طوفان الاقصی، فلسطین سے ماوراء حقیقت(نوٹس اور تجزیے)

طوفان الاقصی، فلسطین سے ماوراء حقیقت اب اس بات کی ضرورت نہیں رہی کہ مسئلہ فلسطین کا عرب اور اسلامی ممالک کے ذرائع ابلاغ میں پرچار کیا جائے کیونکہ دنیا بھر کی عوام مل کر فلسطین کی حقانیت اور حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ اور نیتن یاہو جنگ کی آگ مزید پھیلانے میں مصروف ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ خود کو امن کے نوبل انعام کا بھی حقدار تصور کرتے ہیں۔ لیکن عالمی رائے عامہ نہ صرف ان کا مذاق اڑا رہی ہے بلکہ مغرب کے دوغلے پن پر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ اگر صرف فوجی نظر سے دیکھا جائے تو ایک مظلوم قوم اور اسلامی مزاحمتی گروہوں نے گذشتہ دو سال انتہائی مشکل حالات میں گزارے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا فولادی ارادہ اور ان سے یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار تمام جغرافیائی سرحدیں عبور کر کے پوری دنیا تک پھیل چکا ہے۔ گذشتہ دو برس کے دوران غزہ نے جو قربانیاں دی ہیں اس نے بین الاقوامی تعلقات میں نیا باب کھول دیا ہے [1]۔
جب حماس کے مجاہدین 7 اکتوبر 2023ء کی صبح چھوٹے چھوٹے گروپس کی صورت میں غزہ کے اردگرد واقع سیکورٹی، انٹیلی جنس اور فوجی نوعیت کی یہودی بستیوں، صیہونی فوجی اڈوں اور شہروں پر حملہ ور ہو رہے تھے تو اگرچہ انہیں معلوم تھا کہ طولانی مدت میں ان کا یہ اقدام غاصب صیہونیوں کے ناجائز قبضے سے اپنی سرزمینوں کی آزادی کا باعث بنے گا لیکن وہ ہر گز یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ انہوں نے عالمی سطح پر کس قدر عظیم واقعہ تشکیل دیا ہے۔
حتی یہ مجاہدین جب اسرائیل کے جنوب میں واقع متعدد فوجی اور انٹیلی جنس مراکز اور ہیڈکوارٹرز فتح کر رہے تھے تب بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ صیہونی رژیم کا ڈھانچہ کس قدر کمزور ہے اور ان کی آرزو تھی کہ وہ 2 ہزار مجاہدین کی بجائے کہیں زیادہ تعداد میں مجاہدین بھیج کر مغربی کنارے تک پیشقدمی کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔
طوفان الاقصی نے صیہونی رژیم کے فوجی اور انٹیلی جنس ستونوں پر لرزہ طاری کر دیا
حقیقت یہ ہے طوفان الاقصی نے اپنے آغاز سے ہی غاصب صیہونی رژیم کے فوجی اور انٹیلی جنس ستونوں پر لرزہ طاری کر دیا تھا اور صیہونی رژیم کے تمام سرکاری اداروں پر بوکھلاہٹ اور سراسیمگی اس قدر واضح ہو چکی تھی کہ امریکی وزیر خارجہ نے اگلے دن تل ابیب کو ارواح کا شہر قرار دیا جہاں مجاہدین کے خوف وے کوئی بھی عہدیدار اپنے دفتر حاضر نہیں ہوا تھا۔ گذشتہ دو برس کے دوران غزہ میں دسیوں ہزار فلسطینی شہید ہونے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلنے کے مناظر سامنے آئے ہیں جن کے نتیجے میں عالمی سطح پر بیداری پیدا ہوئی ہے اور غاصب صیہونی رژیم کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
اس مدت کے دوران تمام مغربی اور حتی عرب ممالک کی بھرپور مدد اور حمایت کے باوجود غاصب صیہونی رژیم 360 مربع کلومیٹر جیسے قلیل سے رقبے میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو ختم نہیں کر پائی ہے۔ اگرچہ بنجمن نیتن یاہو اور اس کی انتہاپسند کابینہ نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ ساتھ اخلاق اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی تمام حدیں پار کر ڈالی ہیں لیکن امریکہ اور مغربی طاقتوں نے اس کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت جاری رکھی ہوئی ہے اور یوں اسے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور نسل پرستانہ انداز میں بربریت پھیلانے اور جنگی جرائم انجام دینے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
صیہونی رژیم کے اندر شدید سیاسی انتشار پھیل چکا ہے
صیہونی حکمران غزہ میں شکست سے شدید مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں اور ایکدوسرے کو اس شکست کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ اکثر سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ صیہونی رژیم کے اندر شدید سیاسی انتشار پھیل چکا ہے اور یہ رژیم نہ صرف اشرافیہ بلکہ عوام اور معاشرے کے اندر بھی شدید دراڑ اور خلیج پیدا ہونے سے روبرو ہو چکی ہے۔
صیہونی آبادکار سیکورٹی اور فلاح و بہبود کے خوبصورت تصورات سے دنیا کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے مقبوضہ فلسطین آئے تھے لیکن گذشتہ دو سال کی شدید بدامنی اور اقتصادی مشکلات کے تناظر میں اب اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں اور اب تک گھر واپس جانے کی جرات نہیں کر پا رہے۔ دوسری طرف رژیم کے پاس ان کے نقصانات کا ازالہ کرنے کی طاقت بھی نہیں ہے۔ یوں مقبوضہ فلسطین سے سرمایہ اور سرمایہ کار فرار ہو رہے ہیں
جبکہ تل ابیب، حیفا اور بئرالسبع میں بڑی بڑی کمپنیوں کی نابودی کے بعد صیہونی دانشور اور ماہرین بھی وہاں سے بھاگ جانے کی سوچ میں ہیں۔ صیہونی فوج بھی شدید تھکاوٹ اور انتشار کا شکار ہے اور فوجی مختلف بہانوں سے بھاگ رہے ہیں جبکہ ان میں خودکشی کا رجحان بھی بہت حد تک بڑھ گیا ہے۔
یہ قصہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ مالی، فوجی اور دیگر شعبوں میں پہنچنے والے نقصان نے ایک ناقابل شکست فوج کو جرائم پیشہ اور ناتوان فوج میں تبدیل کر ڈالا ہے۔ صیہونی حکمران اب تک 67 ہزار فلسطینیوں کو شہید کر چکے ہیں اور 2 لاکھ سے زائد کو زخمی بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے غزہ میں کسی مجرمانہ اقدام سے دریغ نہیں کیا۔ اس ظلم و ستم اور بربریت کے نتیجے میں فلسطینیوں کی مظلومیت کی آواز پوری دنیا میں گونج رہی ہے اور عالمی سطح پر فلسطین سے ہمدردی پیدا ہو چکی ہے۔
ہیگ کی عالمی فوجداری عدالت نے صیہونی حکمرانوں کو جنگی مجرم قرار دے کر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں جبکہ عالمی سطح پر صیہونزم کے خلاف ایسی نفرت پیدا ہو چکی ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو کو کہتا ہے کہ "تم ممکن ہے غزہ پر قبضہ کر لو لیکن عالمی سطح پر شدید گوشہ گیری کا شکار ہو چکے ہو۔"
اب اس بات کی ضرورت نہیں رہی کہ مسئلہ فلسطین کا عرب اور اسلامی ممالک کے ذرائع ابلاغ میں پرچار کیا جائے کیونکہ دنیا بھر کی عوام مل کر فلسطین کی حقانیت اور حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ اور نیتن یاہو جنگ کی آگ مزید پھیلانے میں مصروف ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ خود کو امن کے نوبل انعام کا بھی حقدار تصور کرتے ہیں۔ لیکن عالمی رائے عامہ نہ صرف ان کا مذاق اڑا رہی ہے بلکہ مغرب کے دوغلے پن پر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔
اگر صرف فوجی نظر سے دیکھا جائے تو ایک مظلوم قوم اور اسلامی مزاحمتی گروہوں نے گذشتہ دو سال انتہائی مشکل حالات میں گزارے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا فولادی ارادہ اور ان سے یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار تمام جغرافیائی سرحدیں عبور کر کے پوری دنیا تک پھیل چکا ہے۔ گذشتہ دو برس کے دوران غزہ نے جو قربانیاں دی ہیں اس نے بین الاقوامی تعلقات میں نیا باب کھول دیا ہے[2]۔
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ تحریر: ہادی محمدی
- ↑ طوفان الاقصی، فلسطین سے ماوراء حقیقت- شائع شدہ از: 9 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 اکتوبر 2025ء