سوسنگرد کی آزادی کی کارروائی
| سوسنگرد کی آزادی کی کارروائی | |
|---|---|
| واقعہ کی معلومات | |
| واقعہ کا نام | نو سوسنگرد کی آزادی کی کارروائی |
| واقعہ کی تاریخ | 1359ش |
| واقعہ کا مقام |
|
سوسنگرد کی آزادی کی کارروائی، ایران و عراق کی جنگ کے دوران ایران کی مسلح افواج کی ایک اہم اور کامیاب عسکری کارروائی تھی۔ یہ واقعہ 26 آبان 1359 شمسی (مطابق نومبر 1980ء) کو اس مقصد کے ساتھ انجام دیا گیا کہ سوسنگرد (خفاجیہ) جیسے اسٹریٹجک شہر کا محاصرہ توڑا جائے اور اسے آزاد کیا جائے۔ یہ شہر صوبۂ خوزستان میں واقع ہے۔ یہ کارروائی، جو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور عوامی رضاکاروں کے مشترکہ تعاون کی ایک نمایاں مثال تھی، شہر کے دوسرے محاصرے کو توڑنے میں کامیاب ہوئی۔ سوسنگرد کی آزادی کو جنگ کے آغاز کے بعد ایران کی پہلی بڑی اور فیصلہ کن کامیاب فوجی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔
اسٹریٹجک اہمیت
سوسنگرد شہر، جو ضلع دشتِ آزادگان کا مرکز ہے، صوبۂ خوزستان میں اہواز کے شمال مغرب میں تقریباً 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سرحد کے قریب ہونے اور اہم مواصلاتی راستوں پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ شہر بعثی عراقی فوج کے لیے انتہائی اہم تھا، کیونکہ وہ اہواز پر حملہ کرنے یا اسے قبضے میں لینے کا ارادہ رکھتے تھے۔
قبضہ اور عارضی آزادی
جنگ کے ابتدائی دنوں میں، 7 مهر 1359 شمسی (مطابق 29 ستمبر 1980ء) کو سوسنگرد شہر عراقی افواج کے قبضے میں چلا گیا۔ تاہم، 9 مهر 1359 شمسی (1 اکتوبر 1980ء) کو عوامی رضاکاروں اور سپاہ پاسداران نے شہید علی غیوراصلی کی کمان میں ایک شبیخون (جسے عملیات غیوراصلی کہا جاتا ہے) کے ذریعے شہر کو عارضی طور پر آزاد کر لیا، اگرچہ شہر اس کے بعد بھی شدید گولہ باری کی زد میں رہا۔
دوسرا محاصرہ
اس پسپائی کے بعد، عراقی فوج نے دوبارہ اپنی قوت جمع کی اور بُستان اور دِهلاویہ کے محاذوں سے سوسنگرد کی سمت پیشقدمی شروع کی۔ بالآخر 24 آبان 1359 شمسی (15 نومبر 1980ء) کو شہر مکمل طور پر محاصرے میں چلا گیا اور شہر کے تھوڑے سے مدافعین نہایت سخت اور دشوار حالات سے دوچار ہو گئے۔ اس محاصرے نے شہر کی نجات کے لیے ایک بڑے اور فوری فوجی آپریشن کی ضرورت کو لازمی بنا دیا۔[1]
عملیات کا آغاز
سوسنگرد کی آزادی کا منصوبہ شورایِ عالیِ دفاع (سپریم ڈیفنس کونسل)نے منظور کر لیا تھا۔ لیکن جب کارروائی شروع ہونے والی تھی، اُس وقت کے صدر اور کمانڈر انچیف ابو الحسن بنیصدر نے دزفول کے دوسری آرمرڈ بریگیڈ کو آپریشن میں شریک نہ ہونے کا حکم دیا۔ اس فیصلے سے پوری کارروائی منسوخی کے قریب پہنچ گئی۔ ایسے موقع پر مصطفی چمران، جو نامنظم جنگوں کے ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر تھے، اور آیتالله خامنهای، جو شورایِ عالیِ دفاع (سپریم ڈیفنس کونسل)میں امام خمینی کے نمائندہ تھے، دونوں نے پُرزور طریقے سے اصرار کیا کہ یہ آپریشن ہر صورت انجام پانا چاہیے۔ آیتالله خامنهای نے براہِ راست حکم دے کر دوسری آرمرڈ بریگیڈ کے کمانڈر کو شرکت کا حکم دیا، جس کے بعد یہ یونٹ فوراً محاذ کی طرف روانہ ہوا اور آپریشن منسوخ ہونے سے بچ گیا۔
آپریشن کا آغاز
یہ کارروائی 26 آبان 1359 شمسی کی سحر کے وقت شروع ہوئی۔ اس میں شامل فورسز یہ تھیں:
- ایرانی فوج: اہواز کی 92ویں آرمرڈ ڈویژن کی دوسری آرمرڈ بریگیڈ
- سپاہ پاسداران: سوسنگرد کے سپاہی
- عوامی رضاکار: نامنظم جنگوں کے رزمندگان، جن کی کمان شہید مصطفی چمران کے پاس تھی۔
سید علی خامنہ ایکی تدبیر
یہ سازش امام خامنهای کی مدبرانہ رہنمائی سے ناکام بنا دی گئی۔ درحقیقت، وہ پہلے ہی اس طرح کے واقعے کے پیش آنے پر پریشان تھے، لہٰذا انہوں نے اہواز میں لشکر 92 زرهی کے کمانڈر کو ایک خط کے ذریعے تیپ 2 کی لازمی شرکت کا دوبارہ مؤکد حکم دیا۔ اسی خط کے نیچے، دکتر چمران — جو اُس وقت امام خمینی کے نمائندہ کے طور پر شورایِ عالیِ دفاع میں موجود تھے — نے فوری اقدام اور مزید وقت ضائع نہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ لشکر 92 کے کمانڈر (سرهنگ قاسمی) نے بھی اپنے زیرِ فرمان یونٹ کو آپریشن کے لیے مکمل تیارباش میں رکھا۔
مصطفی چمران کا کردار
ستاد جنگهای نامنظم کی نیرو،ڈاکٹرمصطفی چمران کی براہِ راست کمان میں، کارروائی میں صفِ اوّل اور خطشکن کے طور پر شامل ہوئیں۔ یہ فورسز فوج کے ٹینکوں سے تقریباً 500 میٹر آگے بڑھتی رہیں اور دشمن کے ابتدائی ٹینکوں کو تباہ کر کے زرهی دستوں کے لیے راستہ صاف کیا۔
کارروائی کے دوران ڈاکٹر چمران کے پاؤں میں گولی لگی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے میدانِ جنگ میں اپنی کمان جاری رکھی اور آپریشن کی حتمی کامیابی تک محاذ نہیں چھوڑا۔
نتائج اور اثرات
سوسنگرد کی آزادی کی کارروائی پوری طرح کامیاب رہی اور صرف ایک دن کے اندر اپنے تمام اہداف حاصل کر لیے۔ ان اہم نتائج میں شامل ہیں:
مکمل آزادی
سوسنگرد شہر عراقی فوج کی موجودگی سے پوری طرح پاک کر دیا گیا اور مستقل طور پر آزاد ہو گیا، جس سے یہ دوبارہ قبضے کے خطرے سے محفوظ ہو گیا۔
دشمن کی جانی اور مالی نقصان
عراقی فوج کو اس کارروائی میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جس میں شامل تھا: تقریباً 795 ہلاکتیں 45 فوجیوں کی گرفتاری اور 95 کے قریب ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں یا تو تباہ ہوئیں یا غنیمت میں لے لی گئیں۔
جنگی حکمتِ عملی میں تبدیلی
یہ کارروائی جنگ کے آغاز کے بعد ایران کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ اس نے عراق کی اُس حکمتِ عملی کو ناکام بنا دیا جس کے تحت وہ تیزی سے خوزستان کے اندرونی حصوں تک نفوذ کر کے بڑے شہروں پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی، اس آپریشن نے فوج، سپاہ اور عوامی رضاکاروں کی مشترکہ کارروائی کا ایک کامیاب اور عملی نمونہ پیش کیا، جسے بعد کی دفاعِ مقدس کی کارروائیوں میں بڑے پیمانے پر اپنایا گیا۔
متعلقه تلاشیں
حواله جات
- ↑ سوسنگر کی آزادی؛ ایسا حماسه جس نے مزاحمت کی نبض کی دھڑکن برقرار رکھا، فارس نیوز ایجنسی کی ویب سائٹ(زبان فارسی) درج شده تاریخ: 17/نومبر/2025ء اخذشده تاریخ: 18/نومبر/2025ء