3,523
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 149: | سطر 149: | ||
مزاحمتی علماء یونین کے سربراہ نے سورہ فرقان کی آیت 30 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:قرآن مجید کہتا ہے: وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا، جب کہ ٹیلی ویژن چینلز وغیرہ پر [[قرآن |قرآن مجید]] کی چوبیس گھنٹے تلاوت ہوتی رہتی ہے اور دنیا کی تمام زبانوں میں اس کے مفت نسخے تقسیم کئے گئے پھر بھی اسے ترک ’’مہجور‘‘کر دیا گیا ، اب آپ خود ہی سوچیں کہ جہاد اور اسلامی اخوت اور بھائی چارہ کو اسلامی ممالک میں بالکل ہی معطل کر دیا گیا، لہذا اب وقت ہے کہ مسلمان اپنے اندر ایسے اوصاف اور ایجاد کریں اور اس درجے پر پہنچ جائیں کہ لوگ خود کہیں کہ یہ بہترین امت ہے، ایک ایسی امت جو اب تک روئے زمیں پر پیدا ہی نہیں ہوئی تھی | مزاحمتی علماء یونین کے سربراہ نے سورہ فرقان کی آیت 30 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:قرآن مجید کہتا ہے: وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا، جب کہ ٹیلی ویژن چینلز وغیرہ پر [[قرآن |قرآن مجید]] کی چوبیس گھنٹے تلاوت ہوتی رہتی ہے اور دنیا کی تمام زبانوں میں اس کے مفت نسخے تقسیم کئے گئے پھر بھی اسے ترک ’’مہجور‘‘کر دیا گیا ، اب آپ خود ہی سوچیں کہ جہاد اور اسلامی اخوت اور بھائی چارہ کو اسلامی ممالک میں بالکل ہی معطل کر دیا گیا، لہذا اب وقت ہے کہ مسلمان اپنے اندر ایسے اوصاف اور ایجاد کریں اور اس درجے پر پہنچ جائیں کہ لوگ خود کہیں کہ یہ بہترین امت ہے، ایک ایسی امت جو اب تک روئے زمیں پر پیدا ہی نہیں ہوئی تھی | ||
<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/398064/] مسجد الحرام میں فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی /مزاحمتی علماء یونین کے سربراہ سخت برہم] hawzahnews.com-شائع شدہ:12اپریل 2024ء-اخذ شدہ:13اپریل 2024ء۔</ref>۔ | <ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/398064/] مسجد الحرام میں فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی /مزاحمتی علماء یونین کے سربراہ سخت برہم] hawzahnews.com-شائع شدہ:12اپریل 2024ء-اخذ شدہ:13اپریل 2024ء۔</ref>۔ | ||
== امریکہ نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی درخواست کو ویٹو کردیا == | |||
اس قرارداد کو امریکہ ویٹو کر دیا جس میں فلسطین کی اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ | |||
پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں ریاست فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی قرارداد کے حق میں بارہ ووٹ پڑے جبکہ دو ارکان برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکی ویٹو کے بعد اقوام متحدہ میں فلسطین کی باقاعدہ رکنیت کی قراردا۔ اب جنرل اسمبلی میں رائے شماری کے لیے پیش نہیں کی جا سکے گی۔ | |||
فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت دینے کی قرارداد سلامتی کونسل میں الجزائر کی طرف سے پیش کی گئی تھی، قرارداد کا مسودہ سلامتی کونسل کی تاریخ کی مختصر ترین قراردادوں میں سے ایک تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی رکنیت کی ریاست فلسطین کی درخواست کا جائزہ لینے کے بعد جنرل اسمبلی کو سفارش کرتی ہے کہ وہ اسے منظور کرے۔ | |||
الجزائر کے مستقل مندوب عمار بن جامع نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا:کہ فلسطین کو مستقل رکنیت دینے سے طویل ناانصافی کا خاتمہ ہوگا اور اس سے یہ واضح پیغام جائے گا کہ عالمی برادری فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ | |||
اس قرارداد کے حق میں روس، چین، فرانس، الجزائر، مالٹا، موزمبیق، گیانا، ایکواڈور، جاپان، جنوبی کوریا، سری لیون، اور سلوینیا نے ووٹ دیا۔ | |||
پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں کسی بھی قرارداد کی منظوری کے لیے کم از کم نو ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ اسے پانچ مستقل ارکان امریکہ، روس، برطانیہ، چین، اور فرانس میں سے کسی ایک کی بھی مخالفت (ویٹو) کا سامنا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ | |||
فلسطین کو اقوام متحدہ میں 'مستقل مشاہدہ کار ریاست' کا درجہ حاصل ہے۔ اس حیثیت سے وہ ادارے کے تمام اجلاسوں میں شرکت کر سکتا ہے لیکن اسے کسی قرارداد پر ووٹ دینے اور سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی اور اس کی چھ مرکزی کمیٹیوں میں ہونے والی فیصلہ سازی میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ | |||
2 اپریل 2024 کو فلسطین نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ ادارے کی مکمل رکنیت کے لیے اس کی درخواست پر دوبارہ غور کیا جائے جو ابتداً 2011 میں جمع کرائی گئی تھی۔ | |||
ریاست فلسطین کی باقاعدہ رکنیت کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد سلامتی کونسل میں اپنے خطاب میں امریکی نائب مستقل مندوب رابرٹ ووڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد ویٹو کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ فلسطینی ریاست کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کا ان کا ملک فلسطینی اتھارٹی کو ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ اصلاحات کا کہتا آ رہا ہے اور دوسرا [[حماس]]، [[غزہ]] میں اثرورسوخ رکھتی ہے جو کہ قرارداد کے مطابق فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔ | |||
اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندہ ویزلے نبینزیا نے اپنے خطاب میں کہا: کہ غزہ کے موجودہ بحران کے دوران یہ پانچواں موقع ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل میں قراردادوں کو ویٹو کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کا ویٹو ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں فلسطینوں کو علیحدہ ریاست کا حق نہیں ملنا چاہیے۔ روسی سفیر کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی غالب اکثریت فلسطینی ریاست اور اس کی اقوام متحدہ میں باقاعدہ رکنیت کے حق میں ہے اور امریکہ اس حوالے سے تنہائی کا شکار ہے۔ | |||
چین کے سفیر فو کانگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت کا فلسطینی خواب آج پھر چکناچور ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تیرہ سالوں میں فلسطینی علاقوں پر جاری قبضوں کی وجہ سے صورتحال بدل چکی ہے اور ایسے میں فلسطینیوں کی عملدآری پر سوال اٹھانا قابل قبول نہیں۔ چینی سفیر نے کہا کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت دینے سے مسئلے کے دو ریاستی حل کے لیے اسرائیل سے مذاکرات کرنے میں مدد ملے گی۔ | |||
واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ صحیح جگہ نہیں ہے اور یہ [[اسرائیل]] اور فلسطینیوں کے درمیان ایک معاہدے کے ذریعے حاصل کیا جانا چاہیے، دوسری جانب، امریکہ نے سعودی عرب سے وعدہ کیا ہے کہ اگر سعودی اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے رضامندی ظاہر کرتا ہے تو امریکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کی کوشش کرے گا <ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/398243/ امریکہ نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی درخواست کو ویٹو کردیا]-hawzahnews.com-شائع شدہ از:19اپریل 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:20اپریل 2024ء۔</ref>۔ | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == |