"محمد خان شیرانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 6: سطر 6:
== سیاسی زندگی ==
== سیاسی زندگی ==
[[پاکستان]] عام انتخابات 2013 میں حلقہ این اے 264 سے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں ژوب،قلعہ سیف اللہ اور شیرانی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
[[پاکستان]] عام انتخابات 2013 میں حلقہ این اے 264 سے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں ژوب،قلعہ سیف اللہ اور شیرانی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
 
مولانا شیرانی جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ آپ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں جمعیت میں دراڑ پڑی اور جمعیت نظریاتی کے نام سے ایک نئی جماعت وجود میں آئی۔
=== جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان ===
=== جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان ===
جعمیت علمائے اسلام ف سے نکالے گئے ارکان نے جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
جعمیت علمائے اسلام ف سے نکالے گئے ارکان نے جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
سطر 16: سطر 16:
انہوں نے ایک قرارداد پاس کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کیا جائے اور نیا نوٹیفکیشن جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے نام سے جاری کیا جائے اور الیکشن کمیشن میں جمع کروایا جائے۔
انہوں نے ایک قرارداد پاس کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کیا جائے اور نیا نوٹیفکیشن جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے نام سے جاری کیا جائے اور الیکشن کمیشن میں جمع کروایا جائے۔
بقول ان کے "اس وقت جو ہو رہا ہے وہ صداقت اور دیانت سے خالی ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں سیاست اکابرین سے وراثت میں ملی ہے۔
بقول ان کے "اس وقت جو ہو رہا ہے وہ صداقت اور دیانت سے خالی ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں سیاست اکابرین سے وراثت میں ملی ہے۔


حافظ حسین احمد کا کہنا تھا "ہم نے جماعت چھوڑی ہے نہ جماعت سے علیحدگی اختیار کی ہے۔" ان کے مطابق آزادی مارچ کے موقع پر بات کرنے کی کوشش کی گئی تو نہیں کرنے دی گئی۔
حافظ حسین احمد کا کہنا تھا "ہم نے جماعت چھوڑی ہے نہ جماعت سے علیحدگی اختیار کی ہے۔" ان کے مطابق آزادی مارچ کے موقع پر بات کرنے کی کوشش کی گئی تو نہیں کرنے دی گئی۔
چند روز پیشتر مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کے باعث مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد اور دو دیگر ارکان کی جمعیت علمائے اسلام ف نے رکنیت ختم کر دی تھی، جے یو آئی ف اس وقت حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور مولانا فضل الرحمن اس کے صدر ہیں<ref>[https://www.urdunews.com/node/528301   
چند روز پیشتر مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کے باعث مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد اور دو دیگر ارکان کی جمعیت علمائے اسلام ف نے رکنیت ختم کر دی تھی، جے یو آئی ف اس وقت حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور مولانا فضل الرحمن اس کے صدر ہیں<ref>[https://www.urdunews.com/node/528301   
] شائع شدہ از: 29 دسمبر 2020ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔</ref>۔
] شائع شدہ از: 29 دسمبر 2020ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔</ref>۔
== اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید ==
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کے خیال میں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے جبکہ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
سابق رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا شیرانی ہمیشہ اپنے متنازع بیانات کے باعث تنقید کی زد میں رہے ہیں۔
گذشتہ چند دنوں سے ایک اسرائیلی اخبار میں اس حوالے سے خبر شائع ہونے کے بعد کہ "پاکستان سے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا"، پاکستان میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی سختی سے تردید کر دی تھی، مگر اب اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
=== اسرائیل کے بارے میں ان کا موقف ===
اپنے حالیہ بیان میں مولانا محمد خان شیرانی نے بلوچستان کے ضلع لورالائی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور وہ اس چیز کے حق میں ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ 
یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے مولانا شیرانی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ "نافرمانی کرنے پر مرد عورت کی معمولی پٹائی کرسکتا ہے،" جس پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ان پر شدید تنقید کی تھی۔
اب ایک مرتبہ پھر ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں وہ پشتو زبان میں کہتے نظر آئے کہ "اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ میں اس کے حق میں ہوں کہ اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔"
=== تقسیم فلسطین ===
شیرانی نے تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت داؤد نے ایک ہزار قبل مسیح میں [[فلسطین]] کو فتح کیا تھا۔ انہوں نے ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھی اور حضرت اسماعیل نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
شیرانی سمجھتے ہیں کہ جس طرح اس سے قبل یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ مشرقی علاقے میں اسرائیل اور مغربی حصے میں فلسطین کی ریاست قائم کی جائے۔ بعد میں اسرائیل اسی پر ریاست قرار دیا گیا، لیکن فسلطینوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ "اسرائیل کو تسلیم کر کے فلسطین کو اپنا حصہ لے لینا چاہیے اور باقی اپنے حصے کے لیے دعویٰ برقرار رکھنا چاہیے۔"
ساتھ ہی انہوں نے کہا: "کیا فلسطین کی زمین اسرائیل پر نہیں بیچی گئی۔ فلسطین نے اپنا حصہ پہلے نہیں لیا جس پر اسرائیل نے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔"
مولانا شیرانی نے مزید کہا کہ :"آج کی دنیا اقوام متحدہ کے چارٹر اور معاہدوں کے ساتھ جڑی ہے۔ ہمیں بھی انہی کے ساتھ چلنا ہوگا۔"
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مولانا محمد شیرانی سے براہ راست رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔
تاہم جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
=== رد عمل ===
مولانا عبدالحق ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسرائیل کے تسلیم کرنے کے حق میں اگر کوئی بیان دیتا ہے تو اس کی سیاسی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن کوئی بھی پاکستانی اس موقف کا حامی نہیں ہے۔
ان کے بقول "اگر ہم نے اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کرلیا تو ہم کشمیر سے دستبردار ہو جائیں گے۔ کیوں کہ پھر کوئی بھی ہمیں مضبوط موقف پیش کرنے نہیں دے گا۔"
ہاشمی نے بتایا کہ مولانا محمد شیرانی جو بھی موقف اختیار کریں یہ ان کا حق ہے، لیکن عالمی سیاست کا ادراک رکھنے والوں کو اس بارے میں احتیاط کرنا چاہیے <ref>[https://www.independenturdu.com/node/55411 اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید]- شائع شدہ از:21 دسمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔</ref>۔

نسخہ بمطابق 18:16، 7 جولائی 2024ء

محمد خان شیرانی، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ شیرانی ایک بھاری بھر کم سیاسی و علمی شخصیت ہیں اس وجہ سے سنجیدہ سیاسی حلقوں میں آپ کی دیانت اور راست بازی کی بنیاد پر آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کو امام سیاست بھی کہا جاتاہے آپ کا مولانا فضل الرحمان سے دو چیزوں پر سخت اختلاف ہے۔ اول یہ کہ مولانا فضل الرحمن نے انھیں بلوچستان میں عہدہ کیوں نہیں دیا دوم مولانا نے عمران خان کو یہودی ایجنٹ کیوں کہا اور اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرتے۔

سوانح عمری

ان کی پیدائش 1948ء ضلع شیرانی میں ہوئی۔

تعلیم

انہوں نے اپنا دینی تعلیم بنوں کے معراج العلوم سے حاصل کی۔

سیاسی زندگی

پاکستان عام انتخابات 2013 میں حلقہ این اے 264 سے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں ژوب،قلعہ سیف اللہ اور شیرانی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مولانا شیرانی جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ آپ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں جمعیت میں دراڑ پڑی اور جمعیت نظریاتی کے نام سے ایک نئی جماعت وجود میں آئی۔

جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان

جعمیت علمائے اسلام ف سے نکالے گئے ارکان نے جمعیت علمائے پاکستان کو جے یو آئی ف سے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ منگل کو اسلام آباد میں ناراض ارکان کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ فضل الرحمٰن نے ف کے نام سے اپنا الگ گروپ بنایا ہم کبھی بھی جے یو آئی ف یا فضل الرحمٰن گروپ کا حصہ نہیں رہے۔ مولانا شیرانی کے مطابق "ہم دستور کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے رکن ہیں اور رہیں گے"۔

شیرانی نے اپنے ساتھیوں کو جماعت کے ساتھ رابطے نہ توڑنے کی ہدایت بھی کی۔ مولانا شیرانی نے فضل الرحمن گروپ کے حوالے سے کچھ شرائط کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ "اگر وہ ہمیں کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دیتا ہے تو ہم جائیں گے۔"

جمعیت علمائے اسلام ف کے نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کی تجویز

انہوں نے ایک قرارداد پاس کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کیا جائے اور نیا نوٹیفکیشن جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے نام سے جاری کیا جائے اور الیکشن کمیشن میں جمع کروایا جائے۔ بقول ان کے "اس وقت جو ہو رہا ہے وہ صداقت اور دیانت سے خالی ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں سیاست اکابرین سے وراثت میں ملی ہے۔

حافظ حسین احمد کا کہنا تھا "ہم نے جماعت چھوڑی ہے نہ جماعت سے علیحدگی اختیار کی ہے۔" ان کے مطابق آزادی مارچ کے موقع پر بات کرنے کی کوشش کی گئی تو نہیں کرنے دی گئی۔ چند روز پیشتر مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کے باعث مولانا محمد خان شیرانی، حافظ حسین احمد اور دو دیگر ارکان کی جمعیت علمائے اسلام ف نے رکنیت ختم کر دی تھی، جے یو آئی ف اس وقت حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور مولانا فضل الرحمن اس کے صدر ہیں[1]۔

اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کے خیال میں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے جبکہ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

سابق رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا شیرانی ہمیشہ اپنے متنازع بیانات کے باعث تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں سے ایک اسرائیلی اخبار میں اس حوالے سے خبر شائع ہونے کے بعد کہ "پاکستان سے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا"، پاکستان میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی سختی سے تردید کر دی تھی، مگر اب اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد شیرانی کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

اسرائیل کے بارے میں ان کا موقف

اپنے حالیہ بیان میں مولانا محمد خان شیرانی نے بلوچستان کے ضلع لورالائی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور وہ اس چیز کے حق میں ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔

یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے مولانا شیرانی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ "نافرمانی کرنے پر مرد عورت کی معمولی پٹائی کرسکتا ہے،" جس پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ان پر شدید تنقید کی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں وہ پشتو زبان میں کہتے نظر آئے کہ "اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ میں اس کے حق میں ہوں کہ اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔"

تقسیم فلسطین

شیرانی نے تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت داؤد نے ایک ہزار قبل مسیح میں فلسطین کو فتح کیا تھا۔ انہوں نے ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھی اور حضرت اسماعیل نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ شیرانی سمجھتے ہیں کہ جس طرح اس سے قبل یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ مشرقی علاقے میں اسرائیل اور مغربی حصے میں فلسطین کی ریاست قائم کی جائے۔ بعد میں اسرائیل اسی پر ریاست قرار دیا گیا، لیکن فسلطینوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ "اسرائیل کو تسلیم کر کے فلسطین کو اپنا حصہ لے لینا چاہیے اور باقی اپنے حصے کے لیے دعویٰ برقرار رکھنا چاہیے۔" ساتھ ہی انہوں نے کہا: "کیا فلسطین کی زمین اسرائیل پر نہیں بیچی گئی۔ فلسطین نے اپنا حصہ پہلے نہیں لیا جس پر اسرائیل نے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔"

مولانا شیرانی نے مزید کہا کہ :"آج کی دنیا اقوام متحدہ کے چارٹر اور معاہدوں کے ساتھ جڑی ہے۔ ہمیں بھی انہی کے ساتھ چلنا ہوگا۔" اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مولانا محمد شیرانی سے براہ راست رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔ تاہم جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

رد عمل

مولانا عبدالحق ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسرائیل کے تسلیم کرنے کے حق میں اگر کوئی بیان دیتا ہے تو اس کی سیاسی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن کوئی بھی پاکستانی اس موقف کا حامی نہیں ہے۔ ان کے بقول "اگر ہم نے اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کرلیا تو ہم کشمیر سے دستبردار ہو جائیں گے۔ کیوں کہ پھر کوئی بھی ہمیں مضبوط موقف پیش کرنے نہیں دے گا۔"

ہاشمی نے بتایا کہ مولانا محمد شیرانی جو بھی موقف اختیار کریں یہ ان کا حق ہے، لیکن عالمی سیاست کا ادراک رکھنے والوں کو اس بارے میں احتیاط کرنا چاہیے [2]۔

  1. [https://www.urdunews.com/node/528301 ] شائع شدہ از: 29 دسمبر 2020ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔
  2. اسرائیل سے متعلق مولانا شیرانی کے بیان پر تنقید- شائع شدہ از:21 دسمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جولائی 2024ء۔