637
ترامیم
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 89: | سطر 89: | ||
یہ خط جو آیت اللہ مشکینی نے خوشخطی سے لکھا تھا، اس پر حوزہ کے دو سو بڑے علماؤں کے دستخط تھے، جن میں آیت اللہ حاج آقا مرتضی حائری اور مرحوم آیت اللہ فکور جیسے بزرگ بھی شامل تھے۔ استاد مصباح یزدی نے یہ خط آیت اللہ العظمی بروجردی کی خدمت میں پیش کیا۔ آیت اللہ بروجردی نے اس خط کو غور سے پڑھا اور اس کی تائید کی۔ | یہ خط جو آیت اللہ مشکینی نے خوشخطی سے لکھا تھا، اس پر حوزہ کے دو سو بڑے علماؤں کے دستخط تھے، جن میں آیت اللہ حاج آقا مرتضی حائری اور مرحوم آیت اللہ فکور جیسے بزرگ بھی شامل تھے۔ استاد مصباح یزدی نے یہ خط آیت اللہ العظمی بروجردی کی خدمت میں پیش کیا۔ آیت اللہ بروجردی نے اس خط کو غور سے پڑھا اور اس کی تائید کی۔ | ||
انہوں نے اس خط کے اہم نکات کو حوزہ کے اعلیٰ علماؤں کے سامنے عید نوروز کے موقع پر رکھا اور درخواست کی کہ حوزہ میں اخلاقی دروس کا آغاز کیا جائے اور حوزہ کی موجودہ کمیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس سے حوزہ علمیہ میں اصلاحات اور اخلاقی تعلیمات کو مزید اہمیت دی گئی۔ | انہوں نے اس خط کے اہم نکات کو حوزہ کے اعلیٰ علماؤں کے سامنے عید نوروز کے موقع پر رکھا اور درخواست کی کہ حوزہ میں اخلاقی دروس کا آغاز کیا جائے اور حوزہ کی موجودہ کمیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس سے حوزہ علمیہ میں اصلاحات اور اخلاقی تعلیمات کو مزید اہمیت دی گئی۔ | ||
حوزہ کی اصلاحی مقاصد کے لیے ایک جدید مدرسہ کی ضرورت تھی، جو خاص پروگرام کے تحت کوشاں اور باصلاحیت طلاب کو کم وقت میں اور بہتر معیار کے ساتھ معاشرے کے حوالے کرے۔ یہ مقصد شہید آیت اللہ بهشتی اور مرحوم آیت اللہ ربانی شیرازی کی محنتوں سے ممکن ہوا، اور مدرسہ "حقانی" کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ مدرسہ ایک فیاض شخص، حاجی حقانی نے تعمیر کیا تھا، جو زنجان کے تاجروں میں سے تھے اور شیعہ روحانیت کے بڑے مداح تھے۔ | |||
مرحوم آیت اللہ قدوسی کو اس مدرسہ کا سربراہ مقرر کیا گیا اور انہوں نے استاد مصباح یزدی کو تدریس کے لیے مدعو کیا۔ استاد مصباح نے فلسفہ، تفسیر اور اخلاقی موضوعات پر تدریس کا آغاز کیا۔ چار سال بعد، شہید قدوسی کی درخواست پر طے پایا که مدرسہ کا انتظام ایک مجلس کے ذریعے کیا جائے، استاد مصباح یزدی کو اس مدرسہ کے انتظامی بورڈ کا رکن منتخب کیا گیا۔ اس مشترکہ کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ علمی اور فکری لحاظ سے تربیت یافتہ طلاب کی ایک جماعت تیار ہوئی، جو آج مختلف اداروں میں ایرانی اسلامی جمہوریہ کے نظام میں فعال ہیں۔ | مرحوم آیت اللہ قدوسی کو اس مدرسہ کا سربراہ مقرر کیا گیا اور انہوں نے استاد مصباح یزدی کو تدریس کے لیے مدعو کیا۔ استاد مصباح نے فلسفہ، تفسیر اور اخلاقی موضوعات پر تدریس کا آغاز کیا۔ چار سال بعد، شہید قدوسی کی درخواست پر طے پایا که مدرسہ کا انتظام ایک مجلس کے ذریعے کیا جائے، استاد مصباح یزدی کو اس مدرسہ کے انتظامی بورڈ کا رکن منتخب کیا گیا۔ اس مشترکہ کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ علمی اور فکری لحاظ سے تربیت یافتہ طلاب کی ایک جماعت تیار ہوئی، جو آج مختلف اداروں میں ایرانی اسلامی جمہوریہ کے نظام میں فعال ہیں۔ | ||
ایک اور اہم خدمت جو آیت اللہ مصباح یزدی نے انجام دی، وہ " ثقافتی مرکز باقرالعلوم" کا قیام تھا۔ اس ادارے کا مقصد "مؤسسه در راه حق" کے فارغ التحصیل طلبہ کو تخصصی انسانی علوم کے کورسز میں شامل کرنا تھا۔ یہ مرکز گیارہ مختلف شعبوں میں خدمات فراہم کرتا تھا جن میں علوم قرآنی، اقتصاد، تاریخ، کلام و دین شناسی، نفسیات، علوم تربیتی، تعلقات عامه ، سیاسیات، فلسفہ، حقوق اور سماجیات شامل تھے۔ | ایک اور اہم خدمت جو آیت اللہ مصباح یزدی نے انجام دی، وہ " ثقافتی مرکز باقرالعلوم" کا قیام تھا۔ اس ادارے کا مقصد "مؤسسه در راه حق" کے فارغ التحصیل طلبہ کو تخصصی انسانی علوم کے کورسز میں شامل کرنا تھا۔ یہ مرکز گیارہ مختلف شعبوں میں خدمات فراہم کرتا تھا جن میں علوم قرآنی، اقتصاد، تاریخ، کلام و دین شناسی، نفسیات، علوم تربیتی، تعلقات عامه ، سیاسیات، فلسفہ، حقوق اور سماجیات شامل تھے۔ | ||
مؤسسه در راه حق اور بنیاد باقر العلوم کے پھیلاؤ اور طلاب کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر، زیادہ وسیع جگہ اور جدید سہولتوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، استاد مصباح یزدی کی تدبیر اور حضرت امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کی خصوصی عنایت سے "مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی"( امام خمینی تعلیمی اور تحقیقاتی مرکز) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ادارہ آج قریب ایک ہزار فاضل طلبہ کو اپنے زیر تربیت رکھتا ہے اور انہیں جدید علوم سے آشنا کرتا ہے۔ | مؤسسه در راه حق اور بنیاد باقر العلوم کے پھیلاؤ اور طلاب کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر، زیادہ وسیع جگہ اور جدید سہولتوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، استاد مصباح یزدی کی تدبیر اور حضرت امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کی خصوصی عنایت سے "مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی"( امام خمینی تعلیمی اور تحقیقاتی مرکز) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ادارہ آج قریب ایک ہزار فاضل طلبہ کو اپنے زیر تربیت رکھتا ہے اور انہیں جدید علوم سے آشنا کرتا ہے۔ | ||
== سیاسی سرگرمیاں == | == سیاسی سرگرمیاں == | ||
استاد مصباح یزدی نے ظالم شاهی حکومت کے خلاف نہ صرف علمی بلکہ عملی طور پر بھی احتجاج اور جدوجہد کی۔ انہوں نے "انجمنهای ایالتی و ولایتی"( صوبائی اور علاقائی انجمنیں) اور "نهضت روحانیت"(علما کی تحریک) نامی تحریکوں میں فعال شرکت کی۔ اس دوران، جب امام خمینی کو قیطریہ جیل میں قید کیا گیا تھا، استاد مصباح نے امام کے نام ایک مفصل خط بھیجا تھا جس میں امام کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ اس خط میں استاد مصباح نے امام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی موجودہ حالات کے حوالے سے تفصیلات فراہم کیں، اس کے علاوہ امام کی جلد آزادی کی پیشگوئی بھی کی۔ | استاد مصباح یزدی نے ظالم شاهی حکومت کے خلاف نہ صرف علمی بلکہ عملی طور پر بھی احتجاج اور جدوجہد کی۔ انہوں نے "انجمنهای ایالتی و ولایتی"( صوبائی اور علاقائی انجمنیں) اور "نهضت روحانیت"(علما کی تحریک) نامی تحریکوں میں فعال شرکت کی۔ اس دوران، جب امام خمینی کو قیطریہ جیل میں قید کیا گیا تھا، استاد مصباح نے امام کے نام ایک مفصل خط بھیجا تھا جس میں امام کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ اس خط میں استاد مصباح نے امام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی موجودہ حالات کے حوالے سے تفصیلات فراہم کیں، اس کے علاوہ امام کی جلد آزادی کی پیشگوئی بھی کی۔ |
ترامیم