یوسف القرضاوی

یوسف عبد اللہ القرضاوی مصری نژاد، قطری شہریت یافتہ مسلمان عالم اور فقیہ تھے، جو عالمی اتحاد برائے علمائے اہل اسلام کے بانی و سابق سربراہ اور یورپی کونسل برائے افتا و تحقیق کے صدر تھے [1]۔ اسی طرح انھیں عالمی پیمانے پر اخوان المسلمین کا روحانی سرپرست اور اولین نظریہ ساز سمجھا جاتا تھا [2]۔

یوسف القرضاوی
یوسف القرضاوی.jpg
پورا نامیوسف القرضاوی
دوسرے نامیوسف عبد اللہ القرضاوی
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہمصر
یوم وفات30 صفر 1444 (2022)
وفات کی جگہقطر
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • الحلال والحرام في الإسلام
  • كتاب فتاوى معاصرة
  • فقه الجهاد
  • تيسير الفقه للمسلم المعاصر
  • الفقه الإسلامي بين الأصالة والتجديد
  • و...
مناصب

پیدائش

ان کی پیدائش 9 ستمبر 1926 کو مصر کے محافظہ غربیہ کے مرکز المحلہ الکبری کے ایک گاؤں صفط تراب میں ہوئی۔

تعلیم

یوسف قرضاوی نے دس سال کی عمر سے پہلے ہی قرآن مکمل حفظ کر لیا تھا، بعد ازاں جامعہ ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے ثانویہ کی سند حاصل کرنے پر مصری سلطنت میں دوسرا مقام حاصل کیا۔ پھر جامعہ ازہر کے اصول الدین کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے عالمیت کی سند 1953 میں حاصل کی، جس میں آپ ایک سو اسی ساتھیوں میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔

1954 میں کلیہ اللغہ سے اجازہ تدریس کی سند حاصل کی اور اس میں پانچ سو ازہر کے طلباء کے درمیان میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد 1958 میں انھوں نے عرب لیگ کے ذیلی ادارہ معہد دراسات الاسلامیہ سے "زبان و ادب میں ڈپلومہ کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ ازہر کے اصول الدین کالج سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، 1973 میں وہیں سے اول مقام و درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کے مقالہ کا موضوع زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر تھا [3].

سوانح عمری

ان کی عمر جب دو سال تھی تو ان کے والد وفات ہو گیا، اس کے بعد ان کی کفالت و پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا نے انجام دی. انہیں اخوان المسلمین سے وابستہ ہونے کے الزام میں کئی بار جیل جانا پڑا، پہلی مرتبہ 1949 میں شاہی حکومت کے عہد میں جیل گئے، پھر سابق مصری صدر جمال عبد الناصر کے عہد میں تین مرتبہ جیل گئے، جنوری 1954 میں، پھر اسی سال نومبر میں جیل ہوئی اور تقریبا بیس مہینے سے قید رہے اور پھر 1963 میں دوبارہ جیل جانا پڑا۔

سنہ 1961 میں قرضاوی مصر سے قطر منتقل ہو گئے جہاں شروع میں ایک ہائی سیکنڈری مذہبی اسکول میں پرنسپل کی حیثیت سے خدمت کی اور وہاں قطری شہریت حاصل کر کے مستقل سکونت پذیر ہو گئے۔ پھر انھوں نے 1977ء میں جامعہ قطر میں کلیہ الشریعہ کا باضابطہ شعبہ قائم کیا اور 1990 تک اس میں عمید کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی طرح جامعہ قطر کے مرکز بحوث سنہ کے بھی پرنسپل رہے ہیں۔

اخوان المسلمین

یوسف القرضاوی کا تحریکی تعلق اخوان المسلمین تھا اور آپ اس کی سرگرمیوں سے اول روز سے وابستہ تھے، یہاں تک کہ اس کے مشہور نمائندوں اور قائدین میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور اس کے صف اول کے نظریہ ساز سمجھے جاتے تھے۔ بارہا انھیں اخوان کے مرشد عام کے منصب کی پیشکش ہوئی لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا۔

اخوان المسلمین کی عالمی تنظیموں کے اجلاس میں برابر شرکت کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اخوان کے تنظیمی کاموں سے مستعفی ہو گئے.انہوں نے "الاخوان المسلمون سبعون عاما فی الدعوۃ و التربیۃ و الجھاد " نامی کتاب لکھی ہے، جس میں انھوں نے اس تحریک کے آغاز سے لیکر بیسوی صدی تک کی تاریخ کو جمع کیا ہے اور اس میں مصر، دیگر عرب ممالک اور پوری دنیا میں اس کی دعوتی، ثقافتی، معاشرتی اور جہادی خدمات اور کارناموں کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے بہار عرب کے موقع پر جمہوری انتخاب کے ذریعہ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت منتخب ہونے کا استقبال کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ "مطلوبہ اعتدال پسند اور اسلام پسند جماعت ہے۔ حسن البنا کے منصوبے کے متعلق ان کا نظریہ تھا کہ وہ "مضبوط منصوبہ ہے جس کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اخوان المسلمین کے متعلق ان کا بیان ہے کہ وہ اپنے طرز عمل، اخلاق اور فکر کے اعتبار سے مصر کی سب سے بہترین جماعت اور سب سے زیادہ استقامت پسند اور پاکباز گروہ ہے۔

