5,008
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 30: | سطر 30: | ||
== اعتکاف کی مدت == | == اعتکاف کی مدت == | ||
=== اہل سنت کی نگاہ میں === | |||
اعتکاف کیلئے کوئی زمان مقرر نہیں ہے لیکن روایات کی بنا پر رسول اللہ رمضان کے آخری عشرے میں معتکف ہوتے تھے <ref>کلینی، ج۴،ص۱۷۵</ref>۔ | |||
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رمضان میں کم از کم ایک عشرے کا اعتکاف کیا، اس لئے افضل و بہتر یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا جائے لیکن اگر کسی کے حالات ساتھ نہ دیتے ہوں تو وہ سات دن ، پانچ دن یا صرف طاق راتوں کا اعتکاف کرے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں صحابہ نے رمضان کی سات درمیانی راتوں کا اعتکاف کیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا : من کا منکم منحر یا فلینحر ما فی السبع الاواخر " ۔ جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے " <ref>صحیح ابن خزیمہ :2222 ، الصوم</ref>۔ | نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رمضان میں کم از کم ایک عشرے کا اعتکاف کیا، اس لئے افضل و بہتر یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا جائے لیکن اگر کسی کے حالات ساتھ نہ دیتے ہوں تو وہ سات دن ، پانچ دن یا صرف طاق راتوں کا اعتکاف کرے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں صحابہ نے رمضان کی سات درمیانی راتوں کا اعتکاف کیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا : من کا منکم منحر یا فلینحر ما فی السبع الاواخر " ۔ جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے " <ref>صحیح ابن خزیمہ :2222 ، الصوم</ref>۔ | ||
=== شیعہ امامیہ کی نگاہ میں === | |||
شیعہ امامیہ کے نزدیک اعتکاف کی کم سے کم مدت تین دن بیان ہوئی ہے نیز اگر اعتکاف مستحب ہو تو اس سے اٹھ سکتا ہے لیکن دوسرے روز کے اختتام پر تیسرے کے دن کا مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے <ref>محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، بہ کوشش عبدالحسین محمدعلی، نجف، ۱۳۸۹ق /۱۹۶۹م، ج1، ص216</ref>۔ | |||
نیز عبد اللہ بن انیس الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میں صحرا میں رہائش پذیر ہوں اور الحمد للہ وہاں نماز کا اہتمام کرتا ہوں [البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ شب قدر کے حصول کے لئے اعتکاف کروں تو ] آپ مجھے کسی ایسی رات کے بارے میں بتلائیے جس رات اس مسجد میں آکر عبادت کروں [ اعتکاف کروں ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیئس کی شب کو | نیز عبد اللہ بن انیس الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میں صحرا میں رہائش پذیر ہوں اور الحمد للہ وہاں نماز کا اہتمام کرتا ہوں [البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ شب قدر کے حصول کے لئے اعتکاف کروں تو ] آپ مجھے کسی ایسی رات کے بارے میں بتلائیے جس رات اس مسجد میں آکر عبادت کروں [ اعتکاف کروں ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیئس کی شب کو آجانا۔ | ||
سیرت رسول کی پیروی کرتے ہوئے اعتکاف کا بہترین زمان رمضان کا آخری عشرہ مستحب مؤکد شمار کیا جاتا ہے اگرچہ دیگر اوقات میں بھی مستحب ہے <ref>شہید ثانی، زین الدین، الروضہ البہیہ، بہ کوشش محمد کلانتر، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م، ج1، ص582</ref>۔ | |||
راوی حدیث محمد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن انیس کے بیٹے سے سوال کیا کہ تمہارے والد کس طرح کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے اور کسی بھی غیر ضروری کام کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلتے ، یہاں تک کہ جب صبح کی نماز پڑھ لتیے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر موجود پاتے اور اس پر سوار ہوکر پھر صحرا میں چلے جاتے۔ <ref>صحیح ابن خزیمہ : 2200، الصیام</ref>۔ | راوی حدیث محمد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن انیس کے بیٹے سے سوال کیا کہ تمہارے والد کس طرح کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے اور کسی بھی غیر ضروری کام کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلتے ، یہاں تک کہ جب صبح کی نماز پڑھ لتیے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر موجود پاتے اور اس پر سوار ہوکر پھر صحرا میں چلے جاتے۔ <ref>صحیح ابن خزیمہ : 2200، الصیام</ref>۔ | ||
== اعتکاف کا آغاز == | |||
اعتکاف کے تین ایام پہلے دن کے طلوع فجر سے شروع ہو کر تیسرے دن کے غروب آفتاب تک شمار ہوتے ہیں۔ | |||
مالک بن انس اور شافعی کے نزدیک غروب آفتاب سے پہلے معتکف کو اعکاف کی جگہ حاضر ہونا چاہئے تا کہ رات کی ابتدا وہاں موجود ہو <ref>شافعی، محمد، الام، بہ کوشش محمد زہری نجار، بیروت، دارالمعرفہ،ج2، ص105</ref>۔ | |||
اہلسنت فقہا کے نزدیک اعتکاف کی کم میں اختلاف ہے اور اکثر کے نزدیک کسی کم ترین معین مدت کے قائل نہیں ہیں <ref>ابن رشد، محمد، بدایہ المجتہد، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م، ج1، ص314</ref>۔ | |||
== اعتکاف کے ایام روزہ رکھنا == | |||
=== امامیہ کے نزدیک === | |||
امامیہ کے نزدیک معتکف شخص کیلئے روزہ رکھنا ضروری ہے <ref>سید مرتضی، علی، الانتصار، بہ کوشش محمدرضا خرسان، نجف، ۱۳۹۱ق /۱۹۷۱م، ص72</ref>۔ لیکن اعتکاف کے روزے کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔ پس سفر ،مریضی،حائض یا نفاس کی وجہ سے اعتکاف درست نہیں ہے ۔ | |||
عید فطر اور قربان کے روز روزہ رکھنا حرام ہونے کی وجہ سے ان دنوں میں اعتکاف درست نہیں ہے ۔ | |||
=== اہل سنت کے نزدیک === | |||
مالکی فقہ کے مطابق بھی روزے کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ہے جبکہ حنفیوں کے نزدیک بھی مشہور یہی ہے لیکن ایک قول کی بنا پر مستحب اعتکاف میں روزہ شرط نہیں ہے ۔اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل سے مشہور قول یہ ہے کہ اعتکاف میں سرے سے روزہ واجب ہی نہیں ہے <ref>مالک بن انس، الموطأ، بہ کوشش محمدفؤاد عبدالباقی، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۵م، ج1، ص315</ref>۔ | |||
== اعتکاف کی شرطیں == | == اعتکاف کی شرطیں == | ||
* عاقل ہو: مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔ | * عاقل ہو: مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔ |