Jump to content

"طوفان الاقصیٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 59: سطر 59:
حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے طوفان الاقصی آپریشن اور موجودہ فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کو انٹرویو دیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے طوفان الاقصی آپریشن اور موجودہ فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کو انٹرویو دیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:


سوال: اسرائیل و فلسطین جنگ کی کیا وجہ ہے؟ اس میں اسرائیل کا کیا رول ہے اور حماس نے یہ حملہ کیوں کیا؟
* سوال: اسرائیل و فلسطین جنگ کی کیا وجہ ہے؟ اس میں اسرائیل کا کیا رول ہے اور حماس نے یہ حملہ کیوں کیا؟


علامہ امین شہیدی: پوری دنیا کی طاقتوں نے مل کر 18ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انہوں نے ہر صورت میں فلسطین کی سرزمین کو فلسطینیوں سے لے کر یہودیوں کے حوالے کرنا ہے اور اس کے لئے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے تمام ممالک نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ 1917ء میں انہوں نے اعلامیہ بالفور (Balfour Declaration)کے ذریعہ باقاعدہ اس کا اعلان کر دیا کہ وہ آہستہ آہستہ سرزمینِ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی بنیاد فراہم کرتے چلیں گے۔ پھر 1948ء میں انہوں نے ایک غاصب ریاست کی تشکیل کے حوالے سے اعلان کر دیا جس کا نام "اسرائیل" رکھا گیا۔ صورتحال یہ تھی کہ اس میں سب سے زیادہ رول برطانیہ، فرانس، امریکہ اور یورپ نے ادا کیا۔ اقوامِ متحدہ نے چونکہ اس سرزمین کو برطانیہ کے حوالے کر دیا تھا کہ آپ اس کو کنٹرول کریں گے تو انہوں نے فلسطینیوں کو دبا کر اور باہر سے یہاں یہودیوں کو لا کر کے آباد کیا اور اقوامِ متحدہ ہی کے ذریعہ سے فلسطین کی 57 فیصد زمین ان کے حوالے کر دی۔ اس کے نتیجہ میں اسرائیلیوں کو ایک نئی ریاست کے قیام کا موقع مل گیا جس کی پشت پر پوری مغربی دنیا موجود تھی۔
علامہ امین شہیدی: پوری دنیا کی طاقتوں نے مل کر 18ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انہوں نے ہر صورت میں فلسطین کی سرزمین کو فلسطینیوں سے لے کر یہودیوں کے حوالے کرنا ہے اور اس کے لئے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے تمام ممالک نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ 1917ء میں انہوں نے اعلامیہ بالفور (Balfour Declaration)کے ذریعہ باقاعدہ اس کا اعلان کر دیا کہ وہ آہستہ آہستہ سرزمینِ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی بنیاد فراہم کرتے چلیں گے۔ پھر 1948ء میں انہوں نے ایک غاصب ریاست کی تشکیل کے حوالے سے اعلان کر دیا جس کا نام "اسرائیل" رکھا گیا۔ صورتحال یہ تھی کہ اس میں سب سے زیادہ رول برطانیہ، فرانس، امریکہ اور یورپ نے ادا کیا۔ اقوامِ متحدہ نے چونکہ اس سرزمین کو برطانیہ کے حوالے کر دیا تھا کہ آپ اس کو کنٹرول کریں گے تو انہوں نے فلسطینیوں کو دبا کر اور باہر سے یہاں یہودیوں کو لا کر کے آباد کیا اور اقوامِ متحدہ ہی کے ذریعہ سے فلسطین کی 57 فیصد زمین ان کے حوالے کر دی۔ اس کے نتیجہ میں اسرائیلیوں کو ایک نئی ریاست کے قیام کا موقع مل گیا جس کی پشت پر پوری مغربی دنیا موجود تھی۔
سطر 87: سطر 87:
تو اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حماس کے اس قدم نے یہ ثابت کیا کہ حماس کے اس آپریشن نے کتنے بڑے فوائد حاصل کئے اگرچہ اس کی قیمت دینی پڑی، اگرچہ اسرائیلیوں نے 5ہزار سے زیادہ نہتے لوگوں کو شہید کیا، اگرچہ اسرائیلیوں نے مختلف بلڈنگز گرائیں، انفراسٹرکچر کو تباہ کیا لیکن دنیا کے سامنے اسرائیل بے نقاب بھی ہوا اور اسرائیل کی ہمدردی کے جو جذبات یورپ وغیرہ میں تھے وہ بھی ختم ہوئے اور خود فلسطینیوں کو یہ احساس ہوا کہ ہم نے ہر صورت میں مقابلہ کرنا ہے، مقاومت کرنی ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے۔
تو اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حماس کے اس قدم نے یہ ثابت کیا کہ حماس کے اس آپریشن نے کتنے بڑے فوائد حاصل کئے اگرچہ اس کی قیمت دینی پڑی، اگرچہ اسرائیلیوں نے 5ہزار سے زیادہ نہتے لوگوں کو شہید کیا، اگرچہ اسرائیلیوں نے مختلف بلڈنگز گرائیں، انفراسٹرکچر کو تباہ کیا لیکن دنیا کے سامنے اسرائیل بے نقاب بھی ہوا اور اسرائیل کی ہمدردی کے جو جذبات یورپ وغیرہ میں تھے وہ بھی ختم ہوئے اور خود فلسطینیوں کو یہ احساس ہوا کہ ہم نے ہر صورت میں مقابلہ کرنا ہے، مقاومت کرنی ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے۔


سوال: حماس کو ظاہری و باطنی طور پر کن لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور اسے سپورٹ کرنے کی وجہ کیا ہے؟
* سوال: حماس کو ظاہری و باطنی طور پر کن لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور اسے سپورٹ کرنے کی وجہ کیا ہے؟


علامہ امین شہیدی: فلسطین ایک اسلامی، قرآنی اور دینی نبوی (ص) کا ایشو ہے۔ یہ کسی خاص قوم، نسل اور جغرافیا کا ایشو نہیں ہے۔ اس لئے بیت المقدس کے مسئلہ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنیں فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتی ہیں۔ لہذا پوری دنیا کے مسلمان فلسطینیوں کے حق اور حمایت میں کھڑے ہیں، اگرچہ مختلف ممالک کے حکمران اور ان کا رخ اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی طرف ہے لیکن اسی ملک کے عوام کے دلوں کا رخ فلسطینیوں کی طرف ہے اور اس کی زندہ مثال آپ کو اسلامی ممالک میں ہونے والے بڑے اور عظیم مظاہرے ہیں جیسے صنعا میں تاریخ کا عظیم ترین مظاہرہ ہوا، بغداد میں تاریخ کا عظیم ترین مظاہرہ ہوا، تہران، مشہد اور قم میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں باہر آئے، پاکستان کے اندر آپ نے لوگوں کو باہر آتے ہوئے دیکھا، اسی طرح باقی اسلامی ممالک میں لوگوں نے اپنے جذبات کا مظاہرہ کیا اور فلسطینیوں سے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔
علامہ امین شہیدی: فلسطین ایک اسلامی، قرآنی اور دینی نبوی (ص) کا ایشو ہے۔ یہ کسی خاص قوم، نسل اور جغرافیا کا ایشو نہیں ہے۔ اس لئے بیت المقدس کے مسئلہ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنیں فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتی ہیں۔ لہذا پوری دنیا کے مسلمان فلسطینیوں کے حق اور حمایت میں کھڑے ہیں، اگرچہ مختلف ممالک کے حکمران اور ان کا رخ اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی طرف ہے لیکن اسی ملک کے عوام کے دلوں کا رخ فلسطینیوں کی طرف ہے اور اس کی زندہ مثال آپ کو اسلامی ممالک میں ہونے والے بڑے اور عظیم مظاہرے ہیں جیسے صنعا میں تاریخ کا عظیم ترین مظاہرہ ہوا، بغداد میں تاریخ کا عظیم ترین مظاہرہ ہوا، تہران، مشہد اور قم میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں باہر آئے، پاکستان کے اندر آپ نے لوگوں کو باہر آتے ہوئے دیکھا، اسی طرح باقی اسلامی ممالک میں لوگوں نے اپنے جذبات کا مظاہرہ کیا اور فلسطینیوں سے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔
سطر 95: سطر 95:
اس موقع پر رہبر معظم کی حکمتِ عملی ایرانی اور اسلامی انقلاب کے حامیوں اور سرکردہ لیڈرز کی بردباری، عمیق سوچ اور حکمتِ عملی کے ساتھ فلسطینیوں کی گام بہ گام اور قدم بہ قدم حمایت اور مدد کے لئے یقینا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔
اس موقع پر رہبر معظم کی حکمتِ عملی ایرانی اور اسلامی انقلاب کے حامیوں اور سرکردہ لیڈرز کی بردباری، عمیق سوچ اور حکمتِ عملی کے ساتھ فلسطینیوں کی گام بہ گام اور قدم بہ قدم حمایت اور مدد کے لئے یقینا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔


سوال: اسرائیل کو جو لوگ سپورٹ کر رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
* سوال: اسرائیل کو جو لوگ سپورٹ کر رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟


علامہ امین شہیدی: یورپ اور امریکہ کے مفادات اس خطے کے اندر ہیں، اس خطے کے اندر جتنے بھی ممالک ہیں وہ انہیں اگر انڈر پریشر رکھنا چاہیں تو ان کے سر پر کسی کا جوتا ہونا ضروری ہے تاکہ ہمیشہ ان کو یہ خطرہ ہو کہ انہیں کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ تو اس کے لئے اسرائیل کا وجود اور اس کی بقا یورپ اور امریکہ کے لئے بہت ہی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورا یورپ اور پورا امریکہ بلا کسی تأمل اور اختلاف کے سب کھل کر اسرائیلیوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ لہذا اس جنگ میں بھی آپ نے دیکھا کہ برطانیہ کے وزیراعظم نے اسرائیل آکر اور کھل کر ان کو سپورٹ کیا، امریکہ کے صدر اور وزیرخارجہ نے آ کر کھل کر ان کو سپورٹ کیا۔ یہاں تک کہ امریکی وزیرخارجہ نے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کو خود جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے ہم آپ کی جگہ جنگ لڑیں گے۔ انہوں نے اپنے طور پر بحری بیڑے بھی بھیجے اور ہزاروں اپنے جنگجو فوجی اور سپاہی بھی بھیجے تاکہ حماس کا راستہ روکا جا سکے۔ یہ جو حمایت ہے وہ اسی لئے ہے کہ اس خطے سے اگر امریکی اثر و رسوخ کو ختم کیا جا سکتا ہے تو اس کی ابتدا اسرائیل سے ہو گی اور اسرائیل کے خاتمے کا مطلب ہے امریکہ، یورپ اور مغربی دنیا کا اس علاقے سے اثر و رسوخ کا خاتمہ۔
علامہ امین شہیدی: یورپ اور امریکہ کے مفادات اس خطے کے اندر ہیں، اس خطے کے اندر جتنے بھی ممالک ہیں وہ انہیں اگر انڈر پریشر رکھنا چاہیں تو ان کے سر پر کسی کا جوتا ہونا ضروری ہے تاکہ ہمیشہ ان کو یہ خطرہ ہو کہ انہیں کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ تو اس کے لئے اسرائیل کا وجود اور اس کی بقا یورپ اور امریکہ کے لئے بہت ہی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورا یورپ اور پورا امریکہ بلا کسی تأمل اور اختلاف کے سب کھل کر اسرائیلیوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ لہذا اس جنگ میں بھی آپ نے دیکھا کہ برطانیہ کے وزیراعظم نے اسرائیل آکر اور کھل کر ان کو سپورٹ کیا، امریکہ کے صدر اور وزیرخارجہ نے آ کر کھل کر ان کو سپورٹ کیا۔ یہاں تک کہ امریکی وزیرخارجہ نے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کو خود جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے ہم آپ کی جگہ جنگ لڑیں گے۔ انہوں نے اپنے طور پر بحری بیڑے بھی بھیجے اور ہزاروں اپنے جنگجو فوجی اور سپاہی بھی بھیجے تاکہ حماس کا راستہ روکا جا سکے۔ یہ جو حمایت ہے وہ اسی لئے ہے کہ اس خطے سے اگر امریکی اثر و رسوخ کو ختم کیا جا سکتا ہے تو اس کی ابتدا اسرائیل سے ہو گی اور اسرائیل کے خاتمے کا مطلب ہے امریکہ، یورپ اور مغربی دنیا کا اس علاقے سے اثر و رسوخ کا خاتمہ۔
سطر 103: سطر 103:
اس لئے اس وقت موجود عرب حکمران اپنے آقا برطانیہ اور امریکہ کے اشارے اور اپنے مفادات کی خاطر فلسطینیوں کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے کے لئے ہمیشہ تیار نظر آتے ہیں اور اسرائیلیوں اور اس غاصب ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔
اس لئے اس وقت موجود عرب حکمران اپنے آقا برطانیہ اور امریکہ کے اشارے اور اپنے مفادات کی خاطر فلسطینیوں کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے کے لئے ہمیشہ تیار نظر آتے ہیں اور اسرائیلیوں اور اس غاصب ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔


سوال: آپ کی نظر میں یہ جنگ مزید کتنا آگے جائے گی اور اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ اور یہ جنگ کیسے رک سکتی ہے؟
* سوال: آپ کی نظر میں یہ جنگ مزید کتنا آگے جائے گی اور اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ اور یہ جنگ کیسے رک سکتی ہے؟


علامہ امین شہیدی: اس دفعہ جس طرح اسرائیل نے ردعمل دکھایا ہے وہ اس کی بوکھلاہٹ اور اس کی انتہا درجہ کی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا یہ ردعمل دکھاتا ہے کہ حماس نے بہت ہی کاری ضرب لگائی ہے جس کی انہیں کوئی توقع نہیں تھی۔
علامہ امین شہیدی: اس دفعہ جس طرح اسرائیل نے ردعمل دکھایا ہے وہ اس کی بوکھلاہٹ اور اس کی انتہا درجہ کی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا یہ ردعمل دکھاتا ہے کہ حماس نے بہت ہی کاری ضرب لگائی ہے جس کی انہیں کوئی توقع نہیں تھی۔
سطر 113: سطر 113:
لیکن ان تمام قربانیوں کے باوجود فلسطینی ہمت ہارنے والے نہیں ہیں۔وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے ان شاء اللہ تعالی۔ آکرکار اسرائیلیوں کو رکنا بھی پڑے گا اور معافی بھی مانگنی پڑے گی چونکہ اس وقت اقوامِ عالم کی طرف سے جو ان پر پریشر ہے اور اخلاقی دباؤ ہے وہ کوئی معمولی دباؤ نہیں ہے۔ جیسے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل پر کھل کر تنقید کی اور حماس کے حملے کو گذشتہ پچاس سالوں میں ہونے والے ظلم و جبر کا نتیجہ قرار دیا اور اسرائیل کو من حیث غاصب ریاست اور اور بچوں اور عورتوں کا قاتل قرار دیا یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی مثالیں آپ کو نہیں ملیں گے۔ لہذا جتنے بھی دن گزریں گے صہیونیوں اور امریکیوں پر پریشر بڑھتا چلا جائے گا اور اس کے نتیجہ میں عائے عامہ میں ان کا چہرہ مسخ سے مسخ تر ہوتا چلا جائے گا۔اور جنگ تو رکنی ہے لیکن جب جنگ رکے گی تو اسرائیلیوں کو بہت کچھ واپس بھی دینا پڑے گا اور کمپرومائز بھی کرنا پڑے گا۔
لیکن ان تمام قربانیوں کے باوجود فلسطینی ہمت ہارنے والے نہیں ہیں۔وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے ان شاء اللہ تعالی۔ آکرکار اسرائیلیوں کو رکنا بھی پڑے گا اور معافی بھی مانگنی پڑے گی چونکہ اس وقت اقوامِ عالم کی طرف سے جو ان پر پریشر ہے اور اخلاقی دباؤ ہے وہ کوئی معمولی دباؤ نہیں ہے۔ جیسے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل پر کھل کر تنقید کی اور حماس کے حملے کو گذشتہ پچاس سالوں میں ہونے والے ظلم و جبر کا نتیجہ قرار دیا اور اسرائیل کو من حیث غاصب ریاست اور اور بچوں اور عورتوں کا قاتل قرار دیا یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی مثالیں آپ کو نہیں ملیں گے۔ لہذا جتنے بھی دن گزریں گے صہیونیوں اور امریکیوں پر پریشر بڑھتا چلا جائے گا اور اس کے نتیجہ میں عائے عامہ میں ان کا چہرہ مسخ سے مسخ تر ہوتا چلا جائے گا۔اور جنگ تو رکنی ہے لیکن جب جنگ رکے گی تو اسرائیلیوں کو بہت کچھ واپس بھی دینا پڑے گا اور کمپرومائز بھی کرنا پڑے گا۔


سوال: اس جنگ میں ایران، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای، یو ایس اے، جیسے ممالک کا کیا رول ہے؟
* سوال: اس جنگ میں ایران، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای، یو ایس اے، جیسے ممالک کا کیا رول ہے؟


علامہ امین شہیدی: جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ ایران کا رول بالکل واضح ہے کہ انقلابِ اسلامی کے بعد اس نے فلسطین کی مکمل حمایت کی ہے اور دنیا بھر میں من حیث ریاست اور من حیث نظریہ ان کا سب سے بڑا مدافع ایران ہے۔
علامہ امین شہیدی: جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ ایران کا رول بالکل واضح ہے کہ انقلابِ اسلامی کے بعد اس نے فلسطین کی مکمل حمایت کی ہے اور دنیا بھر میں من حیث ریاست اور من حیث نظریہ ان کا سب سے بڑا مدافع ایران ہے۔
confirmed
2,506

ترامیم