ایک امت، مشترکہ منزل بین الاقوامی کانفرنس
ایک امت، مشترکہ منزل بین الاقوامی کانفرنس | |
---|---|
![]() | |
واقعہ کی معلومات | |
واقعہ کا نام | ایک امت، مشترکہ منزل بین الاقوامی کانفرنس |
واقعہ کی تاریخ | 2025ء |
واقعہ کا دن | 19 اور 20 فروری |
واقعہ کا مقام |
|
عوامل | الازہر مصر، اسلامک اسمبلی بحرین، مسلم حکمران کونسل |
اہمیت کی وجہ | اتحاد بین المسلمین |
نتائج |
|
"ایک امت اور مشترکه منزل" کے عنوان سے ایک اہم بین الاقوامی کانفرنس 19 اور 20 فروری کو، دو دن بحرین کے دارالحکومت منامہ میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں دنیا کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکهنے والے مسلم علما، راہنما، مفکرین اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اس میں شیخ احمد الطیب، شیخ الأزہر اور انور ابراہیم وزیراعظم مالیزیا نے تقاریر کیں۔ اس کانفرنس کی حمایت بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسی آل خلیفه کی جانب سے کی گئی تھی، اور اس میں عالمی تقریب مذاہب اسلامی کے سیکریٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین حمید شہریاری اور مختلف اسلامی ممالک کے مذہبی اور فکری شخصیات بھی شریک ہوئیں۔ اس کانفرنس کا مقصد اسلامی - مسلمانوں کی باہمی اتحاد کو مستحکم کرنا، سمجھوتہ اور ہم آہنگی کے اقدار کو تقویت دینا تھا۔ اس کے دوران مسلمانوں کے مشترکہ مسائل اور چیلنجز پر بات چیت ہوئی، اور تکثیر پسندی اور تنوع کو مسلمانوں کے درمیان طاقت اور اتحاد کے طور پر اہمیت دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس کانفرنس نے اعتدال پسند تفکر کے پھیلاؤ، اسلامی اتحاد میں موجود رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی مکالمہ کی حمایت میں مستقل اقدامات کے لیے ایک پروگرام تیار کرنے کی کوشش کی۔
عالمی اسمبلی برای تقریب مذاهب اسلامی کے سکریٹری جنرل حمید شهریاری کا خطاب
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا: "اس تاریخی صورتحال میں جہاں مسلمان زندگی گزار رہے ہیں، علماء اور دینی مراجع کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ یہ بات واضح کریں کہ جو بھی شخص امت اسلام سے ہے اور جو شهادتین زبان سے ادا کرتا ہے، وہ امت واحدہ اسلامی کا حصہ ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ مسلم علماء کو اس تصور پر پختہ یقین رکھنا چاہیے تاکہ ہر مسلمان اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کو امت اسلامی کے حوالے سے سمجھے اور اس کے مطابق عمل کرے۔
اس حوالے سے، انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ایک مفہومی فریم ورک مرتب کرنا ضروری ہے جو امت واحدہ اسلامی کو واضح کرے، اور اس مقصد کے لئے عالمی اسمبلی برای تقریب مذاهب اسلامی نے ایک کتابچہ تیار کیا ہے جو آٹھ زبانوں بشمول عربی اور انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے، اور اس کا خلاصہ اس کانفرنس کے لیے بھیجا گیا ہے۔
کانفرنس کے اہداف
ڈاکٹر شهریاری نے وحدت اسلامی کے حوالے سے کنفرانسوں کے اہداف پر روشنی ڈالی اور کہا کہ 38 سالوں سے اسلامی جمهوریه ایران کی طرف سے وحدت اسلامی کنفرانسوں کا انعقاد اور بعد میں عالمی اسمبلی برای تقریب مذاهب اسلامی کے قیام کا مقصد دو اہم اہداف کی تکمیل تھا۔ پہلا مقصد اسلامی امت کو یکجا کرنے کی کوشش تھا اور تقریب مذاهب اسلامی اس راستے میں پہلا قدم تھا۔ انہوں نے کہا: "ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ آج بڑے اسلامی ممالک بھی اس قدم کو اٹھا چکے ہیں اور آج صرف تہران نہیں بلکہ قاہرہ، جدہ، استنبول اور دیگر اسلامی شہروں سے بھی تقریب کی آواز سنائی دیتی ہے۔" عالمی اسمبلی برای تقریب مذاهب اسلامی کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ اسلامی مکالمہ تفرقہ اور شدت پسندی کے مقابلے میں ایک نیا راستہ ہے اور یہ امت اسلامی کے لیے ایک نیا اعزاز ہے جس کی قدر تمام علماء کو کرنی چاہیے۔
دوسرے مقصد کے طور پر، انہوں نے "متحده ممالک اسلامی" کے قیام کی اہمیت پر بات کی، اور کہا کہ مجمع تقریب نے اس کتابچے کے آخری حصے میں "اتحادیہ ممالک اسلامی" کا مفہوم فراہم کیا ہے، جو امت اسلامی کے حکومتی نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں شہری حقوق، آئینی حکمرانی، اور اسلامی ممالک کی طرف سے تجویز کردہ آئین کے عناصر کو شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے میں پاسپورٹ کے بغیر سفر کی سہولت، اسلامی کرنسی، ایک مشترکہ پارلیمنٹ جو مشترکہ قوانین کو منظور کرے اور مشترکہ تنظیموں کا استعمال کیا جائے گا۔ اس طرح ہر ملک کے آئینی قوانین اور سیاسی، سماجی، ثقافتی پالیسیوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس منصوبے کا ایک حصہ موجودہ D-8 تنظیم میں شامل ہے، جس میں ایران، ترکی، مصر، انڈونیشیا، ملائشیا، پاکستان اور نائیجیریا شامل ہیں۔
اسلامی متحد قوم کے حصول کے اہم موضوعات
عالمی اسمبلی برای تقریب مذاهب اسلامی کے سکریٹری جنرل نے اپنی گفتگو میں امت واحدہ اسلامی کے حصول کے لیے چار اہم محوری نکات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پہلا محور یہ ہے کہ دنیا کے مسلمانوں میں تفرقه اور دوسروں کی توہین سے دوری اختیار کی جائے، جس میں جنگوں سے بچنا، انصاف اور امن کی طرف تشویق، دہشت گردی سے پرہیز اور بھائی چارے کو فروغ دینا، تنازعات اور توہین سے بچنا اور احترام و انسانیت کی عزت کو اہمیت دینا شامل ہے۔
دوسرا محور اسلامی ممالک کے درمیان تعاون پر زور دینا تھا اور انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے درمیان دشمن مشترک کے خلاف اتحاد اور سچائی کی ضرورت ہے۔ تیسرا محور اسلامی ممالک کی سیاسی، سیکیورٹی، سائنسی و تکنیکی، اقتصادی اور اجتماعی خدمات کے شعبوں میں یکجہتی کے بارے میں تھا، جس سے امت واحدہ کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
چوتھا محور مسلمانوں کی روحانی و اخلاقی ترقی پر مبنی تھا، جس میں شریعت اسلامی کی پابندی، عبادات اور مساجد کی اہمیت، اخلاقی قدروں کو مضبوط کرنا، تقریب مذاہب اسلامی کے فروغ، برادری کی تقویت، فساد کے خلاف جدوجہد، معاشرتی انصاف کی ترقی اور غریبوں و مظلوموں کے حقوق کی حفاظت شامل ہے۔ انهوں نے کہا کہ یہ چار محوری نکات امت واحدہ کے تصور کو اجاگر کرتے ہیں اور پانچویں محور یعنی "متحده ممالک اسلامی" کو ایک سیاسی ماڈل کے طور پر قائم کرنے کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں، جس میں اس اتحادیہ کے مقاصد، اس کی بنیادیں، پالیسیوں اور عمومی ساخت کو اجمالاً پیش کیا گیا ہے۔
اسلامی تمدن کی تشکیل کے لئے دو اہم عنصر
ڈاکٹر شہریاری نے تاکید کی کہ "متحده ممالک اسلامی" اور "امت واحدہ اسلامی" کے دو مفاہیم اسلامی تمدن کے قیام کے لیے اہم عناصر ہیں اور یہ عالم اسلام کا سب سے اہم مقصد سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ مسلمان حکما کی کونسل کی سیکریٹریٹ اس منصوبے کا جائزہ لے اور اس کی دوبارہ تدوین کرے، اور اس میں ذکر کردہ عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے سالانہ علما کے اجلاس کے متن کی تیاری میں استفادہ کرے تاکہ امت واحدہ کے قیام کے لیے کام کیا جا سکے۔
عالمی اسمبلی برای تقریب مذاهب اسلامی کے سکریٹری جنرل نے اپنے خطاب کے آخر میں فلسطین کے مسئلے پر بھی زور دیا اور کہا کہ فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہونا چاہیے اور اسلامی اتحاد کے حصول کے لیے یہ سب سے اہم مشترکہ قدر بننی چاہیے۔ انہوں نے فلسطینی عوام کی انتفاضہ کی حمایت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ حمایت خاص طور پر فلسطین کے ہمسایہ ممالک میں عملی طور پر ہونی چاہیے، نہ کہ محض نعروں اور میڈیا تک محدود ہو۔ ڈاکٹر شہریاری نے اس بات کی امید بھی ظاہر کی کہ تمام فلسطینی قیدی آزاد ہوں گے اور تمام شہری اپنے مذہبی آزادی کے حق سے استفادہ کر سکیں گے تاکہ وہ اپنے مذہبی شعائر ادا کر سکیں۔[1]
شیخ احمد الطیب کا خطاب
شیخ احمد الطیب نے اپنے خطاب میں یہ بیان کیا کہ یہ کانفرنس امت اسلامی کو اُس تباہی اور فنا سے بچانے کے لیے منعقد کی جارہی ہے جس کا اس کے لیے منصوبہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: "یہ کانفرنس اس وقت منعقد کی جارہی ہے جب امت اسلامی ایک دوہری راہ پر کھڑی ہے اور ایک اندھی، شدید طوفان کا سامنا کر رہی ہے جو قریب تھا کہ پندرہ صدیوں کی اس کی تہذیب کو جڑ سے اکھاڑ کر ختم کر دے۔"
فلسطین هدایت کا مرکزی نقطه
شیخ الازہر نے فلسطین کو امت اسلامی کے لیے رہنمائی کا قطب نما اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا: "فلسطین ایک حقیقت ہے جو اس بات کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے کہ ایک 'اتحادیہ تعاون' کا قیام ضروری ہے جو اس قوم کے حقوق کا دفاع کرے۔" انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے دشمنوں نے یہ سازش تیار کی ہے کہ غزہ کے لوگوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا جائے اور ان کا ملک چھین لیا جائے۔ تاہم، اللہ کے فضل سے عرب اور اسلامی ممالک کے عوام اور رہنماؤں کو ایک واحد اور باعزت موقف پر اکٹھا کیا گیا ہے تاکہ اس ظالمانہ حملے اور تجاوز کو مسترد کیا جا سکے۔ یہ ایک بہادری کا موقف ہے جو اسلامی وحدت کی امید کو دوبارہ زندہ کرتا ہے۔
اهل قبله کا آئین نامه
شیخ احمد الطیب نے مختلف مذاہب کے مسلمانوں کے علما سے درخواست کی کہ وہ ایک منشور ترتیب دیں جسے « اهل قبله کا ائین نامه » یا «اخوت اسلامی» کہا جائے، جو مشترکہ تعاون کے قیام کے لیے ایک ستون کی حیثیت رکھے گا۔ یہ منشور مفاہمت، مشاورت اور گفتگو کی بنیاد پر ترتیب دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک سنجیدہ اور عملی منصوبہ تیار کرنا ضروری ہے تاکہ تمام اسلامی مکاتب کے درمیان اتحاد اور باہمی مفاہمت کو فروغ دیا جائے، جس میں تفرقہ، نزاع اور خاص طور پر نسلی و فرقہ وارانہ جھگڑوں کو مسترد کیا جائے اور ان نکات پر توجہ مرکوز کی جائے جہاں مسلمان آپس میں متفق اور ہم آہنگ ہیں۔[2]
اسلامی اتحاد کی ضرورت اور اهمیت کے حوالے سے شیخ الازهر کا بیان
ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم ایک حقیقی بحران کا شکار ہیں، جس کی سنگین قیمت مسلمان جہاں بھی ہیں ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ چیلنجز اور مسلسل بحرانوں کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ ایک اسلامی اتحاد ہے جو امت کے تمام اجزاء کے درمیان رابطے کے دروازے کھولے بغیر کسی فریق کو الگ کیے، اور ہر ملک کے امور، سرحدوں، خودمختاری اور سرزمین کا احترام کیا جائے۔ شیخ الازہر نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ بابرکت کانفرنس ایک سنجیدہ اور عملی منصوبہ تیار کرے گی "جو تمام اسلامی فکری مکاتب کے درمیان اتحاد، تفاہم اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے ہو، اور ایسا مسلسل مکالمہ قائم کرے گی جس میں فرقہ واریت، اختلافات اور نسلی و مذہبی تنازعات کے اسباب کو مسترد کیا جائے گا، خاص طور پر ان پر توجہ دی جائے گی جو امت کے اتفاق اور ہم آہنگی کے نکات پر مرکوز ہوں گے۔ اور اس کے فیصلوں میں اس سنہری قاعدے کا ذکر کیا جائے گا جو کہتا ہے: 'ہم اس بات پر تعاون کریں گے جس پر ہم متفق ہیں، اور ایک دوسرے کو معاف کریں گے جہاں ہم اختلاف رکھتے ہیں'۔ نیز اس میں نفرت انگیز تقاریر کی روک تھام، تفسیق، تکفیر اور بدعت کے طریقوں کو ختم کرنے اور تاریخ و معاصر مسائل کی پیچیدگیوں اور اس کی منفی باقیات سے آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔ سب کو ایک صاف دل اور کھلے ہاتھوں کے ساتھ بیٹھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور ماضی کو پیچھے چھوڑنے، اسلامی امور کو مستحکم کرنے کی حقیقی خواہش کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مسلمان ان افراد سے بچیں جو فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ہیں اور جو وطن کے استحکام سے کھیلنے، فرقہ واریت کو استعمال کرتے ہوئے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کرنے اور ایک ہی ملک کے شہریوں کے درمیان تفرقہ ڈال کر اس کے سیاسی، سماجی اور سیکیورٹی استحکام کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب بدترین جرائم ہیں جنہیں اسلام اور انسانیت کی اخلاقی اقدار دونوں مسترد کرتے ہیں اور بین الاقوامی ضوابط کے بھی خلاف ہیں۔ شیخ الازہر نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ ہم اپنے معاصرین کے تجربات سے سبق لیں تاکہ ہم اسلامی "اتحاد" کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں جو اس امت کے حقوق کا دفاع کرے اور اس کے عوام کو ظلم، تکبر اور جابرانہ نظاموں سے بچائے۔ انہوں نے یورپ کا ذکر کیا جہاں بیس ممالک نے اتحاد کی صورت میں اپنے عوام کا دفاع کیا، ان کے امن اور استحکام کو تقویت دی، اپنی شناخت کو مٹنے اور تحلیل ہونے سے بچایا، اور اپنی معاشی ترقی کو یقینی بنایا۔ اس کے باوجود، ان کی مختلف نسلوں، زبانوں اور مذاہب کے باوجود، یورپ نے اتحاد کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر غیر مسلم قومیں اتنی رکاوٹوں کے باوجود اپنے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اتحاد حاصل کر سکتی ہیں، تو مسلمان کیوں اس اہم "اتحاد" کو حاصل نہیں کر سکتے جو ان کی زندگی کی ضرورت ہے، جو ان کے قدموں کو مضبوط کرے اور ان کو تباہ کن طوفانوں سے بچائے؟ ایسا اتحاد جو ان کی جغرافیائی، تاریخی، نسلی، لسانی، مذہبی، ثقافتی اور مشترکہ تقدیر کی بنیاد پر تعمیر ہو۔ شیخ الازہر نے امت کے اتحاد کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے فلسطینی مسئلے کے موجودہ خطرات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے عوام کے خلاف سازشیں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ غزہ کے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود، اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے ساتھ عرب اور اسلامی امت کے عوام اور رہنما ایک مشترکہ اور قابل فخر موقف اختیار کر چکے ہیں، جو اس کھلے ظلم اور فلسطین کی مقدس سرزمین پر حملے کی مخالفت کرتا ہے، نیز مسلم ممالک کی خودمختاری پر حملوں کی بھی مذمت کرتا ہے۔ یہ موقف اسلامی صف کی اتحاد کی جانب ایک حوصلہ افزاء قدم ہے جو امت میں نئی امید پیدا کرتا ہے۔ [3]
شیخ احمد مبلغی کا خطاب
جلس خبرگان رهبری کا رکن حجتالاسلام والمسلمین احمد مبلغی نے اس کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں اپنی گفتگو میں کہا: تقریب کا آغاز مصر کی سرزمین سے ہوا، جہاں دارالتقریب کی بنیاد رکھی گئی تاکہ اتحاد اور مفاہمت کا پرچم بلند کیا جا سکے؛ اسی راستے پر چلتے ہوئے جمہوری اسلامی ایران نے دارالتقریب بین المذاهب الاسلامیة کو قائم کیا تاکہ ہم آہنگی اور برادری کی مشعل کو روشن رکھا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا: تمام مسلمان الازہر شریف کی جانب نظر دوڑاتے ہیں، جس کا ایک وسیع افق اور بلند مقام ہے، تاکہ وہ ہمیشہ تقریب کے راستے پر قائم رہے، اس کے لوازمات کو پورا کرے اور اس کے مقتضیات کو مکمل کرے، اور ہمیشہ الفت اور اتحاد کا پرچم بلند رکھے۔
تین بنیادی اصول
حوزه علمیه کے اعلی دروس کے استاد نے اپنی تقریر میں تین اہم اصول بیان کیے جن پر عمل پیرا ہوکر امت اسلامیہ اور دین اسلام کو دنیا میں درخشانی حاصل ہو سکتی ہے: پہلی اصل ؛ شریعت اور امت کے درمیان مضبوط رشتہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: "لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا..." (مائده–48)۔ امت بغیر شریعت کے امت نہیں ہو سکتی اور شریعت امت کو بنیاد فراہم کرتی ہے اور اس کے ارکان کو مستحکم کرتی ہے۔ یہ رشتہ صرف امت کی پیدائش میں ہی نہیں بلکہ اس کی بقائیت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ شریعت اس کی استحکام اور ترقی کی ضمانت ہے۔ جیسے جسم بغیر روح کے نہیں چل سکتا، ویسے ہی امت بھی بغیر شریعت کے قائم نہیں رہ سکتی۔ دوسری اصل ؛ شریعت دین کو انسانوں کی زندگی میں قائم کرنے کا وسیلہ ہے اور یہ ربانی طریقہ کے تحت اس کا عملی اظہار ہے۔ "شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ..." (شوری–13)۔ شریعت دین کو زندگی میں عملاً نافذ کرنے کا ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے دین کی اعلیٰ اقدار جیسے عدل، رحمت اور ہدایت کا تحقق ممکن ہوتا ہے۔ تیسری اصل ؛ اگر شریعت اور امت کے درمیان رشتہ کمزور ہو جائے تو شریعت اپنی اصلی جگہ سے گر جائے گی۔ نہ یہ دین کی خدمت کرے گی اور نہ اس کے قیام کا ذریعہ بنے گی بلکہ وہ تفرقات اور فتنے کا سبب بن جائے گی۔ اس وقت اختلاف صرف فروعی نہیں ہوگا بلکہ یہ دین کی کمزوری کا باعث بنے گا، کیونکہ جھگڑے دین کے لیے سازگار نہیں ہوتے بلکہ وہ امت کی باہمی تعلقات کو کمزور کرتے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ تصورات شریعت کو تنگ اور محدود بنا دیں اور اسے امت کی ترقی کی بجائے اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا عنصر بنا دیں۔
اصولِ ثلاثہ کے نتائج اور دو بنیادی امور
حوزہ علمیہ کے درسِ خارج کے استاد نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کها کہ ان تین اصولوں سے دو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں: پہلا: امت کی مصلحت کے تناظر میں ہر مکتب فکر میں علومِ اسلامی کی موجودگی اگر فقہ اور دیگر اسلامی علوم کسی بھی مکتب فکر میں امت کی وحدت کے کلی نظریے سے جدا ہو جائیں، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے فقہی تصورات جنم لیں گے جو شریعت کی روح کو امت کے ساتھ اس کے حقیقی تعلق کے ساتھ نہیں جوڑیں گے۔ اس صورت میں، شریعت امت سے علیحدہ ہو جائے گی اور پھر دین سے بھی اس کا تعلق کمزور ہو جائے گا۔ ایسی حالت میں شریعت دین کی خدمت کرنے کے بجائے ایک محدود دائرے میں قید ہو جائے گی اور اس جامع پیغام سے کٹ جائے گی جس کے لیے خداوند متعال نے اسے نازل فرمایا تھا۔ لہٰذا، شریعت اپنی حقیقی ذمہ داری اسی وقت پوری کر سکتی ہے جب اسلامی علوم اس بصیرت کے ساتھ مربوط ہوں: 1. شریعت امت کے لیے ایک جامع نظام ہے، اور اگر کسی علمی تحقیق میں اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ درحقیقت شریعت کو امت سے اور دین کو شریعت سے جدا کرنے کے مترادف ہوگا۔ 2. امتِ مسلمہ کی عظمت اور سربلندی صرف اسی وقت حاصل ہوگی جب مسلمان آپس میں اخوت اور بھائی چارے کے رشتے کو مضبوط کریں گے۔ دوسرا: تین بنیادی اصولوں کی حفاظت، جو اسلامی اخوت کی بنیاد ہیں
امت کی مضبوطی کی بنیادیں
- وطن کی حفاظت (تمامیت اوطان)
وطن وہ زمین ہے جہاں انسان پروان چڑھتا ہے، اور وہ سرزمین ہے جہاں اس کی تاریخ جاری رہتی ہے۔ اس کا تحفظ ضروری ہے؛ نہ اسے ترک کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے دوسروں کے کھیل کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، کیونکہ وطن امت کا قلعہ ہے۔ جو شخص اپنے قلعے کو چھوڑ دیتا ہے، وہ خود کو ہلاکت کی وادی میں ڈال دیتا ہے۔
- قوم کی حفاظت (تمامیت ملل)
یہ امت کی روح اور اس کی پائیدار حقیقت ہے۔ اگر ملتیں آپس میں متحد ہوں تو امت مضبوط ہو جاتی ہے، لیکن اگر وہ منتشر ہو جائیں تو امت کی بنیادیں منہدم ہو جاتی ہیں۔ امت کا وجود اپنی ملتوں کے بغیر ممکن نہیں، اور وحدت ان عوامل کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی جو اسے مضبوط بناتے ہیں۔ اسی وجہ سے امت کے عظیم مسائل، خصوصاً فلسطین اور غزہ پر ہونے والے ظلم کے خلاف حمایت ضروری ہے۔ یہ ایک آزمائش ہے کہ آیا اسلامی بھائی چارہ حقیقی ہے یا محض نعرہ۔ اس مسئلے میں کوتاہی امت سے خیانت کے مترادف ہوگی، جو اسلامی موقف میں وحدت کا تقاضا کرتی ہے اور عدل و انصاف کے مطابق فلسطین کی حمایت کا تقاضا کرتی ہے۔
- مذہب کی حفاظت (تمامیت مذاهب)
یہ ایک مضبوط بنیاد اور ایک محکم ستون ہے۔ اگر اس کی حفاظت کی جائے تو امت کی عمارت قائم رہتی ہے، لیکن اگر اسے نظر انداز کر دیا جائے تو امت پارہ پارہ ہو جائے گی۔ نتیجہ حجت الاسلام احمد مبلغی نے آخر میں فرمایا: اگر کوئی امت اپنے وطنوں (اوطان) کو کھو بیٹھے، تو بھائی چارہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر کوئی ملت (ملل) منتشر ہو جائے، تو وحدت باقی نہیں رہتی۔ اگر کوئی امت اپنے مذاہب کو منتشر کر دے، تو اجماع ممکن نہیں رہتا۔ لہٰذا، اگر ہم ایک پائیدار اخوت اور دائمی وحدت کے خواہاں ہیں، تو ان تین بنیادی تمامیتوں (وطن، ملت، مذہب) کی حفاظت لازمی ہے اور ان کے زوال سے اجتناب ضروری ہے، کیونکہ یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر امت کا ہر مستحکم نظام قائم ہو سکتا ہے۔[4]
حوالہ جات
- ↑ سخنرانی دبیرکل مجمع تقریب در کنفرانس "امت واحده، سرنوشت مشترک" در بحرین ( عالمی اسمبلی برای تقریب مذاهب اسلامی کے سکریٹری جنرل حمید شهریاری کی ایک امت، مشترکه تقدیر کانفرنس سے تقریر)-www.taghribnews.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 19/فروری/2025 ء تاریخ اخذ شده:25/فروری/2025ء
- ↑ آغاز کنفرانس گفتوگوی اسلامی با حضور 400 شخصیت اسلامی در منامه ( منامہ میں 400 اسلامی شخصیات کی شرکت کے ساتھ اسلامی مکالمه کانفرنس کا آغاز۔)-taqrib.ir (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 19/فروری/2025 ء تاریخ اخذ شده:25/فروری/2025ء
- ↑ بحرین میں "اسلامی اسلامی مکالمہ کانفرنس" میں شیخ الازہر کا خطاب -www.alimamaltayeb.com - تاریخ درج شده: 19/فروری/2025 ء تاریخ اخذ شده:25/فروری/2025ء
- ↑ وجود تصورات فرقهای بسته بزرگترین خطر برای امت اسلامی است ( تنگ نظری اور فرقہ وارانہ نظریات کا وجود امت اسلامیہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔)-mafaz.ir(زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 19/فروری/2025 ء تاریخ اخذ شده:25/فروری/2025ء