روزہ

    ویکی‌وحدت سے
    (مسودہ:روزہ سے رجوع مکرر)
    روزہ.jpg

    روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں۔ صوم کا لغوی معنی رکنے کے ہیں شرع کی رو سے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور عمل مباشرت سے رک جانے کا نام روزہ ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم سے ثابت ہے۔

    لغت میں

    عربی لغت میں روزہ کو "الصوم" کہتے ہیں جو باب صام یصوم وصیاما سے مصدر ہے۔ اس لفظ کا مادہ ص۔ و۔ م اور صوم کا لغوی معنی ہے "کام سے رُک جانا" کسی جگہ پر ٹھہر جانا۔ کھانے پینے، گفتگو کرنے اور چلنے سے رک جانے کو بھی صوم کہتے ہیں۔ لغوی معنیٰ کے لحاظ سے"صوم" کا اطلاق صرف روزے پر ہی نہیں ہوتا بلکہ عربی میں کہتے ہیں۔ "صامت الريح" ’’ ہوا تھم گئی‘‘۔ ’’صام النهار ‘‘ ’’ظہر کا وقت ہو گیا‘‘ (کیونکہ اس وقت آفتاب نصف النہار پر رکا ہوتا ہے)۔ اسی سے’’صامت الشمس‘‘ بھی کہا جاتا ہے یعنی سورج نصف النہار پر مرکوز ہے۔ لہٰذا ’’صوم الصائم‘‘ سے مراد کھانے پینے اور ان تمام امور سے باز آجانا ہے جن سے اسے منع کیا گیا ہو۔

    گفتگو سے رک جانے کو بھی ’’صوم‘‘ ہی کہتے ہیں۔ سورہ مریم میں ہے: ﴿فَقُولِيٓ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْما فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيّا﴾۔ [1]۔ کہ بے شک میں نے خدا کی رضا کی خاطر چپ کا روزہ رکھا ہے۔ اور ساتھ ہی تشریح اور توضیح بھی کر دی:

    ﴿فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيّا﴾ کہ میں آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی۔ قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کا وہ روزہ کھانے پینے سے رُک جانے کا نہ تھا کیوں کہ اس سے پہلے خود رب سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے انہیں حکم ہوا تھا: ﴿فَكُلِيْ وَاشْرَبِي﴾ کھجوریں کھا اور چشمے کا پانی پی۔

    ہاں اگر کوئی آدم زاد آئے تو کہہ دینا میں نے رب کی رضا کے لیے چپ کا روزہ رکھا ہے۔ عربی میں بعض اوقات’’قائم‘‘ کو ’’صائم‘‘ بھی کہتے ہیں ،اس لیے کہ وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوتا ہے۔ نابغہ ذبیانی کا ایک شعر ’’صوم‘‘ کے اس لغوی معنیٰ کو واضح کرتا ہے: ﴿خَيْلٌ صِيَامٌ وَّ خَيْلٌ غَيْرُ صَائِمَةٍ تَحْتَ الْعَجَاجِ وَخَيْلٌ تَعْلُكُ اللُّجَمَا﴾

    "غبار جنگ کے سائے تلے کچھ گھوڑے ثابت قدم (صائم) ہیں اور کچھ گھوڑے حرکت کرتے ہوئے (غیر صائمہ) اپنی لگاموں کو چبا رہے ہیں"۔ اس ساری بحث سے یہ نتیجہ منتج ہوا کہ صوم کا لغوی معنی ہے ’’کام سے رک جانا‘‘ خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو۔

    اصطلاح میں

    اصطلاح شریعت میں صوم کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے:

    ﴿الإمساك عن المفطرات مع النية ،من طلوع الفجر إلى غروب الشمس﴾۔ یعنی طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک تمام مفطرات سے اس طرح رک جانا کہ (مکمل روزے کی ) نیت شاملِ حال رہے۔ [2]۔

    (شریعت اسلام میں )روزے سے مرادہے خداوندعالم کی رضا اوراظہار بندگی کے لئے انسان اذان صبح سے مغرب تک آٹھ چیزوں سے جوبعدمیں بیان کی جائیں گی پرہیز کرے[3]۔ روزہ اسلام میں ایک فرض جس کے ادا کرنے کے لیے صبحِ صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پِینے اور بیوی کی مقاریت سے پرہیز کِیا جاتا ہے، مذہب اسلام میں روزے کی تین قسمیں ہیں فرض، واجب اور نفل روزہ، فرض روزہ رمضان کے مہینے میں پہلی تاریخ سے آخری تاریخ تک (پورے مہینے) کا ہوتا ہے [4]۔

    روزہ کب فرض ہوا؟

    روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ہر نبی اور اس کی امت پر فرض کی گئی ،کوئی امت روزہ کی فرضیت سے خالی نہیں رہی، اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿كَمَاكُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ﴾ اس کی دلیل ہے۔ امام مجاہد کا قول ہے: ﴿كتب اللّٰه عزوجل صوم شهر رمضان علٰي كل امة۔﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے رمضان کا روزہ ہر امت پر فرض کیا تھا[5]۔ اللہ تعالیٰ نے سابقہ تمام امتوں پر روزہ فرض قرار دینے کی خبر ہمیں اس لیے دی تاکہ ہماری نظروں میں اس کی اہمیت اور قدرومنزلت مزید بڑھ جائے،مزید شوق ورغبت پیدا ہوجائے ،نیز یہ کہ روزہ آسان لگنے لگے،کیونکہ کوئی بھی مشکل چیز جب عمومیت اختیار کرجائے تووہ آسان ہوجاتی ہے۔

    ﴿اذا عمت البلوي طابت﴾۔ ہمارے روزے کو سابقہ اقوام کے روزے سے تشبیہ دینا باعتباراصلِ وجوب ہے، یعنی جس طرح سابقہ اقوام پر روزہ فرض تھا اسی طرح ہم پر بھی فرض ہے یہ تشبیہ باعتبار کیفیت ِ صوم نہیں ہے،کیونکہ ہمارے اور سابقہ اقوام کے روزہ کی کیفیت میں فرق تھا،،جیساکہ ابن عاشور نے فرمایا : ﴿فَحَصَلَ فى صِيامِ الإسْلامِ ما يُخالِفُ صِيامَ اليَهُودِ والنَّصاريٰ فى قُيُودِ ماهِيَّةِ الصِّيامِ وكَيْفِيَّتِها، ولَمْ يَكُنْ صِيامُنا مُماثِلًا لِصِيامِهِمْ تَمامَ المُماثَلَةِ﴾ اسلام کے روزے کی کیفیت یہود ونصاریٰ کے روزے سے بالکل الگ ہے ہمارے روزے ان کے روزے کے مماثل نہیں ہیں ۔ چنانچہ ان کاروزہ عشاء کی نماز سے شروع ہوکر غروبِ آفتاب تک جاتا،جبکہ ہمارار وزہ ابتداء فرضیت میں اسی طرح تھا لیکن پھر اللہ نے آسانی پیدافرماتے ہوئے طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک مقرر فرمادیا۔

    سابقہ اقوام نے اپنے روزہ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا ،چنانچہ یہودیوں نے رمضان المبارک کی جگہ روزے کے لیے پورے سال کا صرف ایک دن مقرر کرلیا،جو ان کے زعم میں فرعون کے غرق ہونے کا دن تھا،جبکہ عیسائیوں نے جب یہ دیکھا کہ رمضان المبارک تو شدید گرمی کے موسم میں آتا ہے تو انہوں نے قمری مہینہ کی جگہ ایک ایسا شمسی مہینہ تجویز کرلیا جو ہمیشہ موسمِ بہار میں آئے۔

    اس لحاظ سے امت محمدیہ بے شمار آفرین اور شاباش کی مستحق ہے کہ جس نے سابقہ اقوام کی روش کے بالکل برعکس روزے کا حق ادا کردیا،اور کسی بھی مقام پر کسی بھی موسم کی شدت یا روزے کی طوالت ان کے آڑے نہ آسکی اور نہ ہی کسی قسم کی رکاوٹ بن سکی۔

    اُمتِ محمدیہ پر ر و ز ہ کب فرض ہوا؟

    اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد اور ان کی امت پر ۲؁ھ میں روزہ فرض فرمایا،گویا رسول اللہ کی بعثت کے پندرہویں سال روزے کی فرضیت نازل ہوئی، اور رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ ومبارکہ میں نو مرتبہ رمضان کا مہینہ آیا۔ روزے کی فرضیت میں اس قدر تاخیر کا سبب بیان کرتے ہوئے علامہ جمال الدین القاسمی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

    ﴿ولَمّا كانَ فَطْمُ النَّفْسِ عَنْ مَأْلُوفاتِها وشَهَواتِها مِن أشَقِّ الأُمُورِ وأصْعَبِها، تَأخَّرَ فَرْضُهُ إلى وسَطِ الإسْلامِ بَعْدَ الهِجْرَةِ، لَمّا تَوَطَّنَتِ النُّفُوسُ عَلي التَّوْحِيدِ والصَّلاةِ، وألَفِتْ أوامِرَ القُرْآنِ، فَنُقِلَتْ إلَيْهِ بِالتَّدْرِيجِ. وكانَ فَرْضُهُ السَّنَةَ الثّانِيَةَ مِنَ الهِجْرَةِ. فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ وقَدْ صامَ تِسْعَةَ رَمَضاناتٍ﴾[6]۔ چونکہ کھانا پینا اور دیگر شہوات کا ترک لوگوں کے لیے انتہائی مشکل اور دشوارکن امر ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے (ازراہِ شفقت ومحبت ) روزے کی فرضیت کو ہجرت کے بعد تقریباً وسط اسلام تک مؤخر رکھا،چنانچہ لوگوں کے نفوس اور طبائع عقیدۂ توحید اور اقامتِ صلاۃ پر پختہ ہوگئے ،اور وہ اوامرِقرآن سے خوب مانوس ومالوف ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے روزہ کی فرضیت نازل فرمادی،اور اس میں بھی تدریج کا پہلو پسند فرمایا(تاکہ اس عظیم عبادت کی ادائیگی میں کسی سستی و کوتاہی کا مظاہرہ نہ ہونے پائے۔ وہ چیزیں جوروزے کوباطل کرتی ہیں :

    آٹھ چیزیں روزے کوباطل کردیتی ہیں

    1. کھانااورپینا۔
    2. جماع کرنا۔
    3. استمناء۔ یعنی انسان اپنے ساتھ یاکسی دوسرے کے ساتھ جماع کے علاوہ کوئی ایسافعل کرے جس کے نتیجے میں منی خارج ہو
    4. اللہ تعالیٰ،پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اورائمہ طاہرین علیہم السلام سے احتیاط واجب کی بناء پر کوئی جھوٹی چیز منسوب کرنا۔
    5. احتیاط واجب کی بناء پر غلیظ غبار حلق تک پہنچانا۔(جیسے آٹا)
    6. اذان صبح تک جنابت، حیض اورنفاس کی حالت میں رہنا۔
    7. کسی سیال چیزسے حقنہ(انیما) کرنا۔
    8. عمداًقے کرنا [7]۔

    روزہ کے حِکَمْ ومقاصد

    علماء نے روزہ کی بہت سی حکمتیں بیان فرمائی ہیں،لیکن سب سے بڑی حکمت اورسب سے ارفع وا علیٰ مقصد وہ ہے جس کا اللہ رب العزت نے اپنے مقدس کلام میں ذکر فرمایا ہے: ﴿يَااَ يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ [8]۔ اے ایمان والو!تم پرروزے رکھنا فرض کیا گیاجس طرح تم سے پہلے لوگوں پر (صوم)فرض کیاگیاتھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘

    اس آیت میں روزہ کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ یہ تقویٰ کا باعث ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ روزہ دوسری تمام عبادات سے بوجوہ منفرد ہے،کہ یہ رب اور بندے کے درمیان راز و نیاز کا معاملہ ہے جبکہ دوسری تمام عبادات مثلاً نماز، حج اور قربانی وغیرہ ظاہری عبادات ہیں جو ظاہری حرکات و سکنات سے بے نیاز ہونے کے باعث ریا جیسی بیماری سے جو کہ بڑی بڑی عبادتوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ محفوظ و مامون ہے اس لیے کہ روزہ دار کے روزہ کی حقیقت (کہ وہ روزے سے ہے یا نہیں) رب تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتی۔

