فلسطین اور امت مسلمه کی ذمه داری قومی کانفرنس
فلسطین اور امت مسلمه کی ذمه داری کے عنوان سے قومی کانفرنس اسلام آباد، پاکستان میں منعقد هوا اس قومی سیمینار میں ممتاز علماء کرام، مذہبی رہنما، اور اہم شخصیات نے شرکت کی، جن میں مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان، قاری حنیف جالندری، مفتی منیب الرحمان، حافظ ابتسام ظہیر الٰہی، لیاقت بلوچ اور دیگر اہل سنت کے علماء شامل تھے۔ یہ اجتماع پاکستان اور چین کے ثقافتی مرکز میں منعقد ہوا۔ یہ کانفرنس مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیر اہتمام 10 اپریل 2025 کو منعقد کی گئی۔ اس کا مقصد غزہ کی صورتحال پر غور کرنا، فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرنا، اور امت مسلمہ کی صہیونی حکومت کے مظالم کے خلاف امت مسلمہ کی ذمہ داریوں کا تعین کرنا تھا۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیہ میں امت مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد پر زور دیا گیا۔
کانفرنس کی اہمیت
قومی کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے اتفاق کیا ہے کہ اسرائیل کیخلاف مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا۔ علماء نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے 13 اپریل کو کراچی میں ملین مارچ اور صہیونی مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کا بھی اعلان کردیا۔ کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی ،مفتی منیب الرحمان ،قاری حنیف جالندھری، ڈاکٹر ناجی ظہیر، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، مولانا صلاح الدین، مولانا مصباح الدین، علامہ ابو تراب، مفتی اویس عزیز، مولانا سعید یوسف، مولانا ظہور علوی سمیت دیگر علماء شریک ہوئے۔ مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیر اہتمام 10 اپریل کو اسلام آباد میں ہونے والی قومی کانفرنس میں فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داری سے متعلق اجلاس میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرنے والے ممالک سے غیر مشروط جنگ بندی تک تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں واقع پاک چین فرینڈشپ سینٹر میں منعقدہ قومی کانفرنس میں پاکستان بھر سے دینی جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین شریک ہوئے، جہاں فلسطینیوں کی بحالی کے لیے فوری فنڈ قائم کرنے اور متاثرین تک اس کی ترسیل کا انتظام کرنے اور جمعہ کو یوم مظلومین و محصورین فلسطین کے عنوان سے منانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ بعد ازاں قومی فلسطین کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ مفتی منیب الرحمن نے پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ غزہ جنگ محض جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی کھلی نسل کشی ہے، مسلمانوں پر جہاد واجب ہوچکا ہے۔[1]
اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ
اس نشست میں شریک علماء کرام نے غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے کھلے عام مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیل کے خلاف جہاد حکومتوں اور امت مسلمہ پر واجب ہو گیا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت کی حمایت کرنے والے سامان اور کمپنیوں کے مکمل بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا اور زور دیا کہ صیہونیوں کی جارحیت کے خلاف بڑے پیمانے پر مزاحمت کی جانی چاہیے۔
ملین مارچ کا انعقاد
اس نشست میں فیصلہ کیا گیا کہ 13 اپریل کو کراچی میں فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے ایک ملین مارچ منعقد کیا جائے گا۔ اس مارچ کا مقصد اتحاد، یکجہتی، اور فلسطینی مزاحمت کے لیے پاکستانی عوام کی عملی حمایت کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہے۔
وفاق المدارس کے سربراه کا خطاب
وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ امت مسلمہ امریکہ اور اسرائیل کے مظالم پر خاموش ہے۔ آج غزہ خون میں نہا رہا ہے اور ہم صرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں غزہ کو زندہ رکھنا چاہیے۔ انہوں نے اسرائیل اور اس کے حامیوں کے معاشی بائیکاٹ کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ اس راستے میں کسی کی جان و مال کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے، کیونکہ شریعت اسلام اس چیز کو حرام قرار دیتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے سابق جج نے اعلان کیا کہ اسرائیلی حکومت کے خلاف فوجی جہاد تمام اسلامی حکومتوں کا شرعی فریضہ ہے۔ انہوں نے قدس میں مسجد اقصیٰ کے دفاع کرنے والے مجاہدین کو مسلمان ممالک کی ناکافی حمایت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسلامی ممالک کی فوجیں جہاد کے راستے میں استعمال نہیں ہوں گی تو ان کا کیا فائدہ؟ مفتی عثمانی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جن لوگوں کا عمرہ یا دیگر مستحب سفروں کا ارادہ ہے، ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے اخراجات فلسطینی مزاحمت کی حمایت کے لیے وقف کریں۔ انہوں نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے تاریخی موقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جناح اسرائیل کو ایک ناجائز ملک سمجھتے تھے اور ہمارا موقف، اسرائیل کی فوجی یا سیاسی طاقت سے قطع نظر، تبدیل نہیں ہوگا۔[2]
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا خطاب
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں کہا کہ تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔ پاکستان کے مسلمان غزہ اور فلسطین کے عوام کے حامی ہیں اور یہ حمایت پوری دنیا کے سامنے ظاہر کرتے ہیں۔
اسرائیل کے حامیوں سے قطع تعلقات
شرکاء نے اپنے اختتامی بیان میں ان ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا جو صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، جب تک کہ حقیقی اور غیر مشروط جنگ بندی قائم نہ ہو جائے۔ اس مطالبے کو شریک علماء کی جانب سے وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی۔
اختتامی اعلامیہ
اس کانفرنس کے اختتام پر مفتی منیب الرحمان نے دینی علماء کا مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ اس اعلامیہ میں زور دیا گیا کہ غزہ میں جاری جنگ محض ایک فوجی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ بے دفاع فلسطینی عوام کی واضح نسل کشی ہے، اور اسی بنا پر مسلمانوں کا عملی اقدام ضروری اور ناگزیر ہے۔[3]
کانفرنس کی تصاویر
-
کانفرنس کی تصویر (1)
-
کانفرنس کی تصویر(2)
-
کانفرنس کی تصویر (3)
-
کانفرنس کی تصویر (4)
-
کانفرنس کی تصویر (5)
-
کانفرنس کی تصویر (6)
-
کانفرنس کی تصویر (7)
-
کانفرنس کی تصویر (8)
-
کانفرنس کی تصویر(9)
-
کانفرنس کی تصویر(10)
حوالہ جات
- ↑ مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیر اہتمام اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد- شائع شدہ از: 11 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ جنگ با اسرائیل واجب است(اسرائیل کے خلاف جهاد مسلمانوں پر واجب ہے)- شائع شدہ از: 11 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ علمای پاکستان: جهاد علیه اسرائیل بر مسلمانان واجب شده است (اسرائیل کے خلاف جهاد مسلمانوں پر واجب ہوا ہے)- شائع شدہ از: 10 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء