"محمد خان شیرانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4: سطر 4:
== تعلیم ==
== تعلیم ==
انہوں نے اپنا دینی تعلیم بنوں کے معراج العلوم سے حاصل کی۔
انہوں نے اپنا دینی تعلیم بنوں کے معراج العلوم سے حاصل کی۔
== سیاسی زندگی ==
== سیاسی سرگرمیاں==
[[پاکستان]] عام انتخابات 2013 میں حلقہ این اے 264 سے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں ژوب،قلعہ سیف اللہ اور شیرانی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
[[پاکستان]] عام انتخابات 2013 میں حلقہ این اے 264 سے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں ژوب،قلعہ سیف اللہ اور شیرانی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
مولانا شیرانی جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ آپ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں جمعیت میں دراڑ پڑی اور جمعیت نظریاتی کے نام سے ایک نئی جماعت وجود میں آئی۔  
مولانا شیرانی جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ آپ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں جمعیت میں دراڑ پڑی اور جمعیت نظریاتی کے نام سے ایک نئی جماعت وجود میں آئی۔  
سطر 20: سطر 20:
چند روز پیشتر مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کے باعث مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد اور دو دیگر ارکان کی جمعیت علمائے اسلام ف نے رکنیت ختم کر دی تھی، جے یو آئی ف اس وقت حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور مولانا فضل الرحمن اس کے صدر ہیں<ref>[https://www.urdunews.com/node/528301   
چند روز پیشتر مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کے باعث مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد اور دو دیگر ارکان کی جمعیت علمائے اسلام ف نے رکنیت ختم کر دی تھی، جے یو آئی ف اس وقت حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور مولانا فضل الرحمن اس کے صدر ہیں<ref>[https://www.urdunews.com/node/528301   
] شائع شدہ از: 29 دسمبر 2020ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔</ref>۔
] شائع شدہ از: 29 دسمبر 2020ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔</ref>۔
=== سیاست کی ابتداء ===
محمد خان شیرانی سے پہلی بار اس وقت متعارف ہوا، جب جنرل [[محمد ضیاء الحق|ضیاءالحق]] نے مارشل لاء کے دور میں کچھ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی تو کوئٹہ کے ٹاﺅن ہال میں ایم آر ڈی کا جلسہ عام تھا۔ لوگوں کی تعداد بہت کم تھی، یحییٰ بختیار کی تقریر تھی، اس کے بعد مولانا محمدخان شیرانی کا نام پکارا گیا آپ جوان تھے، ان کی داڑھی سیاہ تھی۔ ان کی تقریر بڑے غور سے سنی۔ اس لئے کہ ان کی اردوبڑی اچھی تھی۔
=== انقلاب ایران سے متاثر ===
یہ ان سے میرا پہلا سیاسی تعارف تھا۔ ان سے کوئی قربت نہیں تھی، پھر ایک دن ان سے کوئٹہ کے خانہ فرہنگ [[ایران]] میں ملاقات ہوگئی۔ وہ آیت اللہ باقر صدر کی کتاب کی تلاش میں تھے اور وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھی۔ آپ مجھے جانتے تھے، اس لئے کہ وہ میرے کالم پڑھتے تھے۔ اس لئے وہاں ان سے سلام دعا ہوئی اور پھر ہم دونوں خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر ذاکری سے ملے۔ مولانا شیرانی کی فارسی اتنی اچھی نہیں تھی۔ اس لئے ترجمانی کے فرائض ادا کئے۔ مولانا شیرانی [[انقلاب ایران]] سے متاثر تھے، لیکن وہ اس وقت [[دیوبندیہ|دیوبندیت]] کے حصار میں تھے ،اس لئے گفتگو بھی اسی دائرے میں ہورہی تھی۔
=== ایران کا سفر ===
سال یا دو سال کے بعد ایران میں اسلامی انقلاب کی تقریبات ماہ فروری میں شروع ہونے والی تھیں۔ ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ایران جناب ذاکری نے مجھے بلایا اور کہاکہ ہم چند علماءکو ایران بھیجنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ اسلامی انقلاب کو قریب سے دیکھیں اور خود جائزہ لیں۔ ان سے کہا کہ محمدخان شیرانی کو دعوت دیں تو وہ بڑے حیران ہوئے اور مجھ سے کہاکہ جناب شادیزئی صاحب کوئی اور نام بتائیں۔


میرا اصرار تھا کہ انہی کو بھیجیں۔ یہ ان کاسب سے کھلے ذہن کامولوی ہے، وہ خوب ہنسا اور حیران ہوا۔ میرے اصرار پر انہوں نے اسلامی انقلاب کی تقریبات میں دعوت دے ڈالی۔ آقائے ذاکری نے کہاکہ یہ مولوی ہے اور عام مولویوں کے مقابل سیاسی ذہن رکھتا ہے اور انقلاب سے متاثر ہوگا۔ اس لئے کہ ایران میں انقلاب مولویوں کی قیادت میں برپا ہوا ہے اور یہ ان سے متاثر ہوگا اور پھر جب مولانا محمد شیرانی نے انقلاب کو دیکھااور انقلابی علماءسے ملاقات کی تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
پھر انہوں نے انقلاب کی کھل کر حمایت کی۔
محمدخان شیرانی سے میری بعض ملاقاتیں ہوائی سفر کے دوران ہوئی ہیں، آمنے سامنے بہت کم ہوئی ہیں ،ان سے کبھی بھی کھل کر انقلاب اور سیاست پر گفتگو نہیں ہوئی ، یہ بھی حسن اتفاق ہے۔ جمعیت علمائے اسلام میں انہوں نے مجھے متاثر کیاہے۔
=== جماعت کی صدارت ===
آپ ایک روشن فکر اور کھلے ذہن کے انسان ہیں۔ ان کی سیاسی روش اور ان کی جماعت کی پالیسیوں سے اختلاف رہا ہے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے بہت قریب چلے گئے تھے۔ یوں تو مولانا فضل الرحمان بھی جنرل پرویز مشرف کے بہت قریب رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن محترمہ [[بے نظیر بھٹو|بے نظیر]] مرحومہ کے بھی قریب رہے۔ [[آصف علی زرداری]] کے بھی بہت قریب تھے اور اب انہیں نواز شریف کی حکومت میں وزیر کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔
عبدالغفور حیدری بھی وزیر بن گئے ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی بھی جنرل پرویز مشرف کے قریب رہے ہیں اور انہیں اپنے خاص مشوروں سے نوازتے رہے ہیں۔ مولانا محمدخان شیرانی طویل ترین عرصے تک جماعت کے عہدہ صدارت پر فائز رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی ان کی صدارت میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ وہ صوبہ بلوچستان میں جمعیت کے ایک لحاظ سے آمر تھے ،ان کا طوطی بولتا تھا۔
32سال تک انہوں نے کسی کوقریب پھٹکنے نہیں دیا۔ ان کی صدارت کو کوئی چیلنج نہیں تھا۔ وہ فیصلے کرنے میں ایک طرح سے فوجی جنرل کا روپ اختیار کرچکے تھے۔ وہ بہت سے معاملات میں بہت زیادہ بااختیار ہوگئے تھے اور انہوں نے پارٹی میں ایک لحاظ سے آمریت قائم کرلی تھی۔ ان کے رویے کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام کے اندر بغاوت پھوٹی اور انہوں نے اس ردعمل کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی ، پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور مولانا عصمت اللہ نے بغاوت کی اور ان کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام کے اندر سے تضاد پھوٹا اور پارٹی تقسیم ہوگئی۔ مولانا محمدخان شیرانی اس تقسیم کو قبول ہی نہیں کرتے تھے اور ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم بھی نہیں کرتے ہیں، بلکہ مولانا کے نزدیک یہ باغی اور خارجی تھے، لیکن مولانا کی 32سالہ سیاسی آمریت نے پارٹی کے اندرسے ایک اور بغاوت کو جنم دیا اور خضدار کے ممتاز عالم دین مولانا فیض محمد نے انتخاب میں انہیں بُری طرح شکست سے دوچار کیا اور مولانا محمد خان شیرانی بہت زیادہ ووٹوں سے ہار گئے اور ان کے ساتھ دانشور ایڈووکیٹ ملک سکندر خان نے بھی جنرل سیکرٹری کی نشست جیت لی اور ضلع کوئٹہ سے حافظ حمداللہ بھی ہار گئے۔ اس لئے وہ مولانا محمد خان شیرانی کے سیاسی سائے میں آگے آگئے تھے۔ حالیہ ملکی انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کی نشست پر محمود خان سے زبردست شکست کاسامنا کرنا پڑا ،ان کا سیاسی دور ختم ہوگیا۔ وہ سینیٹر نہ ہوتے تو گوشہ گمنامی میں چلے جاتے، اب ان کے سر سے محمدخان شیرانی کا سایہ اٹھ گیا ہے تو پارٹی کے اندر ان کا وہ وزن نہیں رہا، جو کل تک تھا ،وہ بھی کوئٹہ کی ضلعی صدارت پر بُری طرح ہار گئے ہیں۔
قارئین محترم! مولانا محمد خان شیرانی ان معنوں میں عالم دین نہیں تھے، جن معنوں میں مولانا فیض محمد یا مولانا عصمت اللہ یا حافظ فضل محمد تھے یا مولانا عبدالقادر لونی تھے۔ جمعیت علمائے اسلام تقسیم ہوتی رہی ہے۔ مولانا سمیع الحق بھی جمعیت کا حصہ تھے۔ اب مولانا عصمت اللہ نظریاتی کے قائد ہیں، نظریاتی کی اٹھان زبردست تھی، مگر وہ اپنے اس سفر کواس طرح جاری نہ رکھ سکے ،جس طرح ابتداءمیں تھا۔ حافظ فضل محمد کی موت بہت بڑا خلا پیدا کرگئی ہے۔ اس کا پورا ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو ان سے پوچھتا تھا کہ مولانا آپ کی پارٹی دوبارہ اپنے سابقہ وجود میں تحلیل تو نہیں ہوجائے گی تو وہ بڑے پُرعزم ہوکر کہتے تھے کہ ہمارا اختلاف مولانا شیرانی سے کوئی ذاتی نہیں ہے ،بلکہ مولانا فضل الرحمن سے ہے۔
انہوں نے جمعیت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا ہے۔یہ ملا عمر کی جدوجہدکے مخالف ہیں اور یہ مدارس کے خلاف محاذ آرائی کررہے ہیں اور دینی مدارس کو مولانا شیرانی دہشت گردوں کی آماجگاہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ امریکن نواز پالیسی کے زبردست حامی ہیں اور کشمیر کے جہاد کو نہیں مانتے ہیں ۔ حافظ صاحب کہتے کہ ہمارا ان سے اختلاف بنیادی اصولوں پر ہے۔ ہم ان کے ساتھ کبھی بھی نہیں مل سکتے ۔ یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ہم ان سے ملنے والے ہیں ۔ ان کا راستہ اور ہمارا راستہ اب جدا ہوگیا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ،ایسا ہی موقف جناب مولانا عصمت اللہ کا ہے ،ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ بھی انہی خیالات کااظہار کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہمارا دامن صاف ہے۔ ہم نے اپنے دامن کو آلودہ نہیں کیا اور اپنے وقار کو بحال رکھا ہے ،نہ کرپشن کی ہے ،نہ کروڑوں کمائے ہیں۔
قارئین محترم! اب جمعیت اپنی صف بندی کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔انتخابات میں جمعیت کے بعض لوگ یہ رائے رکھتے تھے کہ اس انتخاب میں تبدیلی آئی ہے، اس لئے نظریاتی کے ضم ہونے کی وجوہات پیدا ہوگئی ہیں۔ ان کے بعض حضرات یہ کہتے تھے کہ مولانا محمدخان شیرانی اب صدر نہیں رہے ، اس لئے اب نظریاتی پارٹی ضم ہوسکتی ہے، لیکن انتخاب کے حوالے سے جمعیت نظریاتی کے ممتاز شعلہ بیان مقرر اور مرکزی نائب امیر مولانا عبدالقادر لونی اور مرکزی پریس سیکرٹری سید عبدالستار شاہ چشتی نے مشترکہ بیان میں ان خبروں کی تردید کی ہے کہ پارٹی ضم ہورہی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہمارا اختلاف اصولوں پر مبنی ہے اور پالیسی پر اختلاف تھا۔ ان کی کرپشن اور پالیسی انحرافات کئی گنا بڑھ گئے ہےں۔ وہ تمام وجوہات ،جن کی بنیاد پر ہم علیحدہ ہوئے تھے ،اب ان میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اتحاد کے حوالے سے نہ کوئی ملاقات ہوئی ہے اور نہ کوئی نشست ہوئی ہے۔ ہمارا تعلق کسی ہارنے اور جیتنے والے سے نہیں ہے۔ جمعیت(ف ) کے انتخابات ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے کارکن ان کے پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں اور نہ افواہ ساز کمپنی پر کان دھریں گے۔
قارئین محترم! مولانا محمدخان شیرانی نے 32 سال تک جمعیت پر حکمرانی کی ہے ۔وہ بلوچستان جمعیت کے بادشاہ تھے ،بلکہ بادشاہ گر تھے اور ان کی پالیسیوں میں مرکزی قیادت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن اور جمعیت کو ہمیشہ بلوچستان جمعیت نے سہارا دیا ہے اور مولانا محمد خان شیرانی نے ہمیشہ جمعیت کو بلوچستان حکومت کا حصہ بنایا ہے ۔ اب جمعیت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مولانا محمدخان شیرانی کی سیاست نے بلوچ پشتون سیاست سے زبردست مات کھائی ہے اور ان کی پارٹی کے ممبر بلوچستان حکومت میں بغیر وزارت کے سیاسی یتیم لگ رہے ہیں ،انہیں یقین نہیں آرہا کہ پشتونخوا حکومت میں ہے اور مولانا شیرانی کے حمایت یافتہ ممبران اسمبلی وزارتوں سے باہر کھڑے ہیں ۔پشتونخوا کی سیاست نے جمعیت کو تاریخی صدمہ سے دوچار کردیا ہے ۔سکون اور قرار چھن گیا ہے۔ بقول شاعر ....”قرار لوٹنے والے تُو قرار کو ترسے“....والی کیفیت ہے۔
قارئین محترم! مولانا محمد خان شیرانی سے تمام تر اختلافات کے باوجود مَیں ان کا مداح ہوں۔ وہ دیوبندیت کے حصار میں ہونے کے باوجود کچھ کچھ روشن فکر ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر وہ کسی ردعمل کا شکار ہوکر سعودی عرب اور ایران کے خلاف بیانات دیناشروع ہوگئے تھے۔ 
== اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید ==
== اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید ==
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کے خیال میں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے جبکہ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کے خیال میں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے جبکہ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
سطر 45: سطر 68:
ان کے بقول "اگر ہم نے اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کرلیا تو ہم کشمیر سے دستبردار ہو جائیں گے۔ کیوں کہ پھر کوئی بھی ہمیں مضبوط موقف پیش کرنے نہیں دے گا۔"
ان کے بقول "اگر ہم نے اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کرلیا تو ہم کشمیر سے دستبردار ہو جائیں گے۔ کیوں کہ پھر کوئی بھی ہمیں مضبوط موقف پیش کرنے نہیں دے گا۔"


ہاشمی نے بتایا کہ مولانا محمد شیرانی جو بھی موقف اختیار کریں یہ ان کا حق ہے، لیکن عالمی سیاست کا ادراک رکھنے والوں کو اس بارے میں احتیاط کرنا چاہیے <ref>[https://www.independenturdu.com/node/55411 اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید]- شائع شدہ از:21 دسمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔</ref>۔
ہاشمی نے بتایا کہ مولانا محمد شیرانی جو بھی موقف اختیار کریں یہ ان کا حق ہے، لیکن عالمی سیاست کا ادراک رکھنے والوں کو اس بارے میں احتیاط کرنا چاہیے <ref>[https://www.independenturdu.com/node/55411 اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید]- شائع شدہ از:21 دسمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔
</ref>۔

نسخہ بمطابق 18:31، 7 جولائی 2024ء

محمد خان شیرانی، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ شیرانی ایک بھاری بھر کم سیاسی و علمی شخصیت ہیں اس وجہ سے سنجیدہ سیاسی حلقوں میں آپ کی دیانت اور راست بازی کی بنیاد پر آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کو امام سیاست بھی کہا جاتاہے آپ کا مولانا فضل الرحمان سے دو چیزوں پر سخت اختلاف ہے۔ اول یہ کہ مولانا فضل الرحمن نے انھیں بلوچستان میں عہدہ کیوں نہیں دیا دوم مولانا نے عمران خان کو یہودی ایجنٹ کیوں کہا اور اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرتے۔

سوانح عمری

ان کی پیدائش 1948ء ضلع شیرانی میں ہوئی۔

تعلیم

انہوں نے اپنا دینی تعلیم بنوں کے معراج العلوم سے حاصل کی۔

سیاسی سرگرمیاں

پاکستان عام انتخابات 2013 میں حلقہ این اے 264 سے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں ژوب،قلعہ سیف اللہ اور شیرانی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مولانا شیرانی جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ آپ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں جمعیت میں دراڑ پڑی اور جمعیت نظریاتی کے نام سے ایک نئی جماعت وجود میں آئی۔

جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان

جعمیت علمائے اسلام ف سے نکالے گئے ارکان نے جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ منگل کو اسلام آباد میں ناراض ارکان کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ فضل الرحمٰن نے ف کے نام سے اپنا الگ گروپ بنایا ہم کبھی بھی جے یو آئی ف یا فضل الرحمٰن گروپ کا حصہ نہیں رہے۔ مولانا شیرانی کے مطابق "ہم دستور کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے رکن ہیں اور رہیں گے"۔

شیرانی نے اپنے ساتھیوں کو جماعت کے ساتھ رابطے نہ توڑنے کی ہدایت بھی کی۔ مولانا شیرانی نے فضل الرحمن گروپ کے حوالے سے کچھ شرائط کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ "اگر وہ ہمیں کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دیتا ہے تو ہم جائیں گے۔"

جمعیت علمائے اسلام ف کے نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کی تجویز

انہوں نے ایک قرارداد پاس کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کیا جائے اور نیا نوٹیفکیشن جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے نام سے جاری کیا جائے اور الیکشن کمیشن میں جمع کروایا جائے۔ بقول ان کے "اس وقت جو ہو رہا ہے وہ صداقت اور دیانت سے خالی ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں سیاست اکابرین سے وراثت میں ملی ہے۔

حافظ حسین احمد کا کہنا تھا "ہم نے جماعت چھوڑی ہے نہ جماعت سے علیحدگی اختیار کی ہے۔" ان کے مطابق آزادی مارچ کے موقع پر بات کرنے کی کوشش کی گئی تو نہیں کرنے دی گئی۔ چند روز پیشتر مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کے باعث مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد اور دو دیگر ارکان کی جمعیت علمائے اسلام ف نے رکنیت ختم کر دی تھی، جے یو آئی ف اس وقت حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور مولانا فضل الرحمن اس کے صدر ہیں[1]۔

سیاست کی ابتداء

محمد خان شیرانی سے پہلی بار اس وقت متعارف ہوا، جب جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاء کے دور میں کچھ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی تو کوئٹہ کے ٹاﺅن ہال میں ایم آر ڈی کا جلسہ عام تھا۔ لوگوں کی تعداد بہت کم تھی، یحییٰ بختیار کی تقریر تھی، اس کے بعد مولانا محمدخان شیرانی کا نام پکارا گیا آپ جوان تھے، ان کی داڑھی سیاہ تھی۔ ان کی تقریر بڑے غور سے سنی۔ اس لئے کہ ان کی اردوبڑی اچھی تھی۔

انقلاب ایران سے متاثر

یہ ان سے میرا پہلا سیاسی تعارف تھا۔ ان سے کوئی قربت نہیں تھی، پھر ایک دن ان سے کوئٹہ کے خانہ فرہنگ ایران میں ملاقات ہوگئی۔ وہ آیت اللہ باقر صدر کی کتاب کی تلاش میں تھے اور وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھی۔ آپ مجھے جانتے تھے، اس لئے کہ وہ میرے کالم پڑھتے تھے۔ اس لئے وہاں ان سے سلام دعا ہوئی اور پھر ہم دونوں خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر ذاکری سے ملے۔ مولانا شیرانی کی فارسی اتنی اچھی نہیں تھی۔ اس لئے ترجمانی کے فرائض ادا کئے۔ مولانا شیرانی انقلاب ایران سے متاثر تھے، لیکن وہ اس وقت دیوبندیت کے حصار میں تھے ،اس لئے گفتگو بھی اسی دائرے میں ہورہی تھی۔

ایران کا سفر

سال یا دو سال کے بعد ایران میں اسلامی انقلاب کی تقریبات ماہ فروری میں شروع ہونے والی تھیں۔ ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ایران جناب ذاکری نے مجھے بلایا اور کہاکہ ہم چند علماءکو ایران بھیجنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ اسلامی انقلاب کو قریب سے دیکھیں اور خود جائزہ لیں۔ ان سے کہا کہ محمدخان شیرانی کو دعوت دیں تو وہ بڑے حیران ہوئے اور مجھ سے کہاکہ جناب شادیزئی صاحب کوئی اور نام بتائیں۔

میرا اصرار تھا کہ انہی کو بھیجیں۔ یہ ان کاسب سے کھلے ذہن کامولوی ہے، وہ خوب ہنسا اور حیران ہوا۔ میرے اصرار پر انہوں نے اسلامی انقلاب کی تقریبات میں دعوت دے ڈالی۔ آقائے ذاکری نے کہاکہ یہ مولوی ہے اور عام مولویوں کے مقابل سیاسی ذہن رکھتا ہے اور انقلاب سے متاثر ہوگا۔ اس لئے کہ ایران میں انقلاب مولویوں کی قیادت میں برپا ہوا ہے اور یہ ان سے متاثر ہوگا اور پھر جب مولانا محمد شیرانی نے انقلاب کو دیکھااور انقلابی علماءسے ملاقات کی تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

پھر انہوں نے انقلاب کی کھل کر حمایت کی۔ محمدخان شیرانی سے میری بعض ملاقاتیں ہوائی سفر کے دوران ہوئی ہیں، آمنے سامنے بہت کم ہوئی ہیں ،ان سے کبھی بھی کھل کر انقلاب اور سیاست پر گفتگو نہیں ہوئی ، یہ بھی حسن اتفاق ہے۔ جمعیت علمائے اسلام میں انہوں نے مجھے متاثر کیاہے۔

جماعت کی صدارت

آپ ایک روشن فکر اور کھلے ذہن کے انسان ہیں۔ ان کی سیاسی روش اور ان کی جماعت کی پالیسیوں سے اختلاف رہا ہے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے بہت قریب چلے گئے تھے۔ یوں تو مولانا فضل الرحمان بھی جنرل پرویز مشرف کے بہت قریب رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن محترمہ بے نظیر مرحومہ کے بھی قریب رہے۔ آصف علی زرداری کے بھی بہت قریب تھے اور اب انہیں نواز شریف کی حکومت میں وزیر کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔

عبدالغفور حیدری بھی وزیر بن گئے ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی بھی جنرل پرویز مشرف کے قریب رہے ہیں اور انہیں اپنے خاص مشوروں سے نوازتے رہے ہیں۔ مولانا محمدخان شیرانی طویل ترین عرصے تک جماعت کے عہدہ صدارت پر فائز رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی ان کی صدارت میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ وہ صوبہ بلوچستان میں جمعیت کے ایک لحاظ سے آمر تھے ،ان کا طوطی بولتا تھا۔

32سال تک انہوں نے کسی کوقریب پھٹکنے نہیں دیا۔ ان کی صدارت کو کوئی چیلنج نہیں تھا۔ وہ فیصلے کرنے میں ایک طرح سے فوجی جنرل کا روپ اختیار کرچکے تھے۔ وہ بہت سے معاملات میں بہت زیادہ بااختیار ہوگئے تھے اور انہوں نے پارٹی میں ایک لحاظ سے آمریت قائم کرلی تھی۔ ان کے رویے کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام کے اندر بغاوت پھوٹی اور انہوں نے اس ردعمل کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی ، پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور مولانا عصمت اللہ نے بغاوت کی اور ان کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام کے اندر سے تضاد پھوٹا اور پارٹی تقسیم ہوگئی۔ مولانا محمدخان شیرانی اس تقسیم کو قبول ہی نہیں کرتے تھے اور ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم بھی نہیں کرتے ہیں، بلکہ مولانا کے نزدیک یہ باغی اور خارجی تھے، لیکن مولانا کی 32سالہ سیاسی آمریت نے پارٹی کے اندرسے ایک اور بغاوت کو جنم دیا اور خضدار کے ممتاز عالم دین مولانا فیض محمد نے انتخاب میں انہیں بُری طرح شکست سے دوچار کیا اور مولانا محمد خان شیرانی بہت زیادہ ووٹوں سے ہار گئے اور ان کے ساتھ دانشور ایڈووکیٹ ملک سکندر خان نے بھی جنرل سیکرٹری کی نشست جیت لی اور ضلع کوئٹہ سے حافظ حمداللہ بھی ہار گئے۔ اس لئے وہ مولانا محمد خان شیرانی کے سیاسی سائے میں آگے آگئے تھے۔ حالیہ ملکی انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کی نشست پر محمود خان سے زبردست شکست کاسامنا کرنا پڑا ،ان کا سیاسی دور ختم ہوگیا۔ وہ سینیٹر نہ ہوتے تو گوشہ گمنامی میں چلے جاتے، اب ان کے سر سے محمدخان شیرانی کا سایہ اٹھ گیا ہے تو پارٹی کے اندر ان کا وہ وزن نہیں رہا، جو کل تک تھا ،وہ بھی کوئٹہ کی ضلعی صدارت پر بُری طرح ہار گئے ہیں۔ قارئین محترم! مولانا محمد خان شیرانی ان معنوں میں عالم دین نہیں تھے، جن معنوں میں مولانا فیض محمد یا مولانا عصمت اللہ یا حافظ فضل محمد تھے یا مولانا عبدالقادر لونی تھے۔ جمعیت علمائے اسلام تقسیم ہوتی رہی ہے۔ مولانا سمیع الحق بھی جمعیت کا حصہ تھے۔ اب مولانا عصمت اللہ نظریاتی کے قائد ہیں، نظریاتی کی اٹھان زبردست تھی، مگر وہ اپنے اس سفر کواس طرح جاری نہ رکھ سکے ،جس طرح ابتداءمیں تھا۔ حافظ فضل محمد کی موت بہت بڑا خلا پیدا کرگئی ہے۔ اس کا پورا ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو ان سے پوچھتا تھا کہ مولانا آپ کی پارٹی دوبارہ اپنے سابقہ وجود میں تحلیل تو نہیں ہوجائے گی تو وہ بڑے پُرعزم ہوکر کہتے تھے کہ ہمارا اختلاف مولانا شیرانی سے کوئی ذاتی نہیں ہے ،بلکہ مولانا فضل الرحمن سے ہے۔


انہوں نے جمعیت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا ہے۔یہ ملا عمر کی جدوجہدکے مخالف ہیں اور یہ مدارس کے خلاف محاذ آرائی کررہے ہیں اور دینی مدارس کو مولانا شیرانی دہشت گردوں کی آماجگاہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ امریکن نواز پالیسی کے زبردست حامی ہیں اور کشمیر کے جہاد کو نہیں مانتے ہیں ۔ حافظ صاحب کہتے کہ ہمارا ان سے اختلاف بنیادی اصولوں پر ہے۔ ہم ان کے ساتھ کبھی بھی نہیں مل سکتے ۔ یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ہم ان سے ملنے والے ہیں ۔ ان کا راستہ اور ہمارا راستہ اب جدا ہوگیا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ،ایسا ہی موقف جناب مولانا عصمت اللہ کا ہے ،ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ بھی انہی خیالات کااظہار کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہمارا دامن صاف ہے۔ ہم نے اپنے دامن کو آلودہ نہیں کیا اور اپنے وقار کو بحال رکھا ہے ،نہ کرپشن کی ہے ،نہ کروڑوں کمائے ہیں۔ قارئین محترم! اب جمعیت اپنی صف بندی کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔انتخابات میں جمعیت کے بعض لوگ یہ رائے رکھتے تھے کہ اس انتخاب میں تبدیلی آئی ہے، اس لئے نظریاتی کے ضم ہونے کی وجوہات پیدا ہوگئی ہیں۔ ان کے بعض حضرات یہ کہتے تھے کہ مولانا محمدخان شیرانی اب صدر نہیں رہے ، اس لئے اب نظریاتی پارٹی ضم ہوسکتی ہے، لیکن انتخاب کے حوالے سے جمعیت نظریاتی کے ممتاز شعلہ بیان مقرر اور مرکزی نائب امیر مولانا عبدالقادر لونی اور مرکزی پریس سیکرٹری سید عبدالستار شاہ چشتی نے مشترکہ بیان میں ان خبروں کی تردید کی ہے کہ پارٹی ضم ہورہی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہمارا اختلاف اصولوں پر مبنی ہے اور پالیسی پر اختلاف تھا۔ ان کی کرپشن اور پالیسی انحرافات کئی گنا بڑھ گئے ہےں۔ وہ تمام وجوہات ،جن کی بنیاد پر ہم علیحدہ ہوئے تھے ،اب ان میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اتحاد کے حوالے سے نہ کوئی ملاقات ہوئی ہے اور نہ کوئی نشست ہوئی ہے۔ ہمارا تعلق کسی ہارنے اور جیتنے والے سے نہیں ہے۔ جمعیت(ف ) کے انتخابات ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے کارکن ان کے پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں اور نہ افواہ ساز کمپنی پر کان دھریں گے۔ قارئین محترم! مولانا محمدخان شیرانی نے 32 سال تک جمعیت پر حکمرانی کی ہے ۔وہ بلوچستان جمعیت کے بادشاہ تھے ،بلکہ بادشاہ گر تھے اور ان کی پالیسیوں میں مرکزی قیادت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن اور جمعیت کو ہمیشہ بلوچستان جمعیت نے سہارا دیا ہے اور مولانا محمد خان شیرانی نے ہمیشہ جمعیت کو بلوچستان حکومت کا حصہ بنایا ہے ۔ اب جمعیت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مولانا محمدخان شیرانی کی سیاست نے بلوچ پشتون سیاست سے زبردست مات کھائی ہے اور ان کی پارٹی کے ممبر بلوچستان حکومت میں بغیر وزارت کے سیاسی یتیم لگ رہے ہیں ،انہیں یقین نہیں آرہا کہ پشتونخوا حکومت میں ہے اور مولانا شیرانی کے حمایت یافتہ ممبران اسمبلی وزارتوں سے باہر کھڑے ہیں ۔پشتونخوا کی سیاست نے جمعیت کو تاریخی صدمہ سے دوچار کردیا ہے ۔سکون اور قرار چھن گیا ہے۔ بقول شاعر ....”قرار لوٹنے والے تُو قرار کو ترسے“....والی کیفیت ہے۔ قارئین محترم! مولانا محمد خان شیرانی سے تمام تر اختلافات کے باوجود مَیں ان کا مداح ہوں۔ وہ دیوبندیت کے حصار میں ہونے کے باوجود کچھ کچھ روشن فکر ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر وہ کسی ردعمل کا شکار ہوکر سعودی عرب اور ایران کے خلاف بیانات دیناشروع ہوگئے تھے۔

اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کے خیال میں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے جبکہ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

سابق رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا شیرانی ہمیشہ اپنے متنازع بیانات کے باعث تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں سے ایک اسرائیلی اخبار میں اس حوالے سے خبر شائع ہونے کے بعد کہ "پاکستان سے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا"، پاکستان میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی سختی سے تردید کر دی تھی، مگر اب اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

اسرائیل کے بارے میں ان کا موقف

اپنے حالیہ بیان میں مولانا محمد خان شیرانی نے بلوچستان کے ضلع لورالائی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور وہ اس چیز کے حق میں ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔

یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے مولانا شیرانی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ "نافرمانی کرنے پر مرد عورت کی معمولی پٹائی کرسکتا ہے،" جس پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ان پر شدید تنقید کی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں وہ پشتو زبان میں کہتے نظر آئے کہ "اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ میں اس کے حق میں ہوں کہ اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔"

تقسیم فلسطین

شیرانی نے تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت داؤد نے ایک ہزار قبل مسیح میں فلسطین کو فتح کیا تھا۔ انہوں نے ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھی اور حضرت اسماعیل نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ شیرانی سمجھتے ہیں کہ جس طرح اس سے قبل یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ مشرقی علاقے میں اسرائیل اور مغربی حصے میں فلسطین کی ریاست قائم کی جائے۔ بعد میں اسرائیل اسی پر ریاست قرار دیا گیا، لیکن فسلطینوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ "اسرائیل کو تسلیم کر کے فلسطین کو اپنا حصہ لے لینا چاہیے اور باقی اپنے حصے کے لیے دعویٰ برقرار رکھنا چاہیے۔" ساتھ ہی انہوں نے کہا: "کیا فلسطین کی زمین اسرائیل پر نہیں بیچی گئی۔ فلسطین نے اپنا حصہ پہلے نہیں لیا جس پر اسرائیل نے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔"

مولانا شیرانی نے مزید کہا کہ :"آج کی دنیا اقوام متحدہ کے چارٹر اور معاہدوں کے ساتھ جڑی ہے۔ ہمیں بھی انہی کے ساتھ چلنا ہوگا۔" اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مولانا محمد شیرانی سے براہ راست رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔ تاہم جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

رد عمل

مولانا عبدالحق ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسرائیل کے تسلیم کرنے کے حق میں اگر کوئی بیان دیتا ہے تو اس کی سیاسی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن کوئی بھی پاکستانی اس موقف کا حامی نہیں ہے۔ ان کے بقول "اگر ہم نے اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کرلیا تو ہم کشمیر سے دستبردار ہو جائیں گے۔ کیوں کہ پھر کوئی بھی ہمیں مضبوط موقف پیش کرنے نہیں دے گا۔"

ہاشمی نے بتایا کہ مولانا محمد شیرانی جو بھی موقف اختیار کریں یہ ان کا حق ہے، لیکن عالمی سیاست کا ادراک رکھنے والوں کو اس بارے میں احتیاط کرنا چاہیے [2]۔

  1. [https://www.urdunews.com/node/528301 ] شائع شدہ از: 29 دسمبر 2020ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔
  2. اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید- شائع شدہ از:21 دسمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