مدرسہ فیضیہ
مدرسہ فیضیہ اسلام کے قرون وسطی کے تاریخی ادوار ایک اہم مقام ہے جو قم میں ، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے مزار کے قریب واقع ہے۔ یہ مدرسہ عالم اسلام کے بہت سے نامور علمائے کرام اور بزرگان دینی کی تعلیم و تدریس کا مرکز رہا ہے۔ سید محمد باقر میرداماد، صدرالمتالہین شیرازی جنہیں ملا صدار کے نام سے پہچانا جاتا ہے، ملا فیض کاشانی، ملا عبدالرزاق لاہیجی، شیخ عبدالکریم حائری، سید حسین بروجردی اور امام خمینی رح جیسی مشہور و معروف شخصیات نے اس مدرسے میں تعلیم حاصل کی اور تدریس و ترویج علم کی خدمات انجام دیں۔
تاریخی پس منظر
مدرسہ فیضیہ کہ جس کو قدیم الایام میں مدرسہ آستانہ کہا جاتا تھا اس کا شمار قم المقدسہ کے ان قدیمی مدرسوں میں کیا جاتا ہے کہ جو زمانہ قدیم سے ہی تعلیم و تدریس کا مرکز رہے ہیں۔ یہ مدرسہ سن 939 ہجری قمری میں صفوی دور حکومت میں شاہ طہماسب اول کے دور حکومت میں تعمیر کیا گیا۔ اس مدرسے کے جنوبی ایوان کے دروازے پر کہ جو اس کے قدیمی صحن کی جانب کھلتا ہے شاہ طہماسب صفوی کے نام کا کتبہ آج بھی موجود ہے۔
وجہ تسمیہ
لیکن مدرسہ فیضیہ کی موجودہ عمارت سن 1214 ہجری قمری میں فتح علی قاجار کے دور حکومت میں اس کی قدیمی بوسیدہ عمارت پر تعمیر کی گئی۔ اس مدرسے کو ملا فیض کاشانی سے نسبت دیتے ہوئے مدرسہ فیضیہ کے نام سے پاکارا جانے لگا چونکہ انہوں نے اس مدرسے میں درس و بحث کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ فیض کاشانی کا شمار شاہ عباس دوم کے دور حکومت میں بزرگ علمائے کرام میں کیا جاتا تھا۔
آپ فقہ، حدیث، تفسیر، اور فلسفے جیسے علوم میں صاحب نظر اور برجستہ شخصیت شمار کئے جاتے تھے جبکہ آپ کی گراں بہا تالیفات آج بھی حوزہ ہائے علمیہ کے طالبعلموں کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ آپ ملا صدرا کے شاگرد اور داماد تھے اور آپ نے قم المقدسہ میں اپنے قیام کے دوران مدرسہ آستانہ کو اپنی مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور اس مدت میں تقریبا دو سو سے زیادہ کتابیں اور رسائل تحریر کئے۔ اسی وجہ سے مدرسہ آستانہ کو آپ کے نام سے پہچانا جانے لگا اور آج بھی لوگ اسے مدرسہ فیضیہ کے نام سے پہچانتے ہیں۔
ڈھانچہ
مدرسہ فیضیہ کی دو منزلہ عمارت میں 80 ہجرے ہیں جن میں سے چالیس قاجاریہ دور میں بنائے گئے جبکہ بالائی منزل پر مزید 40 ہجرے 14ویں ہجری صدی میں تعمیر کئے گئے۔ اس کا سب سے قدیمی ایوان جنوبی ایوان ہے جو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے مزار کے معروف صحن عتیق سے ملحق ہے اور جسے سن 939 ہجری قمری، میں صفوی دور حکومت میں معرق کاری کے زریعے مزین کیا گیا ہے۔
مدرسہ فیضیہ میں کافی سالوں تک طالب علموں کی تعداد انتہائی کم تھی لیکن فتح علی شاہ کے زمانے میں مرزا ابوالقاسم قمی نے یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور پھر کئی نامور اور بزرگ علمائے کرام نے انکے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے۔
دور جدید میں
1340 ہجری قمری کو آیت اللہ العظمیِ حاج شیخ عبدالکریم حائری کی قم المقدسہ آمد نے حوزہ علمیہ اور مدرسہ فیضیہ کو ایک نئی زندگی دی اور پھر حوزہ ہائے علمیہ میں تشکیل پانے والی کلاسوں میں سینکڑوں طالبعلموں نے شرکت کرنا شروع کی اور یہ کلاسیں اسلامی افکار کی ترویج کے مراکز میں تبدیل ہوگئیں۔ آیت اللہ حائری کے زمانے میں مدرسہ فیضیہ کی دوسری منزل تعمیر کی گئی۔
آیت اللہ حائری کی رحلت کے بعد مدرسہ فیضیہ کے امور کی ذمہ داری آیات عظام فیض، حجت اور خوانساری نے سنبھال لی اور پھر 1364 ہجری قمری کو آیت اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردی کی قم آمد کے بعد مدرسہ فیضیہ کی رونق میں مزید اضافہ ہوا اور پھر طالبعلموں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ آیت اللہ بروجردی نے مدرسہ فیضیہ کی علمی کیفیت کو بھی پروان چڑھایا۔ ان کی مرجعیت کے زمانے میں مدرسہ فیضیہ کو ایک اہم اور معتبر علمی مرکز شمار کیا جانے لگا۔ یہ مدرسہ ان کا تدریس کا مرکز بھی تھا اور یہیں پر ان کی امامت میں نماز جماعت کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا۔
حوزہ علمیہ قم اور حکومت کا تنازعہ
آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ قم اور حکومت کے درمیان اختلاف اور تنازعے کا نقطۂ آغاز یہ تھا کہ پہلوی دوئم نے علمائے قم کو پیغام تعزیت بھیجنے کی بجائے نجف میں آیت اللہ سید محسن حکیم کو تعزیتی پیغام دیا اور اس کے اس اقدام سے ایران کے علما نے اس امر کے مترادف قرار دیا کہ وہ شیعہ مرجعیت کو ایران سے سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے[1]۔
پہلوی حکومت کے اگلے اقدامات نے حوزہ علمیہ قم کی سیاسی منزلت کو نمایاں تر کر دیا اور امام خمینی اور ان کے ساتھیوں، حامیوں اور دوسرے علماء کے برملا موقف کے اظہار کی وجہ سے امام خمینی کی مرجعیت کو مستحکم تر کر دیا۔ امام خمینی عالی رتبہ استاد تھے جن کا درس خارج معتبر تھا اور فلسفہ، اصول اور فقہ میں بڑی تعداد میں شاگردوں کی پرورش کرچکے تھے۔ ان کے سیاسی اقدامات نے حوزہ قم پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔
ریاستوں اور صوبوں کی انجمنوں کا مسودہ قانون
8اکتوبر سنہ 1962ء کو ریاستوں اور صوبوں کی انجمنوں کا مسودہ قانون "اسد اللہ عَلَم" کی کابینہ میں منظور کیا گیا جس میں منتخب کرنے والوں (رائے دینے والوں) اور منتخب ہونے والوں (رائے لینے والوں) کے لیے اسلام کی شرط حذف کی گئی تھی اور حلف برداری کی تقریبات میں قرآن پر حلف اٹھانے کی شرط ہٹا کر "ہر آسمانی کتاب" پر حلف اٹھانے کو ممکن گردانا گیا تھا۔
اس مسودۂ قانون نے عوام کے دینی جذبات کو مشتعل کیا اور علما اور مراجع نے شدید مخالفت کی اور اعتراضات کیے۔ دو مہینے مسلسل جدوجہد کے بعد حکومت نے باضابطہ طور پر آیت اللہ گلپایگانی کو ٹیلی گرام بھیج کر یقین دہانی کرائی کہ یہ قانون نافذ نہیں کیا جائے گا [2]۔ اسی سال چھ مسودات قانون کے لیے استصواب رائے عامہ (Referendum) کی مخالفت کے سلسلے میں بھی حوزہ قم نے شدید رد عمل دکھایا۔ قم کے مراجع تقلیدنے ایک مشترکہ فیصلے کے تحت قرار دیا کہ استصواب رائے کا مقاطعہ (Boycott) کرنے کے لیے ایک اعلامیہ جاری کیا جائے۔
آیت اللہ گلپایگانی نے اس دوران حکومت کے پس پردہ منصوبے فاش کر دیے [3]۔ اور امام خمینی نے استصواب ایران کو ایران کے قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔[4]۔ جنوری سنہ 1963 عیسوی کو شاہ نے قم آنے کا ارادہ کیا تو قم کے کمشنر نے علما کے ساتھ نشست رکھی اور ان سے شاہ کی ملاقات کو جانے کی درخواست کی؛ امام خمینی نے انکار کیا اور دوسرے علما نے ان کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا اور فیصلہ ہوا کہ علما اور طلبہ اس دن اپنے گھروں میں رہیں [5]۔
نتیجہ یہ ہوا کہ شاہ اس دن کسی سنجیدہ اور وسیع استقبال کے بغیر قم آیا اور علما کے خلاف تقریر کی [6]۔ شاہ کے خطاب کے رد عمل میں امام خمینی نے ایک اعلامیہ حکومت کے خلاف سخت لب و لہجے میں ایک اعلامیہ جاری کیا [7]۔ کچھ عرصہ بعد عید نوروز کے ایام میں ـ امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کی ایام عید کے ساتھ مطابقت کی رو سے ـ علما نے اعلان کیا کہ "مسلمانوں کی اس سال کوئی عید نہیں ہے" [8]۔
مدرسہ فیضیہ پر حملہ
22مارچ سنہ 1963 بمطابق 25 شوال سنہ 1382 ہجری قمری کو امام جعفر صادق علیہ السلام کی مناسبت سے مدرسہ فیضیہ میں ایک مجلس بپا تھی ـ جو شیخ عبدالکریم حائری کے زمانے سے معمول کے مطابق بپا ہوا کرتی تھی اور سید محمد رضا گلپایگانی نے ان کے بعد اس مجلس کو جاری رکھا تھا ـ کہ اسی اثناء میں فوجی دستوں نے مجلس کے شرکاء پر حملہ کیا اور دسوں طالب علموں اور عام لوگوں کو زد و کوب کیا اور کئی افراد کو قتل کیا۔
حکومت کے اس عمل کو علما اور مراجع تقلید کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور حتی کہ نجف کے علما ـ بالخصوص سید ابو القاسم خوئی، سید عبداللہ شیرازی اور سید محسن حکیم نے بیانات جاری کیے اور حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی۔ سید محسن حکیم نے حتی نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے حتی کہ علمائے ایران کو اجتماعی ہجرت کرکے عتبات عالیہ آنے کی دعوت دی تا کہ اس سلسلے میں کوئی بہتر فیصلہ کیا جاسکے [9]۔ دوسری طرف سے حکومت نے دینی طلبہ کو ہراساں کرنے کے لیے حکم دیا کہ انھیں فوج کی جبری بھرتی میں شامل کیا جائے اور حکم دیا کہ ان طلبہ کو گرفتار کیا جائے جن کے پاس تعلیمی کارڈ نہ ہو [10]۔۔
مدرسہ فیضیہ پر حملۂ کی تفصیلات
جمعہ، 25شوال1342 ، شیعوں کے چھٹے امام جعفر صادق کی شہادت کے دن، سید روح اللہ خمینی کے عوامی سوگ اور تقاریر اور ملک بھر میں علما کو متحرک کرنے کی ان کی کوششوں کے بعد ، بہت سے اعلانات مذہبی مجالس اور مساجد میں جلسوں کا اعلان کیا گیا اور اعلانات میں لوگوں کو دعوت دی کہ وہ سنیں کہ ان اجلاسوں میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے واقعات کے بارے میں کیا کہا گیا تھا۔
محمد رضا شاہ کی حکومت بھی اس تحریک کی تیاری کر رہی تھی۔ وعدے کے دن ، قم میں علماء نے تین بڑی مجالس کا انعقاد کیا۔ پہلا سیشن جمعہ کی صبح امام خمینی کے گھر پر ہوا ، دوسرے سیشن کی میزبانی آیت اللہ شریعتمداری نے کی اور تیسرا سیشن اسی دن دوپہر میں آیت اللہ گلپایگانی کی دعوت پر مدرسہ فیضیہ میں منعقد ہوا۔ منصوبے کے مطابق ، کچھ کمانڈوز ، کسانوں کے کپڑوں میں ملبوس اور چاقو اور لاٹھیوں سے لیس ، کئی وہید بسوں کے ذریعے تہران سے قم میں داخل ہوئے۔
اس کے علاوہ ، فوجیوں اور خصوصی پولیس دستوں کی ایک بڑی تعداد فاطمہ معصومہ کے مزار کے صحن اور فیضیہ اسکول کے گرد جمع تھی۔ شہر میں ایک مختصر سی تدبیر کے بعد یہ لوگ قم کے دروازے پر گئے اور وہیں بس گئے۔ فیضیہ اسکول میں تقریر کے دوران محمد رضا شاہ کی حکومت کی افواج نے اسکول پر حملہ کیا۔ آس پاس کی چھتوں پر پہنچنے کے بعد فورسز نے مولویوں پر فائرنگ کی اور چھتوں سے متعدد علما کو پھینک دیا۔
اس واقعہ میں سید یونس راؤدباری نامی ایک نوجوان مولوی زخمی ہونے کے بعد فیضیہ کی چھت سے پھینک کر ہلاک ہو گیا۔ پرویز معتمد ، اس حملے میں 53 ساوک کارکنوں میں سے ایک ، اس دعوے کی تردید کرتا ہے کہ طلبہ کو چھتوں سے زمین پر پھینکا گیا۔
"ہم نے صرف طلبہ کو مارا۔ ہم نے مارنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ہم سیل میں جاتے اور طلبہ کو باہر لاتے۔ ہم نے انھیں اپنی کمروں اور گردنوں اور لاتوں اور لاٹھیوں سے باہر نکالا۔ یقینا ہم نے توہین اور گستاخی بھی کی اور اس طرح ہم نے ان سے اپنی نفرت ظاہر کی۔ ہمارے ذرائع کے مطابق میدان میں بات کرنے والوں کی نشان دہی کی گئی۔ میرے خیال میں 10-12 افراد کو گرفتار کر کے تہران بھیج دیا گیا۔
قم میں کچھ لوگوں نے عہد کیا اور ابتدائی تفتیش کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔ ان کی نہ کوئی تنظیم تھی اور نہ کوئی تنظیم ، اس لیے ان سے نمٹنا ساواک قم کی سطح پر تھا۔ انھیں ٹراؤٹ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اور .. "ہمیں وہاں چاقو نہیں ملا۔"
آپ نے طلبہ کو کتنا مارا؟ "یہ عمل کی شدت تھی۔ میں انکار نہیں کرتا۔ اوپری منزل سے ، جہاں ہم نے انھیں مارا ، ہم انھیں چیک ، لاتوں ، لاٹھیوں اور گالیاں دے کر نیچے صحن میں لے آئے اور پھر گاڑی کی دم تک۔ یقینا ، جب آپ کارروائی کی شدت کو بڑھاتے ہیں تو ، دوسری طرف سے خون بہہ سکتا ہے اور اس کا سر نیلا پڑ سکتا ہے۔ ہر ٹیم 4 کمروں کی ذمہ دار تھی۔ وہ چیزیں جمع کر رہے تھے۔ وہ معائنہ کر رہے تھے۔ منٹ لیے گئے۔ اگر سائیڈ تھوڑی آہستہ جاتی تو ہم اسے چیک اور لات سے آگے بڑھا دیتے اور اسے زیادہ مارا جاتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو گھسیٹ کر آپ کی طرف لائے ہوں۔ ہمارے پاس پولیس گارڈز کا ایک حلقہ بھی تھا جس نے اس جگہ کو گھیر لیا تاکہ باہر سے کوئی بھی جائے وقوعہ میں داخل نہ ہو۔ "مقصد سننا تھا اور کچھ نہیں [11]۔
امام خمینی(رح) کی گرفتاری
محرم سنہ 1383ہجری قمری / جون سنہ 1963عیسوی میں حوزہ علمیہ اور حکومت وقت کے درمیان محاذ آرائی نے شدت اختیار کی اور امام خمینی نے عاشورا کے دن مدرسہ فیضیہ میں خطاب کرکے ایسے مسائل پر روشنی ڈالی جن کے منبروں پر بیان کرنے سے شاہ کی خفیہ ایجنسی "ساواک" نے پابندی لگا رکھی تھی۔ امام خمینی نے شاہ اور اسرائیل کے خلاف موقف ظاہر کیا۔
اور یہی موضوع آخر کار ان کی گرفتاری پر منتج ہوا اور انھیں مورخہ 5 جون 1963 بمطابق 12 محرم 1383 ہجری قمری کی شب کو گرفتار کیا گیا۔ قم اور دوسرے شہروں کے علما اور مراجع کی کوششوں کے نتیجے میں انھیں مورخہ 4 اپریل 1964 عیسوی کو رہا کیا گیا اور وہ قم واپس آئے اور اپنا تدریسی سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور اپنے گھر میں جدید مسائل پر بحث کا سلسلہ جاری رکھا۔
امام خمینی(رح) کی جلاوطنی
لیکن مورخہ 26 اکتوبر 1964 عیسوی، کو ایک تقریر کے ضمن میں "کیپیچولیشن (Capitulation)" (=مشروط اطاعت کا معاہدہ) کے خلاف اظہار خیال کرنے کے بعد [12] مورخہ 4 نومبر 1964 عیسوی کو دوسری مرتبہ گرفتار اور ترکی جلاوطن کیے گئے [13]۔
حوزہ قم امام خمینی(رح) کی جلاوطنی کے بعد
سید روح اللہ خمینی کی جلاوطنی کے بعد دوسرے مراجع اور امام(رح) کے ساتھیوں اور شاگردوں نے شاہ اور پہلوی حکومت کے خلاف حوزہ علمیہ قم کی جدوجہد کو جاری رکھا اور اس جدوجہد نے سیاسی پہلو کے علاوہ وسیع علمی اور ثقافتی پہلو اختیار کیے۔ اسی نقطۂ نظر کے مطابق مختلف دینی اور علمی مدارس، اداروں (Institutions) اور رسائل و جرائد کی بنیاد رکھی گئی۔
امام خمینی کی جلاوطنی کے بعد حوزہ علمیہ قم کی زعامت اس وقت کے تین مراجع تقلید محمد رضا گلپایگانی، کاظم شریعتمداری اور شہاب الدین مرعشی نجفی نے سنبھالی۔ یہ مراجع، اساتذہ اور طلبہ نے مختلف واقعات پر مربوط موقف اپنایا۔ اس دور کے واقعات کے زمرے میں ذیل کے واقعات شامل ہیں: 2 جون 1970 عیسوی کو آیت اللہ محسن حکیم کی وفات کے بعد؛ [14]۔ حکومت نے حوزہ علمیہ قم کے 25 مدرسین اور علما کو تین سال تک جلاوطن کیا؛[15]۔ جون سنہ 1975 عیسوی میں مدرسہ فیضیہ میں جون 1963 کے شہداء کے لیے برسی کی مجلس منعقد ہوئی تو سرکاری چھاپہ مار دستوں نے مذکورہ مدرسے پر حملہ کیا اور متعدد افراد کو گرفتار اور کئی ایک کو جلاوطن کیا گیا۔؛ حوزہ نے حکومت کے طرف سے ہجری شمسی تقویم جعلی شاہنشاہی تقویم میں بدلنے کے اقدام کی مخالفت کی۔ جون سنہ 1975 عیسوی میں مدرسہ فیضیہ میں جون 1963 کے شہداء کے لیے برسی کی مجلس منعقد ہوئی تو سرکاری چھاپہ مار دستوں نے مذکورہ مدرسے پر حملہ کیا اور متعدد افراد کو گرفتار اور کئی ایک کو جلاوطن کیا گیا۔؛۔ حوزہ نے حکومت کے طرف سے ہجری شمسی تقویم جعلی شاہنشاہی تقویم میں بدلنے کے اقدام کی مخالفت کی [16]۔
سید مصطفی خمینی کی وفات
مورخہ 23 اکتوبر 1977 عیسوی کی شب نجف میں امام خمینی کے فرزند سید مصطفی کی وفات کی خبر ملنے پر قم اور پھر تہران میں ان کے لیے مجالس فاتحہ کا اہتمام کیا گیا جس کی وجہ سے امام خمینی کا نام ایک بار پھر ایران میں زبانزد خاص و عام ہوا [17]۔ علماء قم کے شدید رد عمل کا سبب بننے والے واقعات میں سے مورخہ 7 جون 1978 عیسوی کو روزنامہ "اطلاعات" میں امام خمینی کی توہین پر مبنی ایک مضمون کی اشاعت سے عبارت تھا
جس پر حوزہ قم نے شدید احتجاج کیا اور بعض نامور علما اور مدرسین نے شاہ کی حکومت کے خلاف خطاب کیا اور حکومت کے گماشتوں نے 9 جون 1978 کو بعض طلبہ کو گرفتار اور بعض کو شہید کیا۔ بعض مدرسین اس واقعے کے بعد جلاوطن کیے گئے [18]۔
مرکز انقلاب
آیت اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد یہ مدرسہ شاہ ایران کے خلاف امام خمینی رح کی تحریکوں کے اہم مرکز میں تبدیل ہوگیا۔ مدرسہ فیضیہ پر فوج، ساواک، پولیس اور شاہ کے آلہ کاروں نے متعدد مرتبہ چڑھائی کی اور ان واقعات میں کئی افراد شہید اور زخمی کئے گئے۔ 22 مارچ 1963 انہی دنوں میں سے ایک دن ہے کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام کے روز شہادت کی مناسبت پر منعقدہ مجلس عزا پر شاہ کے آلہ کاروں نے حملہ کیا تھا۔
یہ واقعہ دراصل امام خمینی رح کی جانب سے امریکی سفید انقلاب کی سازش کی مخالفت پر شاہی حکومت کا ردعمل تھا۔ امام خمینی رح نے 22 جنوری 1962 کو شاہی حکومت کی جانب سے اس سازش کو منوانے کے لئے استعمال کئے جانے والے ہتھکنڈوں کو اجباری ریفرنڈم سے تعبیر کیا تھا اور 26 جنوری کو جب شاہ نے اس منصوبے کو تصویب کر لیا تو امام خمینی رح نے 12 مارچ 1963 کو ایک بیانیہ جاری کر کے نئے ایرانی سال کے آغاز یعنی نوروز کے موقع پر عزائے عمومی کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد تمام علمائے کرام اور مراجع عظام نے بھی اس امام خمینی رح کے فیصلے کی توثیق کر دی۔
23 مارچ کو مدرسہ فیضیہ پر شاہ کے کارندوں کے حملے نے کہ جس میں طالب علموں کو شہید اور زخمی کیا گیا شاہی حکومت کی اسلام مخالف سازشوں کی قلعی کھول دی۔ اس واقعے کے بعد امام خمینی رح نے کافی عرصے تک مدرسہ فیضیہ کو پہنچنے والے نقصانات کا مشاہدہ کرنے کے لئے عوام کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور مدرسہ فیضیہ میں رونما ہونے والے واقعے کی وجہ سے اس مدرسے کو اور یہاں پر مقیم طالبعلموں کو پہنچنے والے نقصانات کا نزدیک سے مشاہدہ کریں۔
امام خمینی رح کی دوسری اہم تقریر 3 جون 1963 کو تھی کہ جو انہوں نے عاشورا کے موقع پر کی۔ آپ نے اپنی تقریر میں شاہ کی صیہونی سیاست اور اسرائیل کی جانب اسکے جھکائو کو برملا کیا۔ اس تقریر کے بعد امام خمینی رح کو گرفتار کر لیا گیا جس کا رد عمل عوامی مظاہروں کی صورت میں سامنے آیا جس کے بعد 15 خرداد 1342 شمسی یعنی 5 جون 1963 کا خونی واقعہ رونما ہوا۔
1965 میں اس مدرسے کو ساواک کے حکم پر مرمت کرنے کے بہانے بند کر دیا گیا۔ اسکے 9۹ سال بعد تقریبا 1973 میں بھی ساواک نے اس مدرسے کو بند کرنے کے لئے اقدامات کئے۔ کیونکہ اس مدرسے میں عوام کی فکر سازی کی جاتی تھی اور طالبعلموں کو شاہی ڈکٹیٹر حکومت کے کرتوتوں سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ ساواک نے ادارہ اوقاف اور آستان قدس رضوی سے تقاضہ کیا کہ مدرسہ فیضیہ کو انتہا پسند طالبعلموں کے وجود سے پاک کیا جائے۔
اسلامی انقلاب کے دوران
اسلامی انقلاب کے دوران مدرسہ فیضیہ اسلامی تحریک کا مرکز و محور رہا۔ امام خمینی رح نےچودہ سال جلا وطنی میں گذارنے کے بعد 1978 میں ایران واپس آکر قم المقدسہ کو اپنا مرکز بنایا جس کی وجہ سے اس علمی مرکز کو ایک تحرک اور تازہ نشاط حاصل ہوئی۔
مدرسہ فیضیہ میں ایک بہت بڑی لائبریری بھی ہے جسے شیخ عبدالکریم حائری نے تعمیر کروایا تھا اور پھر آیت اللہ بروجردی نے اس میں توسیع کروائی۔ اس وقت اس لائبریری میں تیس ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں کہ جن میں تین ہزار سے زائد نفیس خطی نسخے بھی موجود ہیں۔ مدرسہ فیضیہ میں فقہ، کلام، فلسفہ، اصول اور علوم قرآن کے مختلف دروس منعقد کئے جاتے ہیں جن میں سینکڑوں طالبعلم ڈیڑھ سو سے زائد اساتید سے کسب فیض کرتے ہیں[19]۔
حوالہ جات
- ↑ جواد منصوری، تاریخ قیام پانزده خرداد به روایت اسناد، ج1، سند شماره 15/2۔
- ↑ اسناد انقلاب اسلامی، ج1، ص44
- ↑ اسناد انقلاب اسلامی، ج1، ص57
- ↑ سید حسن روحانی، بررسی وتحلیلی از نهضت امام خمینی در ایران، ج1، ص230۔24
- ↑ اکبر ہاشمی رفسنجانی، دوران مبارزه، ج1، ص133
- ↑ سید حسن روحانی، بررسی وتحلیلی از نهضت امام خمینی در ایران، ج1، ص265
- ↑ دوانی، نهضت روحانیون ایران،، ج3، ص212
- ↑ امام خمینی، صحیفه امام: مجموعه آثار امام خمینی (س)، ج1، ص156157۔
- ↑ مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، ج1، ص8081، 84۔
- ↑ رجبی، زندگی نامه سیاسی امام خمینی، سند شماره 51
- ↑ فاجعه هجوم به مدرسه فیضیه و واکنش حضرت امام خمینی(س)(مدرسہ فیضیہ پر حملہ اور امام خمینی(رح) کاعمل- شائع شدہ از: 21 مہر 1391ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اپریل 2025ء
- ↑ دوانی، نهضت روحانیون ایران، ج4، ص324
- ↑ روحانی، بررسی وتحلیلی از نهضت امام خمینی در ایران، ج1، ص744
- ↑ شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیه قم ...، ص3738
- ↑ جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ج1، ص268- 269
- ↑ مدنی، تاریخ سیاسی معاصر ایران، ج2، ص232-233
- ↑ محمد یزدی، خاطرات، ص354
- ↑ جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ج1، ص464ـ 498
- ↑ قم المقدسہ کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ فیضیہ کے نشیب وفراز- شائع شدہ از:30 اپریل 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اپریل 2025ء