Jump to content

"آغا خان چہارم" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 34: سطر 34:
کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کی مالی، معاشی، علمی اور آبادیاتی مد میں مدد کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہے۔ ان کا تعمیر کردہ ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے مشہور ہے اور بیک وقت کئی زیلی اداروں کی سرپرستی کرتا ہے۔ کریم آغا خان کو بین الاقوامی زبانوں میں عبور حاصل تھا۔ وہ انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبانیں روانی سے بولتے تھے، مگر عربی اور اردو اٹک اٹک کر بولتے تھے۔
کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کی مالی، معاشی، علمی اور آبادیاتی مد میں مدد کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہے۔ ان کا تعمیر کردہ ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے مشہور ہے اور بیک وقت کئی زیلی اداروں کی سرپرستی کرتا ہے۔ کریم آغا خان کو بین الاقوامی زبانوں میں عبور حاصل تھا۔ وہ انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبانیں روانی سے بولتے تھے، مگر عربی اور اردو اٹک اٹک کر بولتے تھے۔
ان کے مشغلے گھوڑ دوڑ اور اسکیٹنگ، فٹ بال، ٹینس اور کشتی رانی ہیں۔ ایک قول کے مطابق وہ کسی زمانے میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکیٹنگ کے اولمپک چمپین بھی بنے تھے۔
ان کے مشغلے گھوڑ دوڑ اور اسکیٹنگ، فٹ بال، ٹینس اور کشتی رانی ہیں۔ ایک قول کے مطابق وہ کسی زمانے میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکیٹنگ کے اولمپک چمپین بھی بنے تھے۔
== مذہبی قیادت ==
آغا خان چہارم شاہ کریم حُسینی نے 20 برس کی عمر میں 11 جولائی 1957ء کو نزاری (آغا خانی) اسماعیلیوں کے اننچاسویں امام کی حیثیت سے منصب سنبھالا۔ عالمی سطح پر شہزادہ کریم کی رسمِ تاج پوشی کی تقریبات منعقد ہوئیں اور 23 جنوری 1958ء کو نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں بھی شہزادہ کریم آغا خان کی رسمِ تخت نشینی ادا کی گئی۔ یوں شہزادہ کریم اسماعیلی یا آغا خانی [[مسلمان|مسلمانوں]] کے اننچاسویں امام کے منصب پر فائز ہوئے اور آغا خان چہارم کے لقب سے معروف ہو گئے۔
== تعلیم ==
ابتدائی طور پر شہزادہ کریم آغا خان چہارم ریاضی، کیمیا اور جنرل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، آپ نے [[اسلامی تاریخ]] کا مطالعہ شروع کیا جس میں [[اسلامی فرقے]] اور [[تصوف]] کا بغور مطالعہ کیا۔ جب ان پر امامت کی اہم زمہ داری سونپی گئی انھوں نے اسی دوران میں ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجوییشن اور بی اے آنرز اسلامک تاریخ کی ڈگری حاصل کی۔ 1957ء–1958ء میں جہاں مسلم دنیا اور دیگر غیر مسلم برادری کے درمیان میں دُوری کو ختم کرنے اور لوگوں کی معیار زندگی کو بہتر بنانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔
جہاں جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں نسلی طور پر کشیدہ ماحول عرُوج پر تھی۔ سنہ 1972ء میں جب یوگانڈا میں صدر عیدی امین کی حکومت نے فرمان جاری کیا کہ جنوبی ایشیا کے باشندوں اور نزاری اسماعیلی کو 90 دن کے اندر اس ملک چھوڑنے کی مہلت دی اُس وقت شہزادہ کریم آغا خان نے کینیڈی وزیر اعظم پیری ترودیو سے ان تمام خاندانوں کو کینیڈا میں آبادکاری کی درخواست دی جسے وزیر اعظم نے قبول کر کے اپنے ملک کے دروازے کھولنے پر اتفاق کیا اج کینیڈا دنیا کی سب سے تیز ترقی یافتہ ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