4,123
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 33: | سطر 33: | ||
== اتحاد امت اسلامی == | == اتحاد امت اسلامی == | ||
[[ایران]] گئے تو [[شیعہ]] و [[اہل السنۃ والجماعت|سنیوں]] کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا مشورہ دیا۔ہندوستان میں بھی شیعہ و سنیوں کے مسلکی اختلافات کو امت کے رستے ہوئے ناسور سے تعبیر کیا اور اس کے تدارک میں پیش پیش وفکر مند رہے۔ آپ نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جو خطبے دیئے، ان میں مسلمانان ہند کے لئے جہاں پرسنل لاء کو ناگزیر بتایا، وہیں اسے مسلمانوں کی عزت وآبرو کیلئے اہم قرار دیا اور اس کی حفاظت کو اسلامی تہذیب وتشخص کے تحفظ سے تعبیر فرمایا۔ | [[ایران]] گئے تو [[شیعہ]] و [[اہل السنۃ والجماعت|سنیوں]] کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا مشورہ دیا۔ہندوستان میں بھی شیعہ و سنیوں کے مسلکی اختلافات کو امت کے رستے ہوئے ناسور سے تعبیر کیا اور اس کے تدارک میں پیش پیش وفکر مند رہے۔ آپ نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جو خطبے دیئے، ان میں مسلمانان ہند کے لئے جہاں پرسنل لاء کو ناگزیر بتایا، وہیں اسے مسلمانوں کی عزت وآبرو کیلئے اہم قرار دیا اور اس کی حفاظت کو اسلامی تہذیب وتشخص کے تحفظ سے تعبیر فرمایا۔ | ||
== تالیفات == | == تالیفات == | ||
آپ کے خطبات وتقاریر مختلف عنوانات کے تحت کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک اہم مجموعہ '''پاجا سراغ زندگی''' ہے ان تقریروں میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلباء کو وہ یہ پیام دیتے ہیں کہ '''شاخِ ملت انہی کے دم سے ہری ہوسکتی ہے'''۔ امریکہ کے سفر پر گئے تو وہاں کی یونیورسٹیوں اور مجلسوں میں جو تقاریریں کیں '''مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں''' اور '''نئی دنیا''' کے نام سے وہ منظر عام پر آگئی ہیں، ان تقاریر میں آپ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ’’امریکہ میں مشینوں کی بہار تو دیکھی، لیکن آدمیت اور روح کا زوال پایا‘‘۔وہاں کے مسلمانوں کو تعلق باللہ، اپنے کام میں اخلاص اور انابت کی روح پیدا کرنے پر زور دیا، یہی پیغام وہ ہر جگہ ہر ملک اور ہر شہر میں دیتے رہے، جو نیا نہیں تھا لیکن کچھ ایسے ایمانی ولولے، قلبی درد اور داعیانہ انداز میں اس کا اعادہ کرتے کہ سننے والوں کے قلوب گرما جاتے، اسی طرح یوروپ، برطانیہ، سوئزرلینڈ اور اسپین کی یونیورسٹیوں اور علمی مجلسوں میں تخاطب کے دوران یہ پیام دیا کہ ’’وہاں کے مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے گرویدہ نہ ہوں کیونکہ اس کا ظاہر روشن اور باطن تاریک ہے، مسلمان اس سرزمین پر اسلام کے داعی بن کر رہیں، اسلام کی ابدیت پر مکمل اعتماد رکھیں اور مشرق ومغرب کے درمیان نئی نہر سوئز تعمیر کرنے کے لئے کام کریں <ref>مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کی فکر ونظر یومِ وفات کے موقع پر خصوصی مضمون، [https://www.dailysalar.com/news/22862/page8/ dailysalar.com]</ref>۔ | آپ کے خطبات وتقاریر مختلف عنوانات کے تحت کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک اہم مجموعہ '''پاجا سراغ زندگی''' ہے ان تقریروں میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلباء کو وہ یہ پیام دیتے ہیں کہ '''شاخِ ملت انہی کے دم سے ہری ہوسکتی ہے'''۔ امریکہ کے سفر پر گئے تو وہاں کی یونیورسٹیوں اور مجلسوں میں جو تقاریریں کیں '''مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں''' اور '''نئی دنیا''' کے نام سے وہ منظر عام پر آگئی ہیں، ان تقاریر میں آپ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ’’امریکہ میں مشینوں کی بہار تو دیکھی، لیکن آدمیت اور روح کا زوال پایا‘‘۔وہاں کے مسلمانوں کو تعلق باللہ، اپنے کام میں اخلاص اور انابت کی روح پیدا کرنے پر زور دیا، یہی پیغام وہ ہر جگہ ہر ملک اور ہر شہر میں دیتے رہے، جو نیا نہیں تھا لیکن کچھ ایسے ایمانی ولولے، قلبی درد اور داعیانہ انداز میں اس کا اعادہ کرتے کہ سننے والوں کے قلوب گرما جاتے، اسی طرح یوروپ، برطانیہ، سوئزرلینڈ اور اسپین کی یونیورسٹیوں اور علمی مجلسوں میں تخاطب کے دوران یہ پیام دیا کہ ’’وہاں کے مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے گرویدہ نہ ہوں کیونکہ اس کا ظاہر روشن اور باطن تاریک ہے، مسلمان اس سرزمین پر اسلام کے داعی بن کر رہیں، اسلام کی ابدیت پر مکمل اعتماد رکھیں اور مشرق ومغرب کے درمیان نئی نہر سوئز تعمیر کرنے کے لئے کام کریں <ref>مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کی فکر ونظر یومِ وفات کے موقع پر خصوصی مضمون، [https://www.dailysalar.com/news/22862/page8/ dailysalar.com]</ref>۔ |