4,447
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 47: | سطر 47: | ||
* ابن ماجہ | * ابن ماجہ | ||
{{اختتام}} | {{اختتام}} | ||
پہلا طبقہ | == پہلا طبقہ == | ||
جو حدیث کی کتب طبقہ اول میں اعلیٰ درجہ کی ہے وہ تواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہے طلبقہ اول کی تین احادیث کی کتب میں موطا امام مالک، صحیح بخاری ہی مسلمان میں متواتر صحیح اور حسن ہر قسم کی حدیثیں پائی جاتی ہیں۔ | |||
== دوسرا طبقہ == | |||
ان حدیث کی کتب میں جو کتاب طبقہ اولی کے درجے تک نہیں پہنچتی لیکن طبقہ اولی کے قریب قریب ہیں اس طبقہ میں سنن ابوداؤد، جامع ترندی اور نسائی میں مسند احمد بن حنبل بھی تقریبا اس طبقے کی ہیں۔ متاخرین نے ان کو قبول عام کی سند دے دی ہے اور ضعیف کے باوجود ان سے کثیر علوم واحکام اخذ کئے ہیں ان میں عقائد و شریعت کے اصول و استنباط کرتے ہیں ۔ | |||
== تیسرا طبقہ == | |||
وہ تصانیف جو بخاری سے قبل یا ان کے زمانہ میں یا ان کے بعد تصنیف ہوئیں ان کی تمام قسمیں ضعیف، معروف، غریب، شاذ ، منکر ، خطا ، ثواب اس میں ہر قسم کی حدیث شامل ہے ان کے اکثر راوی مستور الحال ہیں۔ | |||
== چوتھا طبقہ == | |||
اس طبقہ میں وہ نا قابل اعتماد کتب شامل ہیں جو پچھلے ادوار میں افسانہ کو واعظوں، صوفیوں، مورخین اور غیر عادل اصحاب بدعت سے حدیثیں سن کر تصنیف حدیث شامل ہے ان کے اکثر راوی مستور الحال ہیں ۔ کی گئی ہیں۔ حدیث کی دو اقسام بہت مشہور ہیں: ۱- متواتر ۲- آحاد | |||
== متواتر حدیث == | |||
یہ وہ حدیث ہے جس کو ہر زمانہ میں راویوں نے کثرت سے روایت کیا ہو سب راویوں کا کسی جھوٹی بات پر متفق ہو جانا عقل کے نزدیک محال ہو۔ اس کی مثال نماز کی رکعتوں والی روایت یا زکوۃ کی مقداروں والی روایت ہو متواتر وہ حدیث ہے جسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے پر امت کا اجماع ہوا ہو۔ اور جس کو مذکورہ جماعت سند کے اول اوسط اور آخر میں ایک ہی قسم کے الفاظ کے ساتھ روایت کرتی ہو مثلا۔ | |||
(1) متواتر حدیث جس میں چاند کے دوٹکڑے ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ | |||
(۲) واقعہ معراج | |||
(۳) متواتر حدیث میں حضور کی شفاعت کا ذکر کیا گیا ہو۔ | |||
(۴) متواتر حدیث جس میں آپ کی انگلیوں سے پانی پھوٹنے لگا اور سب لشکر سیراب ہو گیا ہو۔ | |||
(۵) وہ حدیث جس میں کھجور کے اس تنے کے رونے کا ذکر کیا گیا ہے جس کے ساتھ سہارا لگا کر آپ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ | |||
متواتر حدیث کی حجیت پر سب عقل مند متفق ہیں متواتر کے سوا باقی سب آحاد حدیثیں ہیں۔ | |||
== آحاد == | |||
آحاد حدیث اُس کو کہتے ہیں جن کی روایت میں اتنی کثرت نہ ہو جو کئی طریقوں سے حاصل ہوئی ہو اور ان کے ثبوت میں کوئی شبہ بھی نہ رہا ہو۔ آگے آحاد کی تین قسمیں ہیں۔ | |||
(1) مشہور: جس حدیث کے راوی ہر زمانے میں دو سے زائد رہے ہوں اس کو مشہور حدیث کہتے ہیں۔ | |||
(۲) عزیز: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں کم سے کم دور ہے ہوں اس کو عزیز کہتے ہیں۔ | |||
(۳) غریب: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں ایک رہا ہو غریب“ کہلاتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آئے گا کہ یہ حدیث غریب ہے یہ حدیث مشہور ہے اور یہ حدیث عزیز ہے تو اُس وقت یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ حدیث کی کون کی قسم ہے ۔ مشہور حدیث کی آگے قسمیں ہے ہیں جن کا بہت دفعہ کر آئے گاصیح حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صبح (۲) حسن (۳) ضعیف۔ | |||
== صحیح حدیث == | |||
(صحیح حدیث اس کو کہتے ہیں جن کی سند حسن ہو اور جس کے بارے میں راوی عادل ہوں مجروح ( بد نام ) اور مستور الحال ( گم نام ) نہ ہوں اور مصنف سے رسول اللہ تک سند متصل ہو ( متصل سے مراد یہ ہے کہ سند کہیں سے منقطع نہ ہو ) یعنی سلسلہ روایت کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ اور دوسرے راویوں کی روایت سے نہ ٹکرائے اور اس میں کوئی پوشیدہ سبب موجود نہ ہو۔ صحیح حدیث شاذ نہیں ہوتی شاذ سے مراد ایک راوی اپنے سے بڑے راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل مدینہ نے روایت کیا اس کے بعد اہل بصرہ کا درجہ ہے پھر اہل شام کا صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل حرمین ( مکہ و مدینہ ) نے روایت کیا اور اس میں کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو اور نہ معتبر لوگوں نے مخالفت کی ہو۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ محمد ثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن اور سنت مظہرہ کے خلاف ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری ، مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی روح سے جن احادیث کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی روایت نہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔ (1) حضرت عیسی ابن مریم کا دوبارہ دنیا میں آنا۔ (۲) حضور پر ذاتی حیثیت سے جادو کے چند اثرات کا ہو جانا۔ |