مندرجات کا رخ کریں

اسرائیل اور امریکی طیارہ بردار بحری جہاز پر یمنی حملہ2025

ویکی‌وحدت سے
اسرائیل اور امریکی طیارہ بردار بحری جہاز پر یمنی حملہ2025
واقعہ کی معلومات
واقعہ کا ناماسرائیل اور امریکی طیارہ بردار بحری جہاز پر یمنی حملہ2025
واقعہ کی تاریخ2025ء
واقعہ کا دن25 مارچ
واقعہ کا مقام
  • اسرائیل تل ابیب، دریای سرخ
عواملیمنی مسلح افواج
اہمیت کی وجہفلسطینی عوام کی حمایت اور یمن پر حمله کی جوابی کاروائی
نتائج
  • دشمن کے سامنے عسکری قوت کا مظاهره

اسرائیل اور امریکی طیارہ بردار بحری جہاز پر یمنی حملہ2025 وه حملہ ہے جو یمن نے اسرائیل اور امریکہ کے طیارہ بردار جہاز پر فلسطینی عوام کی حمایت اور یمنی شہریوں پر امریکہ کے حملے کے جواب میں کیا گیا۔ حوثی فورسز کی طرف سے ڈرون اور میزائل حملوں کی ایک ترتیب کے ذریعے اسرائیل اور امریکہ کے عسکری اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جس میں ایک امریکی ہوائی جہاز بردار بحری جہاز بھی شامل تھا جو خطے میں امریکی بحری موجودگی کو بڑھانے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ اس حملے نے یمن کی عسکری صلاحیتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ظاہر کیا۔ یہ حملے اسرائیل کے قریب موجود بحری جہاز پر کیے گئے تھے جو شپنگ لینز کی حفاظت اور خطے میں مختلف طاقتوں کی ممکنہ جارحیت کو روکنے کے لیے امریکہ کی مجموعی عسکری حکمت عملی کا حصہ تھا۔ حملے کے بعد، امریکہ اور اسرائیل نے فوری ردعمل کے طور پر ڈرون اور میزائل لانچ سائٹس پر مشترکہ فضائی حملے کیے۔

حملے کاوقت اور مکان

یمن کا اسرائیل اور امریکہ کے طیارہ بردار جہاز پر حملہ، بروز منگل 25 مارچ 2025 عیسوی کو انجام پایا۔ یہ حملہ یمنی مسلح افواج نے ’’ذوالفقار‘‘ اور ’’فلسطین 2‘‘ نامی دو بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے بن گوریون ہوائی اڈے (تل ابیب میں) پر کیا۔ اس کارروائی کے دوران، تل ابیب کے جنوبی علاقے ’’حولون‘‘ اور ’’بیت شمس‘‘ کو نقصان پہنچا۔ اسی حملے میں یمن کی بحری، میزائلی اور ڈرون فورسز نے ایک اور کارروائی کرتے ہوئے ’’ہیری ٹرومین‘‘ نامی طیارہ بردار بحری جہاز اور اس کے ہمراہ موجود دیگر بحری جہازوں کو بحیرہ احمر میں کروز میزائل اور ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا۔

حملے سے متعلق بیانات

حوثی مسلح افواج کے ترجمان کا بیان

یحیی سریع، یمن کی مسلح افواج کے ترجمان، نے منگل کی صبح اعلان کیا کہ تل ابیب کے بن گوریون ہوائی اڈے پر میزائلی حملہ کیا گیا ہے۔ اس یمنی فوجی اہلکار نے بتایا کہ یہ حملہ ہائیپرسونک بیلسٹک میزائل ’’فلسطین ۲‘‘ اور بیلسٹک میزائل ’’ذوالفقار‘‘ کے ذریعے کیا گیا۔ یحیی سریع نے مزید کہا کہ جب تک صہیونی حکومت غزہ میں اپنی فوجی جارحیت کو بند نہ کرے اور اس علاقے کا محاصرہ ختم نہ ہو جائے مقبوضہ علاقوں کی گہرائی میں ہونے والے حملے جاری رہیں گے ۔[1] یحیی سریع نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یمنی بحریہ، میزائلی اور ڈرون فورسز نے ایک اور کارروائی میں طیارہ بردار بحری جہاز ’’ہیری ٹرومین‘‘ اور اس کے ساتھ موجود دیگر جنگی بحری جہازوں کو کروز میزائل اور ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا: یہ 24 گھنٹوں میں بحیرہ احمر میں امریکی جارح بحری جہازوں پر دوسرا حملہ تھا اور یہ حملے کئی گھنٹوں تک جاری رہے۔ یحیی سریع نے مزید کہا کہ یمنی افواج نے اس کارروائی میں امریکی جارح فضائی حملوں کو بھی ناکام بنایا۔ انہوں نے یمن کی جانب سے صہیونی حکومت سے وابستہ تجارتی بحری جہازوں کی راہداری روکنے اور مقبوضہ علاقوں کی گہرائی تک حملوں کو اس وقت تک جاری رکھنے پر زور دیا جب تک کہ غزہ پر جارحیت ختم نہ کر دی جائے اور اس علاقے کا محاصرہ مکمل طور پر ختم نہ ہو جائے۔[2]

انصارالله کے سیاسی دفتر کا بیان

علی القحوم، انصاراللہ تحریک کے سیاسی دفتر کے سینئر رکن نے ایک بیان میں یمن کی جانب سے امریکہ اور صہیونی حکومت کے خلاف کاروائیوں کے تسلسل کے بارے میں کہا کہ یہ اقدامات فلسطینی عوام کی حمایت اور یمنی شہریوں کے خلاف امریکہ کی وحشیانہ جارحیت کے جواب میں کیے جا رہے ہیں۔علی القحوم نے کہا: امریکہ اور دنیا کو یمن کی جانب سے حیران کن اقدامات کا انتظار کرنا چاہیے۔ یمنی عوام وہی کرتے ہیں جو کہتے ہیں، اور ان کا قول و فعل ایک ہے۔ یمن کی قیادت جانتی ہے کہ اپنی متوالی حیرت انگیز کارروائیوں کو کیسے انجام دینا ہے، اور یمن کی لغت میں مایوسی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ یمن اپنی قیادت کے زیر سایہ فلسطین کی حمایت کے راستے پر گامزن ہے اور کامیاب ہو رہا ہے۔ علی القحوم نے مزید کہا: آج کی جنگ ایک موجودیتی جنگ ہے۔ جو لوگ اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، انہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔عربوں کے لیے اس کی لاگت سب سے زیادہ ہوگی۔ انہوں نے صہیونی حکومت کے بارے میں کہا کہ: اسرائیل ایک برطانوی-امریکی منصوبہ ہے یہ منصوبہ پوری امتِ مسلمہ کی شناخت، تاریخ، تمدن، عظمت، وجود اور مستقبل کے کردار کو لوٹنے اور تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔[3]

صهیونی میڈیا کا بیان

صہیونی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ قابض علاقوں کے وسیع حصوں میں، جن میں قدس، تل ابیب اور کئی صہیونی آبادیاں شامل ہیں، خطرے کے آلارم بجائے گئے۔ یہ آلارم یمن سے کیے گئے میزائلی حملے کے بعد فعال ہوئے۔صہیونی فوج کے ریڈیو نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایک میزائل قابض علاقوں کی جانب داغا گیا۔ اس حملے کے نتیجے میں میزائل کے دھماکے سے پیدا ہونے والے ترکش اور باقیات نے تل ابیب کے جنوبی شہر حولون کو نقصان پہنچایا۔ صہیونی پولیس نے رپورٹ کیا کہ بیت شمش میں غیر انسانی نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ دھماکہ خیز مواد کے ماہرین علاقے کو صاف کرنے میں مصروف ہیں اور پولیس نے شہریوں کو خبردار کیا کہ وہ میزائل کے باقیات کے قریب نہ جائیں۔ اس پس منظر میں، یائیر گولان، اسرائیل کے ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما، نے نتانیاہو کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: یمنی اور غزہ کے میزائل اسرائیل واپس آ گئے ہیں، لیکن قیدی ابھی تک اپنے گھروں کو نہیں پہنچے ہیں۔[4]

حوالہ جات

  1. حمله یمن به تل‌آویو با موشک «ذوالفقار» (تل ابیب پر ذوالفقار میزائل کے ذریعے یمن کا حمله )-www.khabaronline.ir (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 5/ مارچ/2025 ء تاریخ اخذ شده:8/اپریل/ 2025ء
  2. حمله موشکی و پهپادی یمن به فرودگاه بن گورین و ناو آمریکایی، ( بن گوریون ایئرپورٹ اور امریکی جہاز پر یمنی میزائل اور ڈرون حملہ۔)-fa.alalam.ir (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 5/ مارچ/2025 ء تاریخ اخذ شده:8/اپریل/ 2025ء
  3. انصارالله: آمریکا و همه دنیا منتظر شگفتی‌های جدید یمن باشند، (انصار اللہ: امریکہ اور پوری دنیا کو یمن کی جانب سے نئے سرپرائزز کا انتظار کرنا چاہیے،۔)-fa.alalam.ir (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 5/ مارچ/2025 ء تاریخ اخذ شده:8/اپریل/ 2025ء
  4. موشکی یمن به اسرائیل، خسارت‌هایی در تل‌آویو و قدس به بار آورد (اسرائیل پر یمنی میزائل حملے نے تل ابیب اور یروشلم کو نقصان پہنچایا )www.mehrnews.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 5/ مارچ/2025 ء تاریخ اخذ شده:8/اپریل/ 2025ء