    مثال کے طور پر ایک آدمی وضو کرتے ہوئے تین دفعہ کلی کرتا ہے۔ اس وقت پانی اس کے منہ میں ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اس پانی کا اکثر حصہ اپنے حلق میں اتار سکتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی اس حرکت کو نہیں دیکھ سکتی۔ لیکن ایک چیز اسے پانی کا ایک قطرہ بھی شدید پیاس کے باوجود حلق میں پانی اتارنے سے باز رکھتی ہے اور یہ چیز رب کریم کا خوف ہے جس کا دوسرا نام تقویٰ وخشیت الہٰی ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اپنی خواہش پر اس نے غلبہ پالیا اور یہ تقویٰ (خواہشات پر کنٹرول) انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    شیخ ابوعبدالرحمان عبد اللہ البسام نے ’’تیسیر العلام شرح عمدۃ الاحکام:صفحہ نمبر ۳۱۲کتاب الصیام‘‘ میں انتہائی جامعیت کے ساتھ روزہ کی دینی،اجتماعی ،اخلاقی اور صحتِ انسانی کے متعلق کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں،انہی کے نفیس کلام کا خلاصہ ملاحظہ کیجئے۔ روزہ کی بلند ترین حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان عبادت ہے ،چنانچہ روزہ شہوت کے بادشاہ کی مخالفت کرکے یا کہیے کہ غلبۂ شہوت کا قلع قمع کرتے ہوئے مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے،اور ظاہر ہے کہ نفسِ انسانی جب خوب سیر ہو تو اسے مستی سوجھتی ہے ﴿كَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰي۔اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰي﴾ [9]۔ سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہوجاتاہے،اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو بے پرواہ (یاتونگر)سمجھتا ہے [10]۔

    لیکن روزہ رکھ کر انسان جب بھوک اور پیاس کی شدت کی بنا پر اپنے عجز وضعف کو ملاحظہ کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ نفس کے کِبر اور بڑائی کی تو کوئی حقیقت نہیں،نتیجۃً وہ اپنے رب کے لیے بھی مسکین ورقیق القلب ہوجائے گا،اور مخلوقات کے لیے بھی نرم دل۔

    روزہ کی اجتماعی حکمت

    روزہ کی اجتماعی حکمت یہ ہے کہ پوری خلق ایک ہی وقت میں ایک عبادت پر مجتمع ہوتی ہے ،چنانچہ خواہ کوئی طاقت ور ہویا کمزور،شریف ہو یا وضیع، مالدار ہویافقیر سبھی کو ایک ساتھ ہی روزہ شروع کرنا ہے اورایک ہی وقت میں افطار کرنا ہے ،تمام کو یکساں بھوک اور پیاس کی تکلیف کو جھیلنا ہے اورصبر کرنا ہے ،یہ چیز قلو ب وارواح میں باہمی ربط، الفت اور محبت پیدا کرنے کا عظیم سبب بن جائے گی۔

    وگ ایک دوسرے کے ساتھ شفقت ورحمت کا برتاؤکریں گے، بالخصوص مال دار کہ جنہیں بھوک اور پیاس برداشت کرکے معاشرہ کے غریب،تباہ حال اور پسے ہوئے اپنے بھائیوں کی بھوک اور پیاس کا احساس ہوگا،وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگا کہ وہ بھوک اور پیاس جسے اس نے صرف ایک ماہ مشکل سے برداشت کیا ،اس کا غریب بھائی اور اس کا پورا کنبہ پورا سال برداشت کرتا اور جھیلتاہے،اس سے یقینا اس کے دل میں سخاوت و فیاضی کا احساس ہوگا،دلوں کی تفریق ،حسد وبغض،عداوت اور رنجش دور ہوں گی،ان کی جگہ محبت اور بھائی چارہ کی فضا استوار ہوگی،نتیجۃً تمام طبقاتِ انسانی میں وہ سلامتی رائج ہوجائے گی جو دینِ اسلام کو مطلوب ہے۔

    روزہ کی اخلاقی وتربیتی حکمت

    روزہ کی اخلاقی وتربیتی حکمت یہ ہے کہ صبر وتحمل کا درس دیتا ہے، عزیمت و ارادہ کو قوت واستحکام بخشتا ہے، مشاکل ومصائب کا حملہ ہوتو خندہ پیشانی سے جھیلنے بلکہ ان کا مقابلہ کرکے انہیں زیر کرنے کی ٹریننگ دیتا ہے۔ روزہ صحتِ انسانی کے تعلق سے بڑی پُر حکمت عبادت ہے ، ’’فإن المعدة بيت الداء ،والحمية رأس الدواء‘‘ ،’’یعنی انسان کا معدہ بیماریوں کا گھر ہے اورپرہیز (خلوِمعدہ) تمام دواؤں وعلاجوں کا سردار ہے‘‘،معدے کو آرام وراحت کا وقفہ چاہئے،کیونکہ ہمیشہ اور مسلسل کھانے پینے کی وجہ سے وہ بُری طرح تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے،لہٰذا اس طویل ترین مشقت کے بعد اسے اس کے آرام کا مکمل حصہ دستیاب ہونا چاہئے تاکہ وہ استراحت کے اس وقفہ میں جسم سے زائد فضلات اور فاسد مادوں کو نکال باہر کرے اور جہاز ہاضمی وغیرہ کو رواں دواں کرے۔ دیکھئے تفصیل کیلئے [11]۔

    روزہ سے مقصود فاقہ کرنا نہیں یا اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا نہیں ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں :’’کہ روزہ کے حکم سے یہ مقصود نہیں ہے کہ انسان کافاقہ کرنا اور اپنے جسم کو تکلیف ومشقت میں ڈالنا بلکہ تمام تر مقصود نفس انسانی کی اصلاح وتہذیب ہے ، روزہ کے رکھنے سے تم میں پرہیز گاری کی قوت پیدا ہوگی اور نفسانی خواہشوں کو قابو میں رکھنے کا سبق سیکھ لوگے۔ [12]۔

    ابن القیم جوزیہ روزہ کی سِریت ومقصدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ﴿للصوم تأثيرٌ عجيب فى حفظ الجوارح الظاهرة والقُوَي الباطنة، واستفراغ المواد الرديئة المانعة لها من صحتها، فالصوم يحفظ على القلب والجوارح صحتها ويعيد إليها ما استلبته منها أيدي الشهوات، فهو من أكبر العون على التقوي﴾ روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑی حیرت ناک تاثیر رکھتا ہے ،فاسد مادہ کے جمع ہوجانے سے انسان میں جو خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ان سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے، جو چیزیں مانع صحت ہیں ان کو خارج کر دیتا ہے اور اعضاء و جوارح میں جو خرابیاں ہوس کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں وہ اس سے دفع ہوتی ہیں ۔ وہ صحت کے لیے مفید اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے میں ممد ومعاون ہے[13]۔

    طبی ،اخلاقی اور معاشرتی حکمت

    فضل الرحمان المدنی رقم طراز ہیں:’’ طبی ،اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے بھی روزہ کے بہت سے فوائد ہیں ، اس سے مالداروں کو غریبوں کے فقر وفاقہ اور بھوک و پیاس کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور صدقہ وخیرات کی ترغیب ہوتی ہے پیٹ اور بلڈپریشر وغیرہ کے مریضوں کے لیے بھی روزہ مفید ہے ، سال بھر خوب شکم سیر ہوکر کھانے سے جو فاسد مادے پیٹ اور جسم کے دوسرے حصوں میں جمع ہوجاتے ہیں اس سے احتساب نفس اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کے عقیدہ ویقین کو بھی جلاء ملتی ہے۔ [14]۔

    صالح الفوزان اپنی کتاب ’’الملخص الفقہی ‘‘میں روزہ کی کچھ مزید حکمتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یعنی روزہ کو مشروع قرار دینے کی حکمت تزکیۂ نفس ہے ،نیز اسے ردی اخلاط اور رذیل اخلاق سے پاک کرنابھی مقصود ہے،کیونکہ شیطان تو انسان کی رگوں میں گردش کرتا ہے اور روز ے سے (کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ) رگوں میں تنگی پیدا ہوتی ہے جس سے گویاشیطان کاراستہ تنگ ہوجاتا ہے ،جبکہ بسیارخوری رگوں کی کشادگی کا باعث ہے ،جو شہوات کی وسعت، ارادے کے ضعف اور عبادت میں قلتِ رغبت پر منتج ہوتی ہے ،روزہ سے انسان ان تمام منفی عوارض سے محفوظ رہتا ہے ،بلکہ روزہ انسان کو زاہد بنادیتا ہے اور آخرت کی رغبت بڑھادیتا ہے [15]۔

    روزے کے مادی اور روحانی فوائد

    اسلامی عبادات میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی طہارت ،نفاست و پاکیزگی کا التزام ہر جگہ موجود ہے۔ نماز اگر آئینہ دل کو مجلّٰی اور مصفٰی کرتی ہے تو وضو جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے لیے نماز کی اوّلیں شرط قرار پایا۔ اسی طرح اگر عورت کو نقاب اوڑھنے کا حکم دیا تو ساتھ قید بھی لگائی: ﴿وَقُل لِّلْمُؤْمِنَـٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَـٰرِهِنَّ﴾

    کہ اے رسولﷺ! مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس عورت کی نگاہ عصمت و عفت اور فطری حیا سے خالی ہے۔ اس کے لیے اگر لاکھ نقابوں کا اہتمام بھی کر لیا جائے تو وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لیے ’’یغضضن من ابصارھن‘‘ کی ضرورت پیش آئی۔

    روزہ بھی اس حکمت سے خالی نہیں۔ روزہ سے جہاں انسان کی باطنی طہارت اور روحانی صحت کا التزام کیا گیا ہے وہاں اس کی جسمانی صحت اور نظامِ انہضام کی خرابیوں کا علاج بھی اس میں موجود ہے۔ پھر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کثرت خوری اور وقت بے وقت کھانا معدے کی امراض کا موجب ہیں۔ اس سے جسمانی نشوونما صحیح طریق پر نہیں ہوتی بلکہ غیر متناسب غذا اور کھانے کے غیر متعین اوقات کی بدولت اکثر لوگ لبِ قبر پہنچ جاتے ہیں۔

    سال بھر کی ان بے قاعدگیوں کو روکنے اور صحت و تندرستی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے یہ لازم تھا کہ انسانوں کو تیس روز تک پابند کیا جاتا کہ وہ متعینہ وقت پر کھائیں، پئیں اور مقررہ وقت کے بعد کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ لیں۔ یہ کیسی حکمت ہے کہ عبادات کے ساتھ ساتھ انسان جسمانی صحت بھی حاصل کرتا ہے اور روح کی بالیدگیوں کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی صحت بتدریج کمال حاصل کرتی جاتی ہے۔

    تجربہ شاہد ہے کہ رمضان میں اکثر لوگوں کی جسمانی بیماریاں محض کھانے کے اوقات کی پابندی کی بنا پر خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ بڑے بڑے مفسرین اور ائمہ مجتہدین نے روزے کی دوسری حکمتوں کے ضمن میں حکمتِ صحتِ جسمانی کا ذکر بھی کیا ہے۔ بسیار خوری سے مادیت کا غلبہ بڑھتا ہے اور شہوانی جذبات حملہ آور ہوتے ہیں۔ روزے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دن بھر بھوکے پیاسے رہنے سے جسمانی اعضاء میں کچھ کمزوری آجاتی ہے جس سے شہوانی جذبات کے حملے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ بھوک اور پیاس جنسی جذبات کی برانگیختگی کو کچل دیتے ہیں۔

    رسول اکرم کا فرمان ہے: ’’الصوم جنة‘‘ ’’ کہ روزہ ڈھال ہے‘‘۔ اس سے مراد صرف یہی نہیں کہ یہ صرف دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے بلکہ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ روزہ جنسی ہیجان نیز مادی او روحانی ہر قسم کی بیماریوں کے لیے ڈھال ہے اس طرح کہ بھوک پیاس اس کی جنسی خواہشات کو دبا کر اسے خداوند کریم کی طرف راغب کرتے ہیں۔ بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے: ’’يا معشر الشباب من استطاع منكم الباء ة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحفظ للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإن له وجاء ‘‘ ’’کہ اے نوجوانو! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی توفیق ہو اسے چاہئے کہ ضرور نکاح کرے، کیونکہ نکاح شرم و حیا اور شرمگاہ کی حفاظت کے لیے سب سے زیادہ مفید ہے اور جس نوجوان کو نکاح کی استطاعت نہ ہو اسے لازم ہے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ جنسی ہیجان کا تدارک کرتا ہے‘‘[16]

    حواله جات

    1. مریم آیہ 26
    2. تیسیر العلام شرح عمدۃ الأحکام ،کتاب الصیام، ص۳۱۲
    3. روزے کے احکام- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 مارچ 2025ء
    4. رُوْزَہ- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 مارچ 2025ء
    5. تفسیر قرطبی، ج1، ص651
    6. محاسن التاویل،ج3، ص 316
    7. روزے کے احکام- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 مارچ 2025ء
    8. بقرہ، آیہ 183
    9. علق آیہ 6و 7
    10. تیسیر العلام شرح عمدۃ الاحکام،ص 312
    11. تیسیر العلام شرح عمدۃ الأحکام،ص313
    12. ترجمان القرآن،ج 1، ص 308
    13. ۔زاد المعاد لابن القیم،ص315
    14. نعمۃ المنان،ج 3 ،ص 149
    15. الملخص الفقہی،منقول از کتاب روزہ حقیقت وثمرات ،ص28
    16. محمد محب اللہ محمدی،سپول بہار ، روزہ کا معنیٰ ومفہوم،حکمت ،وفوائد اور چند مشہور غلطیاں- شائع شدہ 4 مارچ 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 مارچ 2025ء۔