سرگرمیاں

  • سابق تاسیسی رکن رابطہ عالم اسلامی
  • بانی و سابق صدر عالمی اتحاد برائے علمائے اہل اسلام
  • رکن مجمع بحوث اسلامیہ، مصر
  • سابق صدر جمعیۃ البلاغ قطر، جو اسلام آن لائن ویب سائٹ کو مالی امداد فراہم کرتی تھی، 23 مارچ 2010 تک
  • رکن بین الاقوامی اسلامی فقہ اکادمی، جدہ
  • سرپرست اور نگراں، شریعہ مشاورت بورڈ برائے قطر اسلامی بینک اور "فیصل اسلامی بینک بحرین
  • رکن تنظیم دعوت اسلامی افریقا
  • نائب صدر زکوٰۃ عالمی شرعی بورڈ کویت
  • رکن مرکز دراسات اسلامیہ آکسفورڈ [4].

تصانیف

  • الحلال والحرام في الإسلام
  • مئة سؤال عن الحج والعمرة والأضحية
  • كتاب فتاوى معاصرة
  • تيسير الفقه للمسلم المعاصر
  • فقه الجهاد
  • من فقه الدولة في الإسلام
  • فقه الزكاة
  • فقه الطهارة
  • فقه الصيام
  • فقه الغناء والموسيقى
  • فقه اللهو والترويح
  • دراسة في فقه المقاصد
  • في فقه الأقليات الإسلامية
  • الفقه الإسلامي بين الأصالة والتجديد
  • الاجتهاد في الشريعة الإسلامية
  • المدخل لدراسة الشريعة الإسلامية
  • الفتوى بين الانضباط والتسيب
  • عوامل السعة والمرونة في الشريعة الإسلامية
  • الاجتهاد المعاصر بين الانضباط والانفراط
  • دية المرأة في الشريعة الإسلامية
  • موجبات تغير الفتوى
  • الفتاوى الشاذة
  • زراعة الأعضاء في ضوء الشريعة الإسلامية
  • مشكلة الفقر وكيف عالجها الإسلام
  • بيع المرابحة للآمر بالشراء
  • فوائد البنوك هي الربا الحرام
  • دور القيم والأخلاق في الاقتصاد الإسلامي
  • دور الزكاة في علاج المشكلات الاقتصادية وشروط نجاحها
  • لكي تنجح مؤسسة الزكاة في التطبيق المعاصر
  • القواعد الحاكمة لفقه المعاملات
  • مقاصد الشريعة المتعلقة بالمال
  • الصبر في القرآن
  • العقل والعلم في القرآن
  • كيف نتعامل مع القرآن العظيم
  • تفسير سورة الرعد
  • كيف نتعامل مع السنة النبوية
  • المدخل لدراسة السنة النبوية
  • المنتقى من الترغيب والترهيب
  • السنة مصدرا للمعرفة والحضارة
  • في رحاب السنة
  • نحو موسوعة للحديث الصحيح مشروع منهج مقترح
  • وجود الله
  • حقيقة التوحيد
  • الإيمان بالقدر
  • الشفاعة في الآخرة بين النقل والعقل
  • الحياة الربانية والعلم
  • النية والإخلاص
  • التوكل
  • التوبة إلى الله
  • الورع والزهد
  • المراقبة والمحاسبة
  • ان کی بعض کتب کے اردو تراجم بھی پاکستان میں شائع ہو چکے ہیں،
  • اسلام اور سیکولرزم
  • اسلام کا معاشی تحفظ
  • رسول اکرم اور تعلیم
  • سلامتی کی راہ

سیاسی نظریہ

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایک سول حکومت ہے جو اسلامی نظام کو اپنی حکمرانی کی بنیاد بناتی ہے، اس کی بنیاد بیعت اور انتخاب اور شوریٰ پر ہوتی ہے اور ان دو خصوصیات "طاقت اور امانت " "قابلیت اور امانتداری" یا بالفاظ دیگر ماہر اور متقی افراد میں سے عہدیداروں کو مقرر کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، حقیقت یہ ہے کہ اسلام "رجال دین" کی اصطلاح سے واقف نہیں ہے۔ کیونکہ ہر مسلمان اپنےلئے دیندار ہے، اور جو چیز حقیقت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں فزکس، فلسفہ، قانون وغیرہ کے اسکالرز کی طرح اسلامی علوم میں مہارت رکھنے والے علما پائے جاتےہیں۔

بنیادی طور پر اسلامی علوم سے واقفیت رکھنے والے علما اور حکومت کے درمیان رابطہ ایسا ہونا چاہیے وہ حکومت کو نصیحت اور ہدایت کرنے سے دریغ نہ کریں جسے اسلام نے دینی پیشواؤں اور عوام الناس پر واجب کیا ہے۔ اور دوسری طرف حکمرانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ دعوت و نصیحت کی اہم ذمہ داری کو انجام دینے میں ،ان کی مدد کریں۔

بنیادی طور پر اسلامی سماج کے حکمران اور رہنما کو شرعی قانون سے واقف ہونا چاہیے اور اس کے احکام کو سمجھنے کے لیے اجتہاد کا حامل ہونا چاہیے۔ خلفائے راشدین اور ان کے پیروکار بھی فقہ و اجتہاد میں امام و پیشوا تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے فقہ مجتہدین، رہبروں اور قاضیوں کے لئے مجتہد ہونے کی شرط پر متفق ہیں۔ اور انتہائی غیر معمولی اور ضروری حالات میں ہی یہ شرط ساقط ہوتی ہے۔

اسلامی حکومت کوئی نسلی یا علاقائی حکومت نہیں ہے اور اپنے آپ کو جغرافیائی سرحدوں کے دائرے میں محدودنہیں رکھتی اور اپنے دروازے ان تمام لوگوں کے لیے کھلے رکھتی ہے جو آزادی پر مبنی اس کے اصولوں اور بنیادوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اسلام کا مشن چونکہ عمومی اور آفاقی ہے اس لیے اس کی حکمرانی جامع اور ہمہ گیر ہوگی۔ اسلامی حکومت قانون کی حکمرانی ہے یا شریعت کی حکمرانی اس کا آئین شریعت کے ان اصولوں اور بنیادوں سے ماخوذ ہے جو قرآن اور سنت رسول اللہ سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اور اس میں عقیدہ، عبادات، اخلاقیات،معاملات اور خاندانی اور سماجی تعلقات، عدالتی اور انتظامی امور اور بین الاقوامی ضوابط کے تمام شعبے شامل ہیں۔

اسلامی حکومت کو اس بات میان کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے معاملات کے انتظام کے لیے کس شکل اور طریقہ کا انتخاب کرتی ہے، اور اس کا نام اور عنوان بہت اہم نہیں ہے۔ البتہ امامت اور خلافت دو تاریخی عنوانات ہیں اور اہم تصورات پر مشتمل ہیں۔

امام یا خلیفہ معصوم نہیں ہوتا اور اس میں کوئی خاص اور مقدس خصوصیت نہیں ہوتی جو اسے احتساب اور آزمائش سے بالاتر بنا دے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ایک سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوائے ان صورتوں کے جہاں وحی نازل ہوتی تھی، سوال کیا جاتا تھا اور آپ سے بحث کی جاتی تھی، اور دوسرے آپ کو مشورے دیا کرتے تھے، اور کئی بار آپ نے اپنی رائے ترک کر دی تھی اور صحابہ کی رائے کو تسلیم کیا تھا۔

اسلامی حکومت کسی مملکت یا سلطنت کی حکومت نہیں ہے جو وراثت کے طریقہ کار کی بنیاد پر ایک خاندان کے حوالے کر دی جائے۔ یہ حکومت ، ذمہ داری اور صاحبان حل و عقد کی شورا کے سامنے جوابدہی کے معاملے میں جمہوریت کے مترادف ہے۔ شورائے حل و عقد حکومت کو برطرف کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام معاشرے کے ہر فرد کو، مرد اور عورت دونوں کو اہل ایمان کی باہمی سرپرستی اور سماجی ذمہ داری کے احساس کی بنیاد پر حکمرانوں اور رہنماؤں پر تنقید کا حق دیتا ہے۔

وفات

30 صفر 1444 کو وفات پا گئے۔

حوالہ جات

  1. يجب أن تعرفها عن يوسف القرضاوي. العربية (بزبان عربی). 2018-09-21. 3 مارس 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 03 مارچ 2021
  2. صورة قريتي۔. في عهد صباي -قرية صفط تراب[مردہ ربط]، الحلقة 2 الجزء الأول، مذكرات القرضاوي، إسلام أون لاين "نسخة مؤرشفة". 11 يناير 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 26 أكتوبر 2008.
  3. المدخل إلى فقہ الأقليات (موسوعة فقہ الأقليات المسلمة في العالم -1-)، د۔محمد عبد الغني علوان النهاري۔ آرکائیو شدہ 2019-12-17 بذریعہ وے بیک مشین
  4. القرضاوي عضواً بمجمع البحوث الإسلامية بالأزهر، موقع الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين، 30 يونيو 2008م آرکائیو شدہ 2009-01-02 بذریعہ وے بیک مشین