ماہ رمضان کے پہلے دن کی دعا تشریح کے ساتھ
ماہ رمضان کے پہلے دن کی دعا
﴿بسم الله الرحمن الرحیم﴾
﴿اللهمَ اجْعلْ صِیامی فـیه صِیـام الصّائِمینَ وقیامی فیهِ قیامَ القائِمینَ ونَبّهْنی فیهِ عن نَومَهِ الغافِلینَ وهَبْ لی جُرمی فیهِ یا الهَ العالَمینَ واعْفُ عنّی یا عافیاً عنِ المجْرمینَ﴾ [1]۔ اے معبود میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دے۔ میری عبادت کو پکے عبادا گزاروں جیسا قرار دے آج مجھے غافل لوگوں جیسی نیند سے بیدار کر دے۔ اور آج میرے گناہ بخش دے اے جہانوں کے پالنے والے اور در گزر کر اے گناہگاروں سے درگزر کرنے والے۔
مقدمہ
ایک موقع پر حضور اکرم (ص) نے دعا کے بارے میں فرمایا: ﴿اَلدُّعَاءُ سِلاَحُ اَلْمُؤْمِنِ وَ عَمُودُ اَلدِّينِ وَ نُورُ اَلسَّمٰاوٰاتِ وَ اَلْأَرْضِ﴾ دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ دعا کی اہمیت اور ضرورت کو جاننے کیلے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہی کافی ہے۔ ﴿قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ﴾۔ [2]۔ پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا۔ اسی طرح بہت ساری آیات اور احادیث میں دعا کی فضلیت اور ضرورت بیان ہوئی ہے۔ انبیاء کرام، ائمہ طاہریں علیہم السلام اور علماء اسلام کی سیرت سے بھی دعا کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دعا، بندہ اور مخلوق کی اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں راز و نیاز اور گڑگڑانے کا نام ہے۔ دعا، محتاج کا بے نیاز کے سامنے دست نیاز دارز کرنے کا نام ہے۔دعا، اظہار عاجزی و انکساری کا نام ہے۔دعا، مکارم اخلاق کی تکمیل کا نصاب ہے جس میں انسان سازی میں راہنمائی ملتی ہے۔دعا، ذخیرہ آخرت اور انسان کا توشہ راہ ہے۔ یوں تو اہل بیت علیہم السلام سے ہر روز ، مہینہ، مخصوص زمان و مکان کے لئے میں دعائیں وارد ہوئی ہیں۔
لیکن کچھ ایام اور مہینے خاص اہمیت کے حامل ہیں ؛ان میں سے ماہ رجب، شعبان اور رمضان انتہائی اہم ہیں۔ یہ تین مہینے عبادت اور دعا کے مہینے ہے۔ لذا اس میں کتاب میں ماہ مبارک رمضان کے ہر دن کی دعاوں کو انکے ترجمہ اور تشریح کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں ہے۔ ان دعاوں کو، بندہ حقیر نے چند سال پہلے جمع آوری اور کتاب کی شکل دینے کی کوشش کی تھی اور فیس بک ، وائس ایپ اور مجمع طلاب شگر کی ویب سائٹ پر اس دعا کو نشر کیا گیا ۔ جن برادران اور بزرگان نے میرے اس کاوش کو میڈیا پر کوریج دینے اور اس کی اصلاح اور پایۂ تکمیل تک پہنچانے میری مدد کی، ان سب کا تہ دل سے مشکور ممنو ن ہوں۔
الفاظ کے معانی اور مختصر شرح
اس دعا کے پانچ جز ہیں۔
اللّٰهُمَّ اجْعَلْ صِيامِى فِيهِ صِيامَ الصَّائِمِينَ
اللهم:پروردگارا!
اجعل: قرار دے
صیا می:میرے روزے کو
فیه:اس مہینے میں
صیام:روزہ
الصائمین:حقیقی روزہ داروں کا روزہ۔
اس دعا کے ابتدا میں ہم پڑھتے ہیں پروردگار میرےروزےکوحقیقی روزہ داروں کا روزہ قرار دے.لیکن حقیقی روزہ دار کون ہے؟ روزہ تین قسموں میں تقسیم ہوتا ہے دیکھتے ہیں ہمارا روزہ کس قسم میں شامل ہوتا ہے۔ پہلی قسم : کچھ افراد ایسے ہیں جو اذان صبح سے لے کر مغرب کی اذان تک کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں لیکن ممکن ہے گناہ کا مرتکب ہوجائیں جیسے، غیبت، جھوٹ، تہمت، گالی، غصہ اور بےجا ناراض ہونا، نامحرم کی طرف نگاہ کرنا، نامحرم کے سامنے زینت کرنا اور پردے کی رعایت نہ کرنا وغیرہ۔ دوسری قسم :کچھ افراد ایسے ہیں اس کے علاوہ کہ اذان صبح سے مغرب تک نہ کچھ کھاتے پیتے ہیں۔
اذان صبح سے مغرب تک گناہ کا بھی مرتکب نہیں ہوتے ہیں، اپنے جذبات پر کنٹرول کرتے ہیں، کسی پر الزام نہیں لگاتے ہیں، گالی نہیں دیتے ہیں، اپنی آنکھوں کو گناہ سے بچاتے ہیں، پردے کاخیال کرتے ہیں
تیسری قسم:کچھ لوگ ایسے ہیں جودوسری قسم کے کےافراد کےتمام کاموں کاخیال رکھتےہیں اس علاوہ ان کے سارےکام خدا کے لئے ہوتےہیں یہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتے ہیں کہ کوئی بھی چیز ان کے دل کو یاد خدا سے غافل کرے۔ الصائمین: حقیقی روزہ دار دوسرا گروہ بھی ٹھیک ہے تیسرا گروہ دوسرےسےبہترہے ہم دعا کرتے ہیں اللهم اجعل صیامی فیه صیام الصائمین:پروردگار میرے روزے کو حقیقی روزہ داروں کا روزہ قرار دے۔
وقیامی: اور میری عبادت
فیه:اس دن
قیام:نماز کا اقامہ
القائمین:حقیقی نماز گزار
دعا کے دوسرے حصے میں پڑھتے ہیں میرے اقامہ نماز کو حقیقی نمازگزاروں کی نماز قرار دے. حقیقی نماز گزار کون ہے؟ نماز ہو تو ایسی ہو کہ خدا کی اطاعت اور عشق میں پڑھی جائے نماز میں کوئی دوسری چیز اس کے دل میں داخل نہ ہو . نماز کےعلاوه، اس کی رفتار اور کردار بھی درست ہونا چاہیے ایسے افراد القائمین ہیں ۔ ہم خدا سے جو مانگتے ہیں اس کا مقصد اور ہدف اور ہر کام کی نیت، اللہ تعالٰی کی خوشنوی ہوتا ہے۔
ونَبّهْنی فیهِ عن نَومَهِ الغافِلینَ وهَبْ
ونَبّهْنی:مجھے جگا دے
فیه:اس میں
عن نَومَهِ الغافِلینَ:غافلوں کی نیند سے
ہم خدا سے یہی التجا کرتے ہیں ہمیں اس خواب غفلت سے بیدار کردے جو انسان کو ہلاک و نابود کر دیتی ہے.جس کی وجہ ہر آن ممکن ہے انسان گناہ کا مرتکب ہوجائے اور اسے اس کا علم بھی نہ ہوں ۔ اور وہ اسی غفلت میں ساری عمر گزار دے یہاں تک کہ اس کا وقت اجل آجائے. اس لیےانسان کو اپنے کردار اور اعمال پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور اللہ سے التجا کرتے رہنا چاہیے کہ ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرے.
وهَبْ لی جُرمی فیهِ یا الهَ العالَمینَ
وهب لی:مجھے عطا کرے
جرمی:میری معصیت اور جرم
فیه:اس دن
إله العالمین:پورے جہاں کے مالک
خدا سے درخواست کرتے ہیں ہمارے گناہوں کو بخش دے.
واعْفُ عنّی یا عافیاً عنِ المجْرمینَ۔
واعف:معاف اور درگذر کرے
عنی:مجھے سے
یاعافیا:اے بخشنے والے
عن المجرمین:مجرموں سے
اللہ تعالی بخشنے کے بعد انسان کے گناہ و جرم کو معاف کر دیتا ہے. یعنی وہ ہمیشہ کے لئے گناہ سے پاک ہوجاتا ہے[3]۔