10 محرم عاشورا یا یوم عاشورا اسلامی تقویم کے مہینے محرم الحرام کے دسویں دن کو کہا جاتا ہے۔ اس دن شیعہ مسلمانوں کی اکثریت اور کچھ سنی مسلمان پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی کی شہادت کو مختلف طریقوں سے یاد کرتے ہیں۔ شہادت کے واقعہ پر کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا، اہل سنت اور اہل تشیع دونوں متفق ہیں۔ واقعہ کربلا کے تقریباً فوری بعد ہی نوحہ گری شروع ہو گئی تھی۔ واقعہ کربلا کی اموی اور عباسی دور میں مشہور مرثیے تحریر کے گئے ۔ افغانستان، ایران، عراق، لبنان، آذربائیجان، بحرین، بھارت اور پاکستان میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے اور کئی دوسری نسلی و مذہبی برادریاں اس دن جلوس میں شریک ہوتی ہیں۔

واقعات

  • 5ھ— غزوہ ذات الرقاع
  • 61ھ – امام حسین کو کربلا میں شہید کیا گیا۔
  • 561ھ— مصر میں دولت فاطمیہ کے آخری حکمران العاضد الدین اللہ کے انتقال سے دولت فاطمیہ ختم ہو گئی۔ صلاح الدین ایوبی نے مصر کو دولت ایوبیہ میں شامل کر لیا۔
  • 1415ھ — عاشورا حسینی میں علی بن موسی علیہ السلام کے مزار میں بم دھماکہ
  • 1431ھ - کراچی میں عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکے میں 44 عزادار ہلاک ہو گئے۔

وفات

  • 61ھ – امام حسین، علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے بیٹے۔
  • 61ھ – عباس بن علی، علی ابن ابی طالب کے بیٹے
  • 61ھ – علی اکبر، حسین ابن علی کے بیٹے
  • 61ھ – علی اصغر، حسین ابن علی کے بیٹے
  • 62 ھ – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ کی وفات
  • 67ھ – عبیداللہ بن زیاد مختار ثغفی کی فوجوں کے ہاتھوں مارا گیا۔

اعمال

  • پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی مصیبت اور سوگ کی یاد میں

روزه

اهل سنت کی رائے

  • مستحب
زمانہ جاہلیت میں یہودی، عیسائی اور عرب عاشورا کا احترام کرتے تھے اور اس دن روزہ رکھتے تھے۔

فیومی مصباح المنیر میں کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال سے روایت ہے: عاشورہ سے ایک دن پہلے اور اس کے بعد ایک دن روزہ رکھو، تاکہ تم یہودیوں کے مشابہ نہ ہو جاؤ جو صرف دسویں دن کا روزہ رکھتے تھے۔ اس روایت کا مواد سنن دارمی [1]، سنن ترمذی [2]، فتح الباری [3] کی کتابوں میں موجود ہے۔ صحیح بخاری [4] ۔ اور نیل لأوطار [5] کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

شیعه کی رائے

حوالہ جات

  1. سنن دارمی، ج 2، ص 22
  2. سنن ترمذی، ج 4، ص 159
  3. فتح الباری، ابن حجر، ج 11، ص 12
  4. صحیح بخاری، ج 3، ص 31
  5. نیل الأوطار، ج 4، ص .326