلاف سرگرم ہیں۔ غزہ میں "ابنبر الخیریہ الاسلامیہ" کے حملے کے بعد سے ، اس کی بنیادی سرگرمی شیعیت کے پھیلاؤ کے خلاف لڑنا ہے۔ نیز، سلفی جہاد کی تحریک شیعہ سے لڑنے کے مقصد سے قائم کی گئی ہے۔
شیعہ کے قریب جماعتیں اور گروہ
اسلامی جہاد تحریک کو فلسطین میں شیعہ کی علامت سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے بانی فتحی شغاقی شیعہ سے متاثر تھے۔ نیز، سبرین تحریک ، جو اسلامی جہاد تحریک سے الگ ہوئی، شیعہ کے قریب ہے۔ یہ تحریک 2014 میں ہشام سالم کی قیادت میں شروع ہوئی۔ شغاغی ایسوسی ایشن ایک خیراتی اور غیر سیاسی انجمن ہے جو تمام اسلامی مذاہب کے بارے میں یکساں نظریہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ فلسطینی شیعہ اداروں میں سے کچھ یہ ہیں: اسلامی یوتھ ایسوسی ایشن، احسان خیری کلینک، نقا اسکول، غدیر جمعیت، آل البیت جمعیت۔ [100] اس کے علاوہ ہفتہ وار اخبار "الاستقلال" اور ریڈیو چینل "وائس آف القدس" بھی فلسطینی شیعوں کے ہاتھ میں ہے۔
اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا موقف
فلسطینی عوام کئی دہائیوں سے اپنی ہی سرزمین پر بے در ہیں۔اسرائیل فلسطینی سرزمین پر ناجائز قابض ہے۔ امریکہ اس ناجائز قبضہ گروپ کا پشت پناہ اور سہولت کار ہے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا وہ بدمعاش ہے جو کسی بھی بین الاقوامی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اسرائیل لاکھوں فلسطینیوں جن میں جوانوں کے علاوہ معصوم بچے،عورتیں اور بوڑھے افراد شامل ہیں، کا قاتل ہے۔ لیکن اس کوروکنے والا کوئی نہیں۔ بلکہ کئی مسلمان ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی قائم کررکھے ہیں اور بعض مسلمان ریاستوں نے تو اسرائیل کے ناپاک وناجائز وجود اور حکومت کو بطور ملک وریاست تسلیم بھی کیا ہے اور اس کے ساتھ تعلقات بھی قائم کرلئے ہیں۔
اپنی سرزمین کو ناجائز قابض اور غاصب سے آزاد کرانے کیلئے فلسطینی تنظیم ’’حماس‘‘ نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اسرائیل کو متنبہ کرنے کیلئےکارروائی کی تو اسرائیل کو نانی یاد آگئی۔ اسرائیل نے اپنے جنگی سازو سامان ، نگرانی کے نظام اور دہشت گرد خفیہ ادارے ’’ موساد‘‘ کا جو ہوا بنایا ہوا تھا وہ سب تصوراتی ثابت ہوا۔ دنیا حیران ہوگئی خود اسرائیل اس ناگہانی کارروائی سے ایسا پریشان ہوا کہ ابھی تک اس کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ یہ ہوا کیا۔ کیسے ہوا ۔ اسرائیل تو فلسطینیوں کو لاچار سمجھتا رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے اور نہتے فلسطینیوں کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ نہ سفارتی ،تجارتی تعلقات قائم کئے نہ اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا۔لیکن بعض مواقع پر صرف مذمتی بیانات ہی جاری کرتےرہے۔ عملی طور پر فلسطینیوں کی مدد نہیں کی۔ جس سے اسرائیل کے حوصلے بڑھتے گئے اور وہ اپنے ہی ملک، اپنی ہی سرزمین اور اپنے ہی گھروں سے بزور طاقت وبندوق نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کو بے دخل کرتا رہا۔ ہزاروں فلسطینی نوجوانوں ،جن میں خواتین بھی شامل ہیں کو غیر قانونی اور ناجائز طور پر پابند سلاسل کیا اور یہ سلسلہ جاری رکھا۔ لاکھوں بے گناہ فلسطینی معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرتا رہا۔ ان مقتولوں میں وہ نہتے نوجوان بھی شامل ہیں جو ٹینک کے گولوں کا جواب پتھروں سے دیتے رہے۔ اگر فلسطینیوں کو دنیا کے باہمت اور بہادر عوام کہاجائے تو یہ بالکل درست ہوگا۔
آج فلسطین جل رہا ہے۔ نہتے فلسطینی اسرائیل کے بمبار جہازوں کے نشانے اور بموں کی زد میں ہیں۔ درندہ صفت اسرائیل فلسطینیوں پر ممنوعہ فاسفورس بم پر پھینک رہا ہے۔ اسرائیلی صہیونیوں نے غزہ کی ناکہ بندی کررکھی ہے۔ اسرائیل اسپتالوں اور اسکولوں تک کو اپنی بربریت کا نشانہ بنارہا ہےناکہ بندی کرتے ہوئے کہیں سے بھی امدادی سامان فلسطینیوں تک پہنچنے نہیں دیا جارہا۔آج ایک طرف غزہ اور دیگر مسلم علاقوں میں نہ خوراک ہے نہ ہی پینے کا پانی ہے۔ غزہ کوبجلی کی فراہمی کا واحد پاور اسٹیشن بھی اسرائیلی بمباری کی وجہ سے تباہ ہوکر ناکارہ ہوچکا ہے۔ اسپتالوں میں ادویات اور علاج معالجے کی تمام سہولیات ناپید ہوچکی ہیں۔ اسرائیل اپنی ناجائز حکومت اور ناپاک وجود کو قائم رکھنے کیلئے فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے۔ لیکن مسلم ممالک سمیت کئی مغربی ممالک صرف مذمتی بیانات اور فریقین کو صبروتحمل کی تلقین ہی کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ جو واقعتاً ایک نام نہاد ادارہ ہے اور امریکہ کے آگے بے بس نظر آتا ہے اس اہم ترین معاملے میں بھی غیر فعال نظر آرہا ہے۔ اسرائیل دنیا اور اسلامی ممالک کے سامنے سرعام فلسطینیوں کو بمباری اور بھوک پیاس سے قتل کررہا ہے۔ لیکن ابھی تک دنیا کوتو چھوڑیں کسی اسلامی ملک نے سامنے آکر فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ اسلامی ممالک کے علاوہ بعض مغربی ممالک میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے ہیں اور کررہے ہیں، جبکہ دوسری جانب امریکہ نے کھلم کھلا نہ صرف اسرائیل کو حق بجانب قرار دیابلکہ اسرائیل کو ہر قسم کاجنگی سازو سامان مہیا کرکے حوصلہ بھی دے رہا ہے۔ امریکہ نے اپنا جنگی بحری بیڑہ بھی روانہ کردیا ہے۔ جس سے مشرق وسطیٰ میں صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ یورپی کمیشن نے بھی اسرائیل کو حق بجانب قرار دیا ہے، لیکن افسوس کہ مسلمان ممالک میں ابھی تک اسلامی جرات کا جذبہ نظر نہیں آرہا۔ کسی کو بھی بموں، گولیوں اور بھوک پیاس سے بلکتے اور پناہ کی تلاش میںبھاگتے پھرتے معصوم بچوں اور خواتین پرکوئی ترس نہیںآرہا ہے۔ فلسطینی یا تو اپنی سرزمین کو آزاد کرالیں گے چاہے مزید جتنی بھی قربانی دینی پڑے یا سب شہید ہو جائیں گے لیکن دنیا کی اسرائیل کی مجرمانہ حمایت اور غفلت تاریخ کے اوراق پر ہٹلر کی طرح ہمیشہ زندہ رہے گی۔
پاکستان بھی اس صورتحال سے باقی دنیا کی طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ مغربی اور مشرقی سرحدوں پر صورتحال بھی غیرتسلی بخش ہے۔ ملکی معاشی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ لیکن کسی کو ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے۔ ہر طرف الیکشن، چیئرمین پی ٹی آئی کو رہا کرو اور نواز شریف آ رہا ہے کا شور مچا ہوا ہے۔ اقتدار کے متلاشی دنیا، خطے اور ملکی حالات سے غافل ہو کر اپنے اپنے مقاصد کے حصول کیلئےسرگرداں ہیں۔ اور ہر ایک عوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنانے میں مصروف ہے۔ اس تمام صورتحال کو کنٹرول کرنے والا بھی کوئی نظر نہیں آ رہا۔ یہ تو طے ہے کہ کوئی باہر آئے یا کوئی باہر سے آئے نہ ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے نہ ملک کی بہتری ہو سکتی ہے۔ ملک کی بہتری نظام کی تبدیلی میں مضمر ہے اور یہ نیک کام،یعنی ملک وحالات کو کنٹرول، کوئی اللہ کا بندہ ہی کر سکتا ہے [3]۔
فلسطین اور پاکستان
پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایٹمی قوت رکھنے والا واحد اسلامی ملک ہے۔ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے جہاں دوست ممالک ہیں وہیں یہودی و عیسائی ممالک کی نظریں اسے تباہ و برباد کرنے پر مرکوز ہیں۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک پوری دنیا کے ممالک پر بالعموم اسلامی ممالک پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ جس کے راستے میں پاکستان بڑی رکاوٹ ہے۔ ہٹلر کے یہودیوں کو نشان عبرت بنانے کے بعد یہودیوں نے بے یار و مددگار ہونے کے ناطے امریکہ کے کہنے پر فلسطین کے خطے میں آبادکاری شروع کی۔ جس کی بناء پر پوری دنیا کے کونے کونے سے یہودی جمع ہونے شروع ہوئے اور بعدازاں امریکہ نے اپنی ناجائز اولاد کے طور پر اسرائیل کے نام سے ایک ملک متعارف کروایا۔ یہ ملک اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلمانوں بالخصوص فلسطین کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں کر رہا ہے۔ اسکا مقصد بیت المقدس اور فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنا ہے اور اسے یورپی یونین سمیت امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ماہ رمضان میں بیت المقدس میں نماز تراویح ادا کرنے والے مسلمانوں پر ظلم کی داستان رقم کی گئی۔ جس کے بعد مسلسل کئی روز تک اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر فضائی حملے کئے گئے۔ انٹرنیشنل میڈیا چینلز کی کوریج کو روکنے کے لئے بلند و بالا ٹاورز کو نشانہ بنایا گیا جہاں الجزیرہ سمیت متعدد انٹرنیشل میڈیا چینلز کے دفاتر موجود تھے۔اسرائیل کا ان ٹاورز کو تباہ کرنے کا مقصد اسرائیلی مظالم کو دنیا کے سامنے آنے سے روکنا تھا۔ حماس نے اسرائیلی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی ٹھانی اور ہزاروں راکٹ فائر کئے گئے جن کو اسرائیلی حفاظتی آئرن ڈومز نے فضا میں تباہ کر دیا اور چند راکٹ اسرائیل پر گرے جس کو بنیاد بنا کر اسرائیل پوری دنیا کے سامنے مظلومیت کا واویلا کرتا نظر آیا۔
ہیومن رائٹس کے عالمی ٹھیکیدار امریکہ نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا اور فلسطینیوں کے قتل عام کو ذاتی دفاع قرار دیا۔ اسی اثناء میں سعودی عرب کی جانب سے او آئی سی کے رکن اسلامی ممالک کا اجلاس بلایا گیا جس میں صرف فالتو لفاظی اور مذمت کے علاوہ فلسطینی بہن بھائیوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ عرب ممالک کے اسرائیل سے گہرے تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات پہلے ہی اسے تسلیم کر چکا ہے اور سعودی عرب بھی امریکی غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے خوب نمک حلالی کرتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ مسلم امت اگر ایک جسم کی مانند ہے اور ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم محسوس کرتا ہے تو کیا فلسطینی عوام اس جسم کا حصہ نہیں؟ ہمارے حکمرانوں نے جب سے یورپ کو اپنا قبلہ منتخب کر لیا ہے تب سے وہ ذلت کا شکار ہیں۔ محض نوے لاکھ کی آبادی والا ملک اسرائیل کیسے ہر روز بم گرا کر ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کو شہید کرتا رہا۔ سینکڑوں لوگ شہید ہو گئے 60 ہزار بے گھر اور ہزاروں زخمی ہیں۔ کون اس ظلم کا اسرائیل کا بدلہ لے گا؟ مسلم ممالک کو اس کے رد عمل میں کھوکھلی مذمت کرنے کی بجائے مردانہ وار آواز اٹھاتے ہوئے جہاد کا اعلان کرنا چاہئیے تھا۔
پاکستان آرمی دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔ اگر ہمارے دستے UN امن مشن پر روانہ ہو سکتے ہیں تو قبلہ اول بیت المقدس جہاں ہمارے آقا علیہ السلام نے ایک لاھ چوبیس ہزار سے زائد انبیاء کی امامت کروائی وہاں اسکی حفاظت اور اسلام کی سربلندی کے لئے کیوں نہیں روانہ ہو سکے۔ اسلام امن کا درس ضرور دیتا ہے مگر جب حالات موزوں نہ ہوں تو ایک مسلم لڑکی کے خط پر محمد بن قاسم کی طرح سندھ پر حملہ کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔
مسلمان اپنے دین کے معاملہ میں بہت غیرت مند ہے۔ چاہے کوئی بے نمازی ہی کیوں نہ ہو مگر جب میرے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس اور اسلام کی سربلندی کی بات آئے تو دنیا نے دیکھا کہ کیسے عاشاقانِ مصطفی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں حکومت پاکستان کے مظالم کو برداشت کیا۔پچیس افراد کو شہید کر دیا گیا مگر فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے معاملہ میں حکومت وقت نے تاحال کوئی اقدامات نہیں کئے۔ کیا یہ حکومت فقط مدینہ کو دورہ کر کہ خود کو عاشق رسول کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لئے ہے۔ دنیا میں ہمارے نبی کی شان میں گستاخیاں ہوں اور فلسطینی مسلمانوں پر بموں کی بارش کی جائے اور حکمرانوں کا خون نہ کھولے تو ان کو اپنے ایمان کا ٹیسٹ کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ چاہئیے تو یہ تھا کہ پاکستان اسرائیل کو شاہین تھری کی دھمکی دیتا۔ جس کی رینج میں اسرائیل موجود ہے اور یہ ایٹمی وار ہیڈ ساتھ لے جانے کی صلاحیت سے لیس ہے۔ مگر غیرت ایمانی رکھنے والے حماس اور القاسم بریگیڈ کی عظمت کو سلام کہ انہوں نے اس ایٹمی ملک کی فوج سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ محدود وسائل کے باوجود اسرائیل کے دل تل ابیب اور دیگر شہروں پر راکٹ برسائے اور یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان جہاد کے نام پر جان دینے سے نہیں ڈرتا۔ 51 مسلم ممالک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئیے کہ ہم قاتل اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں یا اپنے فلیسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر تے ہوئے عملی اقدامات کے ذریعے فلسطین کو اسرائیل کے قبضہ سے چھڑوائیں گے۔ تمام اسلامی ملک قدرتی وسائل کے دولت سے مالامال ہیں اگر اپنی مصنوعات بشمول تیل دنیا کو دینا بند کر دیں اور یورپ کی مصنوعات کا کچھ عرصہ بائیکاٹ کر دیں تو اسرائیل سمیت کئی یورپی ممالک کی معیشت دیوالیہ ہو سکتی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس ہمارے حکمران آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے غلام ہیں فقط لفظی مذمت پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔ اسرائیل نے اب اتنی تباہی کے بعد جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ مگر ان سینکڑوں شہادتوں کی دیت کون دے گا؟
کونسا اسلامی ملک اس ناقابل تلافی نقصان کی وجہ سے اسرائیل کا محاسبہ کرے گا۔ حکومت پاکستان کو چاہئیےکہ عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کرے کیوں کہ یہود و نصری قرآن کریم کی روح سے ہمارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ لہذا دوستی کی امید رکھنے کی بجائے یہ وقت امت کو جوڑنے اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرنے کا ہے۔ جس دن پاکستان ایٹمی طاقت بنا اس دن فلسطینی بچے نے اسرائیلی فوجی کو کہا تھا کہ اب ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ ایٹم بم کو اسلامی بم سمجھا جاتا تھا کہ یہ پورے عالم اسلام میں جہاں کہیں ظلم ہوگا اسکے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت ہونے کے ناطے مسلم دنیا کی قیادت کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف موثر آواز بننا ہوگا۔ کیوں کہ مشہور محاورہ ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے [4]۔
حوالہ جات
- ↑ محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء، ص616
- ↑ محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء،ص617-618
- ↑ پاکستان، فلسطین اور دنیا، jang.com.pk
- ↑ انجینئر محمد ابرار، فلسطین پر ظلم اور پاکستان کا کردار، jasarat.com