Jump to content

"محسن علی نجفی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 12: سطر 12:


آپ پوری یکسوئی کے ساتھ لاہور میں زیر تعلیم تھے کہ یکایک ان کے دل میں ایک روشنی سی اتری اور چشم تصور میں انھیں حوزہ علمیہ نجف اشرف جگمگاتا دکھائی دینے لگا۔ علامہ صاحب کے والد صاحب تو اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے ایسے میں انہیں حصول علم کے لئے بہتر تعلیمی ادارے بتانے اور بہتر مستقبل کی جانب راہنمائی کرنے والا کوئی بھی نہ تھا یہاں تک کہ کسی نے نہ شوق دلایا اور نہ ہی کسی نے کوئی وسائل فراہم کئے بس بے سرو سامانی کے عالم میں وہ جگہ جگہ خود قیام کرتے تھے اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنا ہر فیصلہ خود کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کا اس وقت نجف اشرف جانے کا فیصلہ بروقت تھا چنانچہ انھوں نے جب لاہور سے نجف جانے کا ارادہ کیا تو ایک بار پھر کراچی میں اپنے چچا کے پاس پہنچے اس وقت ان کے چچا کے مالی حالات پورا کرایہ دینے کے تو نہ تھے البتہ انہوں نے تھوڑا سا کرایہ دے دیا جسے لے کر خدا کے سہارے علامہ صاحب اور ان کی اہلیہ کسی نہ کسی طرح نجف اشرف پہنچ ہی گئے <ref>سید عارف حسین نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد/1363ش/1984م، ص266-268۔</ref>۔
آپ پوری یکسوئی کے ساتھ لاہور میں زیر تعلیم تھے کہ یکایک ان کے دل میں ایک روشنی سی اتری اور چشم تصور میں انھیں حوزہ علمیہ نجف اشرف جگمگاتا دکھائی دینے لگا۔ علامہ صاحب کے والد صاحب تو اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے ایسے میں انہیں حصول علم کے لئے بہتر تعلیمی ادارے بتانے اور بہتر مستقبل کی جانب راہنمائی کرنے والا کوئی بھی نہ تھا یہاں تک کہ کسی نے نہ شوق دلایا اور نہ ہی کسی نے کوئی وسائل فراہم کئے بس بے سرو سامانی کے عالم میں وہ جگہ جگہ خود قیام کرتے تھے اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنا ہر فیصلہ خود کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کا اس وقت نجف اشرف جانے کا فیصلہ بروقت تھا چنانچہ انھوں نے جب لاہور سے نجف جانے کا ارادہ کیا تو ایک بار پھر کراچی میں اپنے چچا کے پاس پہنچے اس وقت ان کے چچا کے مالی حالات پورا کرایہ دینے کے تو نہ تھے البتہ انہوں نے تھوڑا سا کرایہ دے دیا جسے لے کر خدا کے سہارے علامہ صاحب اور ان کی اہلیہ کسی نہ کسی طرح نجف اشرف پہنچ ہی گئے <ref>سید عارف حسین نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد/1363ش/1984م، ص266-268۔</ref>۔
=== نجف اشرف میں قیام ===
نجف پہنچنے کے بعد حوزہ میں داخلے کا مسئلہ درپیش آیا وہاں ان دنوں لاہور کے مولانا صادق علی مرحوم، [[آیت اللہ حکیم]] رحمۃ اللہ علیہ کے دفتر میں کام کرتے تھے وہ ان کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ وہ پاکستان سے آئے ہیں اگرچہ وہاں امتحان لے کر شہریہ دیا جاتا تھا تاہم کیونکہ آپ مکاسب پڑھتے تھے اس لیے ان کا دو دینار یعنی (تقریباً) چالیس روپے شہریہ لگا دیا گیا۔
حوزہ علمیہ نجف میں ان دنوں زیادہ تر ہندوستان، [[پاکستان]]، [[افغانستان]] اور [[جمهوری اسلامی ایران|ایران]] کے طلباء ہوتے تھے جن میں ایرانی طلباء کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی اور زیادہ تر اساتذہ بھی ایرانی تھے، صرف آیت اللہ حکیم عراقی مجتہد تھے اور وہی مرجع تقلید تھے وگرنہ تمام اساتذہ بھی عموماً ایرانی ہی تھے جو فارسی میں پڑھاتے تھے۔ جب علامہ صاحب نے درسی کتب ختم کرلیں تو اس کے بعد آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں شرکت کرنے لگے آیت اللہ خوئی عربی میں درس خارج دیتے تھے، جبکہ وہاں عرب طلباء بھی ہوتے تھے اور ایرانی بھی اور اردو بولنے والے بھی، پھر آیت اللہ سید باقر الصدر نے بھی درس خارج شروع کیا تو ان کے درس میں بھی علامہ صاحب جاتے تھے ان دنوں آیت اللہ خوئی کا فقہ کا درس ہوتا تھا اور آیت اللہ باقر الصدر کا اصول کا درس ہوتا تھا <ref>سید عارف حسین نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد/1363ش/1984م، ص266-268۔</ref>۔


== حوالہ جات==  
== حوالہ جات==