منادياں وحدت

ویکی‌وحدت سے
آرم ویکی وحدت 2.png

وحدت دین مبين اسلام کے بنیادي اصولوں ميں سے ايک ہے جسے قرآن مجيد نے توحيد کے ساتھ ذکر کيا ہے اور متعدد جگوں پر مسلمانوں کو اتحاد اور یکجهتي کى سفارش کى ہے اور اس حقيقت پر بهترين اور واضح ترين دليل جو عام وخاص سب کے لیے قابل فهم اور قابل ديد ہے وه خود پيغمبر اسلام اور انکے ولي برحق اميرالمومنين مولی الموحدین علي عليه السلام کى عملي سيرت اور انکے ارشادات ہیں۔

وحدت

اسي طرح تاریخ میں علماء اسلام نے بھى نبي اکرم اور ائمه معصومين ؑکى سيرت طيبه پر چلتے ہوئے وحدت کى راه ميں شایان شان خدمات انجام دی ہیں اور ہميشه عالم اسلام ميں موجود خود ساخته،بے بنیاد مذہبی، قومی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ، جسے استکبار اور دشمنان دین نے بطور ايندھن ہمارے لیے تیار کيا ہے ،ختم کرنے اور مسلمانوں کو اختلافات سے بچانے کے لئے برسر پیکار رہے ہیں ۔کىونکه جیسا کہ اميرالمومنين علی عليه السلام فرماتے ہیں اختلاف :

  • ہوائے نفس کى پيروي کرنے
  • دستور خدا کے خلاف حکم لگانے
  • اور ناشائستہ لوگوں کے الهٰی دستور کے خلاف برسر اقتدار آنے سے پيدا ہوتا ہے ۔

پھر فرماتے ہيں :اگر حق باطل کے شائبہ سےپاک و صاف سامنے آتا تو دشمنوں کى زبانيں بند ہو جا تيں ليکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ ادھر سے لیا جاتا ہے اور کچھ ادھر سے اور دونوں کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتاہے۔ اس مو قع پر شيطان اپنے دوستوں پرچھاجاتا ہے [1]. تاريخ اسلام کا مطالعه کرنے سے ہميں يه معلوم ہوتا ہے که سب سے پهلے تاريخ اسلام ميں مسلمانوں کے درميان بني اميه نے مذہبي اور قومي احساسات کو بھڑکایا اور اموی حکومت کو مضبوط کرنے کى خاطر امت اسلاميه کو مختلف قومی، قبائلی، لسانی، نسلی ، فکری اور نظریاتی اختلافات کى بنیاد پر تقسيم کيا اور انهی طبيعی اختلافات کو ذريعه بنا کر امت اسلاميه کو آپس ميں لڑوانے اور انہیں داخلي نزاعات ميں مشغول رکھنے کے لیے اپنے تمام تر شيطانی حربے استعمال کيے تاکه امت مسلمه ايک دوسرے کو کاٹنے ميں مشغول رہے اور اموی سلطنت کے گھٹا ٹوپ مظالم کے خلاف کسی کو سوچنے تک کا بھى موقع نه ملے اوربنی اميه کے نا مراد سلاطين یکے بعد ديگر مسند نبوتؐ پر بيٹھ کر مسلمانوں کی معنوی اور مادی نعمتيں لوٹنے ميں مشغول رہيں ۔

اور اسی سياست کو بني اميه کے زوال کے بعد عباسی،فاطمی، عثمانی، صفوی،قاچاری اور ديگر نالائق مسلم حکمرانوں نے مختلف علاقوں میں اپنایا اور اپنے تحت وتاج کى حفاظت کى خاطر مختلف فکری اور فقهي مکاتب فکر کے درميان نظریاتی اختلافات کے دامن کو پھيلانے اور اسے ذاتی دشمني ميں تبديل کرنے کى بھر پور کوشش کرتے رہیں ۔ چنانچه يقين کے ساتھ کهاجا سکتا ہے که مسلمانوں کےدرمیان موجود اختلافات اور ايک دوسرے کى نسبت بد گمانی اور سوء تفاہم کى بنیاد رکھنے والے یہی فاسد حکمران تھے ۔اور آج بھى عرب ممالک سعودي عرب، مصر، بحرين، لبنان اور امارات وغيره ميں يهی فاسد اور امریکه و اسرائیل اور صهيونزم کے آلۂ کار اور خود فروخته حکمران شب وروز وسيع پيمانے پر مسلمانوں کے درميان مذہبی ،قومي ، نسلی،؛ لسانی اور فرقہ وارانہ احساسات کو بھڑکانے، ايک دوسرے کے درميان فتنه پھلانے اور دشمنی ايجاد کرنے کى خاطر اربوں روپیہ خرچ کرتے ہیں تاکه ان اختلافات کے سائے ميں دین ومذهب کے نام پر (جبکه ان کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نهيں ہے) مسلمانوں پر اپنی حکومت برقرار رکھ سکے اور بسا اوقات اپنے ان شيطانی مقاصد کو عملی بنانے کے لیے درباري ملاؤں اور علمائے سوء کی موجودگی سے سوءاستفاده کرتے ہیں تاکه ان کے تکفيری فتوؤں کے سائے ميں اپنے ناپاک عزائم کو عملي جامه پہنا سکے۔

ليکن ہر دور ميں ايسے حق شناش ،دین شناس اور مصلح اور بيدار علماء موجود رہے ہیں جنهوں نے ہر دور ميں امت مسلمه کو مذہبي ،قومي ، لسانی اختلافات کے ايندھن ميں گرکر جلنے سے بچانے کى انتھک کوششيں کى ہیں ۔ تا ہم يهاں ان سیکڑوں علمائے عظام ميں سے اهل تسنن اورمکتب اهل بيت ؑسے تعلق رکھنے والی بعض ايسی شخصیات کا تذکره کريں گے جو اپنے دور ميں وحدت کی علمبردار رہی ہیں اور جنہوں نے اپنی ساری زندگی مسلمانوں کے درميان وحدت اور یکجهتی اور بھائي چارہ برقرار کرنے ميں گزار ی ہے۔

سید جمال الدين اسد آبادی

دور حاضر کی عظيم شخصيتوں ميں سے ایک اور اپنے دور کی منفرد شخصيت جس نے تن تنها امت اسلاميه کو خواب غفلت سے بيدار کرنے اور استعمار کے خلاف متحد کرنے کى خاطر قیام کيا اوراسي جرم ميں مختلف اسلامی ممالک سے جلا وطنی تحمل کرتے ہوئے اسی راه ميں شھيد ہوئے ۔ آپ مسلمانوں کو بيدار کرنے اور متحد کرنے کى خاطر افغانستان سے ايران ، ايران سے ہندستان ،عراق ، ترکىه اور مصر اور بعض دوسرے اسلامی ممالک سے گزرتے ہوئے فرانس پهنچے اور آخر کار دشمنان دین واسلام کے ہاتھوں شہيد هوئے۔

آپ کا عقيده تھا که قومي، مذہبي،مسلکى ، نسلی اور ديگر قسم کے اختلافات فاسد اور مستبد سلاطين اور حکمرانوں نے تقريبا چوده صدیوں کے اندر اور استعمار نے عصر حاضر ميں تين یا چارصدی کے اندرپیدا کئے ہیں۔ لهٰذا ہميں متحد اور منسجم ہو کر ان اختلافات کا مقابلہ کرنا ہے چونکه ايک ہی روح تمام اسلامی ممالک اور مختلف اسلامی فکری اور فقهی مذاہب پر حاکم ہے ۔لهٰذا ہميں صرف بيدار اور متحد ہو کر غارتگر استعمار اور ان کے آلۂ کار استعماری کارندوں کا مقابله کرنے کى ضرورت ہے۔ [2].

اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ قوم پرستی، نسل پرستی دوسری اصطلاح ميں نیشنلزم کی آج عربيزم ، ايرانيزم ، ترکىزم ، ہندوازم وغيره وغيره کى شکل ميں اسلامي ممالک ميں استعمار نے بڑے پيمانے پر تبليغ کى ہے اور ہر جگه مذہبي اختلافات خصوصاً شيعه اور سني اختلافات کو خوب پروان چڑھایا ہے۔ دوسری طرف امت مسلمه کو چھوٹے چھوٹے ملکوں اور متنازعه حدود ميں تقسيم کيا ہے ۔ اب ان تمام مفاسد اور استعماری شيطانی مقاصد کى ريشه کنی صرف اور صرف اتحاد اور اسلامی وحدت کے ذريعے ممکن ہے۔ مير [3].

علامه محمد اقبال لاہوری

مفکراور شاعر مشرق علامه محمد اقبال لاہوری مذہبی، نسلی، قومی، لسانی،علاقائي اور دوسرے بناوٹی اختلافات کى وجه سے امت مسلمہ میں جو تفرقه اور انتشار کی کیفیت پیدا ہوئی ہے اس سے سخت رنجیده اور نالاں تھے اور ہميشه مسلمانوں کو قومی،نسلی، علاقائی اور لسانی اختلافات کو چھوڑ کر قرآن اور سنت کے سائے ميں ايک پليٹ فارم پر جمع ہونے کى دعوت دیتے تھے اور اس کهتے تھے ميرے نزديک وه شخص مسلمان نهيں جو کسی مسلمان سے یا للمسلمين(ائے مسلمانو!) کا استغاثه سنے ليکن اپنی ہم دردی اور وابستگی کا ثبوت نه دے [4]. اور کهتے تھے مسلمانوں کے درميان قوميت ، وطنيت اورلسانيت کے نام پر وجود میں آنے والی یہ ساری سر حدیں مغرب ،سامراج اور اسلام دشمن طاقتوں کے بنائے ہوئے بت ہیں جس کی دین مبین اسلام ميں کوئی جگه نهيں ہے۔ جب سب کا خدا ايک ،کتاب ايک، قبله ايک ہے اور سب ايک ہی رسولؐ کے پيروکار ہیں توپھر کس طرح مختلف گروہوں اور جماعتوں اور فرقوں ميں بٹے رہيں اور خوساخته نطريات و عقائد اوربے بنیاد وجوہات کى بنا پر ايک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔ اس سلسلے ميں آپ کے فارسی اور اردو اشعار اب بھى عالم اسلام کے لیے سبق آموزہيں۔ چنانچه آپ فرماتے ہيں:

منفعت ايک ہے اس قوم کى، نقصان بھى ايک ايک ہی سب کا نبي ٬ دین بھى ٬ ایمان بھى ايک حرم پاک بھى ٬ ﷲ بھى ٬ قرآن بھى ايک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھى ايک فرقه بندی ہے کهيں اور کهيں ذاتيں ہيں کيا زمانے ميں پنپنے کى يهي باتيں ہيں ؟ [5].

اسی طرح ایک جگہ قوميت، نسل پرستی وغيره کى اصل ماہیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ قوم پرستی اور نسل پرستی ايک بت ہےجسے اسلام کے دشمنوں اور مغربی تهذيب نے ہمارے لیے بنایاہے جس کا مقصد ہم ميں اختلاف ڈال کر ہماری مادی اورمعنوی ثروتوں کو لوٹ کر لے جانا ہے کهتے ہیں  : يه بت که تراشيدۂ تهذيب نويں ہے غارت گرٍ ِ کاشانۂ دين نبوی ہے [6]. ہو قيد ٍ مقامی تو نتيجه ہے تباہی ره بحر ميں آزاد وطن صورت ماہی ہے ترک وطن سنت محبوب الهی دے تو بھى نبو ت کى صداقت په گواہی گقتار سياست ميں وطن اور ہی کچھ ہے ارشاد نبوت ميں وطن اور ہی کچھ ہے... [7].

اسی طرح کسی اور مقام پرقوم پرستی اور نسل پرستی وغيره کے نقصانات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اقوام جهان ميں ہے رقابت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سياست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام ميں مخلوق خدا بنتی ہے اسی سے قوميت اسلام کى جڑ کٹتی ہےاسی سے... [8]. ائے مصطفوی خاک ميں اس بت کو ملا دے۔

شيخ محمود شلتوت

علامه شيخ محمود شلتوت ٲزھر انٹرنیشنل يونيورسٹی کے رئيس اور وحدت اسلامی کے برجستہ ترين مناديوں ميں شمار ہوتے تھے ۔آپ کا نظريه تھاکہ اگرچه مختلف اسلامی نظریاتی اور فقهی مذاہب کے درميان جزئی مسائل ميں ضرور اختلاف پایا جاتا ہے ليکن ان کے درميان مشترکه اصول اور قواعد اتنے زیاده ہيں که تمام اسلامی مذاہب کے ماننے والے سب ايک پليٹ فارم پر جمع ہو سکتے ہيں اور علماء اور دینی ليڈروں کى سب سے اہم ذمه داری يه ہے که مختلف فکری اور فقهی فرقوں کے افکار اور نظریات کے متعلق صحيح اور درست واقفیت حاصل کريں اور ايک دوسرے کے متعلق بد گمانيوں کو دور کر کے ايک دوسرے کو سب وطعن اور تکفير وتفسيق کرنے سے بچانے کى کوشش کريں ۔ [9].چنانچه انھوں نے اپنے تاریخی فتوے ميں باقاعده رسمی طور پر پانچ فقهی اسلامی مذاہب يعنی جعفری،حنبلی، حنفی،مالکى اور شافعی ميں سے جس کسی کى بھى تقلید کو جائز اور برئ الذمه ہونے کا اعلان کيا ۔

شيخ سليم البشری

داعی وحدت اور اتحاد کے علم بردارعلامه شيخ سليم البشری نے اپنے دور ميں جامعۃ الازھر کے رئيس ہوتے ہوئے مسلمانوں کے درميان پھيلی ہوئی بد گمانيوں اور سوء تفاہم کو دورکرنے کى خاطر لبنان کےمشهور شيعه عالم علامه سید عبدالحسين شرف الدين کے ساتھ اختلافی مسائل کے بارے ميں خط وکابت کا سلسله جاری رکھا جو بعد ميں المراجعات کے نام سے چھپ چکا ہے ۔

شيخ حسن البناء

اخوان مسلمين کے موسس اور بنیاد گزار جنهوں نے مصر ميں سب سے پهلے دار التقرب کى بنیاد رکھی اور عملی طور پر مناسک حج کو پانچ اسلامی فرقوں کے مسائل پر مشتمل کتاب کى شکل ميں چھاپا اور اسی وقت حج بيت الله کے دوران حجاج کرام کے درميان ہزاروں کى تعداد ميں نسخے تقسيم کیے [10].

ابو الاعلیٰ المودودی

بر صغير ميں جماعت اسلامی کے مؤسس اور بنیاد گزار علامه ابو الاعلیٰ المودودی آپ ہميشه کها کرتے تھے کہ مختلف فکری اور فقهی مسالک سے تعلق رکھنے والے اسلامی اصلاحی گروہوں کو چاہئے کہ مذہبی اور مسلکى تعصبات کے تنگ دائرے سے نکل کر قرآن وسنت يعنی اساس دین کے ارد گرد جمع ہو جاييں اور اپنے مشترکه دشمن کے مقابلے ميں متحد ہو جائیں [11]. اور يه عقيده رکھتے تھے که شہادتين کا اقرار اسلامی اخوت اور بھائی چارہ کا معیار ہے [12].

آيۃ الله العظمیٰ بروجردی

مکتب اہل بیت سے تعلق رکھنے والے اکثر و بیشترعلماء ہمیشہ سيرت اہل بيت اطهارؑ کى پيروی کرتے ہوئےہر دور ميں سخت ترين حالات ميں بھى وحدت صفوف اور وحدت کلمه بين المسلمین کے پابند تھے اور ہميشه اپنے ماننے والوں کو وحدت اور دوسروں کے ساتھ مدارات اور کھلے دل کے ساتھ پيش آنے کى تلقين کرتے رہے ہیں ۔ اس کا بهترين ثبوت حوزه علميه نجف اشرف کے تمام علماء کا متحد ہو کر استعمار کے خلاف عثمانی حکومت کا ساتھ دینا ہے جبکه عثمانی حکومت شيعوں کے ساتھ بهت ہی جابرانه اور انتهائی طالمانه سلوک کرتی تھی اور ان کے فاسد حکمرانوں کے فسادات ، انحرافات اور ان کى نا اہلی کو ديکھ کر اہل سنت علماء نے ان کی پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا لیا تھا ۔اسی طرح عصر حاضر ميں فلسطين کا مسئله جسے سيد محسن الحکىم،کاشف الغطاء، امام خمينی اور امام خامنه ای جيسے بزرگ شیعہ علماء نے اپنانصب العين قرار دیتے ہوئے اسلامی اتحاد کا شاندار موقف پيش کىاہے۔ يهاں تک علامه شيخ محمد حسين کاشف الغطاء کا جمله مشهور ہے آپ فرماتے تھے :بني الاسلام علی کلمتين : کلمة التوحيد و توحيد الکلمة یعنی اسلام کى بنیاد دوچيزوں پر رکھی گئی ہے ايک کلمۂ توحيد يعنی یکتا پرستیہ ہے تو دوسری توحيد کلمه ہے يعني اتحاد ویکجهتی [13].

انهی بزرگ ہستيوں ميں سے ايک فقيه بزرگوار آیت اللہ بروجردی تھے۔ آپ اپنے دور ميں اہل تشيع کے معروف مرجع تقلید اور فقیہ تھے۔ آپ وحدت اسلامی کى نه صرف تآئيد کرتے تھے بلکه تقريب بين المذاھب کے دلباختہ بھی تھے۔ان کا عقیدۃ تھا کہ دشمنان اسلام اور استعمار نے مختلف مذاہب اور خصوصاً شيعه اور اھل تسنن کے درمیان لا محدود سوء تفاہم اور بد گماني پیدا کی ہے لہٰذا اسکا علاج صرف اور صرف سوء تفاہم کى جگه حسن تفاہم پیدا کرنا ہے۔ اسی لئے آپ نے ازھرشريف کے بزرگ علماء شيخ عبد الحمید سليم اور علامه شيخ محمود شلتوت سے دوستانه رابطه قائم کيا اور خط وکتابت کا سلسله جاری کيا يهاں تک که اپنی آخری عمر ميں وحدت اسلامی اور دار التقريب کى تقويت کى وصيت کرتےہوئے دار فانی سے کوچ کرگئے [14].

روح الله الموسوی الخمينی

امام خمينی کو دوست ودشمن سب عصر حاضر کا مصلح اور اسلام کا احیا کرنے والا مانتے ہیں۔ان کى سياسی اور اجتماعی زندگی کا مطالعه ہميں يه بتاتا ہے کہ آپ اسلامی اخوت اور مسلمانوں کے درميان اتحاد ووحدت کو شرعاً اور عقلاً واجب سمجھتے تھے اور سامراجی اغراض و مقاصد کا مقابله کرنے اور امت مسلمه کے خود کفيل اور قدرت مند ہونے کا تنها نسخه وحدت اور حبل اللہ سے تمسک کو سمجھتے تھے اور اتحاد کو صرف سياسی یا حکمت عملی کی نگاه سے نهيں ديکھتے تھے بلکه قرآنی نگاه سے ديکھتے تھے اور فرماتے تھے دوسو تين سو سال گزرنے کے بعد بھى ہمارا دشمن ہمارے درميان تفرقه پھلانے اور اختلاف ڈالنے ميں کامیاب ہے اور اسی راستے سے ہم پر غالب آیا ہے۔ ہمارا تفرقہ اور اختلاف ہی ان کےغلبے کا سبب ہے ۔ دوسری طرف ايک خود مختار اور طاقتور مسلم سوسائٹی کی تشکیل اور پھر اس کی بقاء اور دوام کا ضامن ہمارا اتحاد اور بھائی چارہ ہے ۔ ہم يهاں امام خمينی کى نگاه ميں اسلامی وحدت اور بھائي چارہ کے چند اہم خصوصيات بهت ہی اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہيں:

کلمۂ توحيد اور توحيد کلمه

امام خمينی فرماتے تھے تمام انبیاء عظام کے مبعوث ہونے اورالٰہی ادیان کے اس روئے زمين پر آنے کا ايک اہم ترين مقصد عقيدۂ توحيد کو فروغ دینا اور وحدت کلمه ہے اور يه اس وقت ممکن ہے جب مختلف افکار واغراض اورنفسیات و ذہنیات ميں بنٹے ہوئے لوگوں کے درميان اتحاد واخوت پيدا ہو جائے [15].

حبل الله سے وابستگی

آپ کا عقیدۃ تھا که مسلمانوں کا محض کسی مشترک ہدف کی خاطر یاایک دشمن کے مقابلے ميں ايک پليٹ فارم پر جمع ہوجانا کافی نهيں ہے بلکه يه اتحاد اور یکجهتی قرآن وسنت کى تعليمات کى روشني ميں عقيده اور فکر سے وجود میں آنا چاہئے اور اس کا محور صرف اور صرف خدا اور حبل الله سے وابستگی ہو نا چاہئے [16].

وحدت عقلی اور شرعی ذمہ داری

امام خميني اجتماعی اور سياسی زندگی ميں وحدت کى ضرورت اور اور اسکے بے تحاشا فوائدکو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی وحدت کو شرعی اور عقلی تکليف اور ذمہ داری سمجھتے تھے [17].

اسلامی اجتماعی نظام کی تشکیل

امام خمينی کی منفرد اور برجسته ترين خصوصيات ميں سے ايک خصوصيت جس کی غيبت کبریٰ ميں کوئي نظير نهيں ملتی ،اسلامی نظام اور حکومت قائم کرنا ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی حکومت کا قیام شرعاً اور عقلاً واجب ہے۔ ليکن اس شرعی اور عقلی ذمہ داری اور اتحاد وانسجام کے درميان تلازم پایا جاتاہے۔ وه اس طرح که معاشرے ميں ايک اسلامی اجتماعی اور سياسی نظام کا تحقق اس وقت ممکن ہے جب معاشرے ميں مختلف اسلامی مذاہب اور اقوام کے درمیان وحدت پائي جاتی ہو اور دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور ہمدلی اس وقت ممکن ہے جب اسلامی معاشرے ميں طاقتور اسلامی نظام قائم ہو ۔آپ فرماتے ہیں مشرق ومغرب کے استعماری کارندے عالم اسلام کے خداداد انسانی،مادی اور معنوی ذخائر کو لوٹنے کے لئے ہمارے درمیان تفرقه اوراختلاف کو ہمارے ہی خلاف اسلحے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔یہی اختلافات امت مسلمه کى ذلت و خواری، بربادی اور اسلام کى عظمت کے ہاتھ سے چلے جانے اور تمام مسائل و مشکلات کاسرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ سپر پاور شيطانی کارندوں کے ہم پر تسلط جمانے کا بهترين وسيله بھى ہے [18]۔آپ فرماتے تھے جو لوگ شيعه -سنی کے نام پر اختلاف پھيلانے کى کوشش کرتے ہيں وه نه شيعه ہيں نه سنی [19].

رہبر ایران سید علی خامنہ ای

عصر حاضر ميں رہبر ایران سید علی خامنہ ای اسلامی ممالک اور خصوصاً مسلمانوں کے درميان اتحاد کى بحالی اور اسے برقرار رکھنے کے لئے جتنی کوششيں کر رہے ہیں وه سب کے سامنے ہيں اور کسی پر مخفی نهيں ہے۔ پھر بھى اتحاد کے متعلق آپ نے جو تاریخی فتوے ديے ہيں ان ميں سے ايک دو مورد ہم يهاں بطور نمونه پیش کرتے ہيں ۔ رهبر انقلاب ولی امر مسلمين فرماتے ہيں: ہم سب کو يه معلوم ہونا چاہيے که عالم اسلام ميں اتحاد اور یکجہتی وسيله نهيں بلکه خود سب سے اہم اور بلند ہدف ہے اور عالم اسلام اپنی کھوئی ہوئی عزت وشرف اورپامال شده حقوق اس وقت دوباره حاصل کر سکتے ہيں اور اسلامی احکامات پر اس وقت معاشرے ميں عمل کرسکتے ہيں جب ہمارے درميان حقيقی وحدت اور بھائي چاره وجود ميں آجائے۔اس لئےميڈیا، ذمہ دار افراد اور حکومتوں کى اہم ذمہ داری يه ہے که وه اتحاد اور انسجام کے لئے کوشش کريں. [20]. ان کا يه فتویٰ مشهور ہے جس ميں آپ فرماتے ہيں: ميرے نزدیک کسی بھی قسم کی مسلمان کشی ميں کسی طرح سے بھى ملوث ہونا حرام اور گناه کبيره هے۔ [21].

رہبر انقلاب کا تاریخي فتویٰ

اور اسی طرح آپ کا وه تاریخی فتویٰ بھى سب کے سامنے ہے جب آپ سے سعودی عرب کے شهر احساء کے رہنے والے علماء کے ايک گروه نے ام المومنین عائشه کى صريح الفاظ ميں اہانت یا ادب کے خلاف تحقير آميز الفاظ کے ساتھ خطاب کرنے کے بارے ميں سوال کيا تو آپ نے جواب ميں فرمایا۔ اهل سنت برادران کے مقدسات کى اہانت اور ہتک حرمت کرنا حرام ہے چه جائیکه پيغمبر اکرمؐ کى زوجه کى اہانت اور ان کے حق ميں ايسے رکیک الفاظ استعمال کرنا جنہیں خلاف شرافت سمجھا جائے جبکه يه امر گذشته انبیاء کى ازواج کے حق ميں بھى ممتنع ہے [22].

استاد سید جواد نقوی

سید جواد نقوی پاکستان میں شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد کے حامی ہیں۔ آپ نے اس حوالے سے بہت کوششیں کی ہیں۔ ان کے مطابق، شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد دو طرفہ اور تعمیری رابطے کا نتیجہ ہے، نہ کہ بیٹھ کر اتحاد کا نعرہ لگانا۔ ہفتہ وحدت کے دوران اسلامی مکاتب فکر کے پیروکاروں کو ہر ممکن حد تک قریب لانے کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ یہ امام امت، امام خمینی (رح) تھے جنہوں نے 12 سے17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت کا نام دیا آپ اتحاد امت کے مارچ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے وحدت کانفرنس اور عروہ الوثقیٰ کی طرف سے یوم ولادت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب کو اسلامی اتحاد کی سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر سنی پروگرام کریں تو ہم گھر بیٹھیں اور جس دن ہمارا پروگرام ہو سنی حضرات اس میں شرکت نہ کریں، یہ اتحاد سے خیانت ہے۔ اگر شیعہ سنی آپس میں متحد ہوں تو اسلامی اتحاد کا نظریہ مضبوط ہوگا اور فرقہ واریت کے خلاف جنگ میں یہ ایک موثر اقدام ہو گا۔ [23].

يه تھیں ان سینکڑوں شخصیات ميں سے چند اہم شخصیات جنهيں ہم نے نمونےکے طور پر ذکر کيا۔ہمیں امید ہے که امت مسلمه بيدار ہو کر فاسد اور استعمار کے آلۂ کار حکام اور چند درباری ملاؤں کے تبليغاتی اور فتنه انداز فتوؤں کى زد ميں آنے کے بجائے دل سوز ، خیر خواه اور دین شناس علماء کے نقش قدم پر چلنے اور ان کى پيروی کرنے کى کوشش کريں آمين!ثم آمين!

حوالہ جات

  1. السيد رضي، نهج البلاغه خطبه 50
  2. طباطبائى ، محىد حسين، ، مشرق زمىن كى بىدارى مىں سيّد جمال كا كردار، ص 77-128
  3. آبادى ، سيد جلال ، دور حاضر كے اسلامى تحرىكىن، ص 28 ۔۔۔۔۔30 ۔
  4. لاهوري، محمد اقبال : احىا تفکر اسلامى ؛ص 24 ۔25 ۔
  5. لاهوري، محمد اقبال : كليات اقبال : بانگ دار ٬جواب شكوه ص 202
  6. لاهوي، محمد اقبال، كلىات اقبال : بابنگِ درا ص 160 ۔
  7. لاهوي، محمد اقبال، مطالب اقبال اردو : ص 265.
  8. لاهوي، محمد اقبال، كلىات اقبال : بابنگ درا ص 165 ۔۔
  9. تسخيري، محمد على :رسالتنا تقرىب الفكر وتوحىد العمل ص 77 .
  10. آذر شىب، محمد علي،: ملف التقرىب ص 138 ۔۔
  11. الندوى، قاضى عبد الرشىد ، ابو الاعلى المودودى عبقرى القرن، ص 33.
  12. آذر شىب، محمد علي،: ملف التقرىب ص 99 ۔
  13. شهىد مطهرى يادشتهاى استاد مطھرى : ج 2 ص 211 ۔۔۔212 ۔
  14. چھے مقالے :ص 216۔۔۔217 ۔
  15. خمینی، روح الله، صحیفه امام : ج 7 ص 107 ۔
  16. خمینی، روح الله، صحیفه امام : ج8 ص 334 ۔
  17. خمینی، روح الله، صحیفه امام : ج 10 ص 340 ۔
  18. خمینی، روح الله، صحیفه امام، ج 6 ص 123 اور ج 13 ص 73
  19. محمد على تسخىرى وحدت اور التقرىب ص 110 ۔
  20. دیدار هم اندىشى علماء شىعه و اهل تسنن 1385۔ 10 ۔25 ش ۔
  21. سيّد جواد نقوى، وحدت امت مسلمه كا تارىخى مطالبه ص 179 ۔
  22. www.taghribnews.com.
  23. https://ur.wikivahdat.com/wiki/سید_جواد_نقوی