Jump to content

"حدیث" کے نسخوں کے درمیان فرق

13,271 بائٹ کا اضافہ ،  7 فروری
سطر 77: سطر 77:
(۳) غریب: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں ایک رہا ہو غریب“ کہلاتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آئے گا کہ یہ حدیث غریب ہے یہ حدیث مشہور ہے اور یہ حدیث عزیز ہے تو اُس وقت یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ حدیث کی کون کی قسم ہے ۔ مشہور حدیث کی آگے قسمیں ہے ہیں جن کا بہت دفعہ کر آئے گاصیح حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صبح (۲) حسن (۳) ضعیف۔
(۳) غریب: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں ایک رہا ہو غریب“ کہلاتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آئے گا کہ یہ حدیث غریب ہے یہ حدیث مشہور ہے اور یہ حدیث عزیز ہے تو اُس وقت یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ حدیث کی کون کی قسم ہے ۔ مشہور حدیث کی آگے قسمیں ہے ہیں جن کا بہت دفعہ کر آئے گاصیح حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صبح (۲) حسن (۳) ضعیف۔
== صحیح حدیث ==
== صحیح حدیث ==
(صحیح حدیث اس کو کہتے ہیں جن کی سند حسن ہو اور جس کے بارے میں راوی عادل ہوں مجروح ( بد نام ) اور مستور الحال ( گم نام ) نہ ہوں اور مصنف سے رسول اللہ تک سند متصل ہو ( متصل سے مراد یہ ہے کہ سند کہیں سے منقطع نہ ہو ) یعنی سلسلہ روایت کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ اور دوسرے راویوں کی روایت سے نہ ٹکرائے اور اس میں کوئی پوشیدہ سبب موجود نہ ہو۔ صحیح حدیث شاذ نہیں ہوتی شاذ سے مراد ایک راوی اپنے سے بڑے راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل مدینہ نے روایت کیا اس کے بعد اہل بصرہ کا درجہ ہے پھر اہل شام کا صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل حرمین ( مکہ و مدینہ ) نے روایت کیا اور اس میں کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو اور نہ معتبر لوگوں نے مخالفت کی ہو۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ محمد ثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن اور سنت مظہرہ کے خلاف ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری ، مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی روح سے جن احادیث کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی روایت نہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔ (1) حضرت عیسی ابن مریم کا دوبارہ دنیا میں آنا۔ (۲) حضور پر ذاتی حیثیت سے جادو کے چند اثرات کا ہو جانا۔
(صحیح حدیث اس کو کہتے ہیں جن کی سند حسن ہو اور جس کے بارے میں راوی عادل ہوں مجروح ( بد نام ) اور مستور الحال ( گم نام ) نہ ہوں اور مصنف سے رسول اللہ تک سند متصل ہو ( متصل سے مراد یہ ہے کہ سند کہیں سے منقطع نہ ہو ) یعنی سلسلہ روایت کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ اور دوسرے راویوں کی روایت سے نہ ٹکرائے اور اس میں کوئی پوشیدہ سبب موجود نہ ہو۔ صحیح حدیث شاذ نہیں ہوتی شاذ سے مراد ایک راوی اپنے سے بڑے راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل مدینہ نے روایت کیا اس کے بعد اہل بصرہ کا درجہ ہے پھر اہل شام کا صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل حرمین ( مکہ و مدینہ ) نے روایت کیا اور اس میں کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو اور نہ معتبر لوگوں نے مخالفت کی ہو۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ محمد ثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن اور سنت مظہرہ کے خلاف ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری ، مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی روح سے جن احادیث کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی روایت نہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہو:
(1) حضرت عیسی ابن مریم کا دوبارہ دنیا میں آنا۔  
 
(۲) حضور پر ذاتی حیثیت سے جادو کے چند اثرات کا ہو جانا۔
 
(3) دجال سے متعلق ۔
 
(4)عذاب قبر سے متعلق اخبار (احادیث) اور ان جیسی باتیں قرآن کے خلاف نظر آتی ہیں تو یہ دراصل ان کی کم علمی اور جہالت یہ وہ روایات ہیں جنہیں تحقیق کے بعد محمد ثین نے صحیح کہا ہے۔ یہ قرآن کے خلاف نہیں بلکہ ان منکرین کی خود ساختہ شرح قرآن اور مفہوم کتاب اللہ کے الٹ ہے۔
== حدیث حسن ==
اس کی تعریف میں اختلاف ہے اس کی دو قسمیں ہیں ابن صلاح نے حسن حدیث کی تعریف یوں بیان کی ہے۔ (1) وہ حدیث جس کے کسی ایک راوی کی اہلیت اور حالات کا پوری طرح علم نہ ہو لیکن اتنا ضرور معلوم ہو کہ فاسق اور کثیر الخطا نہیں تھا اور نہ اس پر جھوٹ کا الزام ہو۔ وہ حدیث جس کا راوی صدق و امانت میں مشہور ہولیکن قوت حفظ اور ملکہ اخذ میں اس کا مرتبہ صحیح حدیث کے راویوں سے فروتر محدثین تک ہو۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق، دیندار، پر ہیز گار اور خوب یاد رکھنے والے لوگوں نے اسے ہر زمانہ میں برابر روایت کیا ہو اور اس میں چھپا ہوا عیب نہ ہو اور نہ ہی معتبر لوگوں نے اُس روایت کی مخالفت کی ہو۔ حدیث بخاری اور حدیث مسلم میں زیادہ تر انہی الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔
== حدیث ضعیف ==
وہ حدیث جس کے راوی معتبر نہ ہوں اور جو مشکوک کبھی سمجھتی جاتی ہو۔ یہ حدیث کی تیسری قسم ہے اس کا اطلاق اس حدیث پر ہوتا ہے جس کے متن یا سند میں کوئی صعف پایا جائے اور جس میں صحیح یا حسن کی صفات موجود نہ ہوں جس کے راوی معتبر نہ ہوں اور جو مشکوک سمجھی جاتی ہو۔
 
== ضعیف حدیث ==
ضعیف حدیث سے نہ کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہے اور نہ اس سے حلال وحرام  ثابت ہوتا ہے اس پر عمل کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے ضعیف حدیث کی کتب کتاب الضعفا ابن حیان ابن حبان کتاب المراسل ، کتاب العلل۔
== ضعیف حدیث کی اقسام ==
{{کالم کی فہرست|3}}
* مرسل 
* منقطع
* منکر
* متروک
* شاذ 
* معلل
* مدرج 
* مقلوب
* مفطرب 
* مفحف
{{اختتام}}
== متفق علیہ حدیث ==
وہ حدیث ہے جس کو امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتب میں نقل کیا ہو۔
== حدیث مرسل ==
وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد سے آخری کڑی یعنی صحابی مفقود ہو۔
== حدیث منقطع ==
وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد سے کوئی راوی چھوٹ جائے۔
== حدیث معضل ==
وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد سے دو یا دو سے زائد راوی غائب ہوں یا کسی تبع تابعی نے حدیث بیان کی ہو مگر تابعی اور صحابی دونوں کا ذکر نہ کیا ہو۔ حدیث معضل کو حدیث ضعیف بھی کہتے ہیں جس کے دو راوی برابر ساقط ہوں۔
== حدیث منکر ==
وہ حدیث ہے جس کا راوی اپنی روایت میں منفرد ہو اور اس کے اندر عدالت اور ضبط دونوں صفات موجود ہوں۔
== حدیث مضطرب ==
اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی روایات اپنے متن اور سند میں باہم مختلف ہوں۔ وہ تصانیف جو بخاری سے قبل یا ان کے زمانہ میں یا اُن کے بعد تصنیف ہوئیں ان میں صحیح حسن ، ضعیف، معروف ، غریب، منکر خطا ثواب ہر قسم کی احادیث شامل ہیں ۔
== احادیث سے سے متعلق علوم ==
علماء حدیث نے تحفظ حدیث کے لئے جو ذرائع اختیار کیے اور جو علوم مدون کئے اُن کی تعداد پیٹھ (65) تک بیان کی گئی ہے۔
== علم اسماء الرجال ==
یہ علم حدیث کے راویوں کے حالات سے بحث کرتا ہے گویا تمام حدیث کے راویوں کی مفصل تاریخ ، حالات ، پیدائش، وفات ، اساتذہ کی تفصیل ماہرین علم حدیث کے فیصلے درج ہیں یہ علم  بہت ہی وسیع مفید اور دلچستپ ہے۔ محدثین نے تابعین اور تبع تابعین کے بعد راویوں کے حالات اُن کے ضبط واتقان وعدالت، امانت و دیانت، اخلاق و عادات اور معمولات و معاملات سے تعلق رکھنے والے اوصاف کو پوری چھان بین کے بعد قلم بند کیا۔ جن لوگوں نے یہ جلیل القدر کام سرانجام دیا انہیں رجال جرح و تعدیل کہا جاتا ہے ( نوٹ جرح سے مراد کسی رادی میں کسی خامی و خرابی کی نشاندہی کرنا اور تعدیل کے معنی ہیں عادل اور ثقہ قرار دینا ۔ جرح و تعدیل کے اس فن کو دفن جرح وتعدیل‘ یا علم اسماء الرجال کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ علم الحدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماء الرجال کا ہے۔ جس میں اُن لوگوں کے حالات قلم بند کئے گئے ہیں جنہوں نے احادیث و آثار کوبلواسطہ یا بلا واسطہ نقل کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک لاکھ انسانوں کی تاریخ تیار کی گئی جس میں صرف وطن اور ولادت ، وفات کا وقت یا عام حالات زندگی بتانے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس میں امانت و خیانت اور صدق و کذب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان ایک لاکھ انسانوں میں صحابہ کرام کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے ۔ اسماء الرجال کی ایک جامع کتاب ابن خلکان نے ۶۸۱ ھ میں تصانیف کی ہے جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہو چکا ہے یہ سب کتابیں عربی میں ہیں۔
== راوی ==
حضور پاک حدیث کی کتاب لکھنے والے تک جن جن لوگوں نے حدیث بیان کی ہو اُس کو راوی کہا جاتا ہے امام بخاری وغیرہ نے حدیث کے ساتھ اُس کے راویوں کے نام بھی لکھے ہیں۔
== محدث ==
(م - ح- دت ) تین لفظ میں اسلامی اصطلاح میں محدث حدیث بیان کرنے والے کو کہتے ہیں ۔ اُردو لغت میں محدث (م - حد درث) علم حدیث کا جاننے والا فقیہ۔
== لفظ محد ثین ==
حدیثیں جمع کرنے والوں یا حدیثوں کو نقل کرنے والوں کو محدثین کہتے ہیں یا حدیثیں بیان کرنے والوں کو بھی محدثین کہتے ہیں۔ یا جو شخص ” علوم حدیث میں ماہرانہ بصیرت رکھتا ہوا اسے محدث کہتے ہیں اور محدث کی جمع محدثین ہے۔
== اثر ==
صحابہ کے قول اور فعل کو اثر کہا جاتا ہے اس کی جمع آثار ہے۔ کسی چیز کے بقیہ اور نشان کو کہتے ہیں نقل کو اثر سے تعبیر کیا جاتا ہے جس بات میں تم بحث کر رہے ہو سننے والے نقل کرنے والے کی نگاہ میں برابر ہے صحابہ کرام اور تابعین سے جو مسائل معقول نہیں انہیں آثار کہا جاتا ہے اصطلاحاً حضور کے ارشادات پر بھی اثر بولا جاتا ہے۔
== اسناد ==
صحابہ کرام کے عہد میں کسی روایت کی توثیق کا قاعدہ یہ تھا کہ راوی سے شہادت طلب کی جاتی تھی۔  تابعین کے عہد میں صرف شہادت کافی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس لئے اسناد کا سلسلہ قائم کیا گیا یعنی جب بھی کوئی راوی روایت بیان کرتا تھا تو اُسے بتانا پڑتا تھا کہ اس نے وہ روایت کس سے سنی ہے اور اس روایت کا سلسلہ صحابہ تک پہنچ جاتا تھا اور پھر اُس روایت کا سلسلہ ثقہ راویوں کے ذریعہ حضور تک پہنچتا تھا جب طرح طرح کے فرقے پیدا ہو گئے تو عقائد باطلہ کو ثابت کرنے کے لئے احادیث وضع ہونا شروع ہوئیں تو سند حدیث کی روایت کے لئے ایک لازمی اور اہم شرط قرار دے دی گئی ۔ حدیث کے راویوں کے سلسلہ کو سند کہتے ہیں۔ عظیم محدت این مبارک کہتے ہیں جو شخص دین کو بغیر اسناد کے حاصل کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بغیر سیڑھی کے چھت پر چڑھے اسناد کے بغیر حدیث کی کوئی وقعت نہیں ۔ (۱) اسناد بیان کرنا (۲) نسب بیان کرنا (۳) اعراب لگانا ۔ سند اور روایت کا علم اللہ کا وہ انعام ہے جس کے ساتھ اُمت محمدیہ کو خاص کیا گیا ہے۔ اور اسے درایت کا زینہ و وسیلہ بنایا سند کے ذریعے ضیعف کی سیدھی اور ٹیڑھی بات کی شناخت ہوتی ہے۔ احادیث نبویہ خواہ قولی ہو یا فعلی یا تقریری دو حصوں میں منقسم ہے۔ (۱) وہ جس میں مولف کتاب مثلاً بخاری و مسلم سے لے کر حضور تک راویان حدیث کے نام مذکور ہوتے ہیں اس کو اسناد کہتے ہیں۔ (۲) دوسرا حصہ جس میں حضور کا ارشاد گرامی مذکور ہوتا ہے اس کو متن حدیث کہتے ہیں صحابہ کرام نے براہ راست حضور سے حدیثیں سنی تھیں اس لئے صحابہ میں اسناد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ آگے چل کر راویان حدیث اور حضور کے درمیان واسطے بڑھے تو اسناد کی ضرورت پڑی ۔
== متن ==
حدیث کی عبارت کو متن کہتے ہیں۔
== غریب ==
جس کے راوی کسی دور میں ایک ہی رہ گیا ہو۔
== مرسل ==
تابعی اور حضور کے درمیان صحابی کا ذکر نہ ہو۔
== منکر ==
اگر ضعیف راوی دوسرے ثقہ راوی کی مخالفت کرے تو ضعیف کی روایت کو منکر اور اس کے بالمقابل ثقہ کی روایت کو معروف کہتے ہیں۔
== موطا ==
موطا کے معنی ہیں ایسی راہ جولوگوں کے چلنے سے بن جائے ۔ امام مالک نے دستورات مدینہ سے شریعت کا ایسا علم نکالا جو زندگی کے کل معاملات پر حاوی ہو  مالک نے جو تالیف کیا اُس کا نام انہوں نے موطا رکھا۔ یہ کتاب زیادہ تر صحابہ کے شرعی اقوال پر مبنی ہے موطا کے لغوی معنی ہیں سنوارا ہوا، ہموار کرده ، تحقیق شده متفق علیہ، موطا اس راستہ کو بھی کہتے ہیں جس پر لوگوں کا عام گزر ہو۔ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ نام رکھتے وقت مالک کے سامنے موطا کا کونسا مفہوم تھا۔
1۔مالک بن انس پہلے شخص تھے جنہوں نے احادیث کو ایک مجموعی اور منضبط شکل میں پیش کیا حدیث کی اس کتاب کا نام موطا ہے ۔ یہ احادیث کی کتابوں میں سب سے اول حدیث کی کتاب سمجھی جاتی ہے۔
 
2۔ ان کے بعد امام احمد بن حنبل ۲۴۱ ہجری میں ایک اسی قسم کا مخزن احادیث کی کتاب لکھی جومسند  کے نام سے مشہور ہے۔
 
3۔ تیسری صدی ۲۵۶ ہجری میں بخاری شریف ترتیب دی گئی ۔
 
4۔ اور مسلم حدیث ۲۶۱ ہجری میں ترتیب دی ان کے بعد ابوداؤد۔ ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ کے مجموعے کو تیسری صدی ہجری میں ترتیب دی گئی۔
== اصحاب سنن ==
صحاح ستہ کی چار کتابوں کے مرتبین امام نسائی ، امام تر ندی، امام ابوداؤد، امام ابن ماجہ کو اصحاب سنن کہتے ہیں۔ ان حدیثوں کے مجموعوں میں صرف ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن کا تعلق احکام سے ہے اس لئے ان کو سنن کا نام دیا گیا ہے۔