Jump to content

"محسن علی نجفی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 17: سطر 17:


حوزہ علمیہ نجف میں ان دنوں زیادہ تر ہندوستان، [[پاکستان]]، [[افغانستان]] اور [[جمهوری اسلامی ایران|ایران]] کے طلباء ہوتے تھے جن میں ایرانی طلباء کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی اور زیادہ تر اساتذہ بھی ایرانی تھے، صرف آیت اللہ حکیم عراقی مجتہد تھے اور وہی مرجع تقلید تھے وگرنہ تمام اساتذہ بھی عموماً ایرانی ہی تھے جو فارسی میں پڑھاتے تھے۔ جب علامہ صاحب نے درسی کتب ختم کرلیں تو اس کے بعد آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں شرکت کرنے لگے آیت اللہ خوئی عربی میں درس خارج دیتے تھے، جبکہ وہاں عرب طلباء بھی ہوتے تھے اور ایرانی بھی اور اردو بولنے والے بھی، پھر آیت اللہ سید باقر الصدر نے بھی درس خارج شروع کیا تو ان کے درس میں بھی علامہ صاحب جاتے تھے ان دنوں آیت اللہ خوئی کا فقہ کا درس ہوتا تھا اور آیت اللہ باقر الصدر کا اصول کا درس ہوتا تھا <ref>سید عارف حسین نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد/1363ش/1984م، ص266-268۔</ref>۔
حوزہ علمیہ نجف میں ان دنوں زیادہ تر ہندوستان، [[پاکستان]]، [[افغانستان]] اور [[جمهوری اسلامی ایران|ایران]] کے طلباء ہوتے تھے جن میں ایرانی طلباء کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی اور زیادہ تر اساتذہ بھی ایرانی تھے، صرف آیت اللہ حکیم عراقی مجتہد تھے اور وہی مرجع تقلید تھے وگرنہ تمام اساتذہ بھی عموماً ایرانی ہی تھے جو فارسی میں پڑھاتے تھے۔ جب علامہ صاحب نے درسی کتب ختم کرلیں تو اس کے بعد آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں شرکت کرنے لگے آیت اللہ خوئی عربی میں درس خارج دیتے تھے، جبکہ وہاں عرب طلباء بھی ہوتے تھے اور ایرانی بھی اور اردو بولنے والے بھی، پھر آیت اللہ سید باقر الصدر نے بھی درس خارج شروع کیا تو ان کے درس میں بھی علامہ صاحب جاتے تھے ان دنوں آیت اللہ خوئی کا فقہ کا درس ہوتا تھا اور آیت اللہ باقر الصدر کا اصول کا درس ہوتا تھا <ref>سید عارف حسین نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد/1363ش/1984م، ص266-268۔</ref>۔
=== عربی کتاب کی تصنیف ===
دوران تعلیم آپ نے بعنوان '''النہج السوی فی معنی مولیٰ والولی''' عربی زبان میں ایک اہم کتاب لکھی۔ اس کتاب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کی تقریظ نامور عالم دین جناب بزرگ طہرانی نے لکھی جبکہ نجف اشرف کے اساتذہ و اہل فکر عربی دان طبقے میں اس کو بے حد پذیرائی ملی۔ اس کا کتاب فارسی میں بھی '''پژوهشی پیرامون معنی مولا و ولی''' کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے جس کا مترجم سید مرتضی موسوی ہے <ref>[https://www.gisoom.com/book/1212057/%DA%A9%D8%AA%D8%A7%D8%A8-%D8%B1%D8%A7%D9%87-%D8%B3%D8%A8%D8%B2-%D8%A2%D8%B3%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%AA%D8%B1%D8%AC%D9%85%D9%87-%DA%A9%D8%AA%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%86%D9%87%D8%AC-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%88%DB%8C-%D9%81% gisoom.com]</ref>۔
=== نجف اشرف سے واپسی ===
آپ نجف اشرف میں پوری یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ خرمن علم سے خوشہ چینی کر رہے تھے کہ یکایک عراق کے اندرونی حالات نے پلٹا کھایا اور صدام ملعون نے دینی مراکز پر شب خون مارنا روز کا معمول بنا لیا ایسے میں سلسلہ درس و تدریس رک گیا اور حوزہ علمیہ میں معمولات زندگی اجیرن بنا دیے گئے۔ چنانچہ بادل نخواستہ علامہ صاحب کو حوزہ علمیہ نجف اشرف کو خیرباد کہہ کر اسلام آباد آنا پڑا۔


== حوالہ جات==  
== حوالہ جات==