اخوان المسلمین اردن
اخوان المسلمین اردن | |
---|---|
پارٹی کا نام | اخوان المسلمین اردن |
بانی پارٹی | عبداللطیف أبو قورة |
پارٹی رہنما |
|
اخوان المسلمین اردن ایک اسلام پسند تنظیم ہے جو اخوان المسلمین مصر کا شاخ ہے ۔ اس تنظیم کا هدف مسلمانوں کے سماجی اور معاشرتی امور میں اسلامی اصول کا نفاذ اور اسلام دشمن سازشوں سے مقابله ہے۔ اخوان المسلمین اردن، کے سیاسی منظر نامے میں کافی سرگرم رہے ہیں۔ اگرچہ باضابطہ طور پر ایک خیراتی انجمن کے طور پر رجسٹرڈ ہے، لیکن اس کا سیاسی کردار بهت نمایاںہ ہے اور معاشی، سماجی اور تعلیمی شعبوں میں منصوبے کی تحت بہت فعال ہیں اور وہ اسلامی اصولوں کی حکمرانی اور شریعت کا نفاذ چاہتی ہے۔ وہ مسئلہ فلسطین اور آزادی کے متلاشی مسائل پر اپنے سیاسی اور جہادی موقف کی وجہ سے عرب دنیا میں مشہور ہے ۔
تاسیس
شیخ عبداللطیف ابو قوره کی سربراهی میں- اخوان المسلمین اردن سنه 1945ء کو انہی مقاصد کے ساتھ تشکیل پائی جو مصر میں اخوان کی پیدائش میں موثر تھے ۔ لیکن مصر کے برعکس اردن میں اخوان المسلمین بهت تیزی سے پھیل گئی ۔ اس تیزی سے پھیلنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہے : پہلی وجه یہ کہ : اردن میں پناه لینے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد، جو فلسطین کی آزادی کے لیے اس ملک کے اخوان المسلمین کی هر ممکن تعاون کے لئے تیار تھے ، اردن کی اخوان المسلمین کے رکن بن گئے۔ دوسری وجه یہ ہے که : اردن میں مختلف جماعتوں کی اسلامی سرگرمیاں اردنی عوام کی سیاسی اور مذہبی بیداری کو بڑھانے اور اس کے نتیجے میں انہیں اخوان کی طرف راغب کرنے میں کارگر ثابت ہوئیں۔ تیسری وجه یہ ہے که : دوسرے ممالک میں اخوان المسلمین کے نام پر وجود میں آنے ولی تنظیموں نے شروع ہی سے ملک کی موجوده حکومت کے خلاف ورزی کو اپنا نصب العین سمجھتی تھیں۔ جبکه اردنی اخوان المسلمین نے اپنے بنیادی مقصد حاصل کرنے کے لیے، جو کہ معاشرے میں اسلامی احکام اور قانون کا نفاذ تھا ، شروع سے ہی، اردنی حکومت کے ساتھ خوشامد اور سمجھوتہ کا راستہ اختیار کیا۔ کیونکہ انهوں نے اس طریقہ کار کو اپنا مقصد حاصل کرنے کا بہترین حل تسلیم کیا، اردن میں مصر کی به نسبت اخوان المسلمین کو کچھ حد تک سیاسی آزادی حاصل تھی اس سے فائده اٹھاتے ہوئے انهوں نے- تبلیغی اقدامات ، عوام کی درست راہنمائی ، حکومتی اداروں میں داخل ہونے یا ان پر اثر انداز ہونے، انتخابات میں حصہ لینے ، ایوان نمائندگان میں زیاده سے زیاده نشستیں حاصل کرنے اور اسلامی قوانین کی تیاری، تحریر، مرتب کرنا اور ان کی منظوری حاصل کرنے کےلئے مقدمات فراہم کرنے کے ذریعے، معاشرے کو اسلامی رنگ دینے اور اسلام کے سماجی قوانین کو عملی جامه پهنانے کی کوشش کی ۔ [1]
اخوان المسلمین اور اردن کی حکومت ، تعلقات میں اتار چڑھاو
اخوان المسلمین اردن کی تاریخ کا گهرائی سے جائزه لینے سے- یه بات سامنے آتی هے که اخوان المسلمین کا- اردن کی حکومت کے ساتھ تعلقات، مختلف ادوار میں نشیب و فراز کا شکار رهے هیں اور کلی طور پر تین مرحله میں اس کا نچوڑ بیان کیا جا سکتا هے اس لئے که اخوان المسلمون کا قیام، اردن کی برطانوی حکومت سے آزادی کے ساتھ ہی ہوا تا هم اخوان المسلمین اور اردن کے سیاسی نظام کے درمیان گزشتہ 7 دہائیوں کے دوران تعلقات کو 3 اہم اور بنیادی مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قیام اور تشکیل، خوشحالی، بحران اور کشمکش کا مرحله ۔ قیام اور تاسیس کا مرحلہ؛ اس مرحلے میں دراصل ،اخوان المسلمین کی تاریخ کی پهلی دهائی شامل ہے۔ اس عرصے کے دوران، مصر میں آنے والی اسلامی بیداری نے مختلف عرب اور اسلامی ممالک میں اخوان المسلمین کی مختلف شاخیں بنانے کی ضرورت کا شدید احساس دلایا۔ اس وقت اردن کے سیاسی نظام نے اپنی مذہبی قانونی حیثیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک اسلامی تحریک کا سهارا لینا تھا لهذا انهوں نے اخوان المسلمین پر اعتماد کیا ۔ اس وقت اردن کی حکومت نے بھی اردن معاشرے میں اخوان المسلمین کے بڑے اثر و رسوخ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ کیا تھا تاکہ عرب ممالک کے بادشاہوں کے ساتھ مقابلے کے میدان میں برتری حاصل کی جا سکے۔ مضبوط تعلقات کا مرحله ؛ یہ مرحلہ 3 دہائیوں سے زائد عرصے تک جاری رہا اور ایک طرف سوویت یونین دوسری طرف مغربی بلاک (امریکہ، نیٹو اور عرب ممالک) کے درمیان سرد جنگ کے طویل برسوں کے ساتھ موافق ہوا۔ مزید یہ کہ اسی مرحلے میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد فلسطینی عوام کے سیاسی گروہوں کی نمائندگی پر لڑائی اور جھگڑے شروع ہوگئے۔ اخوان المسلمین، اردن کے سیاسی نظام کے ساتھ کھڑی رہی اور ملک میں دیگر مخالف گروهوں کے ساتھ مقابله کرتے هوئے ان تمام معاملات میں، حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔ اردن میں اخوان المسلمین کا ریاست کے ساتھ مضبوط تعلقات کا مرحلہ وہ مرحلہ ہے جس میں اس جماعت نے مختلف اقتصادی اور سماجی مراعات اور کامیابیاں حاصل کیں۔ ان مراعات اور کامیابیوں کی وجہ سے اخوان المسلمون کو اردن میں یکے بعد دیگرے حکومتی ادارات میں کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ اس طرح، اس انهوں نے وزارت تعلیم کے ساتھ ساتھ کالجوں، یونیورسٹیوں اور بڑے اسکولوں کی ریاست جیسی ذمہ داریاں سنبھالی۔ اس لیے مختلف نسلیں تشکیل پائی جن کے افکار اور نظریات اخوان المسلمون کی پالیسی سے متاثر تھے۔ بحران اور تنازعات کا مرحله ؛ یہ مرحلہ، جسے تیسرا مرحلہ سمجھا جاتا ہے، سوویت یونین اور مغربی بلاک کے درمیان سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ شروع ہوا اور اس خطے میں عرب اسرائیل جنگ کے آغاز کے ساتھ موافق ہوا۔ اسی مرحلے پر فلسطین میں تحریک حماس کا ظہور ہوا۔ حماس ایسی تحریک تھی جو دراصل اخوان المسلمین اردن کا شاخ تھا جو فلسطین میں وجود میں آیا تھا اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انهی هنگاموں کے ساتھ ہی اردن میں اخوان المسلمین کی ریاست کے درمیان ’اسٹریٹجک علیحدگی‘ کا آغاز هوا ۔ اس کے بعد سے، ہم تقریباً کہہ سکتے ہیں کہ اخوان المسلمین اور اردن کے سیاسی نظام کے درمیان تعامل کا ایک نقطہ بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا، اور اسی وجہ سے، دونوں کے تعلقات کی تاریخ میں "بحران اور تنازع" کا مرحلہ آیا اور اختلاف اور کشمکش کا آغاز هوا۔ [2]
حوالہ جات
- ↑ تاثیر اندیشه های اخوان المسلمین مصر بر جهان اسلام پیش از انقلابهای عربی (عرب انقلابات سے پہلے عالم اسلام پر مصری اخوان المسلمون کے نظریات کے اثرات)-www.khabaronline.ir (زبان فارسی)- تاریخ درج شده:15 جنوری 2012ء۔ تاریخ اخذ شده: 13مئی 2024ء-
- ↑ تجربه اخوانالمسلمین در اردن؛ از ائتلاف با حکومت تا تبدیل شدن به اپوزیسیون (اردن میں اخوان المسلمون کا تجربہ؛ حکومت کے ساتھ اتحاد سے لے کر اپوزیشن بننے تک)-shouba.ir (زبان فارسی)- تاریخ درج شده:24 جون 2020ء۔ تاریخ اخذ شده: 16مئی 2024ء-