Jump to content

"آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 2: سطر 2:
'''آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ''' مسلمانان ہند کی ایک غیر حکومتی تنظیم ہے جو سنہ 1972ء میں قائم ہوئی۔ بورڈ کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ اور بالخصوص مسلم پرسنل لا ایکٹ، 1937ء کو بدستور نافذ العمل رہنے کے لیے مناسب اور ضروری حکمت عملی اختیار کی جائے۔ نیز بھارت کے مسلمانوں کے نجی معاملات میں شرعی احکام کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے، سنہ 1937ء سے قبل ان معاملات میں کچھ [[مسلمان]] ہندو رسم و رواج کی پیروی کرتے تھے۔ مذکورہ قانون چند وراثتی معاملات کو چھوڑ کر تمام عائلی قوانین کا احاطہ کرتا ہے  <ref>vakilno1.com. "The Muslim Personal Law (Shariat) Application Act, 1937". vakilno1.com. 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2012</ref>.
'''آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ''' مسلمانان ہند کی ایک غیر حکومتی تنظیم ہے جو سنہ 1972ء میں قائم ہوئی۔ بورڈ کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ اور بالخصوص مسلم پرسنل لا ایکٹ، 1937ء کو بدستور نافذ العمل رہنے کے لیے مناسب اور ضروری حکمت عملی اختیار کی جائے۔ نیز بھارت کے مسلمانوں کے نجی معاملات میں شرعی احکام کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے، سنہ 1937ء سے قبل ان معاملات میں کچھ [[مسلمان]] ہندو رسم و رواج کی پیروی کرتے تھے۔ مذکورہ قانون چند وراثتی معاملات کو چھوڑ کر تمام عائلی قوانین کا احاطہ کرتا ہے  <ref>vakilno1.com. "The Muslim Personal Law (Shariat) Application Act, 1937". vakilno1.com. 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2012</ref>.
== تاسیس ==
== تاسیس ==
مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھارتی مسلم رائے عامہ کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہرچند کہ اس نمائندگی کی کچھ مسلمانوں نے مخالفت بھی کی[5][6][7] لیکن بیشتر مسلم فرقوں، جماعتوں اور مسلکوں نے بورڈ کی نمائندگی پر اتفاق کیا اور عملاً اس کی کارگردگی میں شریک رہے۔ بورڈ میں مسلم معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات موجود ہیں جن میں بالخصوص مذہبی رہنما، علما، ماہرین قانون اور سیاست دان قابل ذکر ہیں۔ تاہم بعض دانشوروں مثلاً سید طاہر محمود، عارف محمد خان اور عدالت عظمی کے سبکدوش جج مارکنڈے کاٹجو[8][9] وغیرہ نے بورڈ کو تحلیل کرنے کی وکالت کی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھارتی مسلم رائے عامہ کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہرچند کہ اس نمائندگی کی کچھ مسلمانوں نے مخالفت بھی کی[ لیکن بیشتر مسلم فرقوں، جماعتوں اور مسلکوں نے بورڈ کی نمائندگی پر اتفاق کیا اور عملاً اس کی کارگردگی میں شریک رہے۔ بورڈ میں مسلم معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات موجود ہیں جن میں بالخصوص مذہبی رہنما، علما، ماہرین قانون اور سیاست دان قابل ذکر ہیں۔ تاہم بعض دانشوروں مثلاً سید طاہر محمود، عارف محمد خان اور عدالت عظمی کے سبکدوش جج مارکنڈے کاٹجو وغیرہ نے بورڈ کو تحلیل کرنے کی وکالت کی ہے۔


بورڈ کے موجودہ صدر [[محمد رابع حسنی ندوی]] ہیں جبکہ [[دیوبندی]]، [[بریلوی]]، [[جماعت اسلامی]]، [[اہل حدیث]](سلفی) اور [[شیعہ]] مکاتب فکر کی سرکردہ نمائندہ شخصیات بحیثیت نائب صدر منتخب کی جاتی ہیں۔
بورڈ کے موجودہ صدر [[محمد رابع حسنی ندوی]] ہیں جبکہ [[دیوبندی]]، [[بریلوی]]، [[جماعت اسلامی]]، [[اہل حدیث]](سلفی) اور [[شیعہ]] مکاتب فکر کی سرکردہ نمائندہ شخصیات بحیثیت نائب صدر منتخب کی جاتی ہیں۔


1972 میں بھارتی پارلیمنٹ میں لے پالک بل پیش کیا گیا جو تمام مذاہب کے لیے تھا۔ اس بل کی رو سے منہ بولے بیٹے کو سگے بیٹے کے تمام حقوق حاصل ہو رہے تھے۔ اس وقت کے وزیر قانون ایچ آر گوکھلے نے اس بل کو یکساں سول کوڈ کی جانب پہلا قدم بتایا تھا۔ اس بل کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کے کئی حلقوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ سید منت اللہ رحمانی کی تحریک پر [[دارالعلوم دیوبند]] کے سابق مہتمم قاری محمد طیب قاسمی نے 13 ،14 مارچ، 1972ء کو دیوبند میں اہل فکر کا ایک اجلاس بلایا جس میں ملک بھر کے علماء اور دانشور جمع ہوئے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ مسلم عائلی قوانین کے تحفظ کی پرزور آواز ممبئی سے اٹھ رہی ہے، اس لیے ممبئی میں ایک نمائندہ اجلاس منعقد ہونا چاہیے۔
1972 میں بھارتی پارلیمنٹ میں لے پالک بل پیش کیا گیا جو تمام مذاہب کے لیے تھا۔ اس بل کی رو سے منہ بولے بیٹے کو سگے بیٹے کے تمام حقوق حاصل ہو رہے تھے۔ اس وقت کے وزیر قانون ایچ آر گوکھلے نے اس بل کو یکساں سول کوڈ کی جانب پہلا قدم بتایا تھا۔ اس بل کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کے کئی حلقوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ سید منت اللہ رحمانی کی تحریک پر [[دارالعلوم دیوبند]] کے سابق مہتمم قاری محمد طیب قاسمی نے 13 ،14 مارچ، 1972ء کو دیوبند میں اہل فکر کا ایک اجلاس بلایا جس میں ملک بھر کے علماء اور دانشور جمع ہوئے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ مسلم عائلی قوانین کے تحفظ کی پرزور آواز ممبئی سے اٹھ رہی ہے، اس لیے ممبئی میں ایک نمائندہ اجلاس منعقد ہونا چاہیے Katju favours uniform <ref>civil law". 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016.</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}