Jump to content

"طوفان الاقصی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 56: سطر 56:
انہوں نے غزہ کی پٹی پر رہائش پذیر فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کو نہتے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی غاصب حکومت کی جارحیت کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔
انہوں نے غزہ کی پٹی پر رہائش پذیر فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کو نہتے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی غاصب حکومت کی جارحیت کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔
===امت واحده پاکستان ===
===امت واحده پاکستان ===
امت واحدہ پاکستان کے سربراہ نے طوفان الاقصی آپریشن اور موجودہ فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے حوزہ نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کی ہے۔
امت واحدہ [[پاکستان]] کے سربراہ نے طوفان الاقصی آپریشن اور موجودہ [[فلسطین]] کی صورتحال کے حوالے سے حوزہ نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کی ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے طوفان الاقصی آپریشن اور موجودہ فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کو انٹرویو دیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے طوفان الاقصی آپریشن اور موجودہ فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کو انٹرویو دیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:


* سوال: اسرائیل و فلسطین جنگ کی کیا وجہ ہے؟ اس میں اسرائیل کا کیا رول ہے اور حماس نے یہ حملہ کیوں کیا؟
* سوال: اسرائیل و فلسطین جنگ کی کیا وجہ ہے؟ اس میں اسرائیل کا کیا رول ہے اور حماس نے یہ حملہ کیوں کیا؟


علامہ امین شہیدی: پوری دنیا کی طاقتوں نے مل کر 18ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انہوں نے ہر صورت میں فلسطین کی سرزمین کو فلسطینیوں سے لے کر یہودیوں کے حوالے کرنا ہے اور اس کے لئے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے تمام ممالک نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ 1917ء میں انہوں نے اعلامیہ بالفور (Balfour Declaration)کے ذریعہ باقاعدہ اس کا اعلان کر دیا کہ وہ آہستہ آہستہ سرزمینِ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی بنیاد فراہم کرتے چلیں گے۔ پھر 1948ء میں انہوں نے ایک غاصب ریاست کی تشکیل کے حوالے سے اعلان کر دیا جس کا نام "اسرائیل" رکھا گیا۔ صورتحال یہ تھی کہ اس میں سب سے زیادہ رول برطانیہ، فرانس، امریکہ اور یورپ نے ادا کیا۔ اقوامِ متحدہ نے چونکہ اس سرزمین کو برطانیہ کے حوالے کر دیا تھا کہ آپ اس کو کنٹرول کریں گے تو انہوں نے فلسطینیوں کو دبا کر اور باہر سے یہاں یہودیوں کو لا کر کے آباد کیا اور اقوامِ متحدہ ہی کے ذریعہ سے فلسطین کی 57 فیصد زمین ان کے حوالے کر دی۔ اس کے نتیجہ میں اسرائیلیوں کو ایک نئی ریاست کے قیام کا موقع مل گیا جس کی پشت پر پوری مغربی دنیا موجود تھی۔
علامہ امین شہیدی: پوری دنیا کی طاقتوں نے مل کر 18ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انہوں نے ہر صورت میں فلسطین کی سرزمین کو فلسطینیوں سے لے کر یہودیوں کے حوالے کرنا ہے اور اس کے لئے [[امریکہ]]، برطانیہ اور یورپ کے تمام ممالک نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ 1917ء میں انہوں نے [[اعلامیہ بالفور]] (Balfour Declaration)کے ذریعہ باقاعدہ اس کا اعلان کر دیا کہ وہ آہستہ آہستہ سرزمینِ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی بنیاد فراہم کرتے چلیں گے۔ پھر 1948ء میں انہوں نے ایک غاصب ریاست کی تشکیل کے حوالے سے اعلان کر دیا جس کا نام '''اسرائیل''' رکھا گیا۔ صورتحال یہ تھی کہ اس میں سب سے زیادہ رول برطانیہ، [[فرانس]]، امریکہ اور یورپ نے ادا کیا۔ اقوامِ متحدہ نے چونکہ اس سرزمین کو برطانیہ کے حوالے کر دیا تھا کہ آپ اس کو کنٹرول کریں گے تو انہوں نے فلسطینیوں کو دبا کر اور باہر سے یہاں یہودیوں کو لا کر کے آباد کیا اور اقوامِ متحدہ ہی کے ذریعہ سے فلسطین کی 57 فیصد زمین ان کے حوالے کر دی۔ اس کے نتیجہ میں اسرائیلیوں کو ایک نئی ریاست کے قیام کا موقع مل گیا جس کی پشت پر پوری مغربی دنیا موجود تھی۔


اسرائیل کی تشکیل کے اصل ہدف دو تھے۔ ایک ہدف تو یہ تھا کہ اس خطے میں چونکہ تیل کے ذخائر، معدنیات کے ذخائر اور بہت بڑے گیس کے ذخائر اس کے علاوہ اس علاقہ میں کئی دیگر قدرتی ذخائر بے تحاشا موجود ہیں تو اس علاقہ کو وہ جب جنگوں کا مرکز بنا دیں گے اور انہیں ہمیشہ آپس میں جھگڑوں اور مسائل کا شکار رکھیں گے تو نتیجتاً اس علاقے میں ترقی نہیں ہو گی اور جب ترقی نہیں ہو گی، علم آگے نہیں بڑھے گا، علمی اور ثقافتی حوالے سے جب وہاں کی ثقافت ترقی نہیں کرے گی تو نتیجتاً مغربی ممالک کو اس علاقہ پر قبضہ کرنے کا موقع ملے گا اور اس کے لئے یہاں پر جھگڑے کی بنیاد قائم کرنا ضروری ہے اور وہ ہے اسرائیل اور یہودی ریاست کا قیام۔
اسرائیل کی تشکیل کے اصل ہدف دو تھے۔ ایک ہدف تو یہ تھا کہ اس خطے میں چونکہ تیل کے ذخائر، معدنیات کے ذخائر اور بہت بڑے گیس کے ذخائر اس کے علاوہ اس علاقہ میں کئی دیگر قدرتی ذخائر بے تحاشا موجود ہیں تو اس علاقہ کو وہ جب جنگوں کا مرکز بنا دیں گے اور انہیں ہمیشہ آپس میں جھگڑوں اور مسائل کا شکار رکھیں گے تو نتیجتاً اس علاقے میں ترقی نہیں ہو گی اور جب ترقی نہیں ہو گی، علم آگے نہیں بڑھے گا، علمی اور ثقافتی حوالے سے جب وہاں کی ثقافت ترقی نہیں کرے گی تو نتیجتاً مغربی ممالک کو اس علاقہ پر قبضہ کرنے کا موقع ملے گا اور اس کے لئے یہاں پر جھگڑے کی بنیاد قائم کرنا ضروری ہے اور وہ ہے اسرائیل اور یہودی ریاست کا قیام۔