مندرجات کا رخ کریں

"عبدالهادی التازی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
«{{Infobox person | title = | image = | name = | other names = | brith year = 1921 ء | brith date = 15 جولائی | birth place = مراکش شہر فاس | death year = 2015ء | death date = 2 اپریل | death place = ایران تہران | teachers = | students = | religion = اسلام | faith = اہل سنت | works = {{افقی باکس کی فہرست|آداب ل...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 23:04، 29 نومبر 2025ء

{{Infobox person | title = | image = | name = | other names = | brith year = 1921 ء | brith date = 15 جولائی | birth place = مراکش شہر فاس | death year = 2015ء | death date = 2 اپریل | death place = ایران تہران | teachers = | students = | religion = اسلام | faith = اہل سنت

| works =

  • آداب لامیه العرب
  • أعراس فاس
  • فی ظلال العقیده
  • العلاقات المغربیه الإیرانیه
  • ایران بین الأمس والیوم
  • المرأه فی تاریخ الغرب الإسلامی

| known for =

  • مراکش کے سفیر برائے عراق و لیبیا
  • مملکتِ مراکش کے سفیر برائے ایران (ایران کے اسلامی انقلاب، سن 1375 ش کے زمانے میں)
  • وزارتِ تعلیمِ مراکش کے ثقافتی شعبے کے

عبدالہادی التازی مراکش کے ایک ممتاز سیاست دان، محقق اور مؤرخ تھے جنہوں نے عراق، لیبیا اور ایران میں مملکتِ مراکش کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ابن بطوطہ کے سفرنامے کی تحقیق و تصحیح، مکہ مکرمہ کے سفر پر مشتمل کتاب "التحلیق الی البیت العتیق" (بیتِ عتیق کی جانب پرواز)، اور ایران و مراکش کے ثقافتی تعلقات پر "ایران بین الأمس والیوم" کے عنوان سے تصنیف شدہ کتاب کے علاوہ خلیج فارس کی جغرافیہ اور ایرانی ثقافت پر تحقیق اور نامِ "خلیج فارس" کے دفاع کے حوالے سے بھی اُن کی علمی خدمات معروف ہیں۔ وہ عالمی مجمعِ تقریبِ مذاہبِ اسلامی کی وحدت کانفرنسوں میں بحیثیت مقرر بھی شریک ہوتے تھے۔

سوانحِ زندگی

عبدالہادی التازی 1339 ہجری میں مراکش کے شہر فاس میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

ابتدائی اور ثانوی تعلیم فاس ہی میں حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے جامعہ قرویین، جامعہ محمد الخامس اور جامعہ اسکندریہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور 1399 ہجری میں ادبیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کی۔

ثقافتی سرگرمیاں

تازی نے بین الاقوامی علمی و ثقافتی انجمنوں اور اداروں میں فعال کردار ادا کیا، جن میں قاہرہ کی عربی ادبیات انجمن اور مراکش اکیڈمی کی مجلسِ مؤسسان شامل ہیں۔

اہم ذمہ داریاں

  • مملکتِ مراکش کے سفیر برائے عراق و لیبیا
  • مملکتِ مراکش کے سفیر برائے ایران (ایران کے اسلامی انقلاب کے زمانے، 1375 ش)
  • وزارتِ تعلیمِ مراکش کے ثقافتی شعبے کے سربراہ

تصانیف

ان کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد تقریباً ایک سو کے قریب ہے۔ انہوں نے خلیج فارس کی جغرافیہ اور ایرانی ثقافت پر تحقیق کرتے ہوئے نام خلیج فارس کے تاریخی حقائق کا بھرپور دفاع کیا۔ اس کے علاوہ "ایران بین الأمس والیوم" ایران و مراکش کے ثقافتی تعلقات پر ان کی اہم تصنیف ہے۔ ابن بطوطہ کے سفرنامے کی تحقیقی تدوین بھی انہی کی کاوش ہے، جس میں انہوں نے شمالی افریقہ سے اسکندریہ، قاہرہ اور مصر تک ابن بطوطہ کے سفر کی تفصیلات، پھر بحیرہ احمر سے جدہ اور مکہ مکرمہ تک حج کے مراحل اور غیر محفوظ راستے کی وجہ سے شام و فلسطین کی طرف واپسی کے سفر کو بھی واضح کیا ہے۔ ان کی بعض نمایاں تصانیف:

  • آداب لامیۃ العرب
  • أعراس فاس
  • جولة فی تاریخ المغرب الدبلوماسی
  • تاریخ العلاقات المغربیة الأمریکیة
  • جامع القرویین المسجد الجامعة بمدینة فاس
  • لیبیا من خلال رحلة الوزیر الاسحاقی
  • قصر البدیع بمراکَش من عجائب الدنیا
  • فی ظلال العقیدة
  • صقلیة فی مذکرات السّفیر ابن عثمان
  • التعلیم فی الدول العربیة
  • رسائل مخزنیة
  • العلاقات المغربیة الإیرانیة
  • القنص بالصقر بین المشرق والمغرب
  • أوقاف المغاربة فی القدس
  • دفاعًا عن الوحدة الترابیة
  • الرموز السریة فی المراسلات المغربیة عبر التاریخ
  • ایران بین الأمس والیوم
  • الموجز فی تاریخ العلاقات الدولیة للمملكة المغربیة
  • التاریخ الدبلوماسی للمغرب
  • الکویت قبل ربع قرن
  • الإمام إدریس مؤسس الدولة المغربیة
  • المرأة فی تاریخ الغرب الإسلامی

پرواز بہ سوی بیتِ عتیق

التحلیق الی البیت العتیق" تازی کی وہ کتاب ہے جس میں انہوں نے چالیس سال بعد اپنے سفرِ حج کے روحانی تجربات قلم بند کیے ہیں۔ انہوں نے اس میں غسلِ کعبہ کی تقریب میں شرکت، مدینہ منورہ کی زیارت، روضۂ رسول میں نماز، اور مختلف علمی و ادبی شخصیات—جیسے شیخ عبد القدوس انصاری (مدیر ماہنامہ المنہل)، محمد صفوت (صدر جامعہ مصر)، احمد حسن (اندونیشی برادری کے نمائندہ)، محمود حریری (وزارتِ داخلہ سعودی عرب کے افسر) اور سعودی ولی عہد فہد بن عبدالعزیز، اور شاہ سعود—سے ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا ہے[1]۔

عشقِ ایران

اگرچہ تازی کا قیامِ ایران نسبتاً مختصر رہا، لیکن وہ ایران کی ثقافت، تہذیب، فنون اور علمی و دینی میراث کے سخت دلدادہ تھے۔ اصفہان سے اس قدر متأثر ہوئے کہ اپنی ایک بیٹی کا نام بھی "اصفهان" رکھا۔ وہ مجمعِ تقریب مذاہب اسلامی کی وحدت کانفرنسوں میں باقاعدہ شرکت کرتے تھے۔

آیت اللہ خوئی سے ملاقات

عراق میں سفارت کے دوران وہ نجف گئے اور اپنے رفقا کے ساتھ آیت اللہ العظمیٰ خوئی سے ملاقات کی۔ تازی لکھتے ہیں: "میں ان کے حجرے میں داخل ہوا جہاں متعدد علما بیٹھے تھے۔ آیت اللہ علمی گفتگو میں مصروف تھے۔ وہ احتراماً کھڑے ہوئے اور مجھے اپنے پاس بٹھایا۔ ابتدا میں مجلس کی ہیبت سے خاموش رہا، پھر کچھ دیر بعد گفتگو کا آغاز کیا اور چند سوالات کیے۔ میں نے پوچھا کہ قرآن کی بعض سورتوں کے آغاز میں جو حروفِ مقطعات آتے ہیں، ان کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا: 'آپ سفیر ہیں اور جب اپنے وزارتِ خارجہ سے رابطہ کرتے ہیں تو خفیہ کوڈ استعمال کرتے ہیں۔ یہی حروف مقطعات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے درمیان ایک راز ہیں"۔[2]۔

وفات

عبدالهادی تازی کا انتقال 2 اپریل 2015 کو رباط میں ہوا۔

متعلقہ تلاشیں

حوالہ جات

  1. سفرنامه حج عبدالهادی تازی نویسنده و سیاستمدار مغربی، وب‌سایت پژوهشکده حج و زیارت- شائع شدہ از: 23 آذر 1392ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 نومبر 2025ء
  2. دیپلمات مغربی که شیفته ایران بود و نام دخترش را «اصفهان» گذاشت- شائع شدہ از: 19 اردیبہشت 1394ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 نومبر 2025ء